(فریاد شہر ِ خالد بن ولید رضی
اللہ عنہ)
انتخاب: مفتی محمد بلال نیلمی
حالاً مقیم:ملائشیا
شامی فوج نے بدایا میں ایک ہی گھرانے کے13افراد شہید کر دئیے۔ ان میں سے
تین مردوں کو گھر سے باہر نکال کر گولی مار دی گئی‘ باقی دس عورتوں اور
بچوں کو گھر میں گھس کر پٹرول چھڑک کر زندہ جلا دیا گیا۔
شام میں الوائٹ آرمی کے مظالم حد سے تو کب کے گزر چکے۔ اس وقت صورتحال یہ
ہے کہ فوج کے ہاتھوں ہلاک ہونیوالے شہریوں کی تعداد دو لاکھ سے زیادہ ہو
چکی ہے لیکن الوائٹ آرمی کا سرپرست امریکہ اور اس کے ادارے یہ تعداد ایک
لاکھ سے بھی کم بتا رہے ہیں۔ ایک لاکھ تو صرف حمص شہر میں مارے گئے۔ اس شہر
کی کوئی عمارت سلامت نہیں رہی۔ شام کا یہ تیسرا بڑا شہر اب عملی طور پر
موئن جودڑو (مردوں کا ویران ٹیلہ) بن چکا ہے۔
شامی فوج اصحاب رسولؐ کے مزارات ایک ایک کر کے تباہ کر چکی ہے۔ اس کی
بمباری سے کئی ہزار مساجد شہید ہو چکی ہیں۔ شام کا 70 فیصد رقبہ حریت
پسندوں کے قبضے میں ہے لیکن ان کے پاس فضائیہ کو روکنے کیلئے کوئی ذریعہ
نہیں‘ اس لئے ’’آزاد‘‘ علاقے بھی بمباری کی زد میں رہتے ہیں۔ 25 لاکھ سے
زیادہ آبادی ملک سے باہر ہجرت کر چکی ہے‘ 50سے60 لاکھ اندرون ملک مہاجر
Displaced ہیں۔ حلب کے جو ضلعے سرکاری فوج کے قبضے میں ہیں وہاں کی ساری
آبادی قتل کر دی گئی ہے جس کی گنتی کا علم کسی کو نہیں۔ حمص اور حلب کا
محاصرہ ایرانی‘ عراقی اور شامی افواج نے کر رکھا ہے۔
شام چوتھا میدان ہے جہاں ایران اور امریکہ کا غیر علانیہ اتحاد وجود میں
آیا ہے۔ عراق سے جنگ کے موقع پر یہ اتحاد وجود میں آیا تھا جب اسرائیل نے
500 ملین ڈالر کا اسلحہ ایران کو ارجنٹائن کے راستے فراہم کیا۔ بدلے میں
ایران نے اسرائیل کو تیل دیا۔ امریکہ نے خود بھی کونٹرا باغیوں کے ذریعے
ایران کو اسلحہ دیا۔ اسرائیلی انسٹرکٹروں نے ایرانی فضائیہ کو تربیت بھی
دی۔اس کے بعد دوسرا اتحاد افغانستان میں ہوا اور تیسرا عراق میں۔ اب عراق
کے راستے جہاں بیرونی سکیورٹی کی ذمہ داری اب بھی امریکہ کے سپرد ہے‘
روزانہ درجنوں ایرانی طیارے خطرناک اسلحہ (جن میں بنیام کلسٹر اور کیمیائی
بم بھی شامل ہیں) شام پہنچاتے ہیں اور اس عمل کوامریکہ کی مکمل رضامندی
حاصل ہے۔ ایک سال پہلے جب امریکہ حریت پسندوں کو اسلحہ دینے کی باتیں کر
رہا تھا‘ ایک غیر ملکی اخبار نے لکھا تھا کہ امریکہ یہ بیان بازی صرف اپنی
رائے عامہ کو مطمئن کرنے کیلئے کر رہا ہے۔ حقیقت میں وہ حریت پسندوں کو
کبھی اسلحہ نہیں دے گا بلکہ دوسروں کو بھی روکے گا اور یہی ہوا۔ اس نے نہ
صرف یورپی یونین کو اسلحہ دینے سے روک دیا ہے بلکہ ترکی اور سعودی عرب پر
بھی اتنا دباؤ ڈالا ہے کہ انہوں نے بھی چھوٹے اسلحہ کی فراہمی روک دی ہے۔
ایک خلیجی ریاست شامی حریت پسندوں کو بھاری رقم دے رہی تھی‘ امریکہ نے اس
کا امیر ہی بدل دیا‘ اب اس امیر کا بیٹا حکمران ہے۔
شامی حریت پسندوں کے پاس اب سرکاری فوج سے چھینے گئے اسلحہ کے سوا کچھ نہیں
لیکن وہ پھر بھی شامی فوج کو روکے ہوئے ہیں۔ شمال کے علاقے میں شامی فوج کے
زیر قبضہ آخری شہر بھی اس ہفتے انہوں نے آزاد کرا لیا ہے۔ شام‘ عراق‘ ایران
اور حزب اللہ کی اجتماعی فوجی طاقت بھی حریت پسند فوج کا مقابلہ نہیں کر
سکتی۔ حریت پسند وں اور عوام کو جتنا بھی نقصان پہنچ رہا ہے‘ وہ فضائیہ سے
پہنچ رہا ہے۔
امریکہ اور اسرائیل کی کوشش ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اسد حکومت کا بچاؤ کیا
جائے۔ امریکہ کے تازہ بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے خیال میں ’’خانہ
جنگی‘‘ (حالانکہ یہ خانہ جنگی نہیں ہے‘ دس فیصد الوائٹ اقلیت 90 فیصد
اکثریت کا قتل عام کر رہی ہے) ابھی دو تین سال تک چلے گی۔ اس کے بعد امریکہ
مداخلت کرے گا یا ایسے حالات پیدا کرے گا کہ بحیرہ روم کے ساحل سے جنوب
مشرق میں دمشق تک اور اسرائیلی سرحد سے لگنے والا شامی علاقہ الوائٹ کے
حوالے کر دیا جائے گا۔ مشرق اور شمال کے علاقوں میں سیکولر سنی گروپوں کی
حکومت بنا دی جائے گی اور شمال کی ترکی سے ملحقہ سرحد پر کرد ریاست قائم کی
جائے گی۔ عراق کو بھی مزید دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائیگا۔ خلیج فارس کے
ساحل پر جنوبی عراق کو شیعہ عراق‘ بغداد سے کچھ شمال اور مغرب تک سنی عراق
بنا دیا جائے گا جبکہ شمالی علاقے کے کرد حصے کو جو پہلے ہی خود مختار
ریاست بن چکا ہے‘ باقاعدہ آزاد حیثیت دے دی جائے گی۔ ایسی ہی تقسیم لبنان
کی بھی ہوگی جبکہ افغانستان کی تقسیم کا منصوبہ معلق لگ رہا ہے کیونکہ
امریکی اسٹیبلشمنٹ اس بارے میں منقسم ہے۔
امریکہ سے پہلے تقریباً سارا مشرق وسطیٰ انگریزوں اور کچھ فرانسیسیوں کے
قبضے میں تھا۔ یہ علاقہ انہوں نے عثمانی خلافت سے ہتھیایا تھا لیکن جاتے
جاتے وہ ایسی سرحد بندی کر گئے کہ کردستان کا مسئلہ ایران‘ عراق اور ترکی
(اور کسی حد تک شام کیلئے بھی) مصیبت بن کر ان پر مسلط ہو گیا۔ وہ چاہتے تو
سارا کرد علاقہ کسی ایک ملک میں شامل کر دیتے (اس طرح اس ملک میں کردوں کی
قابل لحاظ تعداد ہوتی اور وہ دوسرے لوگوں کی طرح امور حکومت میں برابر کے
شریک ہوتے) یا کردستان کا ایک الگ ملک بنا دیتے۔ اس طرح کرد مسئلہ پیدا ہی
نہ ہوتا۔
مشرق وسطیٰ کی اہمیت یہ ہے کہ آرمگیڈن اسی علاقے میں لڑی جانی ہے اور یورپ
و امریکہ پر مسلط اصل ادارہ ایوینجیلیکل فرقہ ہے جس کا عقیدہ ہے کہ حضرت
مسیحؑ کی آمد ثانی کیلئے ہیکل سلیمانی کا بننا ضروری ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے
کہ عرب ممالک کو داخلی سرحدی نسلی اور فرقہ وارانہ تقسیم میں اس طرح دھنسا
دیا جائے کہ وہ اسرائیل کیلئے کوئی پریشانی نہ پیدا کر سکیں۔ مصر میں مرسی
کی حکومت کی برطرف کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے ورنہ جو امریکہ ترکی کے سیاسی
اسلام کو برداشت کر رہا ہے وہ مصر کے سیاسی اسلام کو بھی قبول کر سکتا تھا
لیکن ترکی کا سیاسی اسلام اسرائیل کیلئے چونکہ براہ راست خطرناک نہیں ہے اس
لئے وہ قبول ہے‘ اسرائیل کی سرحد پر واقع سب سے اہم عرب ملک مصر میں سیاسی
یا غیر سیاسی کسی قسم کے ’’اسلام‘‘ کا وجود برداشت کرنا یقینی خطرہ مول
لینے کے مترادف ہے چنانچہ ’’بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہوتی ہے‘‘
کے اصول کا اطلاق عرب ملکوں کے لیے نہیں ہے۔ |