بسم اﷲ الرحمن الرحیم
میلی نیشیا(Melanesia) کا کثیر الجزائری ملک
(10اکتوبر،قومی دن کے موقع پر خصوصی تحریر)
جمہوریہ فجی،جنوبی بحرالکاہل کا میلی نیشین ملک ہے,میلی نیشیابحرالکاہل
کاایک جغرافیائی خطہ ہے۔فجی کے مغرب میں وناٹو(Vanuatu)جنوب مغرب میں
فرانسس نیوکالیڈونیا،جنوب مشرق میں نیوزی لینڈ،مشرق میں ٹانگو اور
سوماؤ،شمال مشرق میں فرانسس والیزاور شمال میں ٹوالو واقع ہیں۔’’فجی‘‘کاملک
بڑے بڑے 332 سے زائد جزائر پر مشتمل ہے،جن میں سے 110 تو مستقل طور پر آباد
ہیں جبکہ کم و بیش پانچ سوچھوٹے جزائر بھی اس مملکت میں موجود ہیں۔خشکی کا
کل رقبہ اٹھارہ ہزار تین سو کلومیٹر مربع بنتاہے جس میں ساڑھے آٹھ لاکھ
نفوس بستے ہیں اور آبادی کا بیشتر حصہ ساحلوں پر آباد ہے۔ریاست کا سب سے
بعید ترین جزیرہ ’’انوئی لاؤ‘‘ہے جبکہ دوبڑے بڑے جزائر’’وٹی لیوو‘‘ اور ’’وانالیوو‘‘
میں کل آبادی کاستاسی فیصد آباد ہے۔انہیں بڑے بڑے جزائر میں مملکت کا
دارالحکومت ’’سووا‘‘بھی ہے جو ریاست کا سب سے بڑا شہر اور سیاسی و سماجی
جملہ سرگرمیوں کا مرکزبھی ہے۔ازمشرق تامغرب یہ ملک کوئی ایک ہزار کلومیٹرکی
طویل مسافت رکھتاہے جس میں کثیراللسانی اقوام آباد ہیں۔
’’فجی‘‘کی سرزمین پر انسانی تہذیب کے آثا ر ساڑھے تین ہزار سے ایک ہزارسال
قبل مسیح کے دوران میں ملتے ہیں۔اولین اقوام جو ان جزائر میں آباد ہوئیں
وہ’’لپٹا‘‘قبیلے کے لوگ تھے اور کہاجاتا ہے کہ یہ لوگ پولی نیشیا کے باشندے
تھے ،لیکن یہ لوگ کس وجہ سے ہجرت کر گئے اور ان کی جگہ پھرمیلی نیشیا کے
قبائل آباد ہوئے ،اس راز سے آج تک پردہ نہیں اٹھ سکا۔بہرحال قرین قیاس یہ
ہے قدیم باشندوں نے نئی تہذیب کو قبول نہیں کیاہوگا جس کی وجہ سے انہیں
یہاں سے ہجرت کرنا پڑی اوروہ ٹونگا،سومواورہوائی کی طرف سدھار گئے۔اس کے
باوجود قدیم و جدیدان دونوں تہذیبوں میں کافی حد تک یکسانیت پائی جاتی
ہے،ممکن ہے بعد میں آنے والی نسلوں نے باہمی اثرات قبول کرنا شروع کر دیے
ہوں۔ان قرائین کی بنیاد پر اور دیگرتعمیراتی شہادتوں کی وجہ سے یہاں پر
انسانوں کی آمد کے بارے لگایا گیااندازہ آج سے گزشتہ پانچ ہزار سالوں پر
محیط ہے جومغرب سے آن کریہاں آباد ہوئے تھے۔بہرحال چونکہ پہلی نبی علیہ
السلام سے آخری نبیﷺ تک سب نے ہجرت کی اس لیے دنیابھر کی دیگر اقوام کی
مانند’’فجی‘‘کی تاریخ بھی ہجرتوں سے بھری پڑی ہے۔اس سرزمین پر وارد ہونے
والے قبائل آتے بھی رہے اور جاتے بھی رہے اورتاریخ کے صفحات سمیت اس خطہ
ارضی پربھی اپنے اپنے اثرات چھوڑتے رہے۔یہ ہجرتیں کہیں تو مثبت اثرات
چھوڑتی رہیں اور کہیں ان ہجرتوں کو قوموں نے ناپسند بھی کیا،پس فجی کے لوگ
آج بھی صدیوں پرمحیط ہجرتوں کے اس دور کو ’’بھوتوں کادور‘‘کہتے ہیں جس
کااظہار ان کی مقامی کہانیوں میں ہوتاہے۔ایک زمانے تک ’’فجی‘‘باقی دنیاؤں
میں نامعلوم رہا،اس کی وجہ وہاں پر صدیوں قدیم انسان خور رویہ تھا،اس خطے
کے لوگ اپنے ہی جیسے انسانوں کو شکارکر کھاجایا کرتے تھے۔باسیان فجی کے اس
خونخواررویے کے باعث سمندروں کے راستے پوری دنیاکاسفرکرنے والے سیاح بھی
فجی کے پانیوں سے دور ہی رہنے میں عافیت جانتے تھے۔وہاں کے لوگوں کااپنے
قدیم دورکو ’’بھوتوں کادور‘‘کہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔
معلوم دنیامیں فجی کاپہلا تعارف 1643ء میں ہواجب ایک ولندیزی ’’ایبل
طسمان‘‘نے اس سرزمین کا سراغ لگایا اور جنوبی ارضیاتی خطے کی خاطر خواہ
مفید معلومات ساتھ لایا۔انیسویں صدی کے آغازمیں یورپی قذاقوں نے یہاں حملے
شروع کر دیے تھے۔یورپ سے اولین نقب زن جو یہاں پہنچے انہوں نے مذہب اور
تجارت کا لبادہ اوڑھ رکھاتھایاپھر وہیل کے شکار اور ساحلوں کی خوشبودار
لکڑیوں کی حرص اورلالچ انہیں یہاں کھینچ لائی تھی۔یہاں تک کہ 1874ء کوتاج
برطانیہ نے یہاں کے قبائل کی گردن میں اپنی غلامی کاطوق ڈال دیااور اس
علاقے کو باقائدہ سے اپنی کالونی بنالیا۔برطانوی سامراج نے ہندوستان سے
ہزاروں مزدوروں کو بھرتی کیااور ’’فجی‘’کی سرزمین پر انہیں گنے کی کاشت پر
جونت دیا۔1879ء میں ہندوستان سے آنے والاپہلاجہاز یہاں لنگرانداز ہوااور
ساٹھ ہزار سے زائدافراد کویہاں لے آیاگیا۔ہندوستانیوں کی ایک کثیرتعداد اس
زمانے میں یہاں آباد ہوگئی۔دوبڑی بڑی جنگوں کے بعد جب برطانوی فوجوں میں دم
خم نہ رہاتو اپنی بے چارگی کو سمیٹتے ہوئے استعمار نے ’’آزادی‘‘کے نام
پردنیاؤں کے دوسرے خطوں کی طرح1970ء میں ’’فجی‘‘سے بھی جان چھڑالی اور لوٹ
کر اپنے گھر کوآگئے۔یوں ایک طویل دورانیے کے بعد فجی کے لوگوں نے آزادی کا
سانس لیا۔برطانوی طاغوت نے جہاں جہاں بھی حکومت کی ہے وہاں کی افواج کوایسا
درس غلامی دیا ہے کہ کم و بیش وہ تمام اقوام گویا آج بھی ان افواج کے
ہاتھوں غلامی وجبرواستبداد کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ہر جگہ فوج کی شکل
میں غلامی کی باقیات نے آزاد اقوام کی سیاست و معیشیت پر آج بھی اپنے ناپاک
پنجے گاڑھ رکھے ہیں۔کچھ اسی طرح کا معاملہ فجی کے ساتھ بھی ہوا جہاں کی
افواج نے وہاں سیاسی استحکام نہ آنے دیا اور بار بار کی مداخلت کے باعث
پہلے اس ملک کانام’’حکومت فجی‘‘تھا پھر’’جمہوریہ فجی ‘‘ہوااور 1997میں
’’جمہوریہ جزائرفجی‘‘رکھ دیاگیا۔مسئلہ کشمیرکی طرح استعمار نے ہر جگہ لڑائی
جھگڑے کی ایک وجہ ضرور چھوڑی ہے اوروہاں کی فوج کو یہ تربیت دی ہے کہ اس
مسئلے کو کبھی حل نہ ہونے دے،ہندوستانی فجی وہاں کا سب سے بڑا مسئلہ ہیں۔
فوج کی بار بار کی سیاسی مداخلت کی وجہ ہندوستانی فجیوں کا جملہ معاملات
میں دخیل ہونا بتایاگیا۔فوجی مداخلت سے ہندوستانی فجیوں کااثرورسوخ کم تو
ہوالیکن ملکی معیشیت پر بھی اس کے بڑے برے اثرات مرتب ہوئے۔اس مسئلے کو
زندہ رکھنے کے لیے برطانیہ نے فجی کو دولت مشترکہ کارکن بنالیاتاکہ معیشیت
سنبھل جائے اور مسئلہ زندہ رہے۔
فجی میں چون فیصد مقامی فجی ہیں اور38%ہندوستانی فجی ہیں،آبادی کی باقی شرح
یورپی باشندوں،چینی اور بحرالکاہل کے پڑوسی خطوں کے لوگوں کی ہے۔فوجی
حکمرانوں کے رویے کے باعث گزشتہ دو دہائیوں سے ہندوستانی فجیوں کی ایک کثیر
تعدا ہجرت پر بھی مجبورہوئی ہے،جبکہ یہ ان ہندوستانیوں کی نسل سے تھے جنہیں
برطانوی استعمار نے یہاں آباد کیاتھااور اب انہیں حالات کے سپرد کر کے
چلتابنا۔مقامی فجیوں نے آج تک انہیں قبول نہیں کیالیکن آبادی کاایک بہت بڑا
حصہ ہونے کے باعث ہندوستانی فجی وہاں کی ایک حقیقت ہیں چنانچہ ان دونوں
گروہوں کے درمیان سیاسی کشمکش وہاں کی معاشرت کاحصہ بن گئی ہے،مذہب
کااختلاف ایک اور بڑی وجہ نزاع ہے کہ مقامی فجیوں کی اکثریت مسیحی ہے اور
ہندوستانی فجیوں میں مسلمان اور ہندو اور ایک قلیل تعداد سکھوں کی بھی
ہے۔اور تاریخ شاہد ہے کہ دوسرے مذاہب کی سب سے زیادہ عدم برداشت مسیحیت میں
ہی ہے۔اسرائیل کاسفارت خانہ ہر سال یہودیوں کی ایک تقریب بھی منعقد کرتاہے
جس میں بمشکل ایک سو افراد ہی شامل ہو پاتے ہیں۔ان سب حالات کے باعث یہاں
کی ثقافت ایک ملی ثقافت ہے۔معدنیات،جنگل اورسمندروں کی بہتات کے باعث مچھلی
کی صنعت یہاں کے قومی وملکی ذرائع آمدن ہیں۔
انیسویں صدی کے آخرمیں اسلام نے یہاں جڑیں پکڑنا شروع کیں۔ہندوستان سے وارد
ہونے والے مسلمانوں کوابتدامیں تو مشکلات کا سامنا کرنا پڑاکیونکہ برطانوی
سامراج انہیں مزدوری سے پانچ وقت کی رعایت اوررمضان کی چھٹی کے لیے تیار نہ
تھالیکن وقت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں اپنی مساجد اور دیگرادارے قاائم کر کے
اپنی ملی زندگی کاآغاز کردیا۔جو مسلمان علم رکھتے تھے انہوں نے مساجد کی
امامت سنبھال لی اور باقی مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کرنے لگے۔1898ء میں
ملامرزاخان خاص طور پر تبلیغ و ارشاد کے لیے ہندوستان سے یہاں آئے
تھے،1900ء میں یہاں پہلی مسجد تعمیر ہوئی،1902مین ایک دینی مدرسہ کی داغ
بیل بھی ڈال دی گئی،1909میں فارسی حروف تہجی کے ساتھ مسلمان بچوں کو اردو
کی تعلیم کاآغاز ہوا،1915میں انجمن ہدایت اسلام نامی مسلمانوں کی نمائندہ
تنظیم بنی جس نے مسلمانوں کے جملہ معاملات کے لیے قاضی کے منصب کی منظوری
حاصل کی۔آج فجی کی مسلم لیگ مسلمان بچوں کے سترہ ابتدائی ادارے اور پانچ
ثانوی ادارے چلا رہی ہے اوربیرون ملک اعلی تعلیم کے لیے مسلمان نوجوانوں کو
وظائف بھی فراہم کرتی ہے۔اس کے علاوہ مسلمانوں کی یہ تنظیم دیگر سماجی
مسائل جن میں رہائش،علاج،خوراک اور روزگارشامل ہیں میں مسلمانوں کی بھرپور
اعانت کرتی ہے۔1929سے فجی کی پارلیمان میں مسلمانوں کی الگ سے نمائندگی
ہوتی ہے۔تب سے وہاں کی پارلیمان میں کم از کم ایک مسلمان رکن توہر دور میں
موجود رہاہے۔سیاست کے میدان میں مسلمانوں کی قیادت کی کمی کو پوراکرنے کے
لیے وہاں کے مسلمانوں نے ’’مسلم سیای محاذ‘‘کے نام سے بھی ایک سیاسی جماعت
بنائی ہے۔بعض مواقع پر مسلمانوں کی سیاسی جماعتوں نے دیگر جماعتوں کے ساتھ
اتحادبناکر بھی انتخابات میں حصہ لیا۔مسلمانوں کی تنظیمیں قومی سطح سے لے
کر چھوٹی مقامی سطح تک بھی اپنی نمائندگی رکھتی ہیں۔جب کبھی قدرتی آفات
نازل ہوجائیں یہ مسلمان تنظیمیں بلاامتیازملت و مذہب سب انسانوں کی خدمت
بجالاتی ہیں۔ |