پاکستان میں بار بار کے مارشلاؤں
نے ایک تاثر پیدا کر دیا ہے کہ یہاں حکومت ہر فیصلہ فوج سے پوچھ کر کرتی ہے
اور خاص کر ہماری خارجہ پالیسی پر فوج کا اثر بہت زیادہ ہے بلکہ آسان الفاظ
میں یوں کہا جائے کہ فوج اپنی مرضی کی مالک ہے اور حکومت کی بھی ۔یہ تذکرہ
کرتے ہوئے ہمارے اپنے تجزیہ کار بھی جو مثال دیتے ہیںوہ ’’عظیم جمہوریت
‘‘بھارت کی ہے اور یہ مثال دیتے ہوئے یہ ذکر بھی کیا جاتا ہے کہ وہاں فوج
کاسربراہ کس کس طرح اور کب کب اپنے وزیر اعظم کے آگے سر تسلیم خم کرتاہے
اور اپنی رائے سے مکمل طور پر دستبردار ہو جاتا ہے چاہے معاملہ خالصتاََ
فوجی ہی کیوں نہ ہواور یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہاں فوج صرف
اور صرف پیشہ ورانہ فرائض سے غرض رکھتی ہے لیکن ان تمام دعووئں کا پول ا س
وقت کھل گیا اور تجزیہ کاروں کے تمام خیالات اس وقت باطل ثابت ہوئے جب یہ
خبر خود بھارتی میڈیا پر آئی کہ بھارت کے سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈوجے
کمار سنگھ کے حکم سے کچھ ایسی یونٹس بنائی گئیںجن کی کوئی فوجی ڈیوٹی نہیں
تھی نہ ہی حکومت کو اِن کے قیام کی خبر تھی یا اگر تھی بھی تواسے صیغہ
رازمیں رکھا گیا تا کہ یونٹیں اپنا کام تسلی سے کر سکیں اور حکومتی مقاصد
حاصل ہو تے رہیں۔اِن یونٹس کو جو ذمہ داری سونپی گئی وہ یہ تھی کہ کشمیرمیں
وزرائ اور سیاستدانوں کو حکومتی حمایت پر مجبور کریں ۔اِس کام کے لیے وزرائ
کو خطیر رقوم رشوت میں دی گئیںجنرل وی کے سنگھ نے خود اعتراف کیاکہ وزیر
زراعت غلام حسن میر کو رشوت دی گئی تاکہ وہ مقبوضہ کشمیر کی حکومت میں
تبدیلی لانے کے لیے کام کریں اور ظاہر ہے کہ تبدیلی وادی کے عوام کے خلاف
اور بھارتی حکومت کے حق میں تھی۔سابق آرمی چیف نے یہ بھی اعتراف کیا کہ فوج
سیاستدانوں کو رشوت دیتی رہی تا کہ وہ کشمیر میں مر کزی حکومت کی
وفادارحکومت قائم رکھ سکے۔یہ ٹیکنیکل سروسز ڈویژن کسی قسم کی ٹیکنیکل خدمات
سر انجام نہیں دے رہا تھا بلکہ سیاسی مقاصد کے لیے بنایا گیااور اس نے رشوت
اور بدعنوانی سے اپنے اِن فرائض کو سر انجام دیایہی ٹی ڈی ایس پاکستان میں
بھی غیر قانونی کاروائیاںسر انجام دے رہا تھا اس بات کااعتراف بھی اس فورس
کے ایک کارکن نے کیاکہ یہ ڈویژن دہشت گردی اور بدامنی اور سبوتاژکی
کاروائیوںمیںملوث تھا۔
خود سابق آرمی چیف کایہ اعتراف کہ ایسی فورس بنائی گئی جو فوج کا حصہ تھی
لیکن اُسے غیرفوجی بلکہ دہشت گردکاروائیوں کے لیے استعمال کیا گیا اوراُسے
حکومت بنانے اور گرانے کے لیے بنایا گیااور وہ رشوت کے ذریعے یہ فرض سر
انجام دیتا رہا۔یہ اعترافات بھارت کی جمہوریت کی عظمت کی قلعی کھول دینے کے
لیے کافی ہے اور ان ’’عظیم ‘‘تجزیہ نگاروں کے منہ بند کرنے کو بھی کہ جو
اپنے ملک کی تذ لیل کرتے وقت دشمن کا حوالہ دیتے نہیں تھکتے۔بھارت عرصہ
دراز سے بلکہ اپنے قیام کے وقت ہی سے پاکستان مخا لف کاروائیاںجاری رکھے
ہوئے ہے لیکن ساتھ ہی وہ پاکستان پر دراندازی اور دہشت گردی کے الزامات
لگاتا ہے بلکہ اپنے ہاں ہونے والے کئی واقعات کی تحقیقات وہ پاکستان میں ہی
کرنا چاہتا ہے اور جو تحقیقات اور تفتیش وہ اپنے ملک میں کرے اُس کے ڈانڈے
بھی پاکستان سے جوڑ دیتا ہے اور پھر اس پر پاکستان سے مسلسل باز پرس بھی
کرتا ہے اور تعلقات خراب کرنے کے بہانے کے طور پر استعمال بھی کرتا ہے۔
اکثر اوقات یہ بھی ہوجاتا ہے کہ خوداُس کی کوئی عدالت یاکوئی اہلکار اس بات
کا اقرار بھی کرلیتا ہے کہ واقعے کی تمام تر ذمہ داری خود بھارتی افراد پر
تھی۔کبھی یہ ہوتا ہے کہ اپنے مسلمان شہریوںکا تعلق پاکستان سے جوڑکر اُنہیں
کسی واقعے میں ملوث کردیتا ہے لیکن یہ تعلق بھی کسی طرح ثابت نہیںہوپاتااس
کی چندمثالیںمذکورہ واقعات ہیں۔ایک اٹھارہ سالہ لڑکی عشرت جہاںکا تعلق دہشت
گردی اور پاکستان سے جوڑکر اسے بر سرِ سڑک قتل کر دیا گیااور بعد میں عدالت
نے کسی ایسے تعلق کی تردیدکی۔افضل گرو کی پھانسی کی سزا کا حکم سُناتے ہوئے
عدالت نے اعتراف کیا کہ ایساکوئی ثبوت نہ مل سکا کہ اُس نے بھارتی پارلیمنٹ
پر حملہ کیا تھالیکن عوامی دبائو کے تحت اُسے پھانسی کی سزا دی جا رہی ہے۔
کیا دُنیا کے کسی دوسرے ملک میںاس قسم کے انصاف کی مثال ملتی ہے کہ بے
گناہی کے اعلان کے ساتھ سزائے موت سُنا دی جائے۔پھر سمجھوتہ ایکسپریس کے
بارے میںکرنل پرو ہت سری کانت نے جو حاضر سروس کرنل تھا، نے اعتراف ِ جرم
کیا لیکن 68 افراد کے اِس قاتل کو تا حال کوئی سزا نہیں دی گئی۔پھر سب سے
بڑھ کر ممبئی حملوں کا وہ واقعہ جس پھر بھارت جنگ جو ایٹمی بھی ہو سکتی تھی
پر تیار ہو گیا تھا اور جب اس کے کچھ اہلکاروں نے عدالت میں یہ بیان ریکاڈ
کرایا کہ یہ بھارت نے کرایا تھا اس پھر بھی بھارت سرکار نے خاموشی اختیار
کر لی۔ گزشتہ ہی سالوں کے واقعات بھارت کا اصل چہرہ بے نقاب کر دینے کو
کافی ہیں۔اَب اس کے سابق آرمی چیف کا ایک اور اعتراف جرم سامنے آیاتو
دُنیاکو یہ جان لیناچاہیے کہ دہشت گرد کون ہے پاکستان یا بھارت۔بھارت کے
تمام دعوے تو خود اسی کی طرف سے کسی نہ کسی طرح باطل ٹھہرجاتے ہیں۔ اگرچہ
ہونا تو یہ چاہیے کہ پاکستان بھارت کو اُس کے اِن جرائم پر پاکستان سے
معافی مانگنے کو کہے کہ اُس کے بیانات کی وجہ سے پاکستان کی ساکھ کو
جونقصان پہنچا ہے اُس کی تلافی کی جائے لیکن ہو یہ رہا ہے کہ بھارت مسلسل
دھونس جماتے ہوئے پاکستان کو دہشت گردقرار دینے پر مُصر ہے۔اس وقت کسی
چھوٹی سے چھوٹی خبر کو اُچھال کر اور بریکنگ نیوز بنا کر پیش کر نے والا
اور بلاجواز تبصرے اور تجزیے کرنے والا ہمارامیڈیااگر بھارت کے پروپیگنڈے
کا موئثر جواب دے تو شاید ہم دُنیا میں اپنا مقدمہ بہتر انداز میں لڑسکیں
گے اور ساتھ ہی ہمیںبھارت کو یہ بھی بتانا ہو گا کہ وہ پاکستان میں دہشت
گردی کرنا چھوڑ دے ’’را‘‘ کو کچھ اورذمہ داریاں دی جائیں،ٹی ڈی ایس جیسی
یونٹوں کو اُس کے اصل کا م تک محدودرکھا جائے، در اندازی کے الزامات کی
بجائے خود دراندازی روکے تا کہ برصغیر پاک و ہندمیں امن قائم ہو سکے ورنہ
حالات کی ذمہ دار ی بھارت پر ہی ہو گی کیوں کہ ہر ملک کی طرح پاکستان کو
بھی اپنے دفاع کا مکمل حق حاصل ہے۔
|