دکھوں کا مداوا کیجئے

قدرتی آفات اللہ رب العزت کی طرف سے انسان کے لیے ایک تنبیہ ہی نہیں بلکہ اپنے بندوں کے لیے آزمائش بھی ہے اور انسان کو اس کی بے بسی کا احساس بھی ہے 24ستمبر کو بلوچستان کے پسماندہ ضلع آواران میں آنے والا زلزلہ بھی وہاں کے مکینوں کے لیے ایک نہایت آزمائش کا مرحلہ ثابت ہوا 7.8کی شدت سے آنے والے زلزلے نے بستیوں میں تباہی مچا دی اس زلزے سے آواران کی تینوں تحصیلیں جھاﺅ ، ماشکے اور آواران شدید متاثر ہوئیں زلزلے کی شدت ماشکے اور آواران میں اس قدر تھی کہ کئی دیہات اور بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں ان علاقوں کو عام طور پر عسکریت پسندوں کا گڑ ھ سمجھا جاتا ہے اوریہاں پر سیکورٹی اداروں پر حملے معمول ہیں یہی وجہ ہے کہ علاقے میں امن و امان کی صورتحال بہت ہی خراب ہے امن و امان کی حساسیت ، دشوار گزار راستوں اور نقل و حمل کے لیے سواریوں کی کمی کی وجہ سے یہاں فوری طور پر نقصان کا اندازہ لگانے اور امدادی سرگرمیاں شروع کرنے میں کافی مشکلات کاسامنا کرنا پڑا ۔ متاثرین زلزلہ کی مدد اور ان کے حالات کی آگاہی کے لیے ہم نے بھی متاثرہ علاقے میں جانے کا ارادہ کیا آواران کراچی سے تقریباً سات گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے کراچی سے صبح تین بجے روانہ ہوئے اور بیلہ میں نماز فجر ادا کرنے کے بعد آواران ضلع کی حدود میں داخل ہو ئے پہلی چیک پوسٹ پر ہی سیکورٹی اہلکاروں نے امن و امان کے حوالے سے واضح کر دیا کہ حالات خراب ہونے کی وجہ سے ہم آپ کو تحفظ کی ضمانت نہیں دے سکتے اس لیے آپ اپنے رسک پر سفر کریں دونوں اطراف میں پہاڑوں کے درمیان سے ایک تنگ سی سڑک مزید خوفزدہ کرنے کے لیے کافی تھی تاہم تقریباًسات گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم آواران میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے جہاں ہمارے میزبان فلا ح انسانیت کے چیئرمین حافظ عبد الرﺅف اور بلوچستان کے رہنما مفتی قاسم موجود تھے چنوں ، بسکٹس اور چائے کے ساتھ ہماری تواضح کرتے ہوئے حافظ عبدالرﺅف نے بتا یا کہ جب زلزلہ کی اطلاح ملی تو وہ اس وقت بلوچستان میں ہی موجود تھے اور اس وقت جماعة الدعوة کے امیر پروفیسر حافظ محمد سعید کے حکم پر انہوں نے فوری طور پر آواران کی طرف سفر شروع کر دیا جب وہ آواران کی حدود پر پہنچے تو وہاں موجود سیکورٹی اہلکاروں نے سیکورٹی خطرات کی وجہ سے آگے جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا کافی دیر کے بحث و مباحثہ کے بعد انہوں نے ہم سے حلف نامہ لیا کہ آپ اپنی ذمہ داری پر آواران جا رہے ہیں چنانچہ ہم نے وہاں یہ لکھ کر دیا کہ ہم اللہ کے توکل ، لوگوں کی خدمت اور اپنی ذمہ داری پر جا رہے ہیں یہاں پہنچے تو ہر طرف تباہی ہی تباہی نظر آرہی تھی یہ علاقہ پسماندہ تو پہلے ہی تھا رہی سہی کسر اس زلزلہ نے نکال دی آوارن شہر تک تو سڑک موجود ہے تاہم اس سے آگے سڑک کا صرف تصور ہی کیا جا سکتا ہے اس لیے شہر سے آگے جانے کا تصور ہی خطرناک تھا وہاں موجود مختصر وسائل کے ساتھ لاشوں کو نکالنا اور زخمیوں کو نکالنے کا کام شروع کر دیا گیا یہاں آرمی اور ایدھی ویلفئر کے افراد بھی پہنچ چکے تھے تاہم شہر میں سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے امدادی سرگرمیوں کا مرکز شہر ہی تھا جہاں موجود ایک سرکاری ہسپتال کی یہ صورتحال تھی کہ سٹاف یا ادویات کا ہونا تو دور کی بات وہاں کا تالا پہلی دفعہ کھولا گےا تھا ۔زخمی لوگوں کو علاج کی غرض سے آرمی کی مدد سے شہر سے باہر کراچی کے ہسپتالوں میں منتقل کیا جا رہا تھایہاں سے کراچی ہی قریب ترین شہر تھا جس کا فاصلہ تقریباً 350کلو میٹر تھا اور اپنی گاڑی کے ذریعے سات سے آٹھ گھنٹے میں یہ سفر طے کیا جاتا ہے جبکہ کوئٹہ جانے کے لیے بارہ سے تیرہ گھنٹے درکار ہیں ان کا کہنا تھا کہ جب ہم یہاں پہنچے تو ہر طرف عجیب ہی تباہی کے مناظر دیکھنے کو ملے ملبے تلے دبی لاشوں کو نکالنے اور ان کو دفن کرنے کے لیے قبریں کھودنے کی ہمت ان لوگوں میںنہیں تھی غم سے نڈھال ابھی تک انہیں یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کریں۔ہم نے ٹیمیں بنا کر مختلف اطراف میں روانہ کیں جنہوں نے ملبے تلے دبے زخمیوں کو نکالنے اور ان کو طبی امداد فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا فوری طور پر ایک مدرسے باب رحمن کو ریلیف کیمپ بناکر کھانے پکانے کا آغاز بھی کر دیا گیا پہلے دن دو ہزار لوگوں کے لیے کھانے کا بندو بست کیا گیا اور جب بستیوں میں کھانا پہنچا تو وہاں بھوک سے ستائے بچوں کے چہروں پر کچھ خوشی کے آثار نظر آئے اور بستی کے بزرگ رضاکاروں کے ہاتھوں کو چوم رہے تھے اور انہیں ڈھیروں دعائیں دے رہے تھے اگلے دن ہی کراچی سے کچھ مزید امدادی سامان پہنچ گیا ۔ اسی ریلیف کیمپ میں کوریج کے لیے آنے والے میڈیا ٹیموں کی میزبانی بھی کی اور دوردراز سے آنے والے افراد بھی آرام کی غرض سے اسی کیمپ میں آ جاتے ۔تحصیل ماشکے میں زلزے سے سب سے زیادہ نقصان ہوا ور یہاں پر ہی عسکریت پسندوں کی تعداد ذیادہ ہے مقامی لوگ پاکستان کے خلاف نہیں لیکن ناراض ضرور ہیں عسکریت پسندوں سے بھی وہ تنگ ہیںسڑکوں کا نہ ہونا ، تعلیمی سہولتوں کی عدم دستیابی ، طبی سہولتوں کا نہ ہونا اور دیگر بنیادی سہولیات سے محرومیوں کے احساس نے انہیں پاکستان سے دور کر دیا ہے متاثرین کے لیے سب سے ذیادہ مشکلات طبی سہولتوں کے نہ ہونے کی وجہ سے ہے دشوار اور دور دراز کے علاقوں سے زخمیوں کو لانا اور پھر انہیں کراچی منتقل کرنا ایک نہایت صبر آزما مرحلہ ہے اس کے علاوہ جس مسئلے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ امدادی سامان کا آواران تک پہنچنا ہے بہت سے ٹرانسپورٹر تو اس علاقے کا رخ کرنے کے لیے تیار نہیں اگر کوئی تیار ہوتا بھی ہے تو وہ آواران شہر تک دگنے کرایہ وصول کرتے ہیں اور پھر کچے پکے راستوں اور چڑھائی کی وجہ سے چند گھنٹوں کا سفر دنوں میں تبدیل ہو جاتا ہے اسی اثنا ءمیں ہمارے لیے گاڑیاں تیار کر دیں گئیں تاکہ آواران سے آگے متاثرہ علاقوں تک جایا جا سکے زلزلہ سے بہت بڑا علاقہ متاثر ہوا تھا اور جہاں آبادی دور دور تک پھیلی ہوئی تھی سڑکیں نہ ہونے اور ٹوٹے پھوٹے راستوں کی وجہ سے عام گاڑی میں سفر کرنا ممکن نہ تھا اس لیے فور بائی فور گاڑی منگوائی گئی شہر کا جائزہ لیا تو بازاروں میں موجود دوکانات پر موجود سامان اور ارد گرد پھرتے مقامی افراد کی حالت زار سے انکی زندگیوں کے میعار کا اندازہ ہو رہا تھا شہر میں فلاح انسانیت فاﺅنڈیشن کے علاوہ الخیر ٹرسٹ ،الخدمت کے کیمپ بھی موجود تھے لیکن اکثر تنظیمیں آواران شہر کے ارد گرد ہی امدادی سرگرمیوں پر اکتفا کر رہے تھے حکومتی امداد عسکریت پسندوں کے حملوں کے باعث کیمپوں میں ہی محدود ہو کر رہ گئی تھی زلزلے سے تقریباًتین لاکھ افراد متاثر ہوئے تھے ،2500سے زائد گاﺅں اس زلزلے میں تباہ ہوئے جہاں گرنے والے مکانات کی تعداد تقریباً26000ہزار ہے جاںبحق ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہے ان اعدادوشمار میں ابھی مزید اضافہ بھی ہو سکتا ہے کیونکہ ابھی تک کوئی بھی ادارہ صحیح طور پر نقصان کا اندازہ نہیں لگا سکا بہت سے علاقے ابھی تک کسی کے آے کے منتظر ہیں ۔ آواران سے تقریباً پھر تین گھنٹے کا راستہ طے کر کے ہم جلب بازار پہنچے جہاں پورا گاﺅں ایک ملبے کے ڈھیر کا منظر پیش کر رہا تھا کوئی گھر سلامت نہیں تھا خواتین کے لیے مختلف چادریں ڈال کر پردے کا انتظام کیا گیا یہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود ہمارا پہلا قافلہ تھا جو اس علاقے میں پہنچا تھا اور یہ لوگ اتنے دنوں سے ملبے سے نکال کر سامان کھانے پر مجبور تھے ہمارے ساتھ فلاح انسانیت کے رضاکار بھی تھے جو ایک گاڑی میں سامان خوردو نوش لے کر آئے تھے مقامی آدمی کی مدد سے ان کی فہرست بنائی گئی اور پھراسی فہرست کے مطابق سامان تقسیم کر دیا گیا اس موقع پر جو بات قابل ذکر ہے وہ ان لوگوں کا جذبہ تھا زلزلے اور امدادکی کمی کے باوجود یہ لوگ اپنی غیرت مند نظر آئے بلوچ قوم کا یہ پہلو سب سے نمایا ں تھا کہ سامان لیتے وقت انتہائی نظم و ضبط سے کام لیا جاتا ہلڑ بازی اور چھینا جھپٹی جو عموماً ایسے موقعوں پر نظر آتی ہے کا نام و نشان تک نہیں تھا اس کے ساتھ ساتھ لوگ سامان لیتے وقت ایک دوسرے کو ترجیح دیتے تھے حتیٰ کہ ان کے بچوں کا یہ عالم تھا کہ جسے ایک مرتبہ چیز مل جاتی وہ دوبارہ لینے نہیں آتا تھا دوسری بات یہ کہ یہ لوگ مذہب سے بے پناہ محبت کرتے تھے آپ جس گاﺅں میں جائیں سارے مکانات کچے ہوں گے لیکن مسجد پختہ ہو گی اسی طرح زلزلے کے بعد کسی نے اپنے گھر کی فکر نہیں کی لیکن سب نے مل کر مسجد بنا لی تھی واپسی پر گشکور بازار میں کچھ لوگوں کو تعزیت کے لیے بیٹھے دیکھا تو ہم بھی رک گئے وہاں دعائے مغفرت کی تو ایک مقامی افراد نے بتایا کہ اس گاﺅں میں ایک ہی گھر میں تین افراد جاں بحق ہوئے ہیں پھر انہوں نے ہمیں کہا کہ جس علاقے سے آپ آئے ہیں وہاں سے دو کلومیٹر دور ایک اور گاﺅں ہے وہاں بھی ابھی تک حکومت یا رفاعی تنظیم نہیں پہنچی لہٰذا آپ کو وہاں بھی جانا چاہئے جس پر فلاح انسانیت والوں نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ اگلے دن ضرور جائیں گے یہاں سے واپسی کا سفر شروع ہوا تو میں اس علاقے کی حالت زار پر غور کر رہا تھا اور جگہ جگہ پاکستان کے خلاف نفرت بھرے نعروں کو دیکھ رہا تھا وہاں موجود پاکستان کی رفاعی تنظیموں کی کارکردگی کا منظر بھی میرے ذہن میں تھا اس علاقے کے لوگوں کو یہ یقین دلایا گیا تھا کہ پنجاب ان کا دشمن ہے لیکن آج مشکل کی اس گھڑی میں پنجاب کے لوگ ان کے ساتھ کھڑے تھے اور وہ شہر میں گزرتے ہوئے مقامی افراد ان لوگوں کو محبت کے ساتھ ملتے سلام کررہے تھے جہاں یہ لوگ جاتے باوجود اس کے ان کی اپنی بستیاں تباہ ہو چکیں ہیں یہ لوگ پنجاب سے آئے مہمانوں کو قہوہ پیش کرتے ان کو کھانے کی دعوت دیتے اور ساتھ ہر ممکن تعاون کرتے انسانیت کی خدمت کرتے فلاح انسانیت کے کارکنان کسی حد تک اس مشن میں کامیاب دکھائی دے رہے تھے کہ اصل محبت لاالہ الااللہ کی ہے کلمے کی بنیاد پر قائم ہونے والے رشتے کی بنیاد سب سے ذیادہ مضبوط ہے اور یہ کلمہ پاکستان کے سب حصوں کو ایک لڑی میں پروئے رکھتا ہے حکومت ، میڈیا اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے یہ اہم موقع ہے ان کے درد بانٹنے کا ،ان کے دل جیتنے کا ان کو احساس دلانے کا کہ وہ ہم سے علیحدہ نہیں ہمارے جسم کا ایک حصہ ہیں اور جسم کے جس حصے میں بھی تکلیف ہو سارے جسم کو تکلیف محسوس ہوتی ہے ان کے دکھوں کا مداوا کیجیے انہیں خوشیاں دیجیے پھر کسی دشمن کو یہ موقع نہیں مل سکے کا ان لوگوں کو پاکستان کے خلاف اکسانے کا اور علیحدگی کی باتیں کرنے والے خود شرمندہ ہو جائیں گے ۔
 
Asif Khurshid Rana
About the Author: Asif Khurshid Rana Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.