ہر انسان میں کچھ نیک صفات پائی
جاتی ہیں اور کچھ بُرے اوصاف- اگر نیک صفات بُرے اوصاف پر غالب آ جائیں تو
فی نفسہ وہ شخص نیک کہلائے گا- اور برعکس اس کے اگر بُرے اوصاف کسی انسان
کی نیک صفات پر غالب آ جائیں تو اُسے بُرا آدمی کہا جائے گا- باالفاظ دیگر،
کسی شخص کے اوصاف و عادات و چلن و کریکٹر جس قدر اچھا اور قابلِ تعریف و
پذیرائی و مشعلِ راہ ہو گا، اتنا ہی وہ بلند اخلاق اور نیک ہو گا- اور اگر
کسی شخص پر بری عادات، منافقت، منہ میں رام رام بغل میں چھُری جیسی برائیاں
اور صفات کا غلبہ ہو گا تو اسے بداخلاق کہا جائے گا-
بغور دیکھیں تو صفات و اوصاف و خصوصیات و کریکٹر کا براہ راست تعلق دل و
ضمیر سے ہوتا ہے- اگر انسان کا دل و ضمیر ٹھیک ہے تو اس سے خودکارانہ طور
پر درست، نیک، اور انسان دوست افعال سرزد ہوں گے- اور اگر دل و ضمیر میں
کوئی کھوٹ ہو یا یہ کثیف ہو تو اس کے اعمال بھی کثیف و کھوٹے ہوں گے- اسی
لیے تو ہمارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ انسان کے جسم
میں گوشت کا ٹکڑا ہے اگر اس کی اصلاح ہو جائے تو تمام جسم کی اصلاح ہو جاتی
ہے- اور اگر اس میں فساد آ جائے تو تمام جسم فاسد بن جاتا ہے اور وہ دل ہے-
قناعت کی ضِد طمع، لالچ اور حرص ہے- یہ درست ہے کہ جائز خواہشوں اور
ضروریات کے لیے کوشش کرنا فرضِ انسانیت ہے لیکن ناجائز خواہشات کے حصول کے
لیے دوڑ دھوپ کرنا، سعی و کوشش کرنا دراصل پریشانی، حرص اور طمع ہے- جسکا
نتیجہ بےچینی و عدم اطمینان کی صورت میں نکلتا ہے- جہاں حرص ہوگی وہاں پر
طمانیت و سکون و اطمینان کا ٹھہرنا ممکن نہیں ہوتا- حرص میں مبتلا شخص کسی
کی بہتری سے خوش نہیں ہو سکتا، وہ دوسروں کے فائدے کو اپنا نقصان سمجھتا ہے-
اس لیئے اسے دوسروں سے حسد، نفرت، کینہ اور بُغض پیدا ہو جاتا ہے-
عزیزواقارب، دوست، رشتہ دار، اور ہمسایوں کی تخریب کرنا اسکا شیوہ بن جاتا
ہے- حریص کی حرص اُسے دنگا فساد، شرارت اور بدامنی پر اُکساتی رہتی ہے- اس
کا دل شیطانی وسوسوں سے پُر رہتا ہے- سکون و اطمینان ایسے شخص سے پرے پرے
رہتا ہے اور اسکے قریب نہیں پُھٹک سکتا- یہاں تک کہ حرص و طمع کا شکار شخص
اللہ سے دُور اور اسکی رحمت سے محروم ہو جاتا ہے-
لیکن اللہ تعالٰی کی رحمت سے جس دل میں قناعت ہوتی ہے اس میں پریشانی، یاس،
اور ناامیدی نہیں ہوتی- ایسا شخص سراسر مطمئین ہوتا ہے- قناعت بیک وقت خوشی،
سکون، اطمینان اور تسلی کا سرچشمہ ہوتی ہے- قناعت کی دولت رکھنے والے شخص
کے لیئے راحت، مسرت، خوشی اور انجوائے کرنے کے دروازے کھُلے رہتے ہیں، وہ
خود خوش رہتا ہے اور دوسروں کی خوشی دیکھنا چاہتا ہے- ایسے شخص کا دل خوش،
حوصلہ وسیع، ارادے مضبوط اور ہمت بلند ہوتی ہے- بُغض، حسد، کینہ اور غرور و
تکبر سے اسکا دل صاف ہوتا ہے- وہ کسی مصیبت کا وقت بردباری و استقلال و صبر
و تحمل سے کاٹ دیتا ہے- وہ پروردگار کا شکر گزار بندہ ہوتا ہے، اسے آسائش و
راحت کی نعمت حاصل ہوتی ہے، عجز و انکسار اسکی طبیعت کا جزوِ لانیفک ہوتا
ہے- اللہ تعالٰی سے سچی محبت اور انسانوں سے حقیقی اُلفت اسی انسان میں
پیدا ہوتی ہے جس کا دل قناعت سے منور ہو-
قناعت کی نعمت سے مستفید شخص ہر دلعزیز ہوتا ہے، اسکا سلوک دوست و دشمن سب
سے ہمدردانہ ہوتا ہے، دنیا کا مال و زر اس کی نظر میں ہیچ ہوتا ہے- قناعت
حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اپنی ضرورت سے زیادہ کی خواہش نہ کی جائے، وہ
یہ دیکھے کہ قدرت ہاتھی کو اسکی خوراک دے رہی ہے اور چیونٹی (کیڑی) کو وہی
مل رہا ہے جو اس کے لیئے ضروری ہے، چیونٹی کبھی گنے کی خواہش نہیں کرتی-
اسی طرح قانع آدمی دوسرے آدمیوں کے مال و دولت اور جاہ و جلال و پرتعیش
زندگی کو دیکھ کر نہیں جلتا- بلکہ یہ سمجھ لیتا ہے کہ قدرت نے ان کے لیئے
یہی مناسب سمجھا ہے اور میرے لیئے یہی، کیونکہ قدرت مجھ سے زیادہ دانا و
سمجھدار ہے- انسان کو چاہیئے کہ ہر وقت یہی خیال رکھے کہ قدرت نے جو کچھ
مجھے اپنی رحمت سے دے رکھا ہے یہ بھی میری ضرورت سے زیادہ ہے- اس پر لازم
ہے کہ وہ ان کی طرف نہ دیکھے جن کو اس سے زیادہ ملا ہے بلکہ ان پر نظر کرے
جن کو اس سے کم ملا ہے- غور کرے کہ اللہ تعالٰی کی کتنی مخلوق ایسی ہے جو
مجھ سے کمتر ہے اور مَیں کتنے لوگوں سے اچھا ہوں- وہ اگر گڑھے میں گِرے تو
اللہ تعالٰی کا شکر ادا کرے کہ کنوئیں میں نہیں گِرا- حرص و لالچ و طمع کو
دل سے دور کر لے تاکہ اس میں قناعت کا نُور منعکس ہو اور اس سے اطمینانِ
قلب پیدا ہو- یاد رہے کہ حقیقی مسرت دولت نہیں ہے- خوشی کا تعلق دل سے ہوتا
ہے، حیقیقی دولت مند وہ ہے جو بلحاظ اسباب دنیاوی کتنا ہی غریب ہو مگر جو
کچھ اسے خدا نے عطا کیا ہے وہ اسی حالت میں خوش ہے، اس سے زیادہ یا اس سے
بہتر کی طلب میں وہ پریشان نہیں ہے-
قناعت کے حصول کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ اپنا مقابلہ اپنے سے کمتر اشخاص سے
کیا جائے- اپنے سے زیادہ امیر، زیادہ طاقتور اور زیادہ صاحبِ نعمت کا خیال
انسان کی راحت، اطمینان اور سکون و آرام کو تباہ کر دیتا ہے- یہ دیکھنا
چاہیے کہ ہم سے زیادہ دکھی اور مصیبت زدہ بھی موجود ہے، اس لیے ہمیں اللہ
تعالٰی کا شکر ادا کرنا چاہیے- جب زندگی چند دنوں کی ہے، کسی چیز کو بھی
بقا نہیں ہے تو ان حالات میں قناعت کو چھوڑ کر حرص و طمع میں پریشان رہنا
نہ ہی دانائی ہے اور نہ ہی سعادت مندی- ہمارے پاس جو کچھ ہے، جو کچھ ہمیں
ملا ہے، اسی پر اگر ذرا غور کریں تو اس میں بہت کچھ ہماری ضرورتوں سے زیادہ
ہے-
دل میں ایک خواہش پیدا کرنا اور اسے ناکام دیکھنا پریشانی و صدمہ کو مؤجب
بنتا ہے اور پے در پے ایسی ناکامیوں سے انسان غمگین و چِڑچڑا ہو جاتا ہے
حتٰی کہ بعض اوقات زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے- قناعت وہ نُور ہے جس کو
یاس، نا اُمیدی اور ناکامی کبھی دُھندلا نہیں سکتی- قناعت غم و دکھ کا
ہمدرد اور مصیبت کا غمگسار ہے- قناعت ایسی بے بہا نعمت ہے کہ تمام جہاں کی
نعمتیں اس کے سامنے ماند پڑ جاتی ہیں- حاصل کلام یہ کہ بقول ایڈیسن: ‘
قناعت، عزت اور بزرگی کا سرچشمہ اور راحت و مسرت کا منبع ہے‘- |