ہم جنس پرستی سے کاﺅ کولا تک

ہمسایہ ملک بھارت نے خطے میں صرف دفاعی اور سیکورٹی کے اعتبار سے عدم استحکام پیدا کرنے کی سعی ہی نہیں کی بلکہ اس نے فحاشی اور برہنہ پن کو ثقافت کے نام پر پھیلانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بھارتی فلموں نے جہاں نیپال، برما، بھوٹان، سری لنکا اور پاکستان کے شہریوں کو متاثر کیا ہے وہاں افغانستان کے” کٹر پٹھان“ بھی اس کے چنگل سے نہیں بچ سکے۔ کابل کے افغانی نیم برہنہ بھارتی اداکاراﺅں کو دیکھ کر تھرتھراتے نہیں تھکتے۔ اب تو یورپ اور دبئی سمیت دیگر اسلامی ممالک بھی بھارتی بالی ووڈ کی زد میں ہیں۔ بھارتی سیاسی رہنما سونیا گاندھی نے تو چند سال قبل ایک بیان بھی داغا تھا کہ بھارت کو پاکستان کے ساتھ جنگ کرنے کی کیا ضرورت ہے ہم نے ثقافتی محاذ پر اس ملک کے ویسے ہی چھکے چھڑا دیئے ہیں۔ گویا بھارتی اپنی فحاشی کا سہارا لیکر اور اپنی ایکڑیسوں کی نافیں دکھا کر دیگر تہذیبوں کو زیرسایہ کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔

بھارت اپنے آپ کو سیکولر اور سب سے بڑی جمہوریت ثابت کرنے کے لیے آئے روز چھچھورے اقدامات کرتا رہتا ہے۔ بہرکیف لوگ بھارت کے قبیح سیکولر چہرے سے بدرجہ اُتم واقف ہیں۔ مسلمانوں کی بابری مسجد کی شہادت ہو یا گجرات میں مسلم قومیت کے حامل شہریوں کا قتل عام، سکھوں کا گولڈن ٹمپل ہو یا عیسائی اقلیتوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کا معاملہ بھارتی برہمن ہمیشہ حد سے گزرتے دکھائی دیتے ہیں۔
اور اب بھارت کی دہلی ہائیکورٹ نے ہم جنس پرستی کو قانون قرار دیکر بھارتی معاشرے کا گند اور بھی واضح کردیا ہے۔ عدالت کے فیصلے کے مطابق باہمی رضا مندی سے ہم جنس پرستی کرنے والے افراد کو سزا نہیں دی جاسکے گی۔ گویا وہ کام جس کی انگریز حکومت نے بھی اجازت نہیں دی تھی بھارتی کالے انگریز کو اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ بھارتی پینل کوڈ کی دفعہ 377 کے تحت ہم جنس پرستی پر پابندی عائد تھی۔ بھارتی عدالت نے اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور امتیازی سلوک قرار دیتے ہوئے سزا کے قانون کو کالعدم قرار دیا ہے۔ بہرکیف عدالت نے 18 سال سے کم عمر افراد کو اس ”سہولت“سے ”فیض یاب“ ہونے کی اجازت نہیں دی۔ بھلا جس قوم کے بڑے کسی غیر اخلاقی اور غیر مہذب فعل میں مبتلا ہوں تو ان کے بچے کس طرح اس کا اثر قبول نہیں کریں گے۔

دہلی ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ سنا کر صرف ہندو مذہب کی نمائندہ عدالت ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ اسلام میں تو یہ فعل حرام قرار دیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں تو قومِ لوط کی بربادی کا تذکرہ بھی ملتا ہے اور ان کی بربادی کی وجہ یہی فعل قرار دیا گیا۔ بھارت میں بسنے والے کروڑوں مسلمان دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کو بھلا کیونکر تسلیم کریں گے۔ دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی اس فیصلے سے چنداں خوش نہیں ہوں گے۔ کوئی بھی شہری یہ کیونکر چاہے گا کہ ان کی اگلی نسلیںHomosexuality اور Lesbianism کی بھینٹ چڑھ جائیں۔ دہلی ہائی کورٹ نے مٹھی بھر بھارتی ہم جنس پرستوں کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے ان کے حق میں فیصلہ صادر کردیا ہے۔

بھارتی قوم خود کو مادر پدر آزاد ثابت کرکے دنیا کی بڑی اقوام کی صف میں شامل ہونا چاہتی ہے۔ یہ ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے لیے بھی لمحہء فکریہ ہے کہ جو بھارت اور بھارتیوں کی ننگ دھڑنگ ثقافت کو پروموٹ کرنے میں دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرتے۔ ہر معاشرے کی کچھ ترجیحات اور روایات ہوتی ہیں۔ ان سے چشم کشائی کر کے کسی قوم کو ذلت کے اندھیروں میں تو پھینکا جاسکتا ہے اس سے عزت و وقار حاصل نہیں کیا جاسکتا۔

دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے نے یہ ثابت کردیا ہے کہ بھارتی سرزمین صرف ہندو مذہب کے پیروکاروں کے لیے ہے اور وہاں مسلمان، سکھ اور دیگر مذاہب کے لوگ نہیں رہ سکتے۔ ہندوﺅں کا تو مذہب بھی ہم جنس پرستی کی سرپرستی کرتا ہے۔ جس کا ثبوت بھارتی ہم جنس پرستوں کی ویب سائٹ پر بھی ملتا ہے۔ بگود گیتا میں لارڈ کرشنا بھی ہم جنس پرستی کا راگ الاپتے دکھائی دیتے ہیں۔ بھارت میں تو اس موضوع پر کھلے عام فلمیں بھی بننا شروع ہوچکی ہیں۔ بھارتی فلمیں بھی کچھ اس قسم کا پیغام عام کرنے کی سعی کرتی دکھائی دیتی ہیں۔

وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہم دشمن ملک کی ثقافت کے سامنے بچھے چلے جانے کی بجائے اپنی ثقافت اور کلچر کو پروموٹ کریں۔ ہمارا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ بلا شبہ بھارتی لابی اپنی غیر مہذب ثقافت کو عام کرنے کے عوض اربوں روپے کے اشتہار پاکستانی میڈیا کو بانٹتی پھرتی ہے۔ لیکن بطور پاکستانی ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کو اس امر کی آگاہی حاصل کرنا حد درجہ ضروری ہے کہ ہم کس طرح اپنی نئی نسل کو ایک محب وطن اور صحت مند سوچ کا حامل پاکستانی بنا سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں انتہائی شوق سے سٹار پلس اور دیگر ننگ دھڑنگ بھارتی چینل دیکھے جاتے ہیں اور پوری فیملی، بزرگ اور بچے بھارتی کلاکاروں کو خراج تحسین پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہمارے کچھ پرائیویٹ چینلز کے ڈرامے اور پروگرام بھی سٹار پلس کے ڈراموں سے کچھ کم نہیں ہوتے۔ شاید وہ اپنے تئیں بھارتی لوہے کو پاکستانی لوہے سے کاٹنے کی سعی کررہے ہوں لیکن اس طرح ہوسکتا ہے ہم اپنے معاشرے کو بے راہ روی کی ان حدوں پر لے جائیں جہاں جا کر صرف خود کشی ہی کی جاسکتی ہے واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوا کرتا۔

ہمیں بھارت کو لچر پن، فحاشی اور غیر مہذب حرکات میں مات دینے کی بجائے بلا چوں چراں ہار تسلیم کرلینا چاہیے۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہمارے ہاں بھی گائے کا پیشاب پینے کی باتیں شروع ہوجائیں گی۔ وہاں تو ”کاﺅ کولا“ (گائے کولا) پہلے ہی ایک من پسند مشروب کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ ”کاﺅ کولا“ کی مقبولیت سے بھلے بھارتی خوش ہوں نہ ہوں مرحوم بھارتی سیاستدان مرار جی ڈیسائی ضرور خوش ہوں گے جو گائے کا تو کیا اپنا پیشاب بھی نہیں چھوڑتے تھے۔
Yousaf Alamgirian
About the Author: Yousaf Alamgirian Read More Articles by Yousaf Alamgirian: 51 Articles with 101505 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.