پشاور کے شاہی باغ میں آٹھ سال بعد ہونیوالے امن میچ نے
تبدیلی لانے والوں کی تبدیلی دکھا دی کہ یہ کس طرح کی تبدیلی لانے کے
خواہشمند ہیں - لالٹین والی سرکار کی وجہ سے تباہ حال ارباب نیاز کرکٹ
سٹیڈیم میں پشاور کے عوام اور خصوصا نوجوانوں کیساتھ جس طرح کا سلوک میچ کے
دوران کیا گیا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تبدیلی اب اس صوبے کے عوام خود
لائیں گے اور یہ بہت جلد ہوگا اس میںلالٹین والوں سے لے کر، مولوی اور شیر
والے بھی خوار ہونگے کیونکہ اس صوبے کے عوام نے دیکھ لیا کہ نظام وہی پرانا
چل رہا ہے صرف چہرے نئے ہیں اور کمیشن کے نئے ریٹس بن گئے ہیں لالٹین والی
سرکار کے دور میں "ایس ایم ایس"کے نام سے مشہور ایک اہم شخصیت جن کا ہر کام
میں کمیشن ہوتا تھا انہی کے کاروباری ساتھی آج بھی کمیشن پر چل رہے ہیں
عوام کو بے وقوف سمجھنے والے نام نہادلیڈر لوگوں کے سامنے ہسپتال میں
کروڑوں روپے کے عطیات دے جاتے ہیںتاہم پھر ان کی ریکوری کیلئے انہوں نے نیا
سسٹم شروع کردیا ہے اور مختلف محکمہ جات میں اعلی عہدوںپر تعینات لوگوں سے
ڈیمانڈ کی جارہی ہے کہ ہم نے تبدیلی والی سرکار کے ہسپتال میں اتنا بڑا
عطیہ دیا ہے ماہانہ ہمیں اتنے روپے ہر حال میں ریکوری چاہئیے اور اس کیلئے
کچھ بھی کیا جائے لیکن اللہ کی شان ہے کہ خیبر پختونخوا میں کچھ سرپھرے
سرکاری اہلکار اب بھی موجود ہیں جو غیر قانونی کاموں سے انکار کرنا جانتے
ہیں اسی بنیاد پر انہیں افسر بکار خاص بھی بننا پڑتا ہے کیونکہ یہ نام نہاد
لیڈروں کو خوش نہیں کرنا چاہتے- بات تعصب پر جائیگی لیکن حقیقت یہ ہے کہ
صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والی تبدیلی والی سرکار کی ایک اہم شخصیت کوٹھیکہ
دلانے کیلئے ایس ایم ایس کے حوالے سے مشہور نام نہاد لیڈر نے بڑا زور
لگایاکہ یہ ٹھیکہ متعلقہ شخصیت کو دیا جائے تاکہ ان کی واہ واہ ہو لیکن
انکار سننے پر افسران کوافسر بکار خاص بنادیاگیا-خیبر پختونخوا میں سرمایہ
کاری کے نام پر آنیوالے مخصوص لوگ صرف اپنے کاروبار اور منافع سے مطلب
رکھتے ہیں انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس صوبے کے عوام خوارہورہے
ہیں -
بات ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم میں میچ کی ہورہی تھی امن کے نام پر ہونیوالے
میچ کیلئے شاہی باغ روڈ پر تقریبا ڈیڑھ سو کے قریب دکانوں کو بند کردیا گیا
خار دار تاریں لگا کر شہریوں کیلئے راستے بند کردئیے گئے کیونکہ تبدیلی
والی سرکار نے یہاں پر آنا تھا اور بھوکے ننگے مزدوروں کا وی آئی پیز کے
سامنے آنا بری بات تھی سو ڈیڑھ سو دکاندار تو دکانیں بند کرگئے لیکن ان کے
ساتھ کام کرنے والے دیہاڑی دار مزدور اس دن کیا کرتے، کیا وہ میچ دیکھ کر
اپنا پیٹ پالتے اس کا جواب نہیں مل سکا پشتو کی ایک مثل ہے کہ "مڑہ خیٹہ
فارسی وائی" یعنی پیٹ بھرا ہو تو ہر چیز اچھی لگتی ہے` اب ان مزدوروں سے
کوئی پوچھے کہ تمھیں میچ سے کیا ملا انہیں تو میچ سے کچھ نہیں ملا ہاں ان
کے گھر میں ان کے اہل و عیال ایک دن کیلئے بھوکے رہ گئے کیونکہ پولیس نے
انہیں یہاں سے ہٹا دیا تھا ہاں دوسری طرف تبدیلی والی سرکار کیساتھ پولیس
کلچر میں تبدیلی کا نعرہ لگانے والے پولیس نے اتنی تبدیلی کرلی کہ انہوں نے
عیدالضحی کیلئے "عیدی "مہم بھی شروع کی اور میچ والے دن بڑا مال کما لیا ان
میں سے بہت سارے انہی حرام کے مال سے اپنے لئے قربانی کے جانور بھی خریدیں
گے اور پھر اللہ کی رضا بھی چاہیں گے کہ ہم نے قربانی دی ہے ہمیں "جنت"میں
اعلی مقام عطا کیا جائے-امن میچ کے نام پر ہونیوالے ڈرامے کے منتظیمن سے
کوئی یہ پوچھے کہ اس طرح سے کس طرح امن آئیگا جب شیر کی حکومت میں مہنگائی
سے پریشان شہری اپنے لئے کچھ خرید نہیں سکتے نہ ہی روزگار کرسکتے ہیں ایسے
میں ان شہریوں کو بلے کی مار بھی پڑے گی تو کیا وہ امن لائیں گے بالکل نہیں
کیونکہ ایک طرف مہنگائی ہے دوسری طرف روزگار کے مواقع ختم کئے جارہے ہیں
ایسے میں امن و امان کی حالت مزید ابتر ہوگی ہاں منتظمین جن کا تعلق بھی
اسی صوبے سے نہیں کھیل کے نام پر ہی اس صوبے کے عوام کو لوٹیں گے-کیونکہ یہ
تو ایک آفاقی اصول ہے کہ انسان ہر چیز برداشت کرسکتا ہے لیکن اپنے پیاروں
اور خصوصا گھر والوں کیلئے مشکلات برداشت نہیں کرسکتا لیکن لمبی گاڑیوں اور
سیکورٹی کے نام پر جانیوالے ہوٹروں والے قافلوں کو عوام کی صورتحال کا
اندازہ ہی نہیںکیونکہ انہیں تو ہر چیز تیار مل جاتی ہیں شہریوں کے خون
پسینے کی کمائی وہ ٹیکسوں کی مد میں ڈکار مارے بغیر ہی کھا رہے ہیں اور
سمجھتے ہیں کہ عوام کی خدمت کررہے ہیں-
خدمت کے دعویدار تو لالٹین والی سرکار بھی تھی جنہوںنے پانچ سال میں اور
کچھ نہ کیا ہو " ایزی لوڈ" سروس کو بہت فروغ دیا اور اسی ایزی لوڈ سروس کو
اب تبدیلی والی سرکار مزید فروغ دے رہی ہیںلالٹین والی سرکار کے دور میں جب
انہیں سچی بات کہی جاتی تھی تو اس وقت ان کے وزیروں کے آنکھوں پر پٹیاں
بندھی ہوئی تھی انہیں مخصوص لوگ ہی نظر آتے تھے جو انہیں سب اچھا کی رپورٹ
دیتے تھے سب اچھا کی رپورٹ میں وہ اپنے لئے تو بہت کچھ کماگئے بہت سارے
لوگوں نے پوش علاقوں میں بنگلے بنا لئے اب انہیں کرسی سے اترنے کے بعد عقل
آئی ہے اس لئے ان کا رویہ بھی تبدیل ہوگیا ہے اس لئے یہاں پر رحمان بابا کا
ایک شعر جس کے معنی ہے کہ " کبھی کھبار غموں کے انبار لگنا اچھی بات ہے
کیونکہ ان غموں سے انسان کو اپنے چاہنے اوربرے بھلے کا اندازہ ہوجاتا ہے "
سو لالٹین والی سرکار کے کچھ لوگ آج کل اپنی غلطیوں کی تلافی تو کررہے ہیں
لیکن ان کا گند بھی اتنا ہے کہ صاف کرنے میں انہیں عمر لگ جائیگی اب تو
تبدیلی والی سرکار سابقہ حکمرانوں کے روش پر چل پڑی ہیں اور جو گند وہ بو
رہی ہیں انہیں بھی صاف کرنے میں انہیں عمریں گزر جائیں لیکن ایک بات جو یاد
رکھنے کی ہے کہ خیبر پختونخواہ کے پٹھان جو کہ اب پھٹے آن رہ گئے ہیں ایک
ہی مرتبہ تجربہ کرتے ہیں اور تجربے کی ناکامی پر دوسری مرتبہ موقع کسی کو
بھی نہیں دیتے سو تبدیلی والی سرکار بھی سن لیں کہ ان کا اس صوبے میں پہلا
اور آخری تجربہ ہے اگر اسی طرح لکڑی کے سمگلروں کی سپورٹ جاری رہی تو پھران
کی حکومت بھی پانچ سال ہی ہوگی زیادہ نہیں اور پھر یہ لوگ لالٹین والی
سرکار کی طرح قصہ پارینہ بن جائیں گے-
|