الف لام میم

اچھائی سے برائی جنم لیتی ہے، تخریب سے تعمیر ہوتی ہے، جسے بعض اوقات شر سمجھا جاتا ہے، اسی سے خیرکا پہلو بھی سامنے آجاتا ہے، نہیں کو جان کر ہی ہاں کی سمجھ آتی ہے۔ دنیا میں بے شمار لوگوں کی بے شمار مثالیں موجود ہیں جو کرپٹ سسٹم میں پیدا ہوئے اور پھر اِسی سسٹم کے خلاف آواز بلند کی۔ حال ہی میں امریکا کی ٹیکساس یونی ورسٹی کے چند مسلمان طالب علموں نے بھی کچھ ایسا ہی کیا ہے۔ ٹیکساس یونی ورسٹی کے اِن طالب علموں کی کارگزاری جاننے سے قبل پہلے ہم آپ کوFraternities یا سماجی رابطوں کے گروپس کے بارے میں بتاتے چلیں۔ فریٹرنٹی کا آغاز یونان سے ہوا جہاں مردوں اور عورتوں نے مختلف معاشرتی مسائل کے حل کے لیے الگ الگ گروہ بنائے تھے۔لفظFrater لاطینی زبان کا ہے، جس کا مطلب بھائی ہے، اسی لیے فریٹرنٹی کو برادری یا پنچایت بھی کہتے ہیں۔19ویں صدی میں امریکا کی مختلف ریاستوں میں فریٹرنٹی کی بہتات ہوگئی اور ان فریٹرٹیز نے انتہائی جدید شکل اختیار کرلی۔ وہاں عام طور پر کالج اور یونیورسٹیز کے طالب علم فریٹرنٹی بناتے ہیں جن کا مقصد صرف ناچ گانا، شراب پینا وغیرہ ہوتا ہے۔ اس کے تحت تیس سے چالیس طالب علموں کا ایک گروپ بنالیا جاتا ہے جو راتوں کو ڈسکو پارٹیز میں شرکت اور ہلّڑبازی کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتا۔ حال ہی میں ٹیکساس یونی ورسٹی کے مسلم طالب علموں نے امریکا کی پہلی مسلم فریٹرنٹی بنائی ہے، جس میں شراب اور سگریٹ نوشی کی ممانعت اورناچ گانے پر پابندی ہے۔ علی محمود نامی طالب علم نے تمام تر مخالفت اور رکاوٹوں کے باوجود فریٹرنٹی قایم کیا، اور اس کا نام ’الف لام میم‘ رکھا ہے۔اس کے قیام کا بنیادی مقصد بے لگام امریکی معاشرے سے جڑے ہوئے مسلمان طالب علموں میں دینی رجحان کو فروغ دینا اور اُنہیں دیگر برائیوں سے روکنا ہے۔ علی محمود کوجب مسلم طالب علموں کی فریٹرنٹی بنانے کا خیال آیا تو اُنہوں نے اس سے متعلق مختلف مسلم طالب علموں سے بات کی لیکن اُنہیں اس حوالے سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔جس کی وجہ سے امریکا کے کالجز اور یونیورسٹیز میںسرگرم عمل وہ فریٹرنٹیز ہی تھیں جن کا مقصد صرف غل غپاڑے کرنا، ناچ گانا اور شراب نوشی کے سوا کچھ نہیں تھا۔علی محمود کہتے ہیں کہ اُنہوں نے جب اپنے ہم مذہب طالب علموں سے اس بارے میں بات کی تو میرے خیالات کو یک سر مسترد کردیئے گئے، اکثر طالب علموں کا یہی کہنا تھا کہ امریکا میں فریٹرنٹی کا جو تصّور عام ہے، اس کے پیش نظر والدین اُنہیں ایسی کسی بھی سرگرمی میں حصّہ لینے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس کے علاوہ وہ مسلمان طالب علم جو کسی دوسری فریٹرنٹی سے وابستہ تھے، اُن کا کہنا تھا کہ آخر الف لام میم دیگر فریٹرنٹی سے مختلف کیوں کر ہوگی؟ علی محمود نے بتایا کہ اکثر مسلمان طالب علموں کا یہی خیال تھا کہ ایک ایسا پلیٹ فارم جو صرف بُرے کاموں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اس کے ذریعے ہم نیک کام کیسے کرسکتے ہیں؟ بہر حال علی محمود نے ہار نہیں مانی اور آخرکار اُنہیں چند مسلمان طالب علموں کی حمایت حاصل ہوگئی۔ الف لام میم کے قیام کے وقت صرف آٹھ دس طالب علم اس کا حصّہ تھے لیکن اب ان کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔علی محمود نے الف لام میم کو دیگر فریٹرنٹی سے ممتاز رکھنے کے لیے تمام اراکین کے لیے مخصوص قسم کی لال ٹوپیاں بنوائیں۔سرخ ٹوپی پہنے مسلم طالب علم تدریسی سرگرمیوں سے فارغ ہونے کے بعد یونی ورسٹی کے کیفے ٹیریا اور پارک میں بیٹھ کر دینی معاملات پر گفتگو کرتے اور دیگر مسلم و غیر مسلم طالب علموںسے بھی حُسن اخلاق ودیگر موضوع پر بحث کرتے نظر آتے ہیں۔ گوکہ خالص دین اسلام کی تبلیغ نہیں کی جاتی ہے لیکن الف لام میم کے اراکین اپنے رہن سہن اور اخلاق سے طالب علموں کی بڑی تعداد کو متاثر کرنے میں کام یاب ہوئے ہیں۔ٹیکساس یونی ورسٹی میں الف لام میم کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا انداز اِس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس سے اب کئی غیر مسلم طالب علم بھی وابستہ ہورہے ہیں۔امریکی عوام کو درپیش مختلف مسائل کے خلاف الف لام میم کے تحت مختلف مظاہرے بھی کیے جاتے ہیں۔ حال ہی میں بوسٹن میں ہونے والے بم دھماکے کے زخمیوں کے لیے فنڈز بھی اکٹھے کیے گئے۔الف لام میم میں شامل اراکین اپنی استطاعت کے مطابق ماہانہ فنڈ بھی دیتے ہیں جو مختلف فلاحی کاموں پر خرچ کیا جاتا ہے۔ علی محمود کہتے ہیں کہ اُنہیں امریکی مسلمان ہونے پر فخر ہے، اُن کا کہنا یہ بھی ہے کہ امریکا میں مقیم مسلمانوں کو قومی دھارے میں لانے کے لیے جہاں حکومتی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے وہاں مسلمانوں کو بھی معاشرے میں بہتری کے لیے خود آگے بڑھنا چاہیے۔

Abdul Rehman
About the Author: Abdul Rehman Read More Articles by Abdul Rehman: 216 Articles with 257564 views I like to focus my energy on collecting experiences as opposed to 'things

The friend in my adversity I shall always cherish most. I can better trus
.. View More