دو ارب ڈالر کا حساب؟
(Ata Muhammed Tabussum, Karachi)
امریکہ کی ڈیموکریٹ پارٹی کے
سینئر سینیٹر اور امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی نے چیئرمین جوزف
بائڈن نے گزشتہ دنوں یہ تجویز پیش کی ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات
کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے پاکستان کو دی جانے والی اقتصادی
امداد میں تین گنا اضافہ کر دیا جائے جبکہ فوجی امداد کڑی شرائط کے تحت دی
جائے۔ ڈیموکریٹ سینیٹر کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب امریکی
مالی محتسب ادارے نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ
میں امریکہ کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی امداد میں کئی طرح کی مالی
بے ضابطگیاں پائی گئی ہیں اور جنوری سنہ دو ہزار چار سے جون دو ہزار سات کے
دوران پاکستان کو دی جانے والی امداد میں سے دو ارب ڈالر کی رقم ایسی ہے جس
کے خرچ کا مکمل حساب موجود نہیں ہے۔ پاکستانی عوام اب اس امداد کے ثمرات سے
لطف اندوز ہورہے ہیں۔ ڈالر کی بڑھتی ہوئی مانگ اور پاکستانی روپے کی قدر
میں تیزی سے آنے والی کمی نے پوری قوم کو تباہی سے دوچار کردیا ہے۔ قومی
خزانے میں موجود زرمبادلہ کے ذخائر جن کا ذکر کرتے ہوئے شوکت عزیز کی زبان
سوکھتی تھی۔ اب بخارات بن کر اڑ گئے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس امداد کے بدلے
میں ہمارے حکمرانوں نے اپنا قومی وقار، عزت، آزادی اور ضمیر رِہن رکھ د یا
ہے۔ اسی امداد کے کارن ہم نے مدد کرنے والوں کی بہت ساری ناجائز اور ناپسند
خواہشات پوری کر رہے ہیں۔ چونکہ حکمران اس امداد کو حاصل کرنے کے لئے اپنی
انا، عزت، وقار اور ضمیر داؤ پر لگاتے ہیں اس لئے لامحالہ اس کے تصرف کا سب
سے پہلا حق ان کی ذات کا ہے۔ اس لئے پاکستان سے سرمایہ راتوں رات غائب
ہورہا ہے۔ امریکہ نے جو ڈالر دئیے ۔ وہ سوئس بنکوں کے اکاﺅنٹ میں منتقل
ہوچکے۔ لیکن پاکستان نے اس کے لئے کیا قیمت ادا کی ۔ امریکی مداخلت کی وجہ
سے پاکستان بھر میں جو خود کش دھماکے ہوئے، ملک کا امن وامان برباد ہوا،
معیشت تباہ ہوئی۔ اس کا ازالہ اور حساب کتاب کون کرے گا۔ پاکستان کی
بدقسمتی ہے کہ وہ ہمیشہ امریکہ کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنا رہا ہے۔ اور یہ اس
غلطی کا تسلسل ہے جو پہلے وزریر اعظم پاکستان کے پہلے دورہ امریکہ کی صورت
میں تھی۔ پاکستان کے حکمران ہمیشہ سے امریکہ کا دم بھرتے آئے ہیں۔ آنے والے
اور جانے والے ہمیشہ ہاتھوں میں کشکول لئے رکھتے ہیں۔ ہماری انکل سام سے
درخواست ہے کہ ۔ دوستوں سے حساب کتاب کرنا کچھ اچھا نہیں لگتا ہے۔ یوں بھی
حساب دوستان در دل ہوتا ہے۔
اس وقت کوئی بچانے والا نہ ہوگا
یوم آزادی کا یہ جلسہ ایک روائیی جلسہ تو نہ تھا۔ لیکن اس میں پورے ملک کی
نمائندگی ضرور تھی۔ خط غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے سارے کردار
میرے سامنے تھے۔ اس جلسے کے مقررین باقاعدہ مقرر بھی نہ تھے۔ فرش پر بیٹھے
ہوئے سارے لوگ باری باری اپنے تاثرات کا اظہار کررہے تھے۔ جب وزیر کی باری
آئی تو محسوس ہوا جیسے گرم گرم لاوا بہہ رہا ہے۔ اس کا سوال تھا کہ کیا آج
پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے۔ کیا اسی لئے پاکستان وجود میں آیا تھا۔ کیا
یہ وہی صبح ہے جس کا ہم نے خواب دیکھا تھا۔ کیا اس ملک کے غریب عوام اسی
طرح آٹے اور روٹی کے لیے ترستے ہوئے اپنی جانیں خودکشیوں کے ذریعے ختم کرتے
رہیں گے۔ سندھ کی یہ آواز ابھی خاموش ہوئی تھی کہ بلوچستان کے اس بزرگ کی
باری آگئی جس نے بچپن میں تحریک پاکستان کے نعرے لگائے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے
کہ بلوچستان کے لوگوں کا کیا قصور ہے۔ کہ پورے پاکستان کو گیس مہیا کرنے
والے اپنے گھروں میں گیس سے محروم ہیں ۔ نوکریوں سے محروم ہیں بلکہ ا پنے
صوبے میں تعلیم کے بھی موقع سے بھی محروم ہیں۔ سرحد ساتھی کہہ رہا تھا کہ
کل جنہوں نے آزادی کی جنگ لڑی اور کشمیر کا وہ حصہ لے کر دیا جو آج آزاد
کشمیر کے نا م سے جانا جاتا ہے۔ آج ہم ان پر گولے برسارہے ہیں۔ ان سر سبز
وادیوں میں آگ برسا رہے ہیں۔ میرے پنجاب کے ساتھی بھی بے روزگاری، افلاس،
اور بڑھتی ہوئی غربت سے شاکی تھے۔ شہروں میں رہنے والے بھی آج کل بے
روزگاری، ٹرانسپورٹ کے کرایوں، مہنگائی، لاقانونیت کے ہاتھوں زندگی عزاب
ہونے کی داستاں سنا رہے تھے۔ لیکن یہ سارے لوگ اپنے اس دشمن سے ضرور آگاہ
تھے۔ اور شکووں کے ساتھ ساتھ پر امید تھے۔ کہ آج کا یوم آزادی ان کی حقیقی
آزادی کا پیغام لے کر آیا ہے۔ یہ ساری باتیں سنتے ہوئے ۔ میں سوچتا ہوں۔
قدرت نے تو ہمیں اپنی نعمتوں سے نوازا تھا۔ شائد ہم ہی نہ اہل نکلے جو اس
نعمت کو نااہل افراد کے سپرد کردیا۔ اگر آج پاکستان سے جائز اور ناجائز
منافع کمانے والے اس دولت کو اس ملک میں رکھتے تو شائد ہمیں یہ دن نہ
دیکھنے پڑتے۔ ناجائز منافع کمایا وہ ملک سے باہر چلا گیا اگر اس منافع سے
ملک کے اندر کارخانے لگتے تو لوگوں کو روزگار ملتا اور خاندانوں کی آمدنی
میں اضافہ ہوتا۔ مشرف کے دور میں نمبر دو معیشت کو پھلنے پھولنے کا موقع
ملا۔ زرمبادلہ کے ذخائر مصنوعی تھے معیشت حقیقی معنوں میں مستحکم نہ تھی ۔
سب کچھ دھوکہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب شوکت عزیز اقتدار سے علیحدہ ہوئے تو
معیشت زوال پذیر ہونے لگی۔ آٹھ سالوں کے دوران معیشت مستحکم ہوتی اور ٹھوس
بنیادوں پر استوار ہوتی تو چار ماہ میں معیشت زوال کا شکار نہ ہوتی۔
مہنگائی اور بے روزگاری کی ذمے داری بھی ان ہی عناصر پر ہے۔ اب یہ منتخب
مخلوط حکومت کا فرض ہے کہ وہ مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کرے۔ مہنگائی
سے نجات کا مستقل حل یہ ہے کہ پاکستان کے عوام منظم ہو کر ایک نئے سماجی
اور معاشی معاہدے کا مطالبہ کریں جو انصاف، عدل اور مساوات کے اصولوں پر
ترتیب دیا جائے۔ ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلروں کے خلاف ریاستی طاقت استعمال
کی جائے۔ سرمایہ داروں ، تاجروں اور صنعت کاروں کو ملی بھگت کر کے ناجائز
منافع خوری اور عوام کو لوٹنے کی ہرگز اجازت نہ دی جائے کرپشن پر قابو پانے
کے لئے احتساب کا منصفانہ نظام وضع کیا جائے کرپٹ عناصر کو کڑی سزائیں دی
جائیں کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں بلیک اکانومی کا سائز سو بلین ڈالر ہے
جسے وائٹ کرنے سے دس بلین ڈالر ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے۔ حکومت کا فرض ہے
کہ وہ امیروں پر ٹیکس لگائے اور غریبوں کو ریلیف دے، بڑے سٹاک بروکر راتوں
رات کروڑ پتی بن جاتے ہیں ان پر ٹیکس نہ لگانا ظلم اور ناانصافی ہے اسی طرح
دولت ٹیکس اور کپیٹل گین ٹیکس بھی عائد کیا جانا چاہیے۔ حکومت غیر ترقیاتی
اخراجات کم کرے اور زرعی انقلاب کی پالیسی وضع کرے تاکہ پیداوار میں اضافہ
ہو اور اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کم ہو سکیں۔ موجودہ حکومت نے تھوڑے عرصے کے
لئے مواخذے کے مطالبہ کے زریعے مہلت حاصل کرلی ہے۔ لیکن اس کی بقا کا
دارومدار مہنگائی کے خاتمے پر ہے لہٰذا یہ مسئلہ حکومت کی نمبر ون ترجیح
ہونا چاہیے مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے خصوصی ٹاسک فورس تشکیل دی جائے
جو مستقل بنیادوں پر کام کرے ۔اگر مہنگائی کے طوفان کو روکنے کے لیے سنجیدہ
کوشش نہ کی گئی تو اس طوفان کی لہریں پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیں
گی بھوکے ننگے مفلس عوام کوئی اور راستہ منتخب کرسکے ہیں۔ اور عوام کا رخ
ان کی جانب ہوگا جو عوام کو اب تک لوٹتے رہے ہیں۔ پھر انہیں بچانے والا بھی
کوئی نہ ہوگا۔ |
|