کون کہتا ہے کہ اسلام مسلمان کا
ہے اسلام کی رو سے تمام بنی نوع انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنے
ہیں اس طرح انسانیت کی رو سے تمام انسان برابر ہیں اور ہر اعتبار سے مساوی
حقوق رکھتے ہیں آج سے چودہ سو سال پہلے نبی پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے رنگ و نسل اور زبان و وطن سے بالاتر اخوت و مساوات کے سنہری
اصولوں پر اسلامی معاشرے کی بنیاد رکھ تمام انسانوں کو برابر کا درجہ دیا
اور انسان کو انسان کی غلامی سے نجات دلا کر وہ مثال قائم کی جو دنیا کے
کسی اور مذہب میں دکھائی نہیں دیتی
کوئی بھی فرد چاہے وہ دنیا کے کسی بھی خطّے سے تعلق رکھتا ہو سرخ ہو یا
سفید ہو گورا ہو یا کالا ہو ایک جیسے انسانی حقوق رکھتا ہے کسی کو کسی پر
کوئی فوقیت حاصل نہیں دنیا کے تمام انسان ہر لحاظ سے برابر ہیں
بحیثیت قوم کے مذہب اسلام سے کے پیروکار خواہ وہ کسی بھی ملک میں رہتے ہوں
یا کوئی بھی زبان بولتے ہوں جیسا بھی لباس پہنتے ہوں وہ ایک قوم سے وابستہ
ہیں ایک خدا، ایک نبی اور ایک کتاب کے ماننے والے سب ایک قوم یعنی 'امتّ
مسلمہ' سے وابستہ ہیں
دین اسلام ایک مکمل دین ہے جو کسی خاص طبقے گروہ ملک یا علاقے تک محدود
نہیں بلکہ تمام جہان کے انسانوں کے لئے ہے جو بھی جب چاہے دین اسلام کے
دائرے میں داخل ہو سکتا ہے ہدایت کی روشنی پا سکتا ہے صرف وہی مسلمان نہیں
ہے جو مسلمان کے گھر پیدا ہوا بلکہ کسی مشرک یا کافر کے گھر بھی اللہ کے
حکم اور ہدایت کی روشنی پانے والا مومن و مسلمان ہو سکتا ہے کہ جو حق کی
جستجو کرتا ہے چاہے کسی بھی مذہب کا ماننے والا اپنی جدوجہد کے مطابق ایک
نہ ایک دن حق تک رسائی حاصل کرتا ہے اور اللہ کے حکم سے اسکا دل نور ہدایت
سے ضرور فیض یاب ہوتا ہے کہ اللہ اپنی معرفت چاہنے والوں کو عرفان ذات ضرور
عطا فرماتا ہے
بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ تمام دنیا کے
انسانوں بلکہ پوری کائنات کا خالق و مالک ہے پروردگار ہے بحیثیت انسان ہر
ملک اور ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے انسان سب ایک برابر ہیں لیکن افسوس کے
دنیا میں ناصرف غیر اسلامی ریاستوں بلکہ بیشتر اسلامی ریاستوں میں بھی
اسلامی معاشرت کے اصول رائج نظر نہیں آتے مسلم ممالک جن میں ہمارا ملک بھی
شامل ہے بےشمار طبقات اور گروہ بندیوں کا شکار ہو رہا ہے اور یہ گروہ
بندیاں ملک میں تعصب کے فروغ کا باعث ہیں جن سے نا صرف ملکی بلکہ مذہبی
ساکھ کو بھی شدید نقصان پہنچ رہا ہے
ساری دنیا اللہ کی ہے اور اللہ کے بندوں کا زمین پر حق ہے لیکن اس طبقاتی
تقسیم نے اپنی سرزمیں کو ہی چند طبقات کے لئے مخصوص محدود کر دیا ہے جو
رفتہ رفتہ دلوں میں نفرت و کدورت پیدا کرتے ہوئے ہماری نسل کو اندر ہی اندر
کھوکھلا کر رہی ہے
نہ مسلمان میں مسلمانوں والی بات رہی اور نہ ہی انسانی حقوق کی مساوات کے
اصولوں کے مطابق عمل بندی کا رجحان دکھائی دیتا ہے جس معاشرے میں تمام
افراد معاشرہ کو مساویانہ حقوق میسّر نہ ہوں وہ معاشرہ کبھی خوشحال نہیں ہو
سکتا چاہے اسلامی ہو یا غیر اسلامی
جس قدر غربت اور بیروزگاری ہمارے ملک پاکستان میں ہے اس کی بڑی وجہ غیر
مساویانہ رویہ ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں گلیوں٬ سڑکوں٬ محلوں٬ بازاروں٬
درباروں میں سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں بھکاری بھیک مانگتے نظر آتے ہیں
جو ہمارے ملک میں معاشی بدحالی کا منہ بولتا ثبوت ہے جس معاشرے میں مساوات
قائم نہ ہو وہاں غربت و بیروزگاری اور گداگری کی یہی صورت حال ہوا کرتی ہے
جبکہ دنیا میں بیشتر غیر اسلامی ریاستیں ایسی بھی ہیں کہ جہاں ڈھونڈے سے
بھی کوئی سوالی نہیں ملتا غیر اسلامی ریاستوں میں رہنے والے اسلامی لوگوں
کو صدقہ و خیرات دینے کے لئے پردیس سے دیس کو سدھارنا پڑتا ہے
یہ خیال کہ اللہ انگریزوں پر مہربان ہے اور مسلمانوں پر نہیں ایمان کی
کمزوری اور بدعملی کا نتیجہ ہے جبکہ خوش گمان لوگوں کے نزیک اللہ نیک لوگوں
کو آزماتا ہے اور جنہیں دنیا میں سامان آسائش میّسر ہے وہ جنت میں عیش و
عشرت کی زندگی گزارے کا اور خود کو عملی زندگی میں آگے بڑھنے کی تگ و دو سے
مبرا سمجھتے ہوئے مانگے تانگے پر تکیہ کرنے میں ہی خوش رہتے ہیں اور یہی
سوچ معاشرتی بنیادوں کی جڑیں کھوکھلی کرتی ہے
مسلمان جو عدل و مساوات کے علمبردار تھے آج دنیا کی دیگر معاشرتوں سے بہت
بیچھے رہ گئے ہیں چونکہ انہوں نے اپنی کتاب اپی تعلیمات کو فراموش کر دیا
ہے اور خود کو مسلمان کے حوالے کی بجائے اپنے خاندان کے حوالے سے اپنے پیشے
کے حوالے سے اپنی سوسائٹی کے حوالے سے متعارف کروانے میں فخر محسوس کرتے
ہیں آج کوئی مسلمان نہیں بلکہ مسلمانوں نے خود کو سّید، ملک، شاہ، راجپوت،
جٹ بٹ اور نہ جانے کون کونسے ان گنت طبقات، گروہوں جماعتوں اور'سوسائیٹیز'
میں تقسیم کر کے قوّت اسلامی کو کمزور کر رہے ہیں اسی تقسیم نے غریب عوام
کو کمی کمین نچلہ طبقہ دو نمبر لوگ اور جانے کون کونسے غیر انسانی طبقات
میں تقسیم کرکے دنیا میں نفرت و شر انگیزی اور فتنہ و فساد جیسے منفی
رجحانات کو جنم دیا ہے
مسلمان جس نے انسانیت کو غلامی کے اندھیروں سے نکال کر حریت و آزادی کی
روشنی میں جینا سکھایا اب وہی قوم مختلف صورتوں میں مسلمان کو مسلمان کا
غلام کرنے پر تلی ہے اس کی ایک مثال ہمارے ہاں حکومتی اداروں میں سکیل سسٹم
نے بہت سے افراد کا دماغ خراب کر رکھا ہے کہ وہ کم سکیل افراد کو کیڑے
مکوڑے یا ان سے بھی حقیر سمجھتے ہوئے جس بے دردی سے ناحق ستاتے ہیں کوئی
حال نہیں بے حسی کی انتہا ہے کہ اپنی بدسلوکی و بےنیازی سے کسی کے دل کو
ایسی چوٹ بہنجانے ہیں کہ الامان اور احساس تک بھی نہیں ہوتا جیسے کچھ کیا
ہی نہیں
ہمارے ہاں پیشتر اداروں میں سکیل سسٹم کے باعث دولت کی غیر مساویانہ تقسیم
عملی طور پر رائج دکھائی دیتی ہے مہینہ بھر جانوروں کی طرح مشقّت کرنے پر
بھی اس قدر قلیل تنخواہ کہ جس میں مہینے پھر کے اخراجات پورے کرنا بھی ممکن
نہیں ہوتا
جبکہ افسران بالا ہر لحاظ سے آسودہ ہی آسودہ میری سمجھ سے یہ بات بالا ہے
کہ جب افسران بالا ہوں یا ماتحت سب کو ایک ہی کھاتے سے تنخواہ ملنی ہے تو
چند افسر یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ جیسے انہوں نے ماتحت کو اپنی جیب سے خرچہ
دینا ہے اور ایسا دل سوز سلوک کیوں روا رکھتے ہیں جیسے ان کا حق ہے ہر
ماتحت پر بلا وجہ رعب جھاڑنا کسی بھی ادارے کی ترقی میں تمام کارکنان ادارہ
کا 'ٹیم ورک' یہ کامیابی کی ضمانت ہے مزید یہ کہ ہر ایک کو اپنی روزی حلال
کرنی ہے اپنے حصّے کی ڈیوٹی دے کر اپنے وقت کی اپنی محنت کی اپنی صلاحیت کی
قیمت وصول کرنا ہے تو پھر یہ ناحق رعب ڈانٹ ڈپٹ سے کام لیکر کسی کی شخصیت
کو مجروح کیوں کیا جائے خود کو خدائی فوجدار کیوں سمجھا جائے اس بات کو
کیوں فراموش کیا جائے کہ ہر انسان کو اپنے منصب کے مناسب حال اپنے فرائض و
ذمّہ داریوں کے لئے اللہ کے سامنے جواب دینا ہے پھر انسان کیوں اپنی 'کرسی'
کے نشے میں خود کو تمام انسانی و اخلاقی پابندیوں سے آزاد سمجھتے ہوئے
دوسروں کی زندگی اجیرن کرتا اور اپنے کردار کو بھی داغدار کرتا ہے
لب لباب یہ ہے کہ جو بھی دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق انسانی و معاشرتی
اصولوں کی پاسداری کرتا ہے وہی ہر اعتبار سے کامیاب رہتا ہے اور جو نور
ہدایت کا راستہ ترک کرتا ہے اپنے راستے سے بھٹک جاتا ہے انسانی زندگی کی
بہتری کے جو اصول اللہ کی کتاب میں موجود ہیں ان پر عمل نہیں کرتا جانتے
ہوئے بھی ان سے روگردانی کرتا ہے تو وہی دنیا میں ذلیل و خوار ہوتا ہے چاہے
وہ مذہب اسلام کا ماننے والا ہے یا نہیں اگر کوئی مسلمان ہونے کے باوجود
کلام پاک میں موجود زندگی کے رہنما اصولوں کے مطابق اپنے معمولات ترتیب
نہیں دیتا تو محض زبانی کلامی مسلمان ہونا ہی زندگی میں کامیابی کی ضمانت
نہیں بلکہ ایسےبےعمل مسلمان کے مقابلے میں ایسا غیر مسلم بہتر اور کامیاب
زندگی گزارتا ہے جو اسلام کے بتائے گئے انسانی اخلاقی اور معاشرتی اصولوں
کو زندگی کے معاملات میں عملی طور پر لاگو کرتا ہے کہ تاریخ گواہ ہے کہ
انگریز نے اخلاقی تربیت کے بل بوتے پر ہی آج دنیا میں اسقدر ترقی کی ہے
ہم مسلمانوں کا یہ فرض بھی ہے اور ہماری ضرورت بھی ہے کہ ہم قرآن پاک کو
صرف تلاوت و قرآن خوانی تک محدود نہ رکھیں بلکہ اس میں دی گئی حکمتوں پر
غور و فکر کریں انہیں سمجھیں اور پھر سمجھنے کے بعد اپنی عمل زندگی کو قرآن
و سنّت کی تعلیمات کے مطابق بسر کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ آج ہم پھر سے
اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکیں اور اپنے شاندار ماضی کی جھلک اپنے حال
اور مستقبل میں بھی محسوس کر سکیں اپنے اخلاق و کردار کو سنوار لیں اسلام
کے سنہری اصولوں اخوت و بھائی چارہ اور عدل و مساوات کو قائم کریں امن و
محبت کے پھول کھلائیں اور اپنی اس دنیا کو جنت کا نمونہ بنا دیں |