مغرب کے مکّار ذہن نے علمی
تردید کی بجائے عورت کے حقوق ، انسانی حقوق ، NGOS، ماڈرن ازم ، وسعت ِقلبی
، سائنس او ر ضروریاتِ زمانہ کے نام استعمال کر کے اپنا کام دکھایا جبکہ
مسلمانوں نے ایسی مکار تنظیمیں قائم کرنے کی بجائے ردِّ عیسائیت اور
ردِّقادیانیت وغیرہ کے نام سے علمی کورس کرانا شروع کر دیے۔ علم بڑی اچھی
چیز ہے اور یہ کورس فائدے سے خالی نہیں ، لیکن مغربی تخریب کاری کا علاج
صرف علم سے نہیں بلکہ مناسب لائحہ عمل سے کرنا ضروری ہے۔
(۔۔۔۔)دعوت و ارشاد کا کامیاب ترین طریقہ اسلامی حکومت کا قیام ہے تاکہ
مکمل وسائل کے ساتھ ذمہ دارانہ دعوت و ارشاد ممکن ہو۔ نیز بعض مواقع پر
فاروقی ڈنڈے کا استعمال بھی کیا جا سکے۔ اسلامی حکومت کے قیام کے لیے متعدد
علماء سرگرمِ عمل ہیں اور فرض کفایہ ادا کر رہے ہیں۔
جب تک اسلامی حکومت قائم نہیں ہو جاتی ،علماء پر لازم ہے کہ خرابیوں کے
تدارک کے لیے حکومت کے متوازی نہایت سنجیدگی سے تبلیغ ِ دین کا کام جاری و
ساری رکھیں۔ چنانچہ تنظیم المدارس کے علماء ِ کرام نے تعلیم کا ایک زبردست
نصاب تجویز کر رکھا ہے جو ملک بھر کے مدارس میں رائج ہے۔ انہی علماء کرام
کے لیے مناسب ہے کہ مذکورہ بالا فتنوں کی اصلاح کے لیے نہایت سنجیدہ لائحہ
عمل وضع فرمائیں۔ خصوصاً ہر شہر کے ذمہ دار علماء اپنے شہر کے خطیبوں ،
مدرسوں اور نعت خوانوں کی اصلاح کی طر ف نہایت درد مندانہ توجہ فرمائیں اور
مذکورہ اصلاحات کی حد تک ایک حکومت کی طرح کام کریں۔ تمام علماء اور تعلیمی
ادارے ان علماء کی اطاعت کریں۔ مدارس کے مہتممین ، خطیب حضرات اور نعت خوان
حضرات سے درخواست اور پر زور اپیل ہے کہ علماء کی طرف سے ملنے والی اصلاح
کو بسر وچشم قبول فرمائیں۔ اسی میں ان کی بہتری ہے اور اخروی کامیابی
پوشیدہ ہے۔
(۔۔۔۔)اپنے اپنے علاقوں میں اپنی اپنی استعداد کے مطابق ہر دور میں علماء و
مشائخ کام کرتے رہے ہیں اور اسی سے دین پھیلا ہے اور صحیح ترقی کی ہے۔ آج
بھی علماء و مشائخ اپنے اپنے وسائل اور استعداد کے مطابق سرگرمِ عمل ہیں۔
علماء نے اپنے طور پر مدارس کھول رکھے ہیں اور کامل مشائخ نے اپنے اپنے
آستانوں پر بیعت کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ مزاراتِ اولیاء اور خانقاہوں
پر لوگوں کا ہجوم رہتا ہے اور بعض مقامات پر بغیر کسی اعلان اور اشتہار کے
اس قدر ہجوم ہوتا ہے کہ بڑی بڑی تنظیمیں اتنا آدم جمع کر کے نہیں دکھا
سکتیں۔ اگرچہ ان مشائخ کا آپس میں کوئی رابطہ نہیں اور ان کی محنت اور کاوش
بظاہر غیر منظم نظر آتی ہے مگر نتیجے کے طور پر دین ِاسلام کا بے پناہ کام
جاری و ساری ہے۔ البتہ ضرورت اس بات کی ہے کہ عرسوں کے موقع پر عوام کے
ہجوم سے فائدہ اٹھایا جائے اور انہیں مناسب وعظ اور نصیحت کی جائے۔
اس کے علاوہ بعض تنظیمیں بھی اپنے اپنے طریقہ کار کے مطابق خدمت ِدین میں
مصروفِ عمل ہیں۔ نیز تاجروں ، سیاحوں اور مبلغین وغیرہ کے ذریعے اتفاقی طور
پر یا منظم طریقے سے ہر طرح دین کی تبلیغ و ترویج جاری ہے۔ یہ سب کچھ جاری
رہنا چاہیے۔بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ دین کی تبلیغ کے خدائی بندوبست ہیں۔
محترم قارئین کرام:
آج کے دور میں ریڈیو ، ٹی وی اور انٹر نیٹ پر زبردست فحاشی پھیلائی جا رہی
ہے۔ اگر مسلمانوں کو پوری دنیا کی سطح پر کنٹرول حاصل ہو جائے تو بلاشبہ
میڈیا کی خرابیوں کی اصلاح کر دی جائے اور ناقابل ِاصلاح اجزاء کو جڑھ سے
اکھاڑ دیا جائے۔ لیکن آج ہم جن حالات سے دو چار ہیں ان حالات میں علماء کو
کسی بھی میڈیا پر دین کی تبلیغ کرنے میں پیچھے نہیں رہنا چاہیے ورنہ یہ
میدان کفار مار لیں گے اور فحاشی کو کھلی چھٹی مل جائے گی۔ ہر قسم کے میڈیا
پر علماء و مشائخ انفرادی اور تنظیمی طریقے سے کام کر رہے ہیں ، فرضِ کفایہ
کی ادائیگی جاری ہے اور علماء کو ایسی انفرادی کوششیں جاری رکھنی چاہییں۔
(۔۔۔۔)۔ دین کا درد رکھنے والے ذمہ دار علماء کو چاہیے کہ اپنے اپنے وسائل
کی حد تک اپنے اپنے علاقوں میں ان موضوعات پر لوگوں کی اصلاح کی طرف خصوصی
توجہ فرمائیں۔
(۔۔۔۔)علماء کے لیے لازم ہے کہ اپنی معلومات میں وسعت پیدا کریں اور اپنے
علم کے مطابق عمل کی طرف توجہ دیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ اِنَّ مِنْ اَشَرِّ
النَّاسِ عِنْدَ اللّٰہِ مَنْزِلَۃً یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عَالِمٌ لَا
یَنْتَفِعُ بِعِلْمِہٖ یعنی قیامت کے دن اﷲ کے نزدیک سب سے شریر آدمی وہ
عالم ہو گا جس نے اپنے علم سے فائدہ نہ اٹھایا(دارمی ، المستند صفحہ١٠١)۔
واضح رہے کہ علم ، تقریر ، تدریس ، تصنیف اور مناظرے سے تکبر پیداہوتا ہے
اور یہی اﷲ کریم کے ہاں مبغوض اور ناپسندیدہ ترین مرض ہے۔ لہٰذا علماء پر
لازم ہے کہ اپنے زمانے میں کسی اہل شخصیت سے تربیت حاصل کرنے اور اپنی
روحانی اصلاح کرانے کی طرف خصوصی توجہ دیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ اَلَا
اِنَّ شَرَّ الشَّرِّ شَرُّ الْعُلَمَآءِ وَاِنَّ خَیْرَ الْخَیْرِ خَیْرُ
الْعُلَمَآءِ یعنی خبردار بے شک سب سے بڑا شر شریر علماء ہیں اور سب سے بڑی
بھلائی اچھے علماء ہیں(رواہ الدارمی ، المستند صفحہ١٠١)۔ عالم کی پہچان یہی
ہے کہ وہ اﷲ سے ڈرتا ہے اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ
الْعُلَمَآئُ(فاطر:٢٨) اور جو اﷲ سے نہیں ڈرتا وہ جاہل ہے۔ سیدنا ابن ِ عمر
رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ کوئی شخص اس وقت تک عالم نہیں بن سکتا جب تک
اپنے سے اوپر والے سے حسد نہ چھوڑ دے اور نیچے والے کو حقیر سمجھنا نہ چھوڑ
دے اور اپنے علم کے ذریعے دنیا کمانا نہ چھوڑ دے۔ (دارمی ، المستند
صفحہ١٠٠)۔ عالم کی شناخت کے لیے یہی پیمانہ ہے۔
(۔۔۔۔)۔ ثانوی تعلیم کے طور پر اہلیت رکھنے والے طلباء کو صرف و نحو کے
بنیادی قواعد اور ''المستند'' پڑھا دی جائے تو کافی ہے۔ کسی خطیب یا پیر کے
پاس کم از کم اس قدر تعلیم کا ہونا ضروری ہے۔
(۔۔۔۔)۔اعلیٰ تعلیم کے لیے مروجہ درسِ نظامی پاس کرنا ضروری ہے۔ اس نصاب
میں ضروریاتِ زمانہ کے تحت خود علمائے کرام ردو بدل کر دسکتے ہیں لیکن ہر
کس و ناکس اور خصوصاً حکومت کو اس میں انگشت زنی کی اجازت نہیں دی جا سکتی
کہ یہ ہر کسی کے بس کا کام نہیں۔
ممکن ہے کہ میری کئی باتیں آپ کو نئی لگیں اور آپ کی فکر سے قدرے قریب نہ
ہوں لیکن ان پر غور ضرور فرمائیے گاکہیں ایسانہ ہو کہ ہم بھڑ چال میں اپنی
آئندہ نسلوں کو اسلام پر شب خون مارنے والے درندوں کی نظر کردیں ۔یہ بار
مجھے اور آپ ہی کو اُٹھانا ہے یہ مطلع ،یہ ابر آلود فضاؤں کو ہمیں ہی فلٹر
کرنا ہے ۔ہوشیارہوجائیے اور اپنے حصّے کا کام کر گزرئیے ۔اللہ ہم سب کا
حامی و ناصر ہو
|