امن کا نوبل انعام ملالہ کا ملال بن گیا

دشمن میرے جسم کو ختم کر سکتے ہیں لیکن میرے خوابوں کو ختم نہیں کر سکتے۔ ملالہ

پاکستان کی تاریخ میں ملاملہ یوسف زئی کا نام بہادری، روشن خیالی، اور بچوں کی تعلیم کے لئے دنیا بھر میں ایک علامت بن گیا ہے۔ بے نظیر بھٹو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان کی وزیراعظم بن کر قوم کی خدمت کرنے کی خواہاں ملالہ یوسف زئی دنیا میں امن نوبل پرائز کے لئے نامزد ہونے والی کم عمر خاتون ہیں۔ اس کم عمری میں دنیا میں انھوں نے جو شہرت پائی ہے وہ کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ ان ایک اعزاز یہ بھی ہے کہ انھوں نے اس کم عمری میں دنیا کے سولہ بڑے ایوارڈ حاصل کئے ہیں، اقوم متحدہ کے اجلاس سے خطاب کیا ہے۔ملالہ یوسف زئی امن کا نوبیل انعام نہیں جیت سکیں، ایوارڈ کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام کرنے والی تنظیم کو دے دیا گیا۔ اس حوالے سے تجزیہ کاروں اور عوام کی رائے ہے کہ ملالہ نے انعام نہیں جیتا لیکن وہ پوری دنیا جیت چکی ہے، گل مکئی ایوارڈز سے بہت بلند ہے، جس نے دنیا میں پاکستان کا مثبت تاثر مضبوط کیا۔ نوبل امن انعام انھیں نہ مل سکا،لیکن یہ بھی عجیب بات ہے کہ ساری دنیا کا اس بات کا ملال ہوا کہ ملالہ کو یہ انعام کیوں نہیں دیا گیا۔ نوبل انعام کے اعلان سے چند گھنٹے پہلے انھوں نے امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ پاکستان کی وزیراعظم بننا چاہتی ہیں۔ پہلے ان کا خیال تھا کہ وہ ڈاکٹر بنیں ۔ لیکن اب وہ سیاست میں آنا چاہتی ہیں۔ گیارہ اکتوبرکا دن ملالہ یوسف زئی کے لئے اہم ترین ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لئے بھی تاریخی اہمیت کا حامل تھا۔ ملالہ نوبل انعام نہیں جیت سکیں۔ لیکن، کروڑوں جیت لئے ہیں۔ اتنے دل شاید انہوں نے بھی نہ جیتے ہوں جنہیں امن کا نوبل ملا ہے۔صدر براک اوباما اور امریکی خاتون اول، مشیل اوباما نے اس دن اوول آفس میں ملالہ یوسفزئی سے ملاقات کی اور پاکستان میں بچیوں کی تعلیم کے سلسلے میں ملالہ کی سچی لگن اور قابل تقلید جذبے کے ساتھ کی جانے والی کوششوں پر اْن کا شکریہ ادا کیا۔جہاں ساری دنیا میں ملالہ کے نوبل انعام نہ ملنے پر رنج اور افسوس تھا ۔ وہاں تحریک طالبان کو اس بات کی خوشی تھی۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا موقف ہے کہ ملالہ یوسف زئی اسلام کے خلاف اور ایک سیکیولر لڑکی ہے اور ملالہ یوسف زئی کو امن کا نوبل انعام نہ ملنے پر انہیں بہت خوشی ہے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اﷲ شاہد کا کہنا تھا کہ ملالہ یوسف زئی نے ایسا کچھ نہیں کیا کہ اسے امن کا نوبل انعام دیا جاتا، امن کا نوبل انعام ایسے مسلمان کو ملنا چاہیئے تھا کہ جس نے اسلام کی سر بلندی کے لئے خدمات انجام دی ہوں ۔ لیکن شائد طالبان یہ بات نہیں جانتے کہ اسلام کی سربلندی کے لئے کام کرنے والوں کو نوبل انعام دینے میں مغرب کیوں دلچسپی لے گا۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو بھی ملالہ یوسف زئی کو نوبیل امن انعام نہ ملنے پر مایوسی ہوئی۔ وہ کہتے ہیں کہ نوبیل انعام کیلئے ملالہ کی نامزدگی پوری پاکستانی قوم کیلئے باعث فخرہے۔ ملالہ پاکستان کی بیٹی ہے۔ امریکا میں پاکستان کی سابق سفیر ملیحہ لودھی نے کہا ہے کہ امن کا نوبیل انعام سیاسی بنیادوں پر دیا گیا ہے۔ بختاور بھٹو زرداری نے ملالہ کے نام اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ نوبیل کو چھوڑیں، وہ ملالہ کو وزیراعظم دیکھنا چاہتی ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی نے کہا ہے کہ ملالہ نے دشمن کو اتنا خوفزدہ کردیا کہ وہ اب بھی اس کو مارنے کی دھمکیاں دے رہا ہے، ملالہ پر پختونوں اور پوری قوم کو فخر ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ قوم کی بیٹی ملالہ یوسف زئی کو امن کے نوبیل انعام کیلئے نامزد کرنا ہی پاکستان کیلئے فخر کی بات ہے، ملالہ نے گھٹن زدہ ماحول میں علم کی شمع روشن کی۔ ملالہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہرشخص حالات کی بہتری کے لئے خود آگے بڑھنے کے بجائے دوسرے کا انتظار کرتا ہے لیکن وہ ملک کی تقدیربدلنے کے لئے سیاستدان بننا چاہتی ہیں۔ جہاں ان کی کوشش ہوگی کہ ملک میں تعلیم مفت ہو اور اسے لازمی قرار دیا جائے اور انہیں یقین ہے کہ ایک دن آئے گا جب پاکستانی عوام کو ان کے حقوق ملیں گے، ملک میں امن ہوگا اور ہر بچہ اسکول جا ئیگا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں فخر ہے کہ وہ پختون ہیں اور انہوں نے اب بھی پختون روایات کو برقرار رکھا ہے۔ملالہ کو دنیا بھر کی اہم شخصیات کے پیغامات مل رہے ہیں۔ ملکہ برطانیہ الزیبتھ نے بھی گل مکئی ملالہ یوسف زئی سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی ہے۔ اور ملالہ یوسف زئی کو ملاقات کیلئے شاہی محل آنے کی دعوت د ی ہے۔ شاہی خاندان کے ترجمان کے مطابق ملکہ برطانیہ الزبیتھ ملالہ یوسف زئی کی بہادری اور لڑکیوں کی تعلیم کیلئے اس کی جدوجہد سے بہت متاثر ہوئی ہیں۔ جس پر انہوں نے ملالہ یوسف زئی کو برطانوی شاہی محل میں دعوت پر مدعو کیا ہے۔ ملالہ یوسف زئی اس سال کے امن کے نوبل انعام کے لیے پسندیدہ ترین شخصیت تصور کی جارہی تھی۔ اور امید کی جارہی تھی کہ رواں سال ملالہ امن کا نوبل حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گی۔ نوبل پیس پرائز کمیٹی کے سربراہ تھوربجورن جگلینڈ کا کہنا تھا کہ انہیں امن کے نوبل انعام کے 259 امیدواروں میں ملالہ یوسف زئی اس انعام کی سب سے زیادہ حق دارنظرآتی ہیں۔ ملالہ کو بچوں کے عالمی امن ایوارڈ 2013 سے بھی نوازا گیا ہے، جبکہ تعلیم کے فروغ کے لئے ملالہ فنڈ بھی قائم ہوچکا ہے جس میں سب سے پہلے رقم اقوام متحدہ کی خیرسگالی کی سفیر انجلینا جولی نے جمع کرائی تھی، ملالہ یوسف زئی کے نام پر فنڈ کے قیام کا مقصد دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی کے لئے اقدامات کرنا ہے۔ ملالہ یوسف زئی کا اقوام متحدہ کی یوتھ اسمبلی سے خطاب بھی اس ملک کا نام سربلند کرنے کا سبب بنا ہے۔ ملالہ یوسفزئی کو ان کی سولہویں سالگرہ پر اقوام متحدہ میں نوجوانوں سے خصوصی خطاب کی دعوت دی گئی تھی۔اس موقع پر ملالہ کا کہنا تھا۔تعلیم دنیا کے ہر بچے کا بنیادی حق ہے۔قلم اور کتاب کے ذریعے دنیامیں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔انہوں نے کہااسلام امن کا مذہب ہے۔ملالہ کا کہنا تھاطالبان کا حملہ فروغ تعلیم کے لیے ان کے عزم کو متزلزل نہیں کرسکا۔انہوں نے کہاانتہا پسند قلم اور تعلیم کی طاقت سے خوفزدہ ہیں۔ملالہ نے کہاوہ خود پرحملہ کرنے والے طالبان سے بھی نفرت نہیں کرتیں۔ ملالہ کا کہنا تھاوہ قائداعظم، مارٹن لوتھرکنگ اور مدرٹریسا کی پیروکار ہیں۔ ملالہ نے کہا کہ بے نظیر بھٹو شہید کی شال اوڑ ھ کر خطاب کرنا ان کے لیے فخر کا باعث ہے۔اس سے پہلے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اپنے خطاب میں کہاملالہ فروغ تعلیم کے مشن کی چیمپئن ہے۔سابق برطانوی وزیراعظم گورڈن براؤن نے ملالہ کو سالگرہ کی مبارکباد میں کہا تھا کہ پوری دنیا ملالہ کے ساتھ ہے۔ ملالہ کی شہرت کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب اس نے گل مکئی کے نام سے بی بی سی میں ڈائری کے اوراقلکھے تھے۔ یہ اوراق کیا لکھے، گویا پوری ایک تاریخ رقم کردی۔ ایسی تاریخ جو پاکستانی معاشرے کے بہت سے پوشیدہ پہلووں کو سامنے لاتی ہے۔ملالہ یوسف زئی پاکستان کی کروڑوں لڑکیوں میں سب سے خوش قسمت ثابت ہوئی ہیں۔ صرف ایک سال میں انہوں نے وہ عالمی اعزازات اور شہرت حاصل کی جس کی لوگ عمر بھر تمنا کرتے ہیں۔ 9 اکتوبر، 2012ء سے 11اکتوبر 2013ء تک کی ایک سالہ مدت میں ان کا نام ساری دنیا میں گونجتا رہا۔

وہ دنیا میں جہاں جہاں گئیں، جس اسٹیج پر کھڑی ہوئیں وہاں ملالہ یوسف سے پہلے پاکستان کا نام پکارا گیا۔ لہذا، جو لوگ ملالہ پر تنقید کرتے ہیں وہ اتنا ضرور سمجھیں کہ پاکستان میں کئی سالوں سے موجود ’سخت ترین قحط‘ اور ’حبس کے موسم‘ میں ملالہ پاکستان کا ’سافٹ امیج‘ بن کر سامنے آئی ہیں۔ حال ہی میں ملالہ کی یادداشت پر مشتمل کتاب ’میں ملالہ ہوں‘ شائع ہوئی ہے جس میں انہوں نے 9 اکتوبر کے حادثے کا دکھ جن الفاظ میں بیان کیا ہے وہ انسان کا کلیجہ منہ کو لے آتا ہے۔وہ لکھتی ہیں، ’نو اکتوبر 2012ء ۔۔یہ وہ دن تھا جب ان کے ساتھ زندگی کا نہایت بھیانک واقعہ پیش آیا۔ وہ اپنے آبائی گھر سے وین کے ذریعے اسکول جانے کے لئے نکلی تھیں۔اسکول وین کا یہ سفر ابھی جاری ہی تھا کہ راستے میں ایک شخص نے وین کے ڈرائیور کو رکنے کا اشارہ کیا اور کچھ پوچھنے لگا کہ اسی دوران ایک اور شخص وہاں آگیا جس نے کپڑے سے اپنا چہرہ چھیاپا ہوا تھا۔ اس نے لڑکیوں کے قریب آتے ہی سوال کیا کہ ملالہ کون ہے؟‘

اس سوال پر وین میں موجود لڑکیوں نے ملالہ کی طرف دیکھا جو دراصل اس کے سوال کا خاموش جواب تھا۔ اس نے بندوق نکالی اور گولیاں برسانا شروع کردیں۔ فائرنگ کرنے والا شخص 20سال سے زیادہ عمر کا نہیں تھا۔ اس کی فائرنگ سے ملالہ، اس کی دو سہیلیاں بھی زخمی ہوگئیں۔ ایک گولی ملالہ کی آنکھ کے قریب سے ہوتی ہوئی سر میں پیوست ہوگئی۔اس گولی کی تکلیف ملالہ برداشت نہ کرسکی اور بے ہوش ہوگئی۔انہیں علاج کے لئے پہلے سی ایم ایچ پشاور لے جایا گیا جہاں آپریشن کے لئے ان کے سر میں لگی گولی نکالی گئی۔ اس کے بعد مزید علاج کے لئے راولپنڈی لے جایا گیا۔ لیکن، آخر کار سرجری کے لئے انہیں برمنگھم کے کوئن الزبتھ اسپتال لے جانا پڑا۔ملالہ کو اس واقعے کے چھ دن بعد ہوش آیا۔ ہوش آنے پر انہوں نے جو کچھ محسوس کیا اس کے بارے میں وہ اپنی کتاب میں لکھتی ہیں، ’بے ہوشی کے بعد آنکھ کھولی تو ذہن میں پہلا خیال یہی آیا کہ خدا کا شکر ہے کہ میں زندہ ہوں۔ مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ میں کہاں ہوں۔ مجھے بس یہ پتا تھا کہ میں اپنے ملک میں نہیں ہوں، کیوں کہ آس پاس موجود لوگ انگلش بول رہے تھے۔میں نے بولنے کی کوشش کی لیکن گردن میں لگی ٹیوب کی وجہ سے آواز نہیں نکل رہی تھی، بائیں آنکھ کی نظر ’بہت دھندلی تھی اور مجھے ہر کسی کی چار چار آنکھیں اور دو دو ناک نظر آ رہے تھے۔‘ میرے ذہن میں ہر قسم کے سوالات گھوم رہے تھے۔ میں کون ہوں؟ مجھے یہاں کون لایا ہے؟ میرے والدین کہاں ہیں؟ کیا میرے والد زندہ ہیں؟ میں بہت خوفزدہ تھی۔ مجھے صرف ایک بات کا احساس تھا کہ اﷲ نے مجھے نئی زندگی عطا کی ہے۔ ڈاکٹر نے مجھے حروفِ تہجی کا بورڈ دیا جس کی مدد سے میں نے ’کنٹری‘ اور ’فادر‘ کے ہجے کیے۔نرس نے مجھے کہا کہ میں برمنگھم میں ہوں لیکن مجھے کوئی اندازہ نہیں تھا کہ یہ کہاں ہے۔ نرسیں مجھے کچھ نہیں بتا رہی تھیں، حتیٰ کہ میرا نام بھی نہیں۔میرے سر میں اس قدر شدید درد تھا کہ انجکشن بھی اسے روکنے سے قاصر تھے، دائیں کان سے مسلسل خون بہہ رہا تھا اور محسوس ہو رہا تھا کہ چہرے کا دایاں حصہ مناسب طریقے سے حرکت نہیں کر رہا۔میں مسکرا بھی نہیں سکتی تھی۔ میں سوچ رہی تھی کہ اسپتال کا خرچ کون برداشت کرے گا، مجھے ڈر تھا کہ ڈاکٹرز مجھے اسپتال سے باہر نکال دیں گے کیوں کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ایک دن میں نے نرس سے پوچھا کہ میرے پیٹ پر یہ ابھری ہوئی چیز کیا ہے، اس کی وجہ سے مجھے اپنا پیٹ بھاری لگتا تھا۔ نرس نے جواب دیا کہ یہ تمہاری کھوپڑی کا اوپری حصہ ہے۔ یہ جواب سن کر میں ششدہ رہ گئی۔ میرے والدین حملے کے16 دن بعد برطانیہ پہنچے۔ اس دوران میں ایک دن بھی نہیں روئی، درد کی شدت سے تڑپتی رہی لیکن روئی نہیں۔ سب کچھ خاموشی سے برداشت کیا مگر والدین کو دیکھ کر میں اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکی اور ان سے لپٹ کر اتنا روئی کہ دل کا سب غبار نکل گیا۔یہ وہی دل خراش واقعہ ہے جس نے ملالہ کو کہیں کا کہیں پہنچا دیا۔ اس واقعے کے سبب ہی آج پوری دنیا ملالہ کو سلام کرتی ہے، دل میں بیٹھاتی ہے لیکن دوسری جانب ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ملالہ کیس تھانہ سیدوشریف میں درج کیاگیا تھا۔ لیکن، پراسیکیوشن نے نامکمل تفتیش کی بنا پرکیس واپس کردیا تھا۔ اس کے بعد اس کیس کی حتمی رپورٹ کبھی سامنے نہیں آئی۔ اس کیس کا فیصلہ کب ہوگا۔ ہوگا بھی یا نہیں کون جانے۔۔ لیکن، ملالہ نے اپنے مجرم کو معاف کردیا ہے۔ ایک انٹرویو میں جب ان سے پوچھا گیا کہ کیاوہ اس لڑکے سے بدلہ لیں گی جس پر اس نے حملہ کیا تھا تو ملالہ کا جواب تھا۔۔’’نہیں!!! وہ اس لڑکے کو سوئی کے برابربھی نقصان پہنچانے کے بارے میں نہیں سوچ سکتیں کیونکہ وہ امن اور معاف کرنے پر یقین رکھتی ہیں۔ بارہ اکتوبر کا دن ملالہ کی زندگی کا بدترین دن تھا تو گیارہ اکتوبر 2013ء کا دن ان کے ساتھ ساتھ پورے پاکستان کے لئے یاد گار ثابت ہوگا۔انہیں نوبل انعام نہیں ملا اس کے باوجود دنیا بھر میں انہوں نے اپنے چاہنے والے جس بڑی تعداد میں پیدا کئے ہیں۔۔جتنے زیادہ دل جیتے ہیں۔۔ان کی تعداد صرف ایک نوبل کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ ملالہ کا کہنا ہے، ’نوبل انعام کے لئے نامزد ہونا ہی ان کے لئے بڑا اعزاز تھا۔ اصل اہمیت اس چیز کی ہے کہ دنیا بھر سے لوگ انہیں سپورٹ کر رہے ہیں۔ امریکا، برطانیہ، پاکستان اور بھارت نے ان کو سپورٹ کیا۔۔۔ لگتا یوں ہے کہ مجھے پوری دنیا کے لوگوں نے نامزد کیا تھا۔‘
ملالہ کو ملنے والے عالمی اعزازات اور ایوارڈز کی فہرست میں
یورپی یونین کی جانب سے ملنے والا انسانی حقوق کا سخاروف ایوارڈ
ستارہ شجاعت
بچوں کا بین الاقوامی امن کا انعام
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے ’ضمیر کی سفیر‘
اردن کی ملکہ رانیا کی جانب سے ملنے والا گلوبل سٹیزن ایوارڈ
ہارورڈ یونیورسٹی کی جانب سے ہومینیٹیرین ایوارڈ
اقوام متحدہ کی جانب سے’ملالہ ڈے‘ کا انعقاد
ملالہ کو اپنی16ویں سالگرہ پر اقوام متحدہ میں خطاب کا موقع
ٹائم میگزین نے ملالہ کو 2012 کی موثر ترین شخصیات میں شامل کیا

ملالہ کی یادداشتوں پر مبنی کتاب ’آئی ایم ملالہ‘ کی اشاعت، سب ملالہ کی کامیابی کی داستان ہیں۔ گیارہ اکتوبر کو لندن میں صبح ہوتے ہی پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری نے ملالہ کو اپنی دعائیں بھیجیں۔ اور جیسے ہی یہ واضح ہوا کے امن انعام کسی اور کا ہوا تو بلاول نے ٹوئٹر پر ’وزیراعظم ملالہ یوسفزئی‘ کا نعرہ لگایا۔تھوڑی دیر میں ان کی بہنیں آصفہ اور بختاور بھی اس نعرے میں شامل ہوئیں جس کا ملالہ کی جانب سے جواب آیا کہ ’انشااﷲ اپنی رول ماڈل بینظیر بھٹو شہید کے نقش قدم پر‘۔اس دوران ہزارہا لوگوں نے کہا کہ انعام ملے نا ملے، ملالہ کروڑوں دلوں کی ملکہ ہیں۔اس سال نوبیل امن انعام کے لیے ریکارڈ 259 افراد کو نامزد کیا گیا تھا جن کے ناموں کو صیغہ راز میں رکھا گیا ہے لیکن سٹے بازوں کے نزدیک بھی ملالہ کو انعام ملنے کا امکان سب سے زیادہ تھا۔اس سال نوبیل انعام کی رقم 1.25 ملین امریکی ڈالر ہے۔ کراچی میں سول ہپستال کے قریب واقع ملالہ یوسف زئی سیکنڈری سکول کا نام گذشتہ سال ملالہ یوسف زئی سے منسوب کیا گیا تھا۔ یہاں وہ خود آئی تھیں اور یہاں اس سلسلے میں ایک تقریب بھی منعقد کی گئی تھی۔دو شفٹوں میں چلنے والے اس سکول کی ہیڈ مسٹریس کے دفتر کے ایک کونے میں ملالہ کی اس وقت کے صوبائی وزیر تعلیم پیر مظہر الحق کے ساتھ تصویر، بی بی سی میں گل مکئی کے نام سے لکھی گئی ڈائری اور بچوں کے حقوق کے حوالے سے انہیں ملنے والے اعزازات کی تفصیلات چھوٹے چھوٹے کارڈز پر تحریر تھیں۔اس سکول کی طالبات کے لیے ملالہ ایسی شہزادی نہیں جو مشکل سے نکلنے کے لیے بہادر شہزادے کی منتظر ہوتی ہے، لیکن وہ ماڈرن اینیمٹڈ سیریز کی ایسی کردار ہے جو تمام شیطانی قوتوں کے ساتھ خود لڑتی ہے۔نوبیل انعام کا معاملہ تو سال بھر کے لیے ٹل گیا لیکن پاکستان میں یہ بحث ابھی جاری رہے گی کیونکہ ایسے لوگ بھی ہیں جو ملالہ کو پیش آنے والے واقعات کو محض سازش سمجھتے ہیں۔ملالہ یوسف زئی کو قومی و بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں قوم کی بہادر بیٹی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔اسکولوں ، کالجوں اور گھروں میں اس کی نوبل انعام میں کایابی کے لئے دْعائیں مانگی جا رہی ہیں۔سوشل میڈیا بھی اس سلسلے میں کسی سے پیچھے نہیں۔بہت سوں نے ملالہ کو خراج ِ تحسین پیش کرنے کے لیے فیس بک پر اپنی پروفائل پکچر کی جگہ ملالہ کی تصویر ڈسپلے کر رکھی ہے۔شاعروں نے نظمیں لکھی ہیں۔ادبیوں نے مذمتی قراردادیں اپنے اسٹیٹس پر آویزاں کر رکھی ہیں۔بہت سوں کا خیال ہے کہ ملالہ کو باقاعدہ ’’قوم کی بیٹی‘‘ کے خطاب سے نوازا جائے۔اسے امن کا نوبل انعام دیے جانے کے حامی بھی بہت ہیں۔ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ملالہ پر حملے کو ایک الگ زاویے سے دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ایک صاحب نے لکھا ہے کہ ملالہ کی ’’گل مکئی ڈائری ‘‘ کا معمہ حل ہو گیا۔یہ ڈائری ایک غیرملکی ادارے کا مقامی نامہ نگار لکھتا رہا ہے۔چوتھی جماعت میں پڑھنے والی ایک بچی اوباما کے بارے میں کتنا جان سکتی ہے کہ اسے اپنا آئیڈیل قرار دے۔ایک کالم نویس نے ’’گل لالہ بمقابلہ ملالہ‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے کہ ’’ملالہ یوسف زئی پر حملے پر تلملانے اور آنسو بہانے والے ڈرامے بازو، کیا تمہیں وزیرستان میں ڈرون اور جیٹ حملوں میں شہید ہونے والی معصوم بچیاں دکھائی نہیں دیتیں۔ایک صاحب نے ملالہ کی ڈائری سے یہ جملہ بھی نقل کیا ہے ’’ برقعہ پتھر کے دور کی نشانی ہے ‘‘ یہ سوال بھی اٹھایا جاتا ہے کہ اگر ملالہ پر یہی حملہ کراچی میں ہوا ہوتا تو کیا اسے اتنی زیادہ کوریج ملتی ؟عافیہ صدیقی بھی تو قوم کی بیٹی ہے۔ اس پر ہونے والے امریکی مظالم پر خاموشی کیوں ؟ ڈرون حملوں اور لال مسجد میں شہید ہونے والی معصوم بچیوں کا ماتم کون کرے گا؟ بہت سے لوگ اسے بھی مغرب کی سازش کہتے ہیں اور کوئی کہتا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ملالہ یوسف زئی پر حملے کی آڑ میں کوئی اور کھیل کھیلا جا رہا ہو ۔ لیکن اس سب کے باوجود ملالہ نے پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔ اور وہ ہمارے بہتر مستقبل کی نشانی ہے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387490 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More