اکیسویں صدی کو دورِدانش و
بِینش(Age of Wisdom ) کہا جاتا ہے۔اس دور کا خاصہ یہ ہے کہ اس میں لوگ ہر
معاملے،نظریے،مسئلے اور مظاہر کو عقل (Reason )، استدلال(Rationale )،
منطق(Logic ) اور فلسفے(Philosophy )کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔اور حریت فکر
(Freedom of Thought )و اظہار رائے کی آزادی(Freedom of Expression ) اور
تنقید(Creticism) کو مکمل دل و جان سے تسلیم کرتے ہیں اور اسی نہج پر امور
ِانفرادی و اجتماعی کو دوام بخشتے ہیں۔آج دنیا میں وہی لوگ ،قومیں اور
معاشرے دورِدانش و بِینش میں رہ رہے ہیں جو عقل،استدلال،منطق اور فلسفے کا
جام نوش کر رہے ہیں۔اس کے برعکس وہ لوگ ،قومیں اور معاشرے جو منفی جذبات ،
اندھی تقلید، تعصب، تنگ نظری اور غصے و تشدد میں بہہ رہے ہیں وہ ابھی تک
Dark Ages یا پتھر کے دور میں رہ رہے ہیں۔عقل،استدلال،منطق اور فلسفہ وہ
سوتے ہیں جہاں سے دانش و بِینش،فہم،ادراک،حکمت اور بصیرت پھوٹتے ہیں۔جبکہ
منفی جذبات،اندھی تقلید،تعصب،تنگ نظری اور غصہ و تشدد پسندی ایسے دیمک کے
مانند ہیں جو عقل،استدلال،منطق اور فلسفے کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا کرتے
ہیں۔نتیجتاً انسان اور قومیں دن بدن زبوں حالی کا شکار ہوجاتے ہیں اور دنیا
کے مرکزی دھارے(Mainstream ) سے کٹ جاتے ہیں۔
ہمیں اس مظہر کو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ سوچنے کی ضرورت ہے کہ دنیا آہستہ
آہستہ دورِ دانش و بِنیش کی طرف جارہی ہے لیکن ہم اور ہماری طرح کی چند اور
قومیں اس سے کافی حد تک دور ہیں۔یہ امر اظہر من الشمس ہے کہ عقل ،استدلال،منطق
اور فلسفے کو اپنائے بغیر ہم قطعاً دورِدانش و بِینش کے دائرے میں شامل
نہیں ہوسکتے۔اس دور میں قدم رکھنے کے لئے ہمیں اپنی سوچ ،فکر اور رویوں میں
زبردست تبدیلی لانا ہوگی اور اپنے بچوں،طالبعلموں اور زیرِاثر لوگوں کو اس
سانچے میں ڈھالنا ہوگا۔اس ضمن میں مذہب اسلام نے اجتہاد کا تصور دیا ہے اور
اقبال نے اس پر عرق ریزی سے کام کیا ہے اور اسے عملی جامہ پہنانے پر زور
دیا ہے۔ جس کی دلیل ان کے مشہور خطبات اور ان کی تشرح پر مشتمل کتاب
’’فکرِاسلامی کی تشکیل نو Reconstruction of Islamic Thought ‘‘ ہے۔ اس کے
علاوہ ترقی پسند لکھاریوں کی تحریروں اور فلسفے کی کتابوں سے اس حوالے سے
زبردست روشنی ملتی ہے۔
یہ دور دورِ دانش و بِینش ہے جان لو
افکارِبد کو فکر کی چھلنی سے چھان لو
بھٹکے ہوئے ہیں آج بھی ظلمت کدوں میں ہم
یہ سچ ہے اشتیاق اِسے دل سے مان لو |