جمعہ کے روز دوپہر 12 بجے کی وقت
زہرہ اپنے کالج کر باہر نکلی اور پاس کھڑے ایک رکشے والے کو ہاتھ کے اشارے
سے بلا کر دھیمی سی آواز میں اسے اپنے گھر کا ایڈریس بتایا اور بڑے آرام سے
رکشہ میں بیٹھ گئی۔ ڈرائیور نے رکشہ اسٹارٹ کیا اور زہرا کے گھر کی طرف چل
پڑا․․․․․․․․․ ڈرائیور کی نظریں رکشے کے شیشے سے بار بار زہرہ کے معصوم اور
خاموش چہرے پر پڑتیں اور پھر ہٹ جاتیں․․․․․․․․․․ وقفے وقفے سے یہ سلسلہ بھی
رکشے کی طرح چل رہا تھا۔ زہرا بے سد اپنے گھر کے آنے کا انتظار کررہی تھی․․․․․․․․․․․
اس نے ایک مرتبہ بھی ڈرائیور کی للچائی ہوئی ہوس کی بھوکی نظروں کا کوئی
مطلب نہیں نکالا تھا۔
اسے نہیں معلوم تھا کہ ایک لمحہ بھر کے لئے ڈرائیور دکھنے والے یا شیطان
صفت یہ انسان اس کی زندگی میں تلاطم برپا کردے گا، اس کے ہنستے کھلتے چہرے
کو نیم مردہ کردے گا․․․․․․․․․․․ اور پھر وہ کچھ ہوا کہ جس کا بڑی کلاس کی
چھوٹی سی معصوم زہرا نے اپنے تصور میں بھی نہیں سوچا تھا ․․․․․․․․․․․۔ جب
اس کی آنکھ کھلی تو وہ کراچی کے امیر ترین علاقے ڈیفنس میں اپنی قیمتی ترین
چیز گنوا چکی تھی۔
نشے کی حالت میں زہرا اپنے ساتھ بیتے ناقابل سماعت جملوں کو مشکل سے جوڑ
جوڑ کر بتارہی تھی۔ نیم بے ہوشی کی حالت میں جب اسے ڈیفنس میں پھینکا گیا
تب وہاں سے ایک فیملی گزر رہی تھی، جنہوں نے زہرا کو دیکھا اور متعلقہ
تھانے کو اطلاع کی جس کے بعد پولیس نے زہرا کے والدین تک اس بات کو پہنچایا۔
یہ مختصر سی کہانی کراچی کے گنجان آباد علاقے نارتھ کراچی کی رہائشی 16
سالہ زہرا عباس کی ہے جس کو گزشتہ روز کالج سے گھر جاتے ہوئے رکشہ ڈرائیور
نے گھر چھوڑنے کی بجائے زیادتی کا نشانہ بناڈالا۔ اگرچہ زہرا اور اس کے گھر
والوں کی جانب سے جاری کردہ بیانات میں لفظ زیادتی کا کہیں تذکرہ نہیں آیا
ہے تاہم میڈیا پر چلنے والی چند خبروں کی نتیجے میں اس لفظ کو مبینہ کے
ساتھ لکھا جاسکتا ہے۔
بچیوں کے ساتھ زیادتی کے یہ کیسز دن بدن بڑھ رہے ہیں۔ اگر بات ملک کی سطح
پر کی جائے تو ان کیسز کی تعداد اب بڑی حد تک بڑھ چکی ہے تاہم خطے کی سطح
پر ہندوستان صف اول میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ہندوستان کے بارے میں وہاں کی فلم
انڈسٹری میں ایک جملہ بڑا مشہور ہے اور وہ ہے ’’یہاں کے لڑکے جیسے چھٹے
سانڈھ ہیں‘‘۔
خیر یہاں تو اپنی کشتی ہچکولے کھارہی ہے دوسروں کی بات کیا کرنی۔ زیادتی کے
کیسز کبھی لاہور میں ہوتے ہیں تو اس کے اگلے روز کراچی میں سامنے آتے ہیں۔
کبھی بچی کراچی سے اغوا ہوتی ہے تو ایبٹ آباد کے پہاڑوں میں اس کا وجود
ملتا ہے، کبھی فیصل آباد میں ننھی کلی کے ٹوٹنے کی آواز سنائی دیتی ہے۔
اغوا․․․․․․․․․ زیادتی․․․․․․․․․․ اور پھر لاش کا ملنا․․․․․․․․․․․ اب ڈراؤنا
خواب بنتا جارہا ہے۔ کراچی میں اغوا کو کرائم کی دنیا میں فائدہ مند
کاروبار کے طور متعارف کرایا جاتا ہے۔ یہاں کبھی اغوا برائے تاوان ہوتا ،
مگر پھر لاش ملتی ہے تو زیادتی کے نشان نمایاں ہوتے ہیں۔ بچیوں کا اغوا کیا
ہوتا ہے تو والدین کی جیسے نیندیں حرام ہوجاتی ہیں․․․․․․․․․ کیوں کے اغوا
کے بعد کوئی خیر کی خبر ملنے کی توقع کم ہی ہوتی ہے۔
آخر ایسا کب تک چلتا رہے گا․․․․․․․․․․؟ کہیں ہم دوبارہ جاہلیت کے دور میں
تو نہیں جارہے ہیں․․․․․․․؟ زمانہ جاہلیت میں بچیوں کو غیرت کے نام پر قتل
کیا جاتا تھا، بچیوں کی ولادت کو باعث زحمت اور نحوست جیسے القابات سے نواز
کر عورت ذات کی تحقیر کیا جانا معاشرتی بیماری بن چکا تھا۔ آج ایک بھائی
اپنی مسلم بہن کی عزت کے تحفظ کی بجائے خود ہی اپنے خونخوار پنجوں سے اس کے
گوشت کو بھنبھوڑتا ہے۔ عصمت و عزت کی پیکر معصوم بہن کا یہ بھائی اپنی بہن
کو سات پردوں میں دیکھنا چاہتا ہے مگر دوسروں کی عزت کو چورہائے میں نیلام
کردیتا ہے۔
کیا ہم نے سوچا کہ ایک بچی کی عزت اور عصمت کے تحفظ کی ذمہ داری کس کس پر
عائد ہوتی ہے․․․․․؟ ان چند جملوں کے توسط سے حکومتی ایوانوں کو مخاطب کرنے
کی بجائے میں خود سے کچھ باتیں کرنا مقصود ہے۔
ان مسائل کا حل سوچنے سے پہلے اگر ہم اسلام سے رہنمائی حاصل کریں تو شاید
ہمارے مسائل کا حل ان میں مل جائے گا۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ ’’بلاشبہ
عورت چھپانے کے لائق ہے۔ جب وہ گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اس کو تاکتا ہے
اور وہ ا پنے رب کی رحمت کے زیادہ قریب اس وقت ہوتی ہے جب وہ اپنے گھر کے
اندر ہوتی ہے‘‘۔ (ترمذی)
اس حدیث میں ان مسائل کا سب سے پہلے حل کا زکر کیا گیا ہے۔ پردہ عورت کی
شان ہوتا ہے۔ جب وہ خود کو ڈھانپ کر نکلتی ہے تو شیطانوں کے شر سے محفوظ
رہتی ہے۔ جبکہ والدین اور سرپرست اعلیٰ کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی
بچیوں کو اکیلے سفر کرنے پر مجبور نہ کریں۔ ان کے ساتھ اچھے انداز سے رہیں
، ان کی حفاظت کا جو ذمہ اﷲ تعالیٰ نے عائد کیا ہے اسے تندہی سے ادا کریں۔
والدین اپنے بچوں کی تربیت پر خوب توجہ دیں۔ جو بھی اس قسم کی حرکت کرتا ہے
آخر وہ کسی نہ کسی ماں کا جایا ہوتا ہے۔ کسی باپ کے شفقت کے نیچے پروان
چڑھتا ہے۔ والدین کیوں بھول جاتے ہیں کہ جن کو انہوں نے جنا ہے ان کی
اخلاقی تربیت کرنا بھی ان کی اولین ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ وہ اپنے بچوں
کو کیوں بہن کی شناخت کرنا نہیں سکھاتے․․․․․․․․․․؟ وہ کیوں نہیں بتاتے کہ
کسی کی عزت کا تحفظ دراصل اپنی بہن اور ماں کی عزت کی رکھوالی ہے۔
ایک ذمہ داری ان پڑھے لکھے بھائیوں کی بنتی ہے جن کی بہنیں اپنے بھائیوں کی
شفقت اور محبت کے سائے میں پروان چڑھنے کی بجائے خودی پر بھروسہ کر کے ہر
قدم اٹھانے پر مجبور ہیں۔ کتنے ہی ایسے بھائی ہیں جن کی غیرت اس وقت جاگ
جاتی ہے جب کوئی افسوسناک واقعہ رونما ہوجاتا ہے مگر اس سے قبل ان کی غیرت
ناجانے کہا چلی جاتی ہے جب وہ اپنے بھائی کو منتیں سماجتیں کر کے کام کا
کہتی ہیں۔ وہ ان سے ہاتھ جوڑ کر بازار سے چیز منگوانے کے ترلے کر رہی ہوتی
ہیں، وہ ان سے کہہ رہی ہوتی ہیں اسے ڈر لگتا وہ اکیلے گھر سے باہر جائے
لہٰذا تم اسکول، کالج یا یونیورسٹی تک چھوڑ کر آجاؤ۔ مگر اس وقت کسی بھائی
کا طاقتور جسم اسے جانے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔
اے بھائی! تم ہی ہو جس کی وجہ سے یہ سب کچھ ہورہا ہے۔ آج اگر تم یہ چاہتے
ہو کہ تمہاری بہن کو کوئی بری نظر سے نہ دیکھے تو اپنی نظر میں حیاء پیدا
کر۔ کیا کبھی سوچا ہے تونے کہ آج اگر ایک بہن اور ایک بیٹی کے ساتھ برا
ہوگا تو کل پوری نسل اپنی قسمت پر آنسو بہائے گی۔ |