حج اسلام کی حقانیت کا روشن ثبوت

قرآنی فیصلے چونکہ خالق کائنات کی طرف سے ہیں اس لیئے ٹھوس اور ناقابل تردیدہیں۔ دین اسلام اﷲ کا پسندیدہ دین ہے اور اسکے علاوہ تمام ادیان مردود ہیں۔ اسلام تعمیل احکامات اور سرتسلیم خم کرنے کا نام ہے۔ انسانی ہدائت کے لیئے سلسلہ انبیاء کرام علیہھم الصلوۃ والسلام انسانوں میں فکری وحدت پیدا کرنے اور پرسکون زندگی کے اصولوں کی تعلیم و ترویج کے لیئے تخلیق فرمایا۔ کائنات کے وجود سے اﷲ پاک کے ایک ہونے کااظہار ہوتا ہے۔ مثلا وہ فرماتا ہے کہ میں نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا انہیں ستاروں سے مزین کیا۔ سورج پیدا کیا جو بہت روشن اور اپنی حرارت سے تمہاری فصلوں کو پکاتا ہے۔ چاند اور سورج دونوں کو تمہارے کاموں کے سنوارنے پر لگا دیاہے۔ انسان اﷲ کے دیئے ہوئے علم سے سورج اور چاندسے جتنے چاہے کام لے۔کیونکہ یہ نوکر ہیں۔ آج تک کسی دیوی دیوتا یا یا کسی انسان نے انکے کاموں میں خلل نہیں ڈالااور نہ ڈال سکتا ہے۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو کائنات کی ہر چیز انسان کے لیئے بنائی گئی ہے۔ انسان ہی ان سے فائدے حاصل کرتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انسان اﷲ کو بہت ہی پیارا ہے۔ ہاں یہ حقیقت ہے کہ اولاد ماں باپ کو بڑی پیاری ہوتی ہے اورمگر ماں باپ کے اندر یہ جذبہ محبت اﷲ تعالی نے ودیعت فرمایا۔ اگر کسی کو کسی کے ساتھ محبت نہ ہوتو دنیا کا نظام مٹ جائے۔ جس رب نے ساری محبتوں کے لاسے قائم فرمائے اس نے خود بھی بندوں سے اپنی محبت کا تقاضا فرمایا۔ اس سے محبت کا طریقہ سکھانے کے اﷲ تعالی نے اپنے انبیاء کرام علیھم الصلوۃ والسلام کو بھیجا جنہوں نے اﷲ سے محبت کے طریقے ہمیں سکھائے۔ اور یہی اندازہائے محبت عبادات کی صورت اختیار کرگئے۔ مثلا سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے قرآن کریم کی سورۃ بقرہ میں ہے مفہوم: اور جب حضر ت ابراہیم علیہ السلام کو اسکے رب نے اپنے احکامات میں آزمایا تو وہ پورے اترے۔ ان میں سب سے پہلا مرحلہ تو وہ تھا کہ گھرانہ اور ساراماحول بت گری و بت فروشی میں پاکر اظہار نفرت کیا۔ آپ علیہ السلام کا یہ اسوہ حسۃ ہے کہ آپ نے ان لوگوں سے فرمایاکہ میں تم اور تمہارے بتوں سے بیزار ہوں میرے اور تمہارے درمیان اب دشمنی اور عداوت ہے جب تک تم ایمان نہیں لاتے۔ آپ تنہا ہونے کے باوجود عشق الہی میں یہ برداشت نہ کرسکے کہ کوئی میرے رب کا ہمسر بنائے تو آپ نے بت خانے کے تمام بتوں کا ستیاناس کردیا۔ جب بت پرستوں نے پوچھا تو آپ نے انہیں لاجواب کردیا یہ کہ کر کہ ان سے پوچھو تو وہ خود بولے کہ یہ نہیں بولتے۔ کافروں نے آپ سے انتقام لینے کییئے آگ میں ڈالا۔ جبریل امین علیہ السلام مدد کو آئے تو آپ نے فرمایا کہ میرا رب اگر میرے جلنے میں راضی ہے تو مجھے یہ منظور ہے۔پھر بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق اور عقل کا کیا وہ تو ابھی تھی محو تماشا لب بام۔ کافروں نے ہجرت پر مجبور کیا تو ہجرت فرمائی۔ انتہائی ضعیفی میں اﷲ نے فرزند ارجمند عطافرماتو دیا لیکن ساتھ ہی بیوی اوربچے کی فرقت کا حکم آگیا۔ کہاں ؟ مرکزکائنات بیت اﷲ شریف جو بے آب و گیاہ پہاڑوں میں گھرا مقام تھا وہاں اپنے نوزائیدہ بچے اور بیوی کو چھوڑا ۔ بیوی نے بس اتنا کہا کہ اﷲ کے نبی کیا آپ ہمیں حکم الٰہی کے تحت چھوڑ کر جارہے ہیں تو فقط سرہلایا ہاں۔ اﷲ اپنے جاں نثاروں کو ہلاک نہیں کرتا انہیں وہ عزت عطا فرماتا ہے جو کسی کے وہم و گماں میں نہیں ہوتی۔ رب کی پیاری بندی صفا اور مروہ کے درمیان دوڑی۔ بظاہر تو یہ دوڑنا پانی کی تلاش تھی مگر رب نے اسے عبادت بنادیا۔صاحبزادہ والا شان نے ایڑی ماری تو جنت کی نہر نکال دی۔ قیامت تک لوگ پیتے رہیں۔

پیارے نبی ﷺ نے فرمایا کہ یہ پانی مومن اور منافق کی پہچان ہے۔ مومن دل سے اﷲ کا فرماں بردار ہوتا ہے منافق دل سے منکر ہوتا ہے۔ مومن اس پانی کو کوکھ بھر کر پیئے گا اور منافق نہ پی سکے گا۔ کہنے کو پانی ہے مگر اس میں خوراک ہے۔ غیر مسلم اسے اپنی تجربہ گاہوں میں ٹیسٹ کرچکے ہیں۔ دوسرا پانی اگر اس میں ڈالا جائے تو اسکی خصوصیات کو بدل کر اپنے جیسا کرلیتا ہے۔ اب بیٹا جوانی کو پہنچنے والا ہے۔ رب کریم نے ایک اور آزمائش میں ڈالدیا۔ کہ اپنی قیمتی اور پیاری چیز ہمارے راہ میں قربان کرو۔ اونٹ قربان کیئے اور قربانیا دیں مگر پھر حکم آیا کہ جو سب سے زیادہ پیاری ذات ہے اسے ہماری راہ میں کردو۔ پھر دیر نہ کی اور بیٹے کو لے کر منیٰ کے ویرانے میں جاکر خواب کو پورا کرنے کا ارادہ فرمایا۔ شیطان نے متزلزل کرنے کی سعی ناتمام کی مگر سراپارضائے الٰہی اﷲ کے بندوں کے سامنے جل بھن گیا۔ بیٹے کے مشورے پر باپ نے چھری خوب تیز کی، بیٹے کو رسیوں سے باندھا، آنکھوں پر پٹی باندھی پھر اپنی آنکھوں پر بھی پٹی باندھی۔ یہ جملہ اہتمام کام کو احسن طریقہ سے سرانجام دینے کے لیئے کیا۔ اب چھر ی جو چلائی تو حکم ربانی آگیا۔ اے میرے پیارے ابراہیم علیہ السلام آپنے اپنے خواب کی سچی تعبیر کردی۔ بس کیجیئے ہوگئے امتحان۔ اس جنتی مینڈھے کو ذبح کردیں اور آج آپ نے تمام امتحانات کے اعلیٰ نتائج حاصل کرلیئے۔ تسلیم ورضا کی سند اور تمام انسانوں کی امامت کا تاج آپکے سر اقدس پر رکھا جاتاہے۔ سورۃ البقرۃ میں ہے مفہوم: میں آپکو تمام لوگوں کا امام بناتا ہوں۔ آج ہر کوئی حضرت ابراہیم علیہ السلام کا معتقد بنتا ہے۔مگر اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نہ یہودی تھے نہ نصرانی بلکہ وہ ایک اﷲ کی عبادت کرنے والے ہیں۔حج اور عمرہ کیا ہے؟ اﷲ کے پیاروں کی نشانیاں ہیں۔ طواف کعبہ سب انبیاء کرام علیھم الصلوۃ والسلام نے کیا۔ حضور اکر م ﷺ نے تعلیم امت کے لیئے اونٹنی پر سوار کر طواف کعبہ فرمایا۔ آپکے علاوہ کسی کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں جو ایسا کرے گا وہ بے ادب اور گستاخ ہوگا۔ حجر اسود کو سرور کون و مکاں ﷺ نے بوسہ دیا ۔ تو ساری امت بوسے دیتے چلی آرہی ہے۔ پیاری نورانی ایڑیوں کی برکت سے دستیاب آب زم زم خوب پیا جاتا ہے اور دنیاکے گوشے گوشے میں مسلمان اسے پہنچانے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ صفا و مروہ کے درمیان سعی نہ ہوتو عمرہ اور حج نہیں ہوتا۔وہ بھی تو اﷲ کی پیاری بندی کے آثار ہیں۔ آقائے کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے مناسک حج سکھائے ۔ منیٰ میں دو باپ بیٹا آئے اور رب کی رضا میں قربانی دی مگر آج لاکھوں مسلمان انکی تقلید میں قربانیاں پیش کرتے ہیں۔ تاجدارختم نبوت و رسالت ﷺ نے اپنے دست مبارک سے تریسٹھ اونٹ راہ خدا میں ذبح فرمائے۔ انسان کی عقل حیرت زدہ ہے کہ یہ کیسا اجتماع ہے، کیسے کیسے لوگ آئے ہیں، زبانیں مختلف ، اکھر مختلف، ان میں وہ ضعیف بھی ہیں کہ جنہوں نے عمر بھر اپنا پیٹ کاٹ کر یہاں آنے کے لیئے پیسے جمع کیئے۔ یہ چیختے چلاتے ہیں، توبہ و استغفار کرتے ہیں، زبانوں پر بآواز بلند پرسرور ہیبت آمیز کلمات ہیں اللھم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک۔ سب کی زبان میں وحدت ہے۔ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق احراق الدم میں مصروف ہیں۔ اﷲ کے درویش کئی روز سے دوچادروں میں تھے اب دوسرے لباس زیب تن کرکے اﷲ کی عبادت میں مصروف ہیں۔ شیطان تو بھاگ گیا۔ مایوس ہوگیا اب عرب میں اسکی عبادت نہیں ہوگی۔ مگر عشق الٰہی میں سرشار اﷲ کے بندے رسول ﷺ کے غلام اپنے نبی ﷺ کی سنت کے مطابق شیطان کو پتھر مارتے ہیں۔ برائی میں شیطان کی بڑی اہمت ہے کہ جہاں اس نے باپ بیٹے کو ورغلانے کی کوشش تھی اسے بھی اﷲ نے یادگار بنایا۔ ان حقیقتوں کو پانے والے مسلمانوں کو اپنے رب پر بھروسہ کرنا چاہیئے۔ جب واپس آؤ تو اسی رب سے اپنا رشتہ قائم رکھو جس سے چند روز بہت قریب کا تعلق رکھتے تھے۔ اگر ایسا ہوگا تو اہل ایمان دنیا پر غالب آئیں گے۔ جیسے قیصر و کسری سرنگوں ہوئے آج کی صلیبی ،یہودی اور ہندو طاقتیں اﷲ کے بندوں کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے ۔ حالات اس بات کے متقاضی ہیں اہل ایمان اب تاریخ کا سنہری باب لکھیں۔
AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 128246 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More