اڈیسہ کا طوفان ، تب اور اب

اڑیسہ اور اندھرا پردیش کے ساحلوں پرجو شدید طوفان ’فالین‘ تقریباً ڈھائی سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اتور کی شب ٹکرایاتھا، وہ پیشگی اطلاع کی بنیاد پر پختہ احتیاطی تدابیر کی وجہ سے بغیر کسی بڑے جانی نقصان کے بخیر گزرگیا۔کچے مکانوں کے تباہ ہوجانے، سڑکوں پر درختوں اور بجلی کی کھمبوں گرجانے سے جومالی نقصان ہوا، سو ہوا۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ سنہ ۱۹۹۹ء کے طوفان میں،جو شدت میں اس سے کم تھا، دس ہزار سے زیادہ افراد کی جانیں گئی تھیں ،جب کہ اس بار صرف ۲۲ کے مرنے کی خبر ہے۔ اس بڑے فرق کی ظاہری وجہ یہ ہے کہ اُس وقت کے وزیراعلا گردھر گومانگ نے محکمہ موسمیات کی اطلاعات پر احتیاطی تدابیر پر توجہ دینے کے بجائے جیوتشیوں کی رائے پر انحصار کیا، جنہوں کہہ دیا تھا ساحل سے ٹکرانے سے پہلے طوفان دو حصوں میں ٹوٹ کر بے اثر ہو جائیگا۔مرکز میں اسوقت این ڈی اے کی سرکار تھی۔ اس نے بھی کوئی توجہ نہیں دی۔ اس مرتبہ محکمہ موسمیات سے خطرے کی اطلاع ملتے ہیں وزیر اعلا نوین پٹنائک نے انتظامیہ کو مستعد کردیا۔ سیاسی تحفظات کو بالائے طاق رکھ کر وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ اور وزیر دفاع اے کے انٹونی کو فون کرکے مدد طلب کی۔ مرکز نے بھی بلاتاخیر کاروائی کی۔ ہنگامی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے فو ج کو مستعد کردیا گیا اور طوفان آنے سے دو دن پہلے ہی نیشنل ڈیزاسٹر منجمنٹ فورس(آفات کے وقت راحت کاکام کرنے والی خصوصی مرکزی فورس)کے عملے کو اڈیسہ پہنچادیا گیا۔ دونوں ریاستوں میں بارہ لاکھ سے زیادہ افراد کو طوفان آنے سے قبل محفوظ مقامات پر پہنچانے کا بڑا کارنامہ بڑی مستعدی سے انجام دیا گیا۔سرکاری کوششوں کی بدولت ماحول ایسا بنا کہ دولاکھ سے زیادہ افراد اپنے وسائل سے خود محفوظ مقامات پر چلے گئے۔ دوسری صبح طوفان کمزور پڑتے ہی،لوگوں نے گھروں کو واپسی شروع کردی۔ سڑکوں پر گرے ہوئے درختوں اور بجلی کے کھمبوں کو ہٹانے کا کام شروع ہوگیا اور شام تک ۹۰ فیصد سے زیادہ راستے کھول دئے گئے۔جزوی طور پر ٹرین سروس بھی بحال ہوگئی، بجلی کی بحالی کا کام جنگی سطح پر ہورہا ہے۔ لوگ اپنے کاروبار کی طرف متوجہ ہوگئے۔ بعض مقامات پر دسہرہ بھی حسب معمول منایا گیا۔ مرکزی حکومت کا تعاون اور ریاستی حکومت کی مستعدی اور احتیاطی پیش بندی لائق ستائش ہے۔ اس کے برخلاف جب سنہ ۹۹۹اء میں جیوتشیوں کی پیش گوئی کی خبریں پھیلیں اور وزیراعلا نے خود ان پراطمینان کرلیا تو نہ انتظامیہ نے لوگوں کو ساحلی علاقوں سے ہٹانے پر ایسی توجہ دی اور نہ لوگ خود جانے پر آمادہ ہوئے۔ نتیجہ تباہی کی صورت میں ظاہر ہوا۔ ان واقعات کی پیش نظر آپ کیا نتیجہ اخذ کرتے ہیں؟ یہ ہم آپ پر چھوڑے دیتے ہیں۔

مندر میں بھگڈر
اس کے برخلاف مدھیہ پردیش کے ضلع دتیا کے ایک مندر میں عقیدتمندوں کی عجلت پسندی اور سرکاری انتظامات کی کوتاہی کی وجہ سے ایک بڑا سانحہ پیش آگیا جس میں تقریباًسوا سو افراد مارے گئے اور ان سے زیادہ زخمی ہوگئے۔یہ مندر ایک دریا کے پاس ہے جس پر پل اتنا کشادہ نہیں کہ وجے دشمی جیسے موقع پر لاکھوں کا ہجوم اس سے آرام سے گزر سکے۔پولیس بندوبست ناقص تھا اور پل پر ٹریکٹر ٹرالی اورکاروں کے آمنے سامنے آجانے سے جام لگ گیا۔ اسی دوران یہ افواہ پھیل گئی کہ پل ٹوٹنے والا ہے، جس سے بھگڈر مچ گئی۔چند سال پہلے بھی یہاں حادثہ پیش آچکا تھا ،جس کے پیش نظر یہ ضروری تھا کہ تہوار کے موقع پردریا پر مضبوط عارضی پل بناکر ون وے ٹریفک کیا جاتا۔ یہ سراسر ریاست کی بھاجپا سرکار کی ناکامی ہے۔ الیکشن کے عین موقع پر اس انتظامی نااہلی سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے بھاجپا نواز ٹی وی چینلز پر یہ خبر اڑادی گئی کہ کانگریس نوجوان رائے دہندگان کوراغب کرنے کے لئے پرینکا گاندھی کوچناؤ میدان میں اتارنے کا منصوبہ بنارہی ہے۔چنانچہ اناًفاناًبحث کا موضوع بھگڈر کا مصدقہ سانحہ نہیں، بلکہ پرینکا کی غیر مصدقہ خبر بن گئی ۔

ملائم سنگھ کا خواب
یوپی میں یادو سرکار کی پے درپے ناکامیوں سے ریاست کے عوام پوری طرح بدظن ہوگئے ہیں۔ خصوصاً مظفرنگر اور شاملی کے دیہات میں منصوبہ بند مسلم کشی کے بعد مسلم رائے دہندگان پارٹی پر لعنت بھیج رہے ہیں۔ اس کے باوجود ملائم سنگھ یادو تیسرے مورچہ کے قیام اور اس میں اپنے لئے اہم مقام کا خواب دیکھ رہے ہیں۔سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ یہ خواب کس بنیاد پر دیکھ رہے ہیں؟ مجوزہ چوراسی کوسی پریکرما سے قبل ان کی ڈھائی گھنٹہ کی اشوک سنگھل سے ملاقات اور اس کے بعد اب یہ خبر کہ یادو سرکار ’سومناتھ کے طرز پر رام مندر کی تعمیر‘ کے منصوبہ پر غور و خوض کررہی ہے، اشارہ کررہی ہے کہ مظفرنگر میں فساد کراکر ریاست میں جو سیاسی فضا بنائی گئی ہے اس سے یادو خاندان کس طرح فائدہ اٹھانا چاہ رہاہے؟سونیا گاندھی کے خلاف سنگھیوں سے ساز باز کا انکشاف خو ایل کے آڈوانی کرچکے ہیں۔ وہ ایک مرتبہ بابری مسجد کی شہادت کے اہم ذمہ دارکلیان سنگھ سے ہاتھ ملاچکے ہیں۔ مودی بھی ان کے لئے اچھوت نہیں ہوسکتے۔ اہم بات یہ ہے کہ مودی بھی یادو برادری کی طرح اوبی سی ہیں۔ ’خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے مودی ،یادو۔‘

مظفر نگر کے فسادات کے بعد مغربی یوپی کے جاٹ اور گوجر رائے دہندگان میں اچانک بھاجپا کی طرف رغبت بڑھ گئی ہے اور کئی مقامی لیڈر اپنی اپنی پارٹیاں چھوڑ کر ٹکٹ کی چاہ میں بھاجپا کی طرف دوڑرہے ہیں۔اس کااصل نقصان چودھری اجیت سنگھ کے آر ایل ڈی کو پہنچنے کا اندیشہ ہے ۔ چودھری صاحب یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ جاٹ برادری کو مرکز میں رزرویشن کا وعدہ اگر یو پی اے نے پورا کردیا تو جاٹ پھر ان کے ساتھ آجائیں گے۔دیکھنا یہ ہے کہ مودی کے بخارکا چناؤ ہونے تک کتنا اثر رہتا ہے۔

مندر بنانے کا منصوبہ
یوپی سرکار نے ۱۴،اکتوبر کواعلا افسران کی ایک میٹنگ کے لئے ایک خط جاری کیا تھا، جس کا موضوع ’سومناتھ مندر کے طرز پر رام مندرکی تعمیر‘درج ہے۔یہ سرکلر ریاست کے ہوم سیکریٹری سرویش مشرا نے جاری کیا ، جو ایک سینئر آئی اے ایس آفیسر ہیں۔ میٹنگ کی صدارت ریاست کو پرنسپل سیکریٹری کو کرنی تھی۔اس لئے کسی بھول چوک کا کوئی سوال ہی نہیں ہوتا۔ اتفاق سے یہ سرکلر جو بعض ضلع افسران کوبھی بھیجا گیا تھا ،میڈیا میں لیک ہوگیا۔اس پر یادو سرکار نے یہ پھس پھسی صفائی دی ہے کہ سرکلر کا جو موضوع(سبجیکٹ ) لکھا گیا وہ غلط تھا، مگراس صفائی میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ میٹنگ آخر کس مقصد کے لئے بلائی گئی تھی؟ خبر میڈیا میں آجانے پر پہلے متعلقہ سیکشن آفیسر کو معطل اورمسٹر سرویش کا تبادلہ کیا گیا بعد میں ان کو معطل کردیا گیا۔ یہ معطلیاں تو چند روزہ ہوتی ہے۔حال ہی میں مشاہدہ کیا گیا کہ پہلے آئی اے ایس خاتون افسر درگا شکتی ناگپال کو معطل کرنے کا ڈرامہ کیا گیا اور پھر چپکے سے بحال کردیا گیا۔ اسی طرح چندروز میں یہ بھی بحال ہوجائیں گے۔ مگر مظفر نگر کے فساد اور اب رام مندر تعمیر کے اس خفیہ منصوبہ سے یادو سرکار پوری طرح بے نقاب ہوچکی ہے۔ حقیقت یہ ہے یادو خاندان اب یوپی کی سیاست میں سنگھیوں کی بی ٹیم کا کردار ادا کررہا ہے۔ ابھی اس نے اپنے پتے پوری طرح نہیں کھولے ہیں، لیکن مندر والے خط سے اس کے سمت سفر کا اندازہ ضرور کیا جاسکتا ہے۔

حاجی علیم کی اہلیہ کا قتل
گزشتہ بدھ(۹۔اکتوبر) بلند شہر سے بی ایس پی کے ایم ایل اے حاجی علیم چودھری کی تیسری اہلیہ ریحانہ کادہلی میں قتل ہوگیا۔ حاجی علیم ، اپنے بھائی کے ساتھ ایک سرکس چلاتے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق دونوں بھائی’ہسٹری شیٹر ‘ ہیں۔ ان کے خلاف غیر ضمانتی وارنٹ ہیں اور بی ایس پی لیڈر قتل اور عصمت دری سمیت کئی مقدمات میں مطلوب ہیں۔ ریحانہ سے حاجی علیم کی ملاقات ۱۹۹۰ء ایک میلے کے دوران ہوئی تھی، جس میں اس نے رقص پیش کیا تھا۔ریحانہ نے اسی سال اپنے دوسرے شوہر سے طلاق لے کر علیم سے شادی کرلی۔ علیم کے ڈراؤر ندیم کو پولیس نے قتل کے الزام میں گرفتار کرلیا ہے۔ علیم کی پہلی بیوی قمر جہا ں عرف کہکشاں سے دو بیٹوں دانش اور انس کی تلاش میں ہے۔ پولیس بیان کے مطابق ان کے یہ بیٹے ریحانہ سے اس لئے ناراض تھے کہ حاجی علیم ان کی ماں کو نظر انداز کرتے تھے اور دہلی میں جائداد بھی ریحانہ کے نام خریدی تھی۔ حاجی علیم چودھری نے اسلام میں ایک سے زیادہ شادی کی رخصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اگر قرآن کے اس حکم کو پیش نظر رکھا ہوتا، جو اس رخصت کے ساتھ ہی بیان کیا گیا’’اور اگر ڈر ہو کہ تم ان کے ساتھ برابر کا سلوک نہ کرسکوگے تو ایک پر ہی بس کرو‘ (سورۃ نساء: ۳)تو ان کے خاندان کو اس سانحہ کا سامنا کرنا نہ پڑتا۔دوسری شادی کرنے والے اکثر اس حکم عدل کے خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں، جو معاشرتی زندگی میں تو مسائل کا باعث ہوتا ہی ہے ،آخرت میں بھی جوابدہی مشکل ہوجائیگی۔اس واردات سے دو ہی دن پہلے حاجی علیم سفر حج پر گئے تھے، مگر واپس آنا پڑا۔ان لوگوں کے لئے یقینا مشکلات ہیں جو نہ دنیا کے قانون پر عمل ضروری سمجھتے ہیں اور نہ اﷲ کے قانون سے ڈرتے ہیں۔

ملالہ کی پذیرائی
ملالہ یوسف زئی کی جس طرح یورپی سیاسی حلقوں میں پذیرائی ہورہی ہے وہ حیرت انگیز ہے۔انہوں نے اپنے وطن خیبر پختونخواہ میں کوئی ایساکارنامہ انجام دیا تھا کہ ایسی پذیراتی کی مستحق گرانی جاتیں۔ا لبتہ وہ جنونی طالبان کے خلاف تعلیم نسواں مہم کی ایک علامت ضروربن گئی ہیں۔ ان کو برطانیہ کی رانی نے بکنگھم پیلیس میں مدعو کیا ہے جو ایک بڑا اعزاز ہے۔ ابھی ان کو ایک عالمی اعزاز یہ ملا کہ صدر امریکا نے ان کوا پنے خاندان کے مہمان کے طور پر اپنی سرکاری رہائش گاہ مدعو کیا اور ان کو ویسے ہی اعزاز اپنے بازو میں کرسی دی جیسی سرکاری معزز مہمانوں کو دی جاتی ہے۔ امریکا کی خاتون اول ہیں اوران کی بیٹی بھی اس ملاقات میں موجود رہیں۔ صدر اوبامہ نے ملالہ کی ستائش کی اور کچھ سوال بھی پوچھے۔ اس موقع پر ملالہ نے اپنے آبائی خطے پر امریکی ڈرون حملوں پر اپنا اختلاف درج کرانے ہمت کا مظاہرہ بھی کیا۔ ہمیں یہ دیکھ کرایک گونہ اطمینان ہوا کہ ملالہ نے اپنے خطے کی روائتی کلچر کو خیرباد نہیں کہا ہے۔ وہ ایک مسلم خاتون کی صور ت سا تر لباس اور سر سے چادر اوڑھ کر صدر اوبامہ کے ساتھ اس ملاقات میں بیٹھیں۔اس فوٹو کو اس دنیا نے بھی دیکھا ہوگا جو اسلامی اقدار سے خداواسطے کا بیر رکھتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس کا کیا اثر قبول کرتے ہیں۔ (ختم)

Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 163451 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.