پاکستانی عوام اپنے سنہرے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے
لئے قانون کے ساتھ ساتھ شعور و آگہی کا بھی سہارا لیں۔ ہمارا شعور خود یہ
فیصلہ کرے گا کہ بھلائی نظام کی پاسداری میں ہے نہ کہ نظام کی پامالی میں۔
آج ہمارے پاس نظام تو ہے لیکن ہمارا شعور انہیں برتنے کی صلاحیت سے کورا
نظر آتا ہے۔مثال کے طور پر مغرب کے ملکوں میں قانون کے ساتھ ساتھ شعور و
آگہی اور ڈسی پلین کا فقدان نہیں ہے اسی لئے یہ اقوام ترقی کی شاہراہوں پر
بُرا جمان ہیں۔ جبکہ ہمارے پاس نظام تو ہے مگر شعور و آگہی اور ڈسی پلین کی
شدید کمی ہے۔ اس جملے کے بعد آپ مغرب و مشرق میں فرق کا بخوبی موازنہ کر
سکتے ہیں۔ہمیں اپنے بُھولے ہوئے اعلیٰ شعور کی بحالی ناگزیر ہے کہ اصل میں
یہ عمدہ نظام نہیں ہوتا جو اعلیٰ شعور دیتا ہے۔ بلکہ یہ اعلیٰ شعور ہوتا ہے
جو عمدہ نظام دیتا ہے۔اور اسلام کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں دونوں سے بھرپور
حصہ دیا ہے۔ہمارا شعور تو یہ ہونا چاہیئے کہ دنیا جتنا ہمیں بدنام کرنے کی
کوشش کرتی ہے، ہم اتنے ہی عملی مسلمان بن کر اس کا جواب دیتے اور بتاتے ہیں
کہ دیکھو ! آفتاب پہ تھوکنے والوں کے چہرے پر وہ کیچڑ واپس کیسے پلٹی ہے۔
لیکن ہم اس شعور سے پوری طرح غافل ہیں اور یاد رہے کہ ہماری اس غفلت سے
دنیا کا بہت بڑا خسارہ ہوا اور ہو رہا ہے اس لیئے ہمارا ہوش کے ناخن نہ
لینا انسانیت اور ملک پر بہت بڑا ظلم ہے۔
واقعی اگر ہمارا شعور بیدار ہوتا تو پاکستان میں رول آف لا‘ کے ساتھ ساتھ
رول آف خودی‘ کی بھی حکمرانی ہوتی تو بدعنوانی کو اتنی شہ نہیں ملتی کہ
حکمران سے لے کر نچلے طبقے کے افسر شاہی تک محدوداور لامحدود کرپشن اُتر
آتی۔ یہ بدعنوانی، کرپشن سوچنے اور سمجھنے کی چیز نہیں بلکہ دیکھنے اور
محسوس کرنے کی چیز بن چکی ہے۔ اگر ہمارا شعور بیدار ہوتا تو ہم انتخابات
میں ایسے عناصر کو نہیں چنتے جو غریبوں کا ہمدرد ہونے کا دعویٰ بڑی آسانی
سے کرکے ہمیں سبز باغ دکھا جاتے ہیں۔ لیکن جب اقتدار کا تاج انہیں مل جاتا
ہے تو پھر رول آف خودی کی حکمرانی غائب ہو جاتی ہے۔اور رول آف مفاد‘ کی
حکمرانی شروع کر دی جاتی ہے۔کیا ایسے لیڈران جن کی پالیسی عوام الناس کے
بجائے مفاد پرستی ، آئی۔ ایم۔ ایف کی خوشنودی کے لئے ہو ، جس کا رویہ قد کے
حساب سے بدلتا ہو وہ رول آف لاء‘ کا حامل کہلا سکتا ہے؟ اگر نہیں تو اس کا
صاف مطلب یہی ہے کہ پاکستان جن لوگوں کے ہاتھوں میں ہے یا پہلے رہا ہے وہ
قانون پرور ‘ عوام پرور نہیں ہیں لہٰذا پچھلے چند ادوار کی حکومت بھی مفاد
پرست ہوئی۔ اگر یہ نتیجہ صحیح نہیں تو کیا آج تک کسی با اثر افراد کو ویزہ
لینے یا ڈرائیونغ لائسنس بنوانے کے لیئے اتنہی ہی تحریری یا عملی امتحانات
سے گزرنا پڑا ہے جتنا کہ آج ایک عام آدمی کو ان سخت مراحل سے گزارا جا رہا
ہے۔ عام آدمی کو اگر ان مراحل سے بچنا ہو تو انہیں سوائے رشوت اور جیب گرم
کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہوتا۔
کبھی کبھی ہوتا ہے نا کہ آپ بہت زیادہ مشکل میں گرفتا ہوتے ہیں اور اس سے
نکلنے کا کوئی بھی راستہ سجھائی نہیں دیتا۔ آپ ہر طرف سے لاچار اور بے بس
ہوتے ہیں۔ روز بروز زندگی کا گھیرا تنگ ہوتا جاتا ہے اور آپ کی خواہش ہوتی
ہے کہ کوئی ایسا ہو جو اس مشکل سے نکلنے میں آپ کی مدد کرے۔ یا آپ کی ہمت
بندھائے اور آپ کی ساری پریشانی، دکھ اور تکلیف کو سمیٹ لے اور آپ ہر
پریشانی سے آزاد ہو جائیں۔ تو آپ یقینا کرۂ عرض پر ایک ایسی ہستی کو تلاش
کرتے ہیں جو بے غرض محبت کرنے والی، بے شمار چاہتیں لٹانے والی اور آپ کے
ہر دُکھ کو سمیٹنے والی ہو تو بلا توقف آپ کو ’’ ماں ‘‘ یاد آتی ہے۔اسی طرح
جب اپنے لیئے، مادرِ وطن کے لئے جب ووٹ کا استعمال کرتے ہیں تو صرف یہی سوچ
کر ووٹ کا استعمال کرتے ہیں کہ فلاں ملک کو صحیح ڈگر پر چلا سکتا ہے، فلاں
ملک کو ترقی کی شاہراہ پر ڈال سکتا ہے، فلاں اس ملک سے کرپشن، بدعنوانی،
رشوت ، دہشت گردی، بے روزگاری جیسے انمٹ طوفانوں کو ختم کرسکتا ہے۔ مگر جب
آپ کا ووٹ استعمال ہو جائے تو یہ تمام خواہشات پورے نہ کیئے جائیں ، تو آپ
بلا شبہ شدید ذہنی تکلیف میں مبتلا ہو جاتے ہیں ، اور اس ملک میں تو یہ حال
ہو چکا ہے کہ غریب کو جینے کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دے رہا ہے۔ ہر بنیادی
اشیاء کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور ایک غریب کی مجموعی تنخواہ
صرف اور صرف آٹھ سے دس ہزار روپئے ہے۔کیا اس معاملے کو بھی حکمرانوں میں
شعور کی کمی سے گردانا نہیں جانا چاہیئے کہ انہیں سب کچھ معلوم ہے کہ
مہنگائی آسمان پر جا پہنچی ہے اور ہم ایک غریب کو صرف آٹھ ہزار روپئے
تنخواہ کی مَد میں دے رہے ہیں۔یہ کیسا رول آف لاء‘ ہے ، یہ کیسا رول آف
انصاف ہے‘ جس کی سمجھ حکمران طبقے کو نہیں آ رہی ہے۔ان حالات میں تو یہ شعر
ہی یاد پڑتا ہے کہ:
آگیا ہے آج میرے سامنے پھر وہ سلام
کرتا ہوں مزدور کی عظمت کو میں دل سے سلام
اس کی محنت سے لگے ہیں اس جہاں میں چار چاند
ہے اسی کے دم سے قائم ملک و ملّت کا نظام
آ ج شاید یہ موقع ہے کہ آپ (عوام) یہ دیکھیں کہ سیاست میں سیاست کے نام پر
کتنے مافیا، گھس آئے ہیں، اپنے کالے کرتوتوں کو چھپانے کے لئے کتنے ہی سیاہ
کرتوت لوگ اسمبلیوں میں پناہ لے چکے ہیں۔ یہ اپنی ناجائزدولت، زورِ بازو کے
ذریعے اسمبلی میں آ گئے ہیں، ان میں کتنے ہی جاگیر دار، سرمایہ دار، وڈیرہ
شاہی کے لوگ ہونگے۔ گو کہ ہمارے ملک میں جمہوریت کا عرصہ بہت کم رہا ہے اور
فوجی حکمران زیادہ قابض رہے ہیں ۔ اگر مگر کو چھوڑ کر شعور کی بات دیکھی
جائے تو ہمیں کہیں بھی ، کسی بھی سطح پر، کسی بھی مقام پر شعور و آگہی نظر
نہیں آتی جس کی وجہ سے آج ہم بیرونی دنیا کے مقابلے میں (یعنی کہ ترقی کے
مقابلے میں )پستی کی طرف ہی راغب نظر آتے ہیں۔اب وقت آگیا ہے کہ عوام سمیت
وہ تمام احباب جو ملک کا نظم و نسق چلا رہے ہیں سب مل کر ملک کی بہتری اور
عوام کی خوشحالی کے لئے شعور و آگہی کو بھی پروان چڑھائیں تاکہ یہ غریب
عوام ترقی کے سفر پر گامزن ہو سکیں۔
جب تک ہم خوابِ غفلت سے پوری طرح بیدار ہوکر اصل جمہوریت کو بحال نہیں کرتے
اس وقت تک ہم ملک سے کرپشن کو دور نہیں کر سکتے ہیں اور نہ ہی ہر جگہ قانون
اور حق کی بالا دستی، باطل کی شکست، انسانی تلون کی مغلوبیت، سچ کی جیت،
تخریب کار کی موت، تخریب گزیدہ کی حیات اور مفاد کی شکست اور عدل و انصاف
اور حق و مساوات سے جگمگا تا پاکستان دیکھ سکتے ہیں۔واضح رہے کہ زندہ قومیں
جس قدر معاشرے میں سب سے پہلے عام کرتی ہیں وہ یہی ’’ رول آف لاء‘ ‘ ہے اس
لیئے اگر ہمارے حکمراں ہمیں صحیح زندگی دینا چاہتے ہیں تو رول آف لاء کو
فکر و عمل دونوں لحاظ سے برت کر دکھائیں۔ کیونکہ ہمیں اگر اپنے ملک میں سے
ظلم و نا انصافی کو ختم کرنا ہے تو اس کے لیئے رول آف لاء کو سب سے پہلے
بڑا مقام دینا ہوگا۔ اس کے بغیر امن و انصاف کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر
نہیں ہو سکتا اور عوام شعور و آگہی کے ناخن لیں کہ اس کے بغیر نہ ہم قانون
کو صحیح طور پر برت سکتے ہیں اور نہ ہی خود کو ۔ کہ شعور و آگہی ، علم کا
وہ حصہ ہے جو انسان معرفتِ خودی بھی عطا کرتی ہے اور معرفتِ خدا وندی بھی۔ |