ہمارا سماجی رویہ!

کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے ہمارے ایک ادبی ذوق رکھنے والے بظاہر ایک ملنسار، بااخلاق، شاعر اور بڑے’’دانشور‘‘ سیکرٹری حکومت نے محض اس بنیادپراپنے ایک ’’چھوٹے‘‘ ملازم کی جواب طلبی کی کہ اس نے براہ راست کیوں ان کے دفترمیں آکر ان سے محوکلام ہونے کی جسارت کی۔اس نے سیکرٹری موصوف کے پی اے کے زریعے پیغام رسانی کیوں نہ کی۔حالانکہ وہ بے چارہ پی اے کی عدم موجودگی کی وجہ سے براہ راست اندرچلاگیاتھا۔

ہمارے ایک عوامی ایڈمنسٹریٹر اس بات کو انتہائی ناگواراوراپنی شان میں کمال گستاخی سمجھتے ہیں انہیں کسی ایسے نمبرسے کال آجائے جوان کے بیش قیمت موبائل میں سیونہیں ہے۔نمبرتوانہوں نے اٹینڈنہیں کرناکیوں کہ اگرکسی غریب نے کوئی کام بتادیاتو وہ کام نہیں کرسکیں گے اس لئے کہ وہ کام کرنا ہی نہیں چاہتے ،بس اسٹیٹس انجوائے کررہے ہیں،البتہ اس کالرکو جوکھری کھری انہوں نے سنانی ہیں اس سے ابلیس بھی پناہ مانگتاہے۔نمبرکسی کو چاہئیے تووہ میں دے سکتاہوں،پھرخودہی بھگت لیں۔شائدآپ اس بات کو بھی کوئی جرم نہ سمجھیں لیکن میرے نزدیک یہ ایک بڑاجرم ہے کہ آپ کسی سائل کوجوکسی دوردرازعلاقے سے اپنے بیسیوں کام چھوڑکرآیاہو،محض اس وجہ سے جھوٹ بول کر ٹال دیں کہ اس کا اسٹیٹس ایسانہیں ہے کہ وہ آپ کے ’’صاحب‘‘ سے ملاقات کرسکے۔اور اگروہ خوش قسمتی سے دفترتک رسائی حاصل کرلے اور صاحب موصوف جوبھی ہوں،(وہ ایک کلرک بھی ہوسکتاہے اور سیکرٹری بھی)۔محض اس باعث اس کو آئیندہ تاریخ دے دیں کہ آپ اپنے کسی دوست سے گپیں لگارہے ہیں یاپھر اخباربینی میں مصروف ہیں اوروہ سائل آپ کا جاننے والانہیں ہے یااس کے پاس کوئی تگڑی سفارش نہیں ہے۔بظاہریہ بہت معمولی سی بات ہے کہ آپ نماز جمعہ اداکرکے مسجدسے نکلتے ہوئے جلدی اور بے دھیانی میں کسی کے جوتوں کو مسلتے ہوئے گذرجائیں اورآپ کواحساس ہی نہ ہو کہ یہ بھی کوئی’’جرم‘‘ ہے،آپ کی نماز کس کام کی؟۔ہمارے ہاں ایک اور’’بڑاالمیہ ،سلام یامصافحہ ‘‘کرناہے۔کیوں کہ اب یہ ایک محض رسمی مجبوری بن کررہ گیاہے۔باہرسے آنے والااندروالوں کواورسوارپیدل کوسلام میں پہل کرے، یہ حکم اب (معاذاﷲ)دقیانوسی سی بات بن گئی ہے۔آپ آزمالیں،جب بھی آپ کسی ایسے ’’صاحب‘‘سے ملیں گے ،اولاًوہ پوراہاتھ نہیں ملائیں گے،ثانیاًوہ آپ کی طرف دیکھیں گے نہیں اورثالثاًوہ سلام کاجواب نہیں دیں گے،صرف آدھا ہاتھ ملانے کوہی اپنااحسان مانیں گے۔عموماً السلام علیکم کہنے کا’’رواج‘‘ختم ہوچکاہے اب صرف مصافحہ کرنے کو ہی سلام تصورکیاجانے لگاہے۔

بدقسمتی سے جس معاشرے میں صبح کے وقت قرآن اور نعت رسالت مآب ﷺ کی آوازآنی چاہیئے ،وہاں سے انڈیاکے فحش گانے سنائی دیتے ہیں۔ اسی کانتیجہ ہے کہ صبح سکول جاتے ہوئے عموماًبچے انڈیاکے گانے ہی گنگناتے ہوئے پائے جاتے ہیں،انہیں کوئی روکنے ٹوکنے ولابھی نہیں ہوتااوراگرکوئی غلطی سے کسی بچے کو منع کردے تو اس بچے کے بولنے سے پہلے ہی پاس سے گزرنے والے کوئی روشن خیال صاحب آپ کو ٹوک دیں گے کہ’’چل اومولوی،اپڑاں کم کر‘‘۔وجہ صاف ظاہرہے ،ہمارے بازاروں،ہوٹلوں،گھروں اورگاڑیوں میں یہی کچھ سنااور دیکھاجارہاہے،اب بچے بے چارے کیاکریں، انہیں ہم جوکچھ دکھااورسنارہے ہیں یقیناًوہ تو اسی کا ’’ورد‘‘ پکائیں گے۔

ماحول،معاشرے اور حالات کے ساتھ ساتھ ہمارے اجتماعی وانفرادی رویوں میں یہ جو’’انقلاب‘‘رونماہورہاہے اور پھریہ بڑی تیزی سے ہماری نئی نسل کو منتقل ہورہاہے،ہماری روشن خیالی کامنہ بولتاثبوت ہے۔مبارک ہو آپ روشن خیال بن رہے ہیں۔
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذراغورکریں
ہم اگرعرض کریں گے توشکائت ہوگی

Safeer Raza
About the Author: Safeer Raza Read More Articles by Safeer Raza: 44 Articles with 43342 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.