احوال جدید تدفین کا

سخت گرمی کا موسّم تھا، عموما ہمارے شہر کا موسم اتنا شدید نہیں ہوتا یعنی نہ سخت گرمی ہوتی ہے نہ سخت سردی. خلاف معمول آج اپریل کے دنوں میں ہی درجہ حرارت 42 ڈگری سے بھی اوپر جا پنہچا تھا. اسی لئے اس جدید تدفین کا عمل دیکھ کر ابتدا میں مجھے یہ سارا عمل گرمی کا پیش خیمہ لگا. لیکن جیسے جیسے یہ عمل وقوع پذیر ہوتا رہا میری حیرانگی میں اضافہ ہوتا چلا گیا. یہ واقعہ ایک پوش علاقے کا ہے. جہاں کے لوگوں کو یہ گمان ہے کہ وہ تعلیم یافتہ اور با شعور ہیں. اس گھرانے میں بلامبالغہ داڑھی والوں کی تعداد زیادہ ہے. میں نے دیندار لوگوں کا لفظ جان بوجھ کر استعمال نہیں کیا کیونکہ میں ہر داڑھی والے کو دیندار ماننے کو تیار نہیں ہوں. ہاں یہ اور بات ہے کہ دیندار شخص کو داڑھی والا ہونا چاہیے. یہ تمہید باندھنا اس لئے ضروری تھا کہ اس واقعہ کو لوگ کم علمی کا نام دیکرنظر انداز نہ کردیں.

یہ واقعہ ایک خاتون کے جنازے کا ہے. گھر کے باہر میت میں شرکت کے لئے آنے والے لوگ جمع تھے کچھ کا انتظار تھا. نماز ظہر کا وقت ہوچکا تھا. میت پہلی منزل پر تھی اور زینہ اتنا تنگ تھا کہ میت کو آسانی سے نیچے اتارنا بھی ایک مشکل مرحلہ بن رہا تھا. اس وقت مجھے اپنی مسجد کے ایک بزرگ کی بات یاد آرہی تھی جو اکثر فرماتے ہیں کہ گھر بناتے وقت یہ خیال لازمی رکھنا چاہے کہ انسان کو بیمار بھی ہونا ہوتا ہے اور مرنا بھی ضرور پڑتا ہے اس لئے گھر ایسا ہونا چاہیے کہ بیماری میں گھسٹ کر بھی اگر باتھ روم تک جانا پڑے تو وہ جاسکے اور زینے اتنے کشادہ ہوں کہ کسی بھی شخص کو چارپائی سمیت آسانی سے اتارا جاسکے -

خیر میت نیچے لانے کے بعد مسجد کی طرف چلی. مرحومہ کےبیٹے اور بھائیوں نے جنازہ اٹھانے کی ہمت کر ہی ڈالی چند قدم پرموجود مسجد کی محراب کی باہر میت کو رکھ کر سب مسجد میں جا چھپے. ارے بھئی نماز کی تیاری کے لئے. گرمی کی شدت اتنی تھی کہ جو لوگ عید کے عید یا پھر جنازے کے جنازے نماز میں ہوتے تھے انہوں نے بھی مسجد میں نماز پڑھنے میں ہی عافیت جانی.

نماز جنازہ مسجد میں ہونا چاہیے یا نہیں اس پرعلما کا اتفاق نہیں کچھ قائل ہیں اور کچھ نہیں نماز ظہر کے فورا بعد امام صاحب نے ہمت کرکے چند نمازیوں کے ساتھ مسجد کی محراب سے باہر قدم رکھا اور نماز جنازہ پڑھا دی. جیسا کہ کچھ لوگ نماز جنازہ کے بعد دعا کرنے کو بھی خلاف اسلام قرار دیکر اس وقت کوبھی بچانے کےقائل ہیں. امام صاحب نے بھی اسی کی تقلید فرمائی.

جو کچھ اقارب چہرہ دیکھنے سے رہ گئے تھے انکو چہرہ دکھایا گیا. ایک خاتون جنہیں پرانے زمانے کی یا پرانے عقائد و خیالات والی کہا جاتا ہے ہاتھ میں دو پرچیاں تھامے اپنے جیسے پرانے زمانے کی یا پرانے عقائد و خیالات والے قرابتدار کے قریب پہنچی اور کہا کہ موقع محل دیکھ کر یہ ایصال ثواب قبر پر پڑھ دینا. لوگ بقیہ نماز کے بعد اپنی اپنی ایئرکنڈیشن گاڑیوں کی طرف چل دیے ایک عدد بس کا بھی انتظام تھا غربا کے لئے اور وہ بھی شائد اس لئے کہ میت کے لئے کسی ایئرکنڈیشن گاڑی کا انتظام نہیں تھا. گھر کے افراد سمیت تمام ایئرکنڈیشن گاڑیوں کی طرف چلدیے اور میت ابھی تک بس میں رکھی جانے کی منتظر تھی ظاہر ہے جن غریبوں کے لئے بس جیسی عالیشان سواری کا انتظام کیا گیا تھا. کیا وہ میت کو بس پر سوار کرائے بنا بس کی عالیشان سواری پر براجمان ہوسکتے تھے. الله الله کرکے یہ عالیشان جنازہ قبرستان کی طرف چلا.

بس کا ایئرکنڈیشن گاڑیوں سے کیا مقابلہ وہ سب قبر کے قریب جا پہنچے تھے. بس میں موجود 20 ، 25 افراد میں سے اکثر بوڑھے. بچے اور بیمار تھے. قبرستان کے صدر دروازے کے باہر ہی بس والے نے اعلان فرمادیا تھا کہ بس اندر نہیں جائیگی. بس سے اتر کر بوڑھے. بچے اور بیمار قبرستان کے اندر چل دیے. بس سے آخر میں اترنے والے چند افراد تذبب کا شکار ہوکر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے. انہی میں سے ایک بوڑھے نے تو کہہ ہی ڈالا کہ ہم غریب ہیں تو کیا انکے مردے بھی ہم ہی اٹھائینگے اور وہ آگے بڑھ گئے. بات میں بہرحال انکی وزن تھا جو سب نے محسوس کیا. ان چند افراد نے شرمندگی کے ساتھ یا الله کی رضا کےلئے میت کو بس سے اتارا اورلیکر اندر چل پڑے. جہاں قبر کے قریب ہی ایک مزار کے سائے میں اہلخانہ سمیت، مزارات کا فیض نہ منانے والے بھی مزار کی دیوارکے ساۓ سے فیضیاب ہورہے تھے.یہ سارے ڈیڑھ ہوشیارجو پہلے سے قبر کے قریب موجود تھے. آگے بڑھے اور میت کی چارپائی پکڑ کر برابر والی قبر پر رکھدی. اسی دوران کسی پرانے زمانے یا پرانے عقائد و خیالات والے شخص نے کلمہ شہادت کی صدا بلند کی، جواب نہ ملنے پر اسے بھی احساس شاید ہوہی گیا تھا کہ وہ قبرستان میں ہے جہاں مردے ہی مردے ہوتے ہیں اور انکا جواب ہم سن نہیں سکتے. فورا ہی ایک اور آواز گونجی کسی کے پاس بڑا رومال یا چادر ہے. یہ گزرے وقتوں کی چیزیں تھیں بھلا کس کے پاس ہوتیں. پھر آواز ائی اٹھاؤ ایسے ہی اٹھاؤ. محرم حضرات کے ہوتے ہوئے بھی. چند نامحرم قبر میں میت اتارنے کے لئے اندر اترے. محرم داڑھی والے بھی تھے مگر شاید دین کی سمجھ نہ تھی یا ڈیڑھ ہوشیاری کا شکار تھے. واللہ اعلم. مرحومہ کا چہرہ الحمدللہ پہلے ہی قبلہ رو تھا. پھر بھی نہ جانے کیوں قبر کی دیوار کے ساتھ کروٹ کے انداز میں رکھا گیا. جیسے چہرے کو قبلہ رو کرنے کی کوشش ہو یا قبر میں گنجائش باقی رکھنے کےلئے ایسا کیا گیا. یہ بھی الله ہی جانے. لیکن اکثر لوگ اسکی وجہ نہ جان سکے.

جلدی جلدی قبر کو بند کیا گیا اور چند آیات اور مختصر دعا کی. پھراعلان کیا گیا. کہ ایصال ثواب کہیں سے بھی ہوسکتا ہے. لہٰذا سب لوگوں سے دعاؤں کی درخواست ہے کہ مرحومہ کے لئے دعاؤں کا اہتمام جہاں بھی ہوں وہیں کرتے رہیں. یہ اعلان بھی جدید معلوم ہوا. مرحومہ کے صاحبزادے نےہمت کر کے کہہ ہی ڈالا کہ کل بعد نمازعصرسوئم گھر پر ہوگا پھر کسی کے کہنے پر اضافہ کیا کہ ایصال ثواب کے لئے. اس کے بعد پرانے زمانے کی یا پرانے عقائد و خیالات والی خاتون کی پرچی پرلکھے ایصال ثواب کرنے کی خاطرایک گاڑی ان پرانے زمانے کی یا پرانے عقائد و خیالات والے چند لوگوں کے لئے چھوڑ کر سب اپنی ایئرکنڈیشن گاڑیوں کی طرف لپکے. اور یہ جا وہ جا. اسی طرح وہ بےبس لوگ جو کہ بس میں آئے تھے. وہ بھی بس میں جا بیٹھے. بس ڈرائیور کی آواز آئ سب آگئے تو چلیں پھر خیال آیا کہ ابھی تک میت کی چارپائی واپس نہیں آئ ہے. پھر دیکھا تو دو بیمار بزرگ وہ چارپائی اٹھاۓ ہانپتے کانپتے چلے آرہے ہیں.

اس تیز رفتار زندگی کا انجام اس جدید تدفین پر بھی ہوسکتا ہے شاید کچھ سال پہلے تک کوئی سوچ بھی نہیں رہا ہوگا کہ ایسا بھی ممکن ہوگا. اور مجھے ایک ایسا ہی واقعہ اور یاد آگیا جس میں ایک صاحب نے تعزیت پر کراچی سے پنجاب جانے کا خرچ اور قیمتی وقت بچانے کا ایک اور نسخہ دیا. پنجاب میں مرحومہ کے ایصال ثواب کی محفل کا آغاز ہوتے ہی ایک کال کراچی سے آتی ہے. مرحومہ کے فرزند کو اس ہدایت کے ساتھ کہ اسپیکر کھول کر جائے نماز پر جہاں ایصال ثواب کی محفل جاری تھی رکھ دو، میں یہیں سے فاتحہ پڑھ دونگا. واپسی پر دیگر اقارب سے موصوف گویا ہوے کہ دیکھا کیسا کام دکھایا وقت اور پیسہ بچانے کا کیسا طریقہ نکالا.

ایک صاحب کہنے لگے اب وہ وقت دور نہیں جب لوگ اپنے مردے ایمبولنس ڈرائیور کو دیکر کہیں گے کہ، گورکن کو مردہ دیکر دفن کرا دینا اور پھر یہ موبائل قبر پر رکھ دینا سب لوگ گھر پر سے ہی فاتحہ پڑھ دینگے. کیونکہ ایصال ثواب کہیں سے بھی ہوسکتا ہے گرمی بھی بہت ہے اور وقت بالکل نہیں.

یہ بھی غالب گمان ہے کہ امام صاحب کو بھی کھلوادیا جائے کہ جنازہ پڑھ کے مردے کو قبرستان روانہ کردینا کیوکہ نماز جنازہ فرض یا واجب تو ہے نہیں فرض کفایہ ہے ایک بھی پڑھ لے گا تب بھی ادا ہوسکتا ہے. تو پھر سب زحمت کیوں کریں. اب تو یہ سوچ کر ڈر لگتا ہے کہ لوگ میت کو کفن میں دیے جانے والے کپڑوں پر بھی ضیاں کا لیبل لگاکر اس پر بھی اعتراض نہ کر بیٹھیں. کہ مردے کو کپڑوں کی کیا ضرورت اسکی زندوں کو ضرورت ہوتی ہے. لہٰذا یہ سسٹم ختم ہونا چاہیے.

یہ جدت پسندی کا بھوت نہ جانے ہمیں کس عمیق گڑھے میں دھکیلے گا. اسکے ضرر سے ہم غیرمحسوس انداز میں غافل ہوتے جا رہے ہیں. فی زمانہ ضرورت سے زیادہ جدت پسندی ہمیں دین اور انسانیت سے دور کر کے کفر اور ذلت کی گہرایوں میں لے جا رہی ہے. عافیت اسی میں ہے کہ اپنے اسلاف اور دین کی طرف پلٹا جاے. اور ایسی فضول جدت پسندی کی آواز پر کان نہ دھرے جایئں. جو ہمیں کہیں کا نہ چھوڑے گی.الله کریم ہم سب کے ایمان اور حب اسلاف کی حفاظت فرمائے.

Abdullah Hasmi
About the Author: Abdullah Hasmi Read More Articles by Abdullah Hasmi: 2 Articles with 1106 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.