ہمارے ملک پاکستان میں غربت،بے روزگاری، جہالت، نا
انصافی، تعلیم کا فقدان، کرپشن، دہشت گردی، بیرونی قرضوں کا بوجھ، حکمرانوں
کی نااہلیوں، صوبوں میں نفرت اور بد امنی اور آبادی کے بڑھتے ہوئے سیلاب نے
ہمارے ملک کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہوئی ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو ہمارے سیاست دان عوام سے ووٹ، عزت اور مراعات لے کر عوام
کو کیا دیتے ہیں؟ ذلت و خواری، بھوک، مہنگائی، بیروزگاری، لا قانونیت، عدم
تحفظ، اناج کی کمی، علاج کی سہولتوں سے محرومی، تعلیم کا فقدان اور ٹیکسوں
کی بھرمار۔
ہر پاکستانی عجیب سے ذہنی تناؤ کا شکار ہو چکا ہے اور انسانیت نے ایسا روپ
دھار لیا ہے جو کہ کسی خطر ناک جنگلی جانور سے کم نہیں۔ لوگوں میں انسانیت،
اخلاقیات اور پیارو محبت دم توڑ چکی ہے۔ باپ بیٹوں کا گلا کاٹ رہا ہے، بیٹے
ماں باپ کو مار رہے ہیں، حقیقی بھائی ایک دوسرے کی جان کے دشمن بنے ہوئے
ہیں۔ قتل و غارت، لوٹ مار عام ہو چکی ہے۔ درندگی کی انتہا یہاں تک پہنچ چکی
ہے کہ درندہ صفت لوگ تین سے چار سال کی بچیوں کو اپنی شیطانی حوس کا نشانہ
بنا دیتے ہیں۔ ڈاکو دن رات دندناتے پھر رہے ہیں اور لوگوں کی جان و مال کو
ضائع کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ کرپشن اور رشوت ستانی کا بازار گرم ہے۔ اور
بدقسمتی کی انتہاء یہ ہے کہ ہمارے پالیسی میکرز ان کی پشت پناہی کرتے ہیں
اگر ہم زندگی کے کسی پہلو پر بات کریں تو ایسا لگتا ہے کہ ہم کسی جنگل میں
زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جہاں پر کوئی law & order نہیں ہوتا۔
یا رب! ہمارے ملک کے لوگ کس ڈگر پر چل رہے ہیں۔ اس وقت مجھے حکیم الامت
علامہ اقبال کا ایک شعر یاد آ رہا ہے۔
خدایا! یہ تیرے سادہ لوح بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے، سلطانی بھی عیاری
چاہے سیاست دان ہوں، گورنمنٹ کے آفیسرز ہوں یا کوئی پرائیویٹ عوام ہو،
اکثریت بے ایمان ہو چکے ہیں اور جس کا جہاں تک بس چلتا ہے وہ اس ملک کو
دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔
دوسری طرف ہماری عوام اس وقت مختلف مسائل کی دلدل میں پھسی ہوئی ہے۔ اور یہ
دلدل گہری سے گہری ہوتی جا رہی ہے۔ کوئی ایسا نہیں جو عوام کو اس دلدل سے
نکالنے کی کوشش کرے۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ ہماری عوام اس کی حقدار ہے
چونکہ ہمارے اندر محنت کرنے کا جذبہ ختم ہو چکا ہے اور ہاتھ ہلانے کے بغیر
ہم سمجھتے ہیں کہ ہر طرح کی نعمت ہمیں مل جائے ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارا
ضمیر گہری نیند سو چکا ہے اور بے ایمانی ہمارا فیشن بن چکا ہے۔ اگر کوئی
سرکاری ملازم ہے تو وہ رشوت کے بغیر کسی کا کام نہیں کرتا۔ پولیس جس کا
ماٹو عوام کی جان و مال کی حفاظت ہے وہ رشوت کے ساتھ ساتھ لوگوں کی عزت و
نفس کو مجروع کرتے ہیں۔ عدالتیں جہاں سے عوام کو انصاف کی امید ہوتی ہے
وہاں پر فیصلے رشوت، تعلق داری کے ساتھ ہوتے ہیں اور عدالتوں کے باہر انصاف
کی بولی لگائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ وکلا سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنانے
کے ماہر ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹرز اور نرسیں جو کہ دکھی انسانیت کی
خدمت کے لیے مامور ہوتے ہیں ، وہ اپنے آپ کو فراعون سمجھتے ہیں۔ اور
ہسپتالوں میں غریب لوگوں کی اتنی تذلیل ہوتی ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
ہسپتالوں میں کئی ایسے واقعات ہو چکے ہیں کہ اگر کسی مریض کے لواحقین
ڈاکٹرز یا نرسوں سے بات کرنے کی ہمت کریں تو اگر ڈاکٹرز یا نرسوں کو غصہ آ
جائے تو پھر لواحقین کو مریض کی لاش ہی لے کر جانی پڑتی ہے۔
دوسری طرف اگر ہم زندگی کی روزمرہ کی چیزوں کی طرف نظر دوڑائیں تو پاکستان
کی مارکیٹ میں اکثر چیزیں ملاوٹ شدہ ملیں گی۔ مثال کے طور پر ادویات جو کہ
لوگوں کی جان بچاتی ہیں، دو نمبر بنائی جاتی ہیں اس کے ساتھ ساتھ زرعی
ادویات میں اتنی ملاوٹ کی جاتی ہے کہ اگر کسی جاندار چیز کو وہ دوائی پلا
دی جائے تو اس کو کسی قسم کا اثر نہیں ہوتا۔ پھل جو کہ قدرت کی نعمت ہے اس
کو میٹھا کرنے کے لیے انجکشن لگائے جاتے ہیں۔ اکثر منرل واٹر کی کمپنیوں کے
پاس اپنے پلانٹ ہی نہیں ہیں جو کہ وہ پانی فروخت کر کے عوام کو لوٹ رہے
ہیں۔ آٹے میں ملاوٹ، دودہ میں پانی اور پوؤڈرکی ملاوٹ،دیسی گھی میں
ملاوٹ،ہوٹلوں اور قصاب کے پاس مردہ جانوروں کے گوشت برائے فروخت، پٹرول میں
ملاوٹ، موبائل آئل میں رنگ کی ملاوٹ، یہاں تک کے سگریٹ جو کہ مضر صحت ہوتی
ہے وہ بھی دو نمبر تیار کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ سرکاری عمارتیں اور سڑکیں
بھی ناقص میٹریل کی وجہ سے دو نمبر تیار کی جاتی ہیں۔ ان کو روکنے کی کوشش
تو کی جاتی ہے مگر پوری طرح قابو نہیں پایا جا سکا۔
میں سوچتا ہوں کہ ہمارے اندر پیارو محبت اور انسانیت کیوں دم توڑ گئی ہے۔
سارے معاملات پر نظر دوڑانے سے پتہ چلتا ہے کہ ہم رشوت، حرام خوری اور
ناجائز طریقہ کار سے مال و دولت حاصل کرنے کے ماہر ہو چکے ہیں اور یہ حقیقت
ہے کہ جس کسی کے حلق میں ایک لقمہ بھی حرام کا چلا جائے تو اس کا اور اس کے
بچوں کا مستقبل کبھی بہتر نہیں ہو سکتا۔ ہم چونکہ اکثریت ہی ایسے معاملات
میں جکڑ چکے ہیں جس کہ وجہ سے ہمارے اندر انسانیت نے دم توڑ دیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جب سیاست منافقت کا لبادہ اوڑھ لیتی ہے، جب عوام کی سادگی
فریب کھاتی ہے۔ جب سودوزیاں کا احساس مٹ جاتا ہے، جب اغراض کی کڑی دھوپ میں
محبت، خلوص اور یگانگت کے پھول مرجھا جاتے ہیں، جب ایک ہی صحن میں نفرت کی
بہت سی دیواریں کھڑی ہو جاتی ہیں۔ جب ہونٹوں پر خوف کے قفل لگ جاتے ہیں۔ جب
پشیمانی باعث تعزیر بن جاتی ہے اور جب رہبر، رہزن کا روپ دھار لیتے ہیں تب
خدا کا قہر ضرور نازل ہوتا ہے۔
مجھے کچھ عرصہ پہلے عرب امارات جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں پر مجھے دیکھ کر
بہت خوشی ہوئی کہ لوگ چاہے کوئی مسلمان ہے، ہندو ہے، سکھ ہے ، عیسائی ہے یا
یہودی ہے سب مل کر کھانا کھاتے ہیں اور آپس میں یگانگت کے ساتھ رہتے ہیں۔اس
میں کوئی شک نہیں کہ وہاں پر بہت عیاشی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ law &
orderکی مثال نہیں ملتی۔ مجھے میرے ایک دوست نے بتایا کہ عرب امارات میں
ایک قتل کا سراغ نہیں مل رہا تھا تو چند دنوں کے بعد انتظامیہ نے تمام
سویپرز کی میٹنگ بلائی اور قتل کے سراغ کو تلاش کرنے کی assignment سویپر
کو دے دی گئی۔ دوسرے دن کے بعد ایک سویپر نے قتل کا سراغ لگا کر پولیس کو
اطلاع کر دی۔ہمارے ملک میں وزراء اعظم کو قتل کر دیا جاتا ہے تو سالوں سال
گزرنے کے بعد قتل کی وجوہات معلوم نہیں ہوتیں۔
ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم گہری بلکہ نشے والی نیند سوئے ہوئے ہیں۔ اگر ہم
ماضی میں دیکھیں تو ہمارے لیڈر لیاقت علی خاں کو گولی مار کر شہید کر دیا
گیا۔پاکستان کے دو ٹکڑے کر دیے گئے لیکن ہم سوتے رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو
عوام سے چھین لیا گیا، جنہوں نے اس ملک کے لئے ایٹم بم اور چین کی دوستی کا
تحفہ دیا اور ہم اپنی نیند سے بیدارنہ ہوئے۔ ہماری ایک عظیم لیڈر محترمہ بے
نظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا۔ جن کے قاتلوں کا
ابھی تک پتہ نہیں چل سکا۔ عوام کے نام پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا گیا اور قوم
کو بھکاری بنا دیا گیا۔ اعوام پر ٹیکسوں کی بارش کر دی گئی مگر ہم اپنی
نیندکی مستی میں ڈوبے رہے۔
میں سوچتا ہوں کہ انڈیا جو ہم سے ایک دن بعد میں آزاد ہوا ، اس کی معیشت
کیوں اتنی مضبوط ہوگئی۔ امریکہ جہاں کئی قومیں بستی ہیں ، سپر پاور کیسا بن
گیا، چائینہ جو ہم سے تقریباً عمر میں دو سال چھوٹا ہے ترقی کی Peak پر
کیسا پہنچ گیا اور عرب امارات جو کہ 1970کی دہائی سے ترقی کرنے لگا ہم سے
پچاس سال اگے کیسے بڑھ گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان قومیں نے سخت محنت اور اپنے
ملکوں سے محبت کو اپنی عقیدت بنایا ،جس کی وجہ سے وہ ترقی کی سیڑھیاں چڑھتے
گئے۔ جبکہ ہم نے اپنا ماٹو لوٹ مار بنا لیا۔ ملک کی دولت لوٹ کر باہر کے
بنکوں میں جمع کرا دی اور دنیا کے تمام ملکوں میں اپنے اثاثے بنا لیے۔ اپنے
چحیتوں کواربوں کے قرضے دے کر معاف کر دیے گئے اور کئی باعزت لوگ اربوں
روپے کے فراڈ کر کے باہر کے ملکوں میں عزت و وقار سے زندگی گزار رہے ہیں۔
اور سارا بوجھ پاکستانی عوام کے اوپر ڈال دیا۔
ہمارا ملک پاکستان جس میں قدرت کی ہر طرح کی نعمت موجود ہے۔ الحمد و ﷲ ہمیں
اﷲ تعالیٰ نے چاروں موسموں سے نوازا ہوا ہے۔ لا محدود معدنی، قدرتی اور
زرعی وسائل سے مالا مال ہیں۔ دوسری معدنیات مثلا قدرتی گیس، تانبا، لوہا،
باکسائٹ، فاسفیٹ، میگنیز، سیسہ، کرومائٹ وغیرہ ہمارے ملک میں پائے جاتے
ہیں۔ زرعی دولت میں کپاس، گندم ، چاول، کھجور، گرم مصالحے، تمباکو، کافی،
اون، مویشی، چائے اور پھل وغیرہ پر مشتمل ہے ۔ پاکستان کے باسمتی چاول کی
دنیا میں نظیر نہیں ملتی۔ اس کے باوجود ہماری معیشت کمزور سے کمزور ہوتی جا
رہی ہے۔ غریب لوگ دو وقت کی روٹی کھانے سے عاجز ہیں۔جس کی وجہ سے خود کشیاں
کر رہے ہیں۔
اب میں ملک کی بہتری کے لیے چند تجاویز پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
غربت اور بیروزگاری کا خاتمہ
ورلڈ بنک کی رپورٹ کے مطابق ہمارے ملک میں ٹوٹل آبادی کا 62فیصد یعنی
تقریباً 11کروڑ 21لاکھ لوگ غربت کی زندگی گزار رہے ہیں اور 9.6فیصد یعنی
17,357,568لوگ بیروز گار ہیں۔ ان خطر ناک اعدادوشمار کو سامنے رکھتے ہوئے
حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس دلائیں۔ اور
ہمارے ملک میں جو تقریباً 7 لاکھ سے زیادہ گاڑیاں حکومت کے پاس ہیں جن کے
پٹرول اور maintenanceمیں سالانہ کھربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ ان میں سے
ضرورت کے علاوہ تمام گاڑیوں کو فروخت کر کے یہ پیسہ غریب لوگوں کی فلاح و
بہبود کے لئے خرچ کیا جائے اور بیروگار لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا
کیے جائیں اور اس کے ساتھ ساتھ ہنر مند لوگوں کے لئے آسان شرائط پر قرضوں
کا اجرا کیا جائے جو کہ وہ چھوٹی سطح پر اپنے کاروبار establishکر
سکیں۔حکومت ان کو Monitor کرنے کے لئے ایک علیحدہ شعبہ بنائے جو کہ بے
روزگاروں کے کوائف لے کر قرضہ دے اور ان کو کاروبار کرنے کے لئے صلاح و
مشورہ دے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں جتنی زمین بے آباد پڑی ہوئی ہے ، حکومت
کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر لوگوں میں تقسیم کرے اور زمین کو کاشت کرنے کے
لئے کسانوں کو قرضہ فراہم کرے ۔ جس کی وجہ سے لوگ مصروف ہو جائیں اور ملک و
قوم کو اجناس کی پیداوارکافائدہ ہو گا اور ہمارا ملک خود کفیل ہو سکتا
ہے۔میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اس طریقہ کار سے ہمارے ملک میں تھوڑے عرصہ کے
اندر لوٹ مار اور غربت کا خاتمہ ہو جائے گا۔
جہالت کا خاتمہ
اس ترقی یافتہ دور میں ہمارے دیہاتی زندگی کے فرسودہ رسم و رواج، برادری
ازم اور توہمات اتنے گھمبیر ہیں کہ ان کی وجہ سے دشمنیاں اتنی طوالت پکڑ
جاتی ہیں کہ کئی کئی لوگوں کی زندگیاں اس کی بھینٹ چڑ جاتی ہیں۔ لہٰذا
لوگوں کو جہالت کی ان زنجیروں سے نجات دلانا وقت کا اہم تقاضہ ہے۔ اس لیے
حکومت کا فرض ہے کہ وہ دیہاتوں میں ایسے سماجی ادارے قائم کرے جو ان
برائیوں کا قلع قمع کرنے میں اپنا فرض ادا کرے۔
نا انصافی کا خاتمہ
ہمارے ملک میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول پر عمل کیا جاتا ہے۔ امن و
امان کی حالت اس وقت انتہائی نا گفتہ بہہ ہے۔ ڈاکو، لٹیرے، قاتل اور دلالی
کرنے والے دندناتے پھر رہے ہیں۔ لوگ بیچارے در بدر ٹھوکریں کھاتے پھرتے
ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت پنجاب امن و امان کو برقرار رکھنے کے
لئے بہت کوشش کر رہی ہے اور ایسے سینئر پولیس آفسران مختلف علاقوں میں
تعینات ہیں لیکن انہیں ان ظالموں کے خلاف کوئی انصاف نہیں ملتا۔اور لوگوں
انصاف لینے کی بجائے عدالتوں میں اپنا سب کچھ لٹا بیٹھتے ہیں۔اس کے ساتھ
ساتھ اپنا قیمتی وقت بھی ضائع کرتے ہیں۔ اور جج صاحبان تاریخوں کے اوپر
تاریخیں دے کر عوام کو پریشان کر دیتے ہیں۔ لہذا چیف جسٹس صاحب سے اپیل ہے
کہ وہ فوری طور پر احکامات جاری فرمائیں کہ کسی بھی نوعیت کا کیس ہو وہ دو
تاریخوں سے اوپر نہیں جانا چاہیے اور گنہگار کو سزا سنانی چاہیے۔ اس کے
ساتھ ساتھ کوئی بھی ریڈر یا دوسرا سٹاف پیسے لیتے ہوئے پکڑا گیا تو عوام کے
سامنے اس کو کوڑے مارے جائیں۔
تعلیم کا فقدان
تعلیم کا مقصد مفید ذہنی انقلاب ہے جس سے انسان میں اپنے وسائل سے مقدور
بھر مستفید ہونے کی استطاعت پیدا ہوتی ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام کے طریق کار
میں بنیادی خامی یہ ہے کہ فنی تعلیم پر زیادہ زور نہیں دیا جاتا۔ ہماری
تعلیم صرف سفید پوشی سکھاتی ہے اور آج کل کا تعلیم یافتہ نوجوان دستی کام
کرنے میں انتہائی شرم محسوس کرتا ہے۔ ہمارے ملک میں تقریباً 70فیصد لوگ
انپڑ ہیں لہٰذا سب پہلی اور اہم ضرورت یہ ہے کہ عوام کو تعلیم سے آراستہ
کرنا ہو گا اور تعلیم بھی علاقے کے لوگوں کی ضروریات اور ذہنوں کے مطابق
انہیں دینا ہو گی۔ اور ساتھ ساتھ ان کو پیشہ وارانہ تربیت دی جائے تا کہ وہ
باعزت طور پر روزگار کمانے کے قابل بن جائیں۔مثال کے طور پر ہمارے ملک کی
اکثریت زراعت سے منسلک ہے۔ لہٰذا دیہاتی علاقوں میں پرائمری سے ہی زرعی
تعلیم کا انتظام کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ انڈسٹری کو چلانے کے لئے ،
ٹیچنگ کے لیے، مینجمنٹ کے لئے ، فنانس کے لئے ، انفارمیشن ٹیکنالوجی ،
انجیئرنگ کے لئے، ڈاکٹرز کے لیے ایک گروپنگ کی صورت میں تعلیم دی جائے اور
اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کی طرح تمام شعبوں میں تعلیم کا مقصد بتایا جائے
اور تعلیم کے ساتھ ساتھ روزمرہ کے معاملات کے متعلق طلباء کو روشناس کرایا
جائے۔ ہمارے ہاں کوئی ماسٹر ڈگری حاصل کر لیتا ہے تو اس کو یہ پتہ نہیں
ہوتا کہ اس نے تعلیم کس لیے حاصل کی ہے اور اس تعلیم سے اس کا مستقبل کیا
ہو گا۔ بحرحال وہ کوئی ٹیکنیکل کام کر نہیں سکتا اور اس کے لیے روز گار
ملنا مشکل ہو جاتا ہے چونکہ آج کا دور کمپیوٹر ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور
ٹیکنیکل دور ہے۔ اس دور میں simple educationکی کوئی اہمیت نہیں۔ لہٰذا
تھیوری کے ساتھ پریکٹیکل تعلیم کا بھی انتظام کرنا چاہیے۔
کرپشن اور رشوت ستانی کا خاتمہ
ہمارے معاشرے میں کرپشن اور رشوت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ہمیں اس کی
بنیادی جڑ کو دیکھنا ہو گا۔ اصل میں جہاں غربت ہوتی ہے اور وسائل کم ہونے
کے ساتھ ساتھ ضروریات زندگی زیادہ ہو جاتی ہیں تو پھر لوگ اپنی ضروریات کو
پورا کرنے کے لئے mall practice کرتے ہیں، کرپشن اور رشوت کا بازار گرم
کرتے ہیں۔میں یہ کہتا ہوں کہ حکومت کو چاہیے کہ ہر محکمہ کے ہر فرد کا بلا
تفریق احتساب ہو اور جو بھی کرپشن اور رشوت ستانی میں ملوث ہوں ان کو کڑی
سے کڑی سزا دی جائے۔اس کے ساتھ ساتھ عوام بھی اپنے حقوق و فرائض کو پوری
ذمہ داری کے ساتھ سرانجام دیں۔ عوام پر جتنا ٹیکس عائد ہوتا ہے وہ ملک و
قوم کی بہتری کے لئے وہ ٹیکس ادا کریں اور اپنے گرد و نوا ع پر کڑی نظر
رکھیں کہ کسی بھی محکمہ کا ملازم کرپشن یا رشوت ستانی میں ملوث ہو وہ ایک
قومی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اس کو highlight کریں۔
دہشت گردی کا خاتمہ
اس وقت ہمارا ملک حالت جنگ میں ہے۔جس کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ
دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں اور لاکھوں لوگ اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ اب
حکومت کس وقت کا انتظار کر رہی ہیں۔ میں درخواست کرتا ہوں کہ قانون نافذ
کرنے والے ادارے، فوج، پولیس، رینجرز اور دوسرے ادارے اپنی بیروکوں اور اے
سی والے کمروں سے باہر نکلیں اور پاکستان کے ہر گھر گاؤں، شہر کا سرچ
اپریشن کریں اور اپنے ملک کی سرحدوں کو سختی سے واچ کریں امید ہے تھوڑے
عرصہ میں ہم دہشت گردی سے چھٹکارا حاصل کر سکیں گے۔
آخر میں میں عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ 63سال کی اندھیری رات کو ختم کر دیں
اور نشے کی زندگی سے باہر نکل آئیں۔ بحثیت قوم اپنی ذمہ داریاں اور حقوق و
فرائض کو سمجھیں اور عہد کریں کہ ہم نے اس ملک کو ایک درخشاں ستارہ بنانا
ہے۔
افراط کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
ذاتیات اور جماعتی سیاست کے گورکھ دہندے سے بالاتر ہو کر موجودہ عوامی
حکومت سے خلوص دل سے تعاون کریں۔ ہمیں بابائے قوم حضرت قائد اعظم اور شاعر
امت حضرت علامہ اقبال کا پاکستان ایک فلاحی اور مثالی اسلامی مملکت کے طور
پر دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے اور پاکستان کے درخشاں مستقبل کے لئے ہمیں تن
من دھن کی بازی لگانی ہے۔ ملک کی تشکیل نو کے اس مرحلہ پر حضرت قائد اعظم
کے یہ الفاظ ہمارے لئے مشعل راہ ہیں کہ:
" ایمانداری اور خلوص دل سے کام کیجئے کام اور زیادہ کام حکومت پاکستان پر
اعتماد کیجئے اور اس کے وفادار رہیے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کے
ضمیر سے بڑی کوئی قوت روئے زمین پر نہیں میں چاہتا ہو ں کہ جب آپ خدا کے رو
برو پیش ہوں تو پورے اعتماد سے کہ سکیں کہ میں نے اپنا فرض انتہائی
ایمانداری وفا داری اور ضمیم قلب سے انجام دیا ہے"۔
ہمیں بلند کردار اور بلند حوصلے کے ساتھ اپنا مستقبل بنانا ہے آج کے حالات
کا تقاضہ ہے کہ ہم کردار کے غازی بنیں اگر ہم میں سے ہر شخص سچائی کی قدر
کرے اور برائی کا احتساب کرے تو برائی ہر گز نہیں پنپ سکتی ۔ ہم سب جانتے
ہیں کہ تقدیرں بنتی نہیں بنائی جاتی ہیں۔
آئیے عہد کریں کہ ہم اپنے گفتار و عمل کے فاصلوں کو مٹا دیں گے۔ اور ہمارا
ہر کام اسلام اور اپنے وطن عزیز کی بقا کے لئے ہو گا۔
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔ |