انسانی زندگی اور قومی بے حسی

کسی قوم و قبیلہ کی ترقی و خوشحالی کی بنیاد بہتر ،مثالی اورمعیاری صحت سے مشروط ہے۔جس قوم کی نسل صحت مند ،توانا، مضبوط اعصاب کے حامل ہو گی وہ قوم کسی بھی میدان میں شکست خوردہ نہیں ہو سکتی۔حکومت کی بنیادی ذمہ داریوں میں صحت،تعلیم ،روزگار سر فہرست ہونے کے باوجود نہ جانے کون سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے دیگر اداروں کی طرح بنیادی اہمیت کے شعبوں کو نظر بد لگ چکی ہے۔یہ مرض ابھی لاعلاج تو نہیں مگر اس کے ٹھیک کر نے کے لئے ہائی پو ٹنشل میڈیسز کی ضرورت آن پڑی ہے۔

عوام کی آگاہی کے لئے یہ حیران کن بات ہوگی کہ ویب سائٹ دو ہزار نو کے بعد صحت عا مہ نے کوئی اپ ڈیٹ نہیں کی تاکہ اہل علم و عوام بے خبر رہیں۔یہ ہماری افسر شاہی کے چوکے چھکے ہیں،کہتے ہیں کہ مرض کی ابتدا ہمیشہ انسانی جسم کے اہم عضو سے شروع ہوتے ہوتے پورے جسم کو گیھرتی ہے۔ہمارے ملک میں یہ مرض تقریباً ہمیں اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔جس کا علاج کرنے کے لئے آئی سی یو وارڈ کھولنے کی ضرورت ہے۔جبکہ آپریشن تھٹیرکو ۲۴ گھنٹے اوپن رکھنا پڑے گا۔

یہ ساری بد انتظامی،بے عملی اور بد نیتی کا ذکر ایک ایسے واقعہ کو مثال کے طور پیش کر کے اربا ب اختیار کے ذہنوں کو جنجوڑنے اور ان کے ضمیرجگانے کے لئے رقمطرازہوں ۔ہمارے ملک کے سینئر صعحافی اور نیک سیرت شخصیت عبدالواحید کیانی کی اہلیہ محترمہ دوران زچگی علیل حالت میں دارالحکومت آذادکشمیر کے سی ایم ایچ انتہائی پُر خطر حالت میں جب لائی گئیں تو گائینی کی ڈاکٹرز مس مریم زبیر اور روبینہ سلمان نے اس قدر بے رخی اور فرائض سے غفلت کا مظاہرہ کیا جس سے زچہ کی حالت بگڑنے لگی اس وقت موت و حیات کی کشمکش میں انہیں پرائیویٹ کلنک جانے کا مشورہ دیا گیا۔مریضہ کی سی ایم ایچ داخلے سے گھر تک جو انتہائی تشویشناک حالت رہی ،مجبوراً مریضہ کا پر ائیویٹ علاج کرانا لازمی ہوا۔ملک و ملت کی خدمت کرنے والا صحافی اگر اس بے قاعدگی،بے رخی اور جلادی صفت صورت حال کا شکار ہو سکتا ہے تو پھر کیسے مان لیا جائے کہ عام شہری کاعلاج معالجے کے دوران کیا سلوک کیا جاتا ہو گا۔

اعداد و شمار کے مطابق آزاد ریاست میں بارہ سو سے زائد ڈاکٹرز اور اسی تعداد میں طبی مراکز قائم ہیں ،سالانہ عوام کی جیبوں سے کئی ملین روپے مختلف انداز سے وصول کر کے عوامی مفاد کے تحت کام کرنے والے اداروں کو فراہم کئے جاتے ہیں۔چونکا دینے والا انکشاف یہ ہے کہ مریضوں کے نام پر خوراک کی مد میں کروڑوں روپے اللوں تللوں پر خرچ کئے جاتے ہیں جب کہ مریض ہسپتال میں صحت یاب ہونے کے بجائے لاعلاج ہو کر قبرستان پہنچ جاتاہے۔عام لوگ تو اب سر عام ڈاکٹرز کو قصائی پکار تے سنے جا رہے ہیں۔حالانکہ طبی ماہرین قابل احترام اور ہمدرد کہلانے کے مستحق ہیں۔ڈاکٹرز نے اپنی اپنی ایسوسی ایشنز بنا رکھی ہیں جب چاہئیں ہڑتال کر دیں ،بے شک انسانی جانیں تڑپ تڑپ کر ان کے ظلم کا شکار ہوں ،انہیں ذرا بھر احساس تک نہیں ہوتا کہ ان کا کیا فرض ہے اور وہ کیا کر رہے ہیں۔تھانہ دار ،پٹواری یا کلرک سے جب کوئی شکایت کندہ ملتا ہے تو کم از کم ان کا اخلاقی معیار ڈاکٹرز سے بہتر لگتا ہے ۔مگر جن کو عمدہ مثال ہونا چاہئے وہ نشان عبرت بنتے جا رہے ہیں ۔یہاں سب ڈاکٹرز کو مورد الزام تو نہیں ٹھہرا سکتے بے شمار معالج انتہائی عمدہ صفات کے حامل بھی ہیں۔کہا جاتا ہے کہ ایک گندی مچھلی پورے تالاب کو گندہ کر دیتی ہے۔کچھ ایسی ہی صورت حال محکمہ صحت کی نظر آ رہی ہے۔

دراصل ہماری کمزوری رہی کہ ہم نے ہر معمولی واقعہ کو نظر انداز کیا جس کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔کسی نے ذات برادری کا سہارا لیا،کوئی سیاسی چھتری میں پناہ گزیں ہوا اور کوئی دولت کے پاؤں پر سوار ہو کر عوام کے حقوق کا جنازہ نکالتا جارہا ہے۔لیکن ان بے خبر انسانیت دشمنوں کو خیال تک نہیں کہ ان کا انجام کس طرح ہو گا۔شاہد اس دینا فانی میں ان خود سروں کی چلتی رہے مگر وہ وقت دور نہیں کہ جب اﷲ کی عدالت لگے گی تو انہیں بچانے کے لئے نہ برادری،سیاسی پارٹی،دولت و سفارش کام نہیں آئے گی۔اس جرم میں ہمارے اردگرد کے سیاسی و سماجی کھڑپینچ،برادری ازم کے پرچارک اور دولت کے نشے میں بد مست سبھی ایسے گرفت میں آئیں گے کہ یہ اس وقت پکاریں گے کہ ہم شامل نہ تھے پھر ان کی جب ویڈیو دکھائی جائے گی تو لا جواب واصل جہنم ہونا ان کا مقدر ہو گا۔بہر حال یہ ہمارے ایمان و عقیدے کی بات ہے جو سمجھ کر بھی نہ سمجھے تو انہیں غرور کی مستی میں اوپر والا ہی پکڑ سکتا ہے۔

عوامی حکومت ،اپوزیشن سے مطالبہ نہیں ،انہیں ان کا حق حکمرانی یاد کروانا ضروری ہے ۔یہ کس درد اور مرض کی دوا ہیں ۔جب عوام سے ووٹ لینے کا وقت ہوتا ہے تو ایسے ایسے سبز باغ دکھاتے ہیں کہ ہمیں جنت کی بشارت نظر آتی ہے مگر جب یہ شخصیات ایوانوں میں براجماں ہوتی ہے تو انہیں پروٹوکول ،سٹیٹس کو ایسا گھیرا دیا ہوتا ہے کہ انہیں عوام ریوڑ نظر آتی ہے۔خدا راہ انسانیت کے ان نا دیدہ دشمنوں سے عوام کو آزاد کیا جائے تاکہ انصاف ،عدل اور عوامی مفاد کے قوانین کا بول بالا ہو ۔مذکورہ بالا ہوشربا واقعہ پر تحقیقات ہونا چاہئے۔بلکہ قبل ازیں ضلع نیلم سے تعلق رکھنے والے ہمارے ایک صحافی عزیز جو روزنامہ سیاست میں سب ایڈیٹر تھے انہیں سانپ نے کاٹا تو دارالحکومت کے دونوں پڑے ہاسپیٹلز(ایمز اور سی ایم ایچ)میں بر وقت تشخیص و علاج نہ ہونے سے وہ اپنی جان کھو گیا۔جس کی اب تک تحقیق ہوئی ، نہ لاپروائی کے مرتکب بے نقاب ہو سکے اور نہ ہی متاثرہ خاندان تک اشک شوئی کی گی۔یہ کس قدر بے قدری،بے رحمی اور حیوانی صفت ہے۔المیہ تو یہ ہے کہ سانپ اور کتے کے کاٹنے والی ویکسین بازار سے خریدنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔پرائیویٹ پریکٹس کے نام پر عوام کو لوٹا جا رہا ہے جبکہ سرکاری دارے بے روزگار کیمپ بنے ہوئے ہیں ۔کیا ہماری افسر شاہی یہی چاہیتی ہے کہ عوام خوار ہوں ۔مگر انہیں سوچنا پڑے گا۔عوام کی جیبوں سے پائی پائی نکلنے والے کا یوم حساب قریب تر ہے مگر انہیں خبر نہیں۔۔۔۔!!!!!

Bashir Ahmed Mir
About the Author: Bashir Ahmed Mir Read More Articles by Bashir Ahmed Mir: 32 Articles with 25474 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.