دو آدمی ایک ساتھ سفر کر رہے تھے ان کی منزل تو الگ
الگ تھی مگر سفر ساتھ ساتھ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد انہوں نے اپنے سفر کو
آسان بنانے کے لئے گفتگو کرنا شروع کر دی ۔ایک دوسرے کے بارے میں بات ہوتے
ہوتے فیملی تعارف ہوا تو ایک نے کہا میرے چار بچے ہیں ایک نے پی ایچ ڈی کی
ہوئی ہے ،دوسرے نے ایم فل کیا ہے،تیسرے نے ایم بی اے کیا ہوا ہے،اور چوتھا
فراڈیہہے وہ لاٹ مار دھوکے باز اور کرپٹ انسان ہے۔دوسرے آدمی نے کہا ماشااﷲ
،یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ آپ کے تین بیٹے تعلیم یافتہ ہیں ان کی وجہ سے اپ
کابھی نام ہوگا مگراپ کے چوتھے بیٹے کا سن کر بہت افسوس ہوا پ نے اس کو
سمجھایا نہیں اس کو تعلیم کی اہمیت نہیں بتائی ،اگر وہ بھی پڑھا لکھا ہوتا
تو کیا ہی بات تھی،دوسرے آدمی نے ہمدردی ظاہر کرتے ہوئے کچھ تجسس سے پوچھا
کہ ایسا کیا ہوا کہ وہ فراڈیہ بن گیا اپ نے اس کو گھر سے نکالا کیوں نہیں ،پہلے
آدمی نے جواب دیا کہ میں نے اپنی زندگی کی ساری کمائی اپنے تین بچوں کی
تعلیم پر لگا دی میں نے یہ سوچا تھا کہ میرے بچے پڑھ لکھ کر نہ صرف اپنا
نام روشن کریں گئے بلکہ میرے سہارے کے ساتھ ساتھ اپنے چوتھے بھائی کو بھی
تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں گے۔ان کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد پھر میں نے
سیاسی رابطے شروع کئے لوگوں سے ملنے لگا کبھی کسی کے اگے کبھی کسی کے اگے
اپنے بچوں کے کاغذات لے کر پھرتا رہا مگر میں تھک گیا،میری صحت نے جواب دے
دیا۔پھر میرے بچوں نے خود سے کوشش اور انٹرویو دینے شروع کر دیے مگر ان کو
ان کے معیار کی نوکری نہیں ملی ،ابھی تک سب بے روزگار ہی سمجھو، بس چھوٹا
موٹا کام کاج کر کے بامشکل اپنا جیب خرچ پورا کر رہے ہیں ،گھر کا خرچہ،اور
باقی نظام زندگی فراڈیے بیٹے کی آمدن سے چل رہا ہے ۔کہہ سکتے ہو کہ باقی
تینوں بے روزگار ہیں اب یہ بتاو کہ میں اس کو گھر سے کیسے نکالوں ۔ہم جس
معاشرے میں رہتے ہیں اس کی بنیاد اسلام،محنت، میرٹ ،قابلیت،صلاحیت، سے نہیں
بلکہ یہ ایک آنا
پسند،تعصب،برادری،تعلق،سفارش،رشوت،دوستی،نظریہ،سیاست،پارٹی،علاقائی
ازم،قبیلہ،خاندان،کے گرد گھومنے والا معاشرہ ہے۔اس میں ایک غریب پڑھا لکھا
کبھی اپنے خواب پورے نہیں کر سکتا اس معاشرے میں زندہ رہنے کے لئے شریف
ہونا نہیں بلکہ بدتمیز،منہ پھٹ،اور چھین کر کھانے والا ہونا ضروری ہے۔پڑھا
لکھا انسان اپنی عزت اور آنا کی خاطر اپنے معیار کے مطابق نوکری ڈھونڈ رہا
ہوتا ہے جوا اسے مل تو سکتی ہے مگر معاشرتی برائیاں،فرقہ واریت،اور تعصب
جیسی لعنت اس کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے۔،کوشش کرتے کرتے
انسان اتنا تھک جاتا ہے کہ وہ نہ صرف ہمت ہار جاتا ہے بلکہ عمر سے بھی
زیادہ ہوجاتا ہے وہ خواب جو اس نے اپنی تعلیم کے دوران دیکھے ہوتے ہیں ان
کا ماتم پھر وہ ساری زندگی کرتارہتا ہے۔ہاں یہ بات ہر ایک تعلیم یافتہ پر
لاگو نہیں ہوتی کیوں کہ ہمارے ہاں کچھ ایسے خاندان بھی رہتے ہیں جن کو نسل
در نسل کسی تعلیم یا کسی بڑی ڈگری کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہ بس سکول،کالج
کا منہ دیکھ لیں تو قسمت ان پر مہربان ہو جاتی ہے،مگر اس کو نہ تو معاشرے
کا توازن کہہ سکتے ہیں،اور نہ ہی کسی علاقے،ضلع،خطے،ملک کی کامیابی،اس سے
کسی ایک خاندان یا فیملی،میں تو کامیابی آسکتی ہے مگر اجتماہی طور پر نہیں
اور وہ معاشرے بھی کامیاب نہیں کہلاتے جن میں توازن نہیں ہوتا۔اگر ہم اپنی
تاریخ کا حقیقی اور انصاف سے مطالعہ کریں تو پاکستان کے دوٹکڑے ہونے کا
یعنی بنگلادیش الگ ہونے کے پیچھے کسی انڈیا، یا دشمن کا ہاتھ نہیں تھا بلکہ
عدم توازن جو مختلف محکموں میں ،آرمی،سول،پرائیویٹ،اور معاشرتی عدم توازن
تھا جس میں مشرقی پاکستان والوں کو انسان تک نہیں سمجھا جا رہا تھاان کے
ساتھ ہر ایک میدان میں نا انصافی کی جاتی تھی ۔مشرقی پاکستان کے پڑھے لکھے
لوگ پاکستان میں چپڑاسی ہوتے اور یہاں کے ان پڑھ ان کے حاکم اس کا نتیجہ آج
آپ کے سامنے بھی ہے اور تاریخ کے سیاہ اوراق میں بھی لکھا جاتا ہے۔اگر عدم
توزن سے ملک ٹوٹ کر دو لخت ہو سکتے ہیں تو معاشرے کیوں نہیں،علاقے کیوں
نہیں۔ اگر سچائی کوکوئی سننے اور ماننے کے لئے تیا ر ہے تو وہ ایک جائزہ لے
اس معاشرے میں بسنے والے ان قبائل کا جس میں سب مسلمان ہیں ،بھائی بھائی
ہیں، ایک ہی مذہب اور ایک ہی رسم و راج ۔دکھ سکھ خوشی غمی ایک ہے، مگر
نوکریاں،عہدے،چند خاندانوں کے ہاتھوں میں ہیں۔،وہ بچے وہ جوان وہ محنتی،ہنر
مند میرٹ پر پورا اترنے والے سینکڑوں ،نوجوان مارے مارے بے روزگار پھرتے
ہیں اس لئے نہیں کے ان کے لئے کوئی سیٹ یا کوئی وی کینسی نہیں بلکہ اس لئے
کے ان کا تعلق کسی بڑے خاندان سے نہیں ان کے پاس کسی ایم این اے یا کسی ایم
پی اے کی سفارش نہیں،ان کے پاس تیس یا پچاس ہزار دینے کے لئے رشوت نہیں۔یہ
کالم کوئی کہانی یا معاشرے میں نظر آنے والے آحالات پر نہیں بلکہ اس کے
پیچھے ایک حقیقت اور سچ ہے اگر کسی کو ا س کا شک ہے تو میں ایسے نوجوان بتا
سکتا ہوں جنہوں نے پہلے پائی پائی جوڑ کر اپنے خاندان سے ادھار لے کر اپنی
بہنوں کے زیور بیچ کر تعلیم حاصل کی اور اب سرکار کے دفاتر اور شہر شہر کی
خاک چھان کر بے بس اور مایوسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ملک معاشروں سے جب
انصاف ختم ہو جائے تو پھر کچھ بھی ہونے میں دیر نہیں لگتی۔آج ان خاندانوں
کو کسی انڈیا،کسی اسرائیل،یا کسی دشمن کے اکسانے کی ضرورت نہیں بلکہ جیسے
ہی ان کو موقع ملے گا یہ خود ایک چنگاری اور پھر شعلہ بن کر سامنے آجائیں
گئے،ظلم کسی بھی شکل و صورت میں ہو ،زیادہ دیر نہیں چلا کرتا۔وہ لوگ جو آج
ان مزدوروں، غریبوں، دکانداروں،درزیوں،ریڑی چلانے والوں،اخبار بچنے
والوں،ہوٹل پر چائے بنانے والوں،جوتے،سینے والوں،اور اپنے دباو میں رکھ کر
ان سے کام کروانے والوں کے ووٹوں سے کرسیوں پر بیٹھے ان ہی کے ساتھ دھوکا
اور جھوٹ بول کر ان ہی کے ارمانوں کا خون کر رہے ہیں،وہ وقت دور نہیں جب یہ
سوئے ہوئے لوگ جاگے گے ان کو اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کا احساس
ہوگا تو پھر ان کو نہ کوئی خرید سکے گا اور نہ کوئی ان کو دبا سکے گا۔آج ان
باتوں پر ہنسے والے کل اپنے ہی کئے پر پچھتائیں گے۔ہزاروں میں سے کسی ایک
کو اگر کوئی نوکری ملی بھی ہوگی تو وہ کسی گنتی میں نہیں آتی جبکہ یہاں پر
تو ایک ایم ایس سی،یا ایم فل والا ایک میٹرک پاس کے انڈر کام کرتا ہے ،کیا
اس کو کوئی انصاف کہہ سکتا ہے ؟یا ایک ایم اے والا ایم فل سے اگے ہو جائے
کیا یہ میرٹ ہے؟۔انسانوں کے منہ تو بند کئے جا سکتے ہیں وقت کے نہیں ۔تم
تیر ازماوں یہ جگر ازمائیں،وقت خود ہی فیصلہ کرے گا بس انتظار کرو۔ |