عورتوں سے معذرت کے ساتھ!

5جنوری کو مکرم عطاء الحق قاسمی صاحب کا کالم ’’عورتوں سے معذرت کے ساتھ‘‘ پڑھا۔ جس میں انہوں نے پروفیسر ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی کی کتاب ’’آگہی کی جستجو میں‘‘ کے ایک عنوان ’’عورت‘‘ سے بڑی د لچسپ معلومات فراہم کیں فلاسفر عورت کے بارے میں کیسے جاہلانہ خیالات رکھتے تھے اور عورت کی حیثیت دوسرے درجے کی تھی۔ یہ بات درست ہے اور اس کا ثبوت علم اشتقاق الفاظ (Etymology)میں بھی موجود ہے۔ عورت کو جن الفاظ سے پکارا جاتا ہے وہ اس کی غمازی کرتے ہیں۔ انگریزی میں عورت کو وومن کہتے ہیں جو Woe-man(مرد کا دکھ) کی بگڑی ہوئی صورت ہے۔ اسی طرح Fee-maleکے معنی مرد کی مورثی جائیداد کے ہیں جو بعد میں Femaleبن گیا۔ ویسے بھی عورت کو ’’بی بی‘‘ ’’بے بی‘‘یا ’’بے بے‘‘ کہا جاتا ہے جو سب انگریزی یا اُردو کے دوسرے حروف تہجی ہیں۔ الف تو گویا مردوں نے اپنے لئے ’’بُک‘‘ کررکھا تھا۔ رشتوں کو ہی لے لیجئے دادا، نانا، چاچا، پھوپھا، تایا وغیرہ ان سب کی تثنیث میں الف کو ہٹا کر تقریباً آخری والا حروف تہجی ’’ی‘‘ لگا کر دادی، نانی، چاچی، پھوپھی، تائی بنا دیا گیا۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی پر غور کیا جائے جیسے چیئرمین، بیٹس مین، سیلزمین، پولیس مین، فائر مین، پوسٹ مین، سپورٹس مین وغیرہ ان میں تو عورت سر ے سے ہی غائب ہے۔یہ مردانہ تعصب (male chauvanism)کی عکاسی کرتا ہے۔ بیگم کو آج کل اکثر لوگ ’’بے غم‘‘ کہتے ہیں اور لفظ مستورات کے ٹکڑے کر کے الٹے سیدھے مطالب نکالتے رہتے ہیں۔ لفظ عورت کا ایک معنی ’’استری‘‘ ہے کہتے ہیں جس طرح استری کپڑے کے بل سیدھے کرتی ہے اسی طرح عورت بھی مرد کو سیدھا کردیتی ہے، عورت کو زن بھی کہتے ہیں جو کسی اسم کے بعد آکر مارنے والا کے معنی دیتا ہے جیسے تیغ زن، راہ ن، تیشہ زن۔ یہ جدید ایٹی مالوجی عورت کی موجودہ حیثیت کو ظاہر کرتی ہے۔

یہ درست ہے کہ ماضی میں عورت کو معاشرے میں کوئی خاطر خواہ مقام حاصل نہیں تھا مگر یہ ․صورت اب یکسر بدل گئی ہے۔ آج عورت نہ صرف بااختیار ہے بلکہ اختیار بدستِ مختار ہے۔ اس تبدیلی کے ساتھ ہی لوگوں کی آراء بھی بدل گئی ہیں۔ خان اکبر علی خان نے عورت کے موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے جس میں قدیم اقوال کے ساتھ ساتھ دور جدید میں عورت کے بارے تصورات کو بھی شامل کیا ہے۔ اس کتاب میں لفظ مرد کو مظلوم، رونے والا اور دکھی کا مخفف قرار دیا ہے۔ محاوروں کو کچھ اس طرح بدلا ہے: ’’عورت کی خوبصورتی آنکھوں میں اور بد صورتی زبان میں چھپی ہوتی ہے، سانپ اتنا خطرناک نہیں جتنا سسر، سالی یا ساس ہوتی ہے، عورت کہتی بچوں کی طرح ہے، کرتی جوانوں کی طرح ہے اور سنتی بوڑھوں کی طرح ہے، قدرت نے مرد کو طاقت اور عورت کو زبان دے کر حساب برابر کردیا ہے، اکیلے گھر میں شوہر بھی شیر ہوتا ہے، بیوی کی مسکراہٹ بری بلا ہے، کربیاہ۔۔۔۔ ہو تباہ، جب محبوبہ بیگم بنتی ہے تو ’’دردِ دل‘‘ دردِ سر‘‘میں بدل جاتا ہے، لومڑی کی مکاری عورت کی ہوشیاری سے کم ہے، ڈاکوؤں سے اسلحہ جدا نہیں ہوتا اور عورتوں سے میک اَپ، کسی بیچارے شوہر نے کہا میں نوکری پہ نوکری بدلتا رہا اور میری بیگم ساڑھی پہ ساڑھی، عشق کی ذلالت شادی سے بہتر ہے، بیوی کیا جانے گھر کے معاملات، شادی کر اور پیسہ جورو کی جھولی میں ڈال، شادی کے بعد بہترین عمل تو کثرت سے استغفار ہی ہے‘‘ وغیرہ۔

مختلف اقوام کی عورتوں کے بارے خیالات کچھ یوں ہیں۔ ’’پاکستانی کہاوت ہے عورت کا پیار اُس چشمے کی مانند ہے جو کبھی خشک نہیں ہوتا عربوں کی کہاوت ہے عورت حیاء کامجموعہ ہے، خدا کی برکتوں میں سب سے بڑی نعمت ہے، ترک کہاوت ہے عورت کے بغیر گھر میں برکتیں نازل نہیں ہوتی، کویتی کہاوت ہے جب عورت کی زبان نہیں بولتی تو اُس کی آنکھیں بولتی ہیں، بلغاری کہاوت ہے کسی اندھی عورت کو بیوی بنالینا خوبصورت عورت سے شادی کرنے سے بہتر ہے، اطالوی کہاوت ہے عورت کا دل جتنی نرمی سے پیار کرتا ہے اتنی نرمی سے انتقام بھی لیتا ہے، بھارتی کہاوت ہے انسان کی کامیابیوں اور لذتوں میں عورت کا ہاتھ ہوتا ہے، فرانسیسی کہاوت ہے عورت اور خربوزے کا انتخاب کرنا انتہائی مشکل کام ہے، جاپانی کہاوت ہے خوبصورت عورت اور لال مرچ دونوں سے ہوشیار ہو، چینی کہاوت ہے عورت کی بات سننی چاہیئے لیکن عمل ہرگز نہیں کرنا چاہیئے، روسی کہاوت ہے دس عورتوں میں ایک روح ہوتی ہے، اسپینی کہاوت ہے بُری عورت سے بچنا چاہیئے اور اچھی کا بھروسہ نہیں‘‘۔

اکبر علی نے بہت سارے واقعات بھی درج کئے ہیں جن میں سے چند پیش خدمت ہیں۔ ایک دفعہ میاں بیوی ہونے والے داماد کے متعلق باتیں کر رہے تھے۔ بیوی نے کہا لڑکا اچھاہے، امیرہے، کھلتی ہوئی رنگت، اونچا قد، فرمانبردار اور کماؤ ہے۔ شوہر بولا ’’لیکن اس میں ایک خرابی ہے، جب وہ ہنستا ہے تو اس کے لمبے لمبے دانت باہر آجاتے ہیں اور چہرہ بہت برا لگتا ہے‘‘۔ بیوی بولی آپ خواہ مخواہ پریشان ہو رہے ہیں، ذرا اپنی بیٹی سے اس کی شادی تو ہونے دو پھر نہ اُس کو ہنسنے کا موقع ملے گا اور نہ ہی اس کے دانت نظر آئیں گے۔۔۔۔۔ میاں بیوی میں جھگڑا ہوا تو بیوی نے اپنی ماں کو فون کیا اور کہا میں آپ کے ہاں آرہی ہوں ۔ ماں نے کہا اسے اپنے کئے کی سزا ملنی چاہیئے۔ تم وہیں ٹھہرو میں تمہارے ہاں آرہی ہوں۔۔۔۔ ایک خاتون کو اس بات پر بہت غصہ آیا کہ اس کا خاوند جان بوجھ کر بس میں ایک خوبصورت لڑکی کے قریب کھڑا ہوا ہے۔ اچانک وہ لڑکی مڑی اور اس شخص کو ایک تھپڑ جماتے ہوئے کہا ’’لڑکیوں کو چٹکیاں بھرنے کا مزہ چکھو‘‘۔ جس وقت جوڑا بس سے اُترا تو اس شخص نے اپنی بیوی سے کہا ’’میں نے اس لڑکی کو چٹکی نہیں لی تھی‘‘۔ ’’میں جانتی ہوں‘‘ اس کی بیوی بولی‘‘ چٹکی میں نے لی تھی‘‘۔۔۔۔ایک فلیٹ سے ہر وقت ہنسنے کی آوازیں آتی تھیں۔ ایک رپورٹر ان کا انٹرویو لینے چلا گیا کہ یقینا یہ دنیا کے خوش قسمت ترین میاں بیوی ہیں کہ ہنستے ہی رہتے ہیں لڑتے نہیں۔ ’’آپ کی اس کامیاب اور ہنستی مسکراتی زندگی کا راز کیا ہے؟‘‘ شوہر نے کہا۔ ’’جب بیوی کا بیلن مجھ کو لگ جاتا ہے تو یہ ہنستی ہے اور جب نہیں لگتا تو میں ہنستا ہوں‘‘۔

ان اقوال، کہاوتوں اور واقعات سے صاف ظاہر ہے کہ آج کی عورت کس فلک پر محو پرواز ہے اور کس نہج پر محو سفر ہے۔ ماضی میں عورت کو جسمانی اور ذہنی طور پر پست تصور کیا جاتا تھا۔ جہاں تک جسمانی کمزوری کا تعلق ہے اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ طویل عمر کا ریکارڈ فرانس کی ایک عورت لوئیس کالمنٹ (Louise Calment)کا ہے جس کی عمر 122سال اور 164دن تھی۔ دنیا میں معمر ترین انسان کا ریکارڈ بھی ہالینڈ کی ایک عورت اینڈل شپر (Andel-Schipper)کے پاس ہے، دنیا میں بھاری بھرکم انسان کا ریکارڈ بھی امریکہ کی ایک عورت روزالی بریڈ فورڈ (Rosalie Bradford)کو حاصل ہے جس کا وزن 554کلوگرام ہے۔ روس کی ایک خاتون فیوڈر وازلیئر(Feodar Vassiliyer) نے 69بچوں کو جنم دیا، آسٹریلیا کی گیرالڈائن بروڈرک(Geraldine Brodrick)نے ایک ساتھ 9بچوں کو جنم دیا، اور روزانا ڈولا (Rosanna Dolla)نے 63سال کی عمر میں ماں بن کر ثابت کردیا کہ عورت جسمانی طور پر کسی بھی صورت میں نحیف نہ ہے۔ دنیا میں انسانوں کی اوسط عمر تقریباً 68سال ہے جس میں مردوں کی اوسط عمر 65سال ہے جبکہ عورتوں کی 70سال ہے۔ اگر بلحاظ عقل دیکھا جائے تو عورت سیفو (Sappho)کی صورت میں عظیم شاعرہ، جارج ایلیٹ (George Eliot)کی صورت میں عظیم ناول نگار، مادام کیوری Curieکی صورت میں عظیم ماہر طب اور ماہر کیمیا، ہپیٹیا (Hypatia)کی صورت میں عظیم ریاضی دان، اسپاسیا (Aspasia)کی صورت میں عظیم فلاسفر، اور ملکہ الزبتھ کی صورت میں عظیم سیاستدان ہے۔

عورت نہ صرف اس وقت دنیا میں عدداً زیادہ ہے بلکہ وزناً بھی۔گھریلو زندگی میں اُس کی کمانڈ اس سطع پر ہے کہ ہر دوسرا شخص شادی زدہ نظر آتا ہے۔ شہزادی کی شہ زوری، شوں شاں اور شہامت کے سامنے شوہر شوفر دکھائی دیتا ہے۔ نہ جانے کیوں قاسمی صاحب نے عورتوں سے معذرت کی ہے اور ہاتھ ’’ھولا‘‘ رکھا ہے۔ حالانکہ شائستگی کا دامن ہاتھ سے چھوڑے بغیر ہر ایک کی خوب خبر لیتے ہیں۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک اعلیٰ پائے کے ادیب ہیں اور گزشتہ ادوار میں بھی اکثر ادیبوں نے عورتوں کے بارے ہاتھ ’’ھولا‘‘ رکھا ہے۔ ایک دفعہ گورکی (Gorki)اور شیکوف(Tschekov)کریمیا کی گلیوں میں ٹہل رہے تھے اور چلتے چلتے ساحل سمندر پر پہنچ گئے۔ ریت پر ٹالسٹائی (Tolstoy)بیٹھے تھے۔ وہ دونوں بھی ان کے ساتھ بیٹھ گئے اور گفتگو کرنے لگے، موضوع عورت تھا۔ ٹالسٹائی بڑی دیر تک خاموشی سے ان کی باتیں سنتا رہا پھر اچانک بولا ’’میں آپ کو عورت کی حقیقت اُس وقت بتاؤں گا جب میری ایک ٹانگ قبر میں ہوگی اور سچ بتانے کے بعد میں فورا ً تابوت میں چھلانگ لگا دوں گا اور ڈھکنا کھینچ کر بند کرکے کہوں گا ’’اب جو کرنا ہے کرلو!‘‘

(Do what you like with me now) اسی طرح ایک دفعہ کاؤنٹ کیسرلنگ (Count Keyserling)نے برنارڈشا کو درخواست کی کہ وہ ’’کتاب شادی‘‘ کے لئے ایک باب لکھے۔ مگر اس نے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا۔ ’’کوئی مرد اپنی زوجہ کی زندگی میں عورت کے بارے میں سچ لکھنے کی جرأت نہیں کرسکتا‘‘۔ شائد ان جید ادیبوں کی طرح ہمارے قاسمی صاحب نے عورت کے معاملے میں احتیاط برتی ہے یا پھر انہوں نے وِل ڈوراں (Will Durant)کے تجزئیے سے بچنے کے لئے ایسا کیا ہے! ڈوراں نے اپنی کتاب لذتِ فلسفہ (Pleasure of philosophy)کے باب ’’مرد و زن‘‘ میں عورتوں کے بارے لکھنے والوں کے بارے تبصرہ کیا ہے۔ ’’ایسی تحریریں عموماً انتقامی ہوتی ہیں اور شکست خوردہ لوگ ہی ایسے موضوع پر لکھتے ہیں اور جب کوئی ادیب عورت کے متعلق لکھتا ہے تو دراصل اُس کے زخم لب کشائی کر رہے ہوتے ہیں‘‘۔

وگرنہ آج کل ستم زن کی نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ مرد عورتوں کے برابر حقوق مانگنے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور کوئی یہ کہتا پھر رہا ہے کہ اس دنیا کی جنت بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ تمام عورتوں کو بوڑھا کردیا جائے۔ عورتوں سے معذرت کے ساتھ!

Prof Waqar Hussain
About the Author: Prof Waqar Hussain Read More Articles by Prof Waqar Hussain: 33 Articles with 51680 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.