تبدیلی کس طرح ممکن ہے

ایک پر فریب اور دِلکش نعرا جس کی مدد سے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں بہت آسانی ہوجاتی ہے وہ تبدیلی کا نعرا. اس نعرے کی بازگشت سب سے پہلے ہمیں امریکا کے صدارتی اتخابات میں سنائی دی جب امریکیوں نے یہ نعرا لگا کر تاریخ میں پہلی بار بارک اباما کو امریکا کا صدر منتخب کرا لیا ان کے منتخب ہونے کے بعد بھی مسلم امہ کو کیا فائدہ پہنچا ہمیں تو نہیں لگتا کے ان کے انتخاب کے بعد مسلمانوں کو لیے کوئی تبدیلی آئ ہو امریکا پہلے بھی مسلمانوں پر حکومت کرنے کے لیے"تقسیم کرو اور حکومت کرو " کے فارمولے پر عمل کر رہا تھا اور آج بھی یہی کر رہا ہے اور شاید اس وقت تک کرتا رہے گا جب تک مسلمانوں میں میر جعفر اور میر صادق جیسے لوگ موجود رہیں گے اور امریکا کے آلہ کار بنتے رہیں گے. ہاں یہ بات الگ ہے کے امریکیوں کے لیے کوئی تبدیلی آگیی ہو تو وہ ہمارے لیے ایسے ہی ہے جیسے جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا.

پاکستان میں سب سے زیادہ اس نعرے کی گونج ہمیں حالیہ الیکشن میں سنائی دی جس میں ہر جماعت یہ دعویٰ کرتی نظر آی کے ہم لائیں گے تبدیلی مگر الیکشن ختم ہونے کے کئی ماہ بعد بھی تبدیلی کے نعرے صرف نعرے کی حد تک ہی نظر آرہے ہیں تبدیلی کہیں کوئی خاص نظر نہیں آرہی ہے. کیا تبدیلی صرف نعروں کی مدد سے آجاتی ہے؟ کیا ہم نے کبھی سوچا کے تبدیلی کیوں نہیں آتی ؟ اس کی وجہ بظاہر جو ہمیں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم سب تبدیلی کا نعرا لگاتے ہیں مگر خود تبدیل نہیں ہوتے کیا ہم نے خود کبھی اپنے گریبان میں جھانکا ہے کے تبدیلی لانے کے کے لیے ہم نے خود کیا کیا. کیا ہم نے خود کو تبدیل کیا ؟ یا ہم نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی کی ؟ نہیں جناب ہم لوگ ایسی کوئی کوشِش ہی نہیں کرتے بلکہ اگر کوئی دوسرا کوشِش کرتا نظر آے تو ہم لوگ اس پر ہنسنے اور طنز کرنے سے باز نہیں آتے.

ہم میں سے اکثر لوگ چند سیکنڈ سگنل پر روکنا گوارا نہیں کرتے اپنا گھر صاف کر کے سارا کچرا گھر کے باہر ڈھیر کی صورت میں جمع کر دیں گے گھر بنانے میں لاکھوں روپے خرچ کر دیں گے مگر کچرا اٹھانے کے لیے دو سو روپے خرچ نہیں کریں گے. پبلک مقامات پر تھوک پھینکنے، کچرا پھینکنے، سگریٹ پینے کے واقعات تقریبا ہم سب نے ہی دیکھ رکھے ہیں اور ہم میں سے متعدد لوگ ایسا کر بھی چکے ہونگے. کسی تہوار کے موقع پر بغیر سلنسر موٹر سائیکل چلانا تو جیسے ایک فیشن بن گیا ہے. سڑک پر ریس لگانا ون وہیلنگ کرنا تو عام سی بات ہے. ان میں سے کسی کو اگر روکا جاۓ تو جس قسم کے جوابات سے واسطہ پڑتا ہے وہ سنے کے بعد شاید ہی کوئی دوبارہ روکنے کی جسارت کرے گا.

تبدیلی صرف نعرے لگانے سے نہیں آتی بلکہ تبدیلی لانے کے لیے پاکستان میں رہنے والے ہر رنگ و نسل کے لوگوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اپنے رویے میں تبدیلی لانا ہوگی. ہمیں پاکستانی بن کر سوچنا ہوگا کہ یہ ملک ہمارا گھر ہے. ہمیں پاکستان کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا یہ سوچ کر نہیں کہ پاکستان نے ہمیں کیا دیا بلکہ یہ سوچ کرکہ ہم نے پاکستان کو کیا دیا. اگر ہم لوگوں نے یہ کر لیا تو مجھے امید ہے کہ ہم لوگوں کو تبدیلی کا نعرا لگانے کی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ تبدیلی تو آچکی ہوگی.

Irfan Ahmed Rajput
About the Author: Irfan Ahmed Rajput Read More Articles by Irfan Ahmed Rajput: 11 Articles with 8868 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.