تین ہیروئنچی)ہیروئن پینے والے( نشے میں دھت گلی میں پڑے
تھے کہ اس دوران وہاں سے پولیس اہلکاروں کا گزر ہوا ہیروئنچیوں نے انہیں
دیکھتے ہی قریب پڑی بوریوں میں گھس گئیکہ پولیس سے جان چھٹ جائیگی پولیس
والے بھی پاکستانی تھے انہوں نے بوریوں کو دیکھا تو ایک بوری کو لات ماردی
کہ اس میں کیا ہے بوری میں بند ہیرئونچی نے اپنے آپ کو بچانے کیلئے میائوں
کی آواز نکالی پولیس نے بلی سمجھ کر اسے چھوڑ دیا پھر ساتھ پڑے ہوئے دوسری
بوری کو لات ماردی جس پر اس میں پڑے ہیرئونچی نے بھونکنے کی آواز نکال دی
اور پولیس اہلکار یہ سمجھ کر چھوڑ گیا کہ اس میں کتا ہے آخر میں تیسری بوری
کو آکر لات ماردی لیکن اس سے کوئی آواز نہیں نکلی دوبارہ سہ بارہ لات ماردی
لیکن کوئی آواز نہیں نکلی تو پولیس اہلکار کو غصہ آگیا اورس نے مسلسل لاتیں
مارنی شروع کردیں جس پر آخر کار تیسری بوری سے آواز آئی ابے بیڑہ غرق اس
میں آلو پڑے ہیں اتنی لمبی تمہید کا مقصد اپنے پڑھنے والوں کو یہ بتانا ہے
کہ ہم اس تیسری بوری میں پڑے ہیروئنچی سے بھی بدتر ہیں ہیرئونچی نے تو کم
از کم مسلسل لاتیں کھانے کے بعد آواز تو نکالی لیکن اس قوم اور خصوصاخیبر
پختونخوا کے لوگوں میں اتنا دم خم نہیں کہ اپنے ساتھ ہونیوالی زیادتیوں پر
آواز نکالے وہ زیادتیاں جو پختونوں کے اپنے علمبرداروں نے ان کے ساتھ کیں
جن کا اعتراف لالٹین والی سرکار سے تعلق رکھنے والے ایک بڑے رہنما نے بھی
کیا جس میں انہوں نے فرمایا کہ پخ تونوں کے قتل عام کا سودا خود انہی کے
لیڈروں نے کیا اور اس میں انہیں پینتیس ارب روپے امریکی امداد ملی بقول ان
کے اس رقم سے لالٹین والی سرکار نے مختلف ممالک میں جائیدادیں بنائیں یعنی
دوران حکومت انہیں دھماکوں کا پتہ تھا اوران کی قیمت بھی وصول کی تھی جبکہ
ساتھ میں مرنے والوں کے جنازوں میں شریک ہو کر ثواب دارین بھی حاصل کرتے
رہے َیعنی خود ہی مجرم خود ہی وکیل اور خود ہی منصف کا کردار ادا کرتے رہے-
لالٹین والی سرکار کی پانچ سال کی کارکردگی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اور
کچھ ہو نہ ہو ایزی لو ان کے دور میں باقاعدہ متعارف ہوا حالانکہ پہلے یہ
رشوت اور بعد میں کمیشن کہلائے جانے لگی لیکن ان کے دور میں یہ چیز ایزی
لوڈ بن گئی جو بعض اوقات ہیوی لوڈ ہوتی تھی انہی کے دور میں بہت سی کرائے
کی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر پھرنے والوں نے اپنی جائیدادیں اور گاڑیاں
بھی خریدلیں یہ بھی انہی کا اعزاز ہے کہ انکا لیڈر خودکش حملے کے بعد اسلام
آباد پہنچ گیا تحفظ کی خاطر یا مرنے کے ڈر سے یہ الگ قصہ ہے لیکن پھر اسلام
آباد سے پخ تونوں کے لی ڈر نظر آنے لگے اور وی آئی پی موومنٹ اور پولیس کی
بھاری نفری کیساتھ انہی کے پارٹی کے کچھ لوگ میدان میں بھی رہے یہ الگ بات
کہ شائد انہیں پتہ ہوتا تھا کہ وہ ٹارگٹ پر نہیں خیر مخصوص لی ڈروں کا درشن
پھر مخصوص جگہوں پر ہوتا تھا یہ وہ باتیں جو ہم جیسے نالائق صحافی بھی
جانتے اور مانتے ہیں لیکن گھر کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں ایک گھر کے بھیدی نے
زمین پر دے ماری ہے اب اس پر لالٹین والی سرکار کا موقف بھی آیا ہے اور یہ
اتنا فوری رد عمل ہے کہ حیرانگی ہوتی ہے لیکن ایک بات کا اندازہ اس سے کیا
جاسکتا ہے کہ کچھ نہ کچھ ضرور ہے جس کی پردہ داری ہے کیونکہ دھواں وہاں سے
نکلتا ہے جہاںپر چنگاری ہو لالٹین والی سرکار کے ایک سابق رہنما کی طرف سے
کی جانیوالی پریس کانفرنس چنگاری تو نہیں البتہ ایک جلتا الائو ہے جس نے
صوبے کے پخ تونوں کو حیران و پریشان کردیا ہے اور کئی سوالیہ نشان بھی پیدا
کردئیے ہیں اب تو وضاحتیں یہ آرہی ہیں کہ ذاتی مسائل کی وجہ سے ان باتوں کو
سیاست کے میدان میں لایا گیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ ذاتی مسائل جس کی
طرف اشارہ بھی پارٹی رہنمائوں نے کیا کہ فیس بک اور نیٹ پر آن لائن بہت کچھ
موجود ہے کیا یہ مسئلہ ابھی پیدا ہوا یہ مسئلہ بلکہ مسائل تو لالٹین والی
سرکار کے پانچ سال کے دور میں بھی رہے - ایک مزے کی بات جو یہاں پر شیئر
کرنے کی ہے کہ ایک خاندان کی اہم شخصیت کے بینک میں اعلی عہدے پر تعیناتی
کے دوران مسلسل ڈاکے ہوئے اور وہ بھی ایسے وقت جب بینک میں بہت بڑی رقم ہوا
کرتی تھی خیر یہ ہمارا کام نہیں لیکن اگر یہ ذاتی مسئلہ ہے تو اس میں صوبے
کے پخ تونوں کا کیا کام اور اگر ہے بھی تو کیا اس سے یہ بات نہیں ثابت ہوتی
کہ پخ تونوں کے علمبرداروں کی پارٹی بھی خاندان تک محدود لمیٹڈ کمپنی ہے
ماموں بھانجے تک محدود اس پارٹی میں باقی لوگ کہنے کو تو بہت کچھ لگتے اور
دکھائی دیتے ہیں لیکن حقیقت میں قوالوں کے پیچھے بیٹھ کر تالیاں بجانے والے
ہی ہیں-
اور وہاں مزے کی بات کہ بیچ چوراہے میں ہنڈیا توڑنے والے لالٹین والی سرکار
کے سابق رہنما کے مطابق ان کا ضمیر اب جاگ گیا پتہ نہیں یہ ضمیر نامی چیز
سیاست کے میدان میں کھیلنے والے کھلاڑیوں کے پاس ہوتی بھی ہے کہ نہیں اور
اگر ہے بھی تو یہ سمجھ نہیں آرہا کہ یہ ضمیر کی کونسی قسم ہے کہ جو اس وقت
جاگی جب ہزاروں پخ تونوں کو مروایا گیا اور کیا یہ ضمیر اتنا جاگ گیا کہ
آدھی بات کرکے پھر سوگیا ہے کیا ان میں اتنی ہمت کہ اٹھ کر استعفی دیدیں
اورعدالتوں میں پیش ہو کر ثبوت بھی پیش کریں کہ یہ وہ امریکی امداد ہے
اورساتھ میں استعفی بھی دیں کیونکہ جو عہدہ انہیں ملا ہے وہ بھی لالٹین
والی سرکار کی وجہ سے ملا ہے لیکن ضمیر جیسے معاملات میں ہمارے پڑوسی ممالک
اور بقول کافرممالک کے وزیروں سینیٹروں میں شرم و حیا نام کی کوئی چیز ہوتی
ہے کچھ خودکشی کرلیتے ہیں اور کچھ استعفے بھی دے دیتے ہیں لیکن ہمارے ہاں
ایسا کوئی تصور دیکھنے میں نہیں آرہا- لیکن وہ یورپ ہے اور ہم مسلمان اور
پھر پاکستانی سوخاندانوں تک محدود ان سیاستدانوں کو پتہ ہے کہ چند دن واہ
واہ تو تو میں میں ہوگی اور بھولنے والی یہ قوم سب کچھ بھول جائیگی اور
ہمارا کام چلتا رہے گالیکن کیا اس ملک میں قانون اندھا ہے کیونکہ اگر
لالٹین والی سرکار اس پر عدالت نہیں جاتی تو اندھا انصاف فراہم کرنے
والوںکو اس کا نوٹس لینا چاہئیے کیونکہ معاملہ نہ صرف پختونوں کے خون کا ہے
بلکہ دو غیر ممالک سے فنڈز لینے کا بھی ہے جس کی تحقیقات اگر کی جائے تو
شائد کچھ نہ کچھ نکل آہی جائے ویسے جن لوگوں کے رشتہ دار عزیز و اقارب
سابقہ دور میں بم دھماکوں اور خودکش حملوں کا شکار ہوئے ہیں ان میں اگر
کوئی اس معاملے میں عدلیہ سے رجوع کرے تو پھر بھی کچھ ہو سکے گا لیکن حالات
دیکھ کر اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہ پوری قوم ہی تیسری بوری میں بند ہیروئنچی
سے بھی بدتر ہے جو آواز تک نہیں نکال رہی- |