ایمان،غیرت اورآزادی
پشتو دنیا کی 7000سےزاٰئد زبانوں میں وہ واحد زبان ھے جو صرف آفراد کے
درمیان کمیونیکیشن کا زریعہ ایک زبان ہی نہیں بلکہ یہ پشتونیت کہ کوڈ
کویعنی چند اصولوں کو ریپریذنٹ کرتی ھے یہ زبان دراصل آزادی،غیرت،ایمان،
اور مہمان نوازی، جیسے اصولوں کو ریپریزنٹ کرتی ھے اور اسکے بولنے والوں کو
نہیں بلکہ اسکے اُصولوں پر عمل کرنے والوں کو پشتون کہلانے کا حق ھوتا ھے
کیونکہ کوئی بھی شخص زبان سیکھ کربولنے سے پشتون نہیں بن جاتا اور نہ ھی وہ
لوگ پشتون کہلاتے ھیں جوکہ باۓ چانسں پشتون فیملی میں پیدا ھوجاتے ھیں اور
اگر وہ بھی اُن مخصوص اُصولوں پر یقین اور عمل نہیں کرتے جو کہ پشتو زبان
کی بنیاد ھیں حتٰی کہ اُن کو بھی پشتون نہیں تسلیم کیا جا سکتاـ کم از کم
وہ کسی سچے پشتون کہ سامنے یہ دعوہ نہیں کر سکتا- کیونکہ کوئ بھی معاشرہ ھو
اُس میں اچھے برے دونوں قسموں کہ افراد لازمی ھوتے ھیں اسطرح پشتون معاشرے
میں بھی کچھ لوگ ایسے ھیی مگر ایک بات طے ھے کہ وہ اپنے علاقے میں جانے کی
جرا ت اور کسی بھی اصلی پشتون کہ سامنے پشتون ھونے کا دعوہ نہیں کر سکتے-
ایسے لوگوں کی کم از کم سزا یہ ھوتی ھے کہ معاشرہ انکا سوشل بائیکاٹ کرتا
ھے ـ
کیونکہ پشتو بھی طریقیت کی طرح ھے اگر کوئ کوڈ آف پشتونیت پر عمل پیرا نہیں
تو کہاں کی پشتو اور کہاں کی پشتونیت۔۔۔۔
دنیا کے ہر دور کہ فرعون کو پشتونوں نے سبق سیکھایا ھے تاریخ اس بات کی قدم
با قدم گواہی دیتی ھے کہ پشتون اپنی آزادی پر موت کو ترجیح دیتا رہا ھے اور
دیتا رہییگا—
برطانیہ ! جو ایک وقت اایسا بھی تھا کہ اُسکی مفتوحہ علاقوں کی وسعت کا یہ
عالم تھا کہ اُسکی راج دہانی میں سورج غروب نہ ھوتا تھا مگر اُسکا سورج
غروب بھی ھوا تو پشتونوں کہ علاقوں میں اور وہ بھی ایسے لوگوں سے جن کا
بسیرا سنگلاخ پہاڑوں پر تھا جن کو دو وقت کا رزق کہ حصول کہ لیے سخت جدوجہد
کرنی پڑتی تھی مگر آفرین کہ اتنی مشکل ترین زندگی کہ باوجود اپنی دنیا میں
جو غلامی کہ شرمناک روپ سے ناآشنا آزادی کہ باوقار نعمت سے سرفراز سے بےحد
خوش اور مطمئین تھے تب کئی بار ہی نہیں ھزارہا بار اُس وقت کی سُپر پاور
یعنی برطانیہ نے ان آزادی کہ پروانوں کو غلامی کی زنجیریں پہنانے کی مکروہ
کوشیشیں کی مگر انھیں منہ کی کھانی پڑی۔
پھر روس جو خود کو سُپر پاور کہتا تھا اُس نے ھر طرح سے جدید دور کے
ھتیاروں اور ہر قسم کہ ھتکنڈوں کو آزادی کہ متوالوں پر آزماۓ مگر خود ہی
رُسوا ھو کر سینکڑوں حصوں میں تقسیم ھو گیا۔۔۔
اور پھر آمریکہ جو کہ روس کہ ٹکڑے ھونے پر خود کو واحد سُپر پاور سمجھتے
ھوئے اپنا ورڈ آرڈر لاگو کرنے کہ لیے کئ ممالک پر چھڑ دوڑا جن میی بیشتر پر
اس کو کامیابی ملی جس سے اس کے حوصلے اتنے بلند ھوگۓ کہ وہ اپنے پہلے دو
پیشروؤں سے سبق سیکھنے کہ بجاۓ اپنی شامت کو آواز دے بیھٹا –
"کہتے ھیں ک جب گیدڑ کی شامت آتی ھے تو شہر کا رخُ کرتا ھے" بلکل اسطرح جب
بھی کسی بےوقوف نام نہاد سُپر پاور کی شامت آتی ھے تو پشتونوں سے ٹھکر لینے
کی حماقت کرتے ھیںـ
اور مزے کی بات یہ کہ امریکہ اکیلا ھی نہیں بلکہ دنیا کی 40 سے زائد ممالک
کی جدید ترین ھتیاروں سے لیس افواج کہ ساتھ ان آزادی کہ متوالوں اور پہاڑوں
پر نشیمن بنانے والوں پر حملہ آور ھوا –مگر آج دنیا اس بات کی گواہ ھے کہ
اس نام نہاد سُپر پاور کو منہ چھپانے اور زلت آمیز شکست کے لیے بہانہ بھی
نہیں مل رہا جس کہ لیے وہ پاکستان کے کچھ لالچی بزدل اور مفاد پرست ٹولے کہ
ساتھ ملکر ایک مردہ شخعں اُسامہ کا ڈرامہ رچا کر اپنی عوام اور دنیا کو
بےوقوف بنانے کی ناکام کوشش کرتا رہا-
یہ بھی حقیقت ھے کہ پشتونوں کا ناقابل تالافی انسانی جانوں اور املاک کا
نقصان ھوا مگر انہوں نے بےشمار قبرستانوں سے یہ ثابت کر دیا کہ ھمارے دو ھی
ٹھکانے ھیں کہ پشتون یا تو اپنی سرزمین پر سر اُٹھا کہ جیتا ھے یا پھر اپنے
خون کا آخری قطرہ سے اس زمین کی حرمت کو سیراب کرتے ھوۓ اُسی کہ وجود کا
حصہ بن جاتا ھے-
لہٰذا میری آج کی پشتون جواں نسل سے گزارش ھے کہ حالات سے گھبرانے کی ضرورت
نہیں یقینا ھم سب ایک بہت مشکل دور سے گزر رھے ھیںـ اور یاد رکھو کہ ہر قوم
آزادی کہ لیے بےشمار قربانیاں دیتی ھے لیکن ھم آج جن حالات کا سامنا کر رھے
ھیں وہ چند مفاد پرست بےضمیر ٹولے کی بدولت اور خود اپنی کم علمی اور
نادانی کی وجہ سے ھے اس لیے سارا الزام دوسروں پر تھوپنا سر آ سر منافقت
ھے-اب بھی وقت ھے کہ ھم آج کہ زمانے کہ تقاضوں کہ مطابق جدید تعلیم اور
تربیت کو سنجیدگی اور ایمرجنسی بنیادوں پر نئ نسل کو دلوائ مگر جو ھماری
بیشتر آبادی اس نام نہاد جنگ کی وجہ سے سر چھپانے اور دو وقت کہ رزق کے
حصول میں سرگرداں ھے جس کی وجہ سے بچوں کی تعلیم کے لیے اُن کے پاس نہ رقم
ھے نہ وقت جس کا حل ھماری خبصورت اقدار میں ھے۔۔
اس کالم کا بقیہ حصہ اگلے ھفتے پیش کیا جاۓ گا-
|