بکھرے ہوئے ہیں سب انسان۔۔

قارئین کرام! آج پھر موقع ملا ہے کہ کچھ لکھ لوں ہم سب کے بارے میں کہ کس قدر بکھرے ہوئے ہیں ہم سب ؟ ،علم کی کمی کی وجہ سے میں یہ تو نہیں لکھ سکتا کہ دنیا میں کتنے انسان زندگی بسر کررہے ہیں اور کس کس قسم کے ، کس کس زبان کے لوگ ہیں ، مگر سننے میں آتا ہے کہ قریباً 7 ارب انسان اس روئے زمین پر زندہ ہیں اور پھر سننے میں آیا ہے کہ دنیا میں 7000ہزار تک مختلف قسم کی زبان استعمال ہوتی ہیں ،اور جب اتنے زیادہ لوگ اور اتنی زیادہ زبانیں اس دھرتی پر موجود ہیں تو ظاہر ہی بات ہے کہ ہر ایک فرد واحد کی مزاج، طبیعت ، ذہن، رویہ ، چال چلن، اُٹھنا بیٹھنا، ہر ایک عمل میں دوسرے فرد کی نسبت یکسانیت نہیں ہوگی ، اکثر کسی فردکو ایسا دوست مل جاتا ہے جسے وہ بہت پسند آتا ہے اور کہتا ہے کہ بھئی آپکی مزاج ، طبیعت بالکل میری جیسی ہے ، مگر کچھ وقت ایک ساتھ گزرنے کے بعد انہیں ایکدوسرے مزاج کا مکمل پتہ چل جاتا ہے اور اس میں کوئی ایک عمل ایسی ظاہر ہوجاتی ہے جس میں اختلاف ہو، اور ایسا ہی ہوتا ہے اگر دیکھا جائے تو۔۔۔ ! \قارئین کرام !\ یہ بات حقیقت ہے کہ اس زمانے میں زمین پر ایک ایسا انسان موجود نہیں ہے ، جس کو ہر وہ خوبی اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہو کہ جس کے رگ رگ ، نس نس میں احساسات سے بھری ہوں اور زندگی کی ہر پہلو کی سمجھ حاصل ہو، ،، میرے نظریے اور سوچ کے مطابق آج کل کے زمانے میں ہر ایک انسان میں کچھ نہ کچھ کمی ضرور پائی جاتی ہے اگر وہ انسان اپنے زندگی کے تمام امور پر نظر دوڑائے تو انہیں خود بھی پتہ چل سکتا ہے کہ میں زندگی کے اس موڑ پر کس قدر گزر رہا ہوں ، یا میں اسی وقت کسی چیز یا کسی کی کوئی بات نظر انداز کررہا ہوں یا پھر مجھے اس بات کاا حساس ہے کہ اس وقت کیا کرنا چاہئے ، لوگوں میں احساس لفظ کا حس جب ختم ہوتا ہے تب ہی سے وہ زندگی کے دشواریوں کا شکار ہوکر بکھر جاتا ہے اور اس قدر بکھر جاتا ہے کہ اُسے خود اپنی آپ سے نفرت ہونی لگتی ہے ، اور پھر یہ احساس بھی اسکی ختم ہوجاتی ہے کہ بھئی مجھے اپنے آپ سے یہ کمی دور کرنی چاہئے اور خود کو بدلنا چاہئے تاکہ میں ایک کامل انسان کی طرح بن سکوں ۔ قارئین کرام ! اگر میں یہاں اپنے سردار دوجہاں حضرت محمد مصطفی ؐ کا ذکر کروں تو شاید میرے ان باتوں کا وزن بھاری ہوکر آپ کے دلوں میں اتر جائے اور کسی کے زندگی میں حضور پاک ؐ کی کچھ نہ کچھ اعمال شامل ہوکر اسکی زندگی بدل جائے۔ قارئین کرام! یہ بات آج کل ہمارے لئے شاید تھوڑی سی دقت والی بات ہوگی کیونکہ ہر اک شخص حضور پاک ؐ کے طور طریقوں پر مکمل طور پر نہیں چلتا ،مگر پھر بھی وہ کچھ نہ کچھ خاصیت ہوگی ، بلکہ کچھ لوگ تو ایسے موجود ہیں جن میں بے شمار خوبیاں موجود ہو تی ہے اور حضور پاک ؐ کی طرح زندگی بسر کررہے ہیں ، مگر زندگی کے کسی موڑ پر خطا ہوجاتی ہے ، کیونکہ انسان انتہائی عاجز ہے ، اللہ تعالیٰ نے ساری کائنات دنیا وآخرت جس نبی پاک ؐ کی خطر پیدا کی ہے ہم ہی ہیں اُمتی اُسکے ،،،تو اثرات تو ہونگے نہ کچھ ،،،مگر ہم اثرات نہیں کہیں گے بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کہیں گے ،،کہ جس شخص میں خصوصیات موجود ہوگی اس پر اللہ تعالیٰ کی یہ بہت بڑی رحمتیں ہیں ، وہ یہ نہ سمجھیں کہ یہ میری پیدا کردہ صلاحیتیں ہیں جو میں کرر ہاہوں ، بلکہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ تحائف ہیں ، جو مجھ میں موجود ہیں ۔قارئین کرام ! ایک چھوٹی سی مثال پیش کرونگا جس پر اگر آپ غور کریں تو احساس کے اس درجے پر آپ پہنچ جائیں گے کہ شاید آپ خدا کی رضا پالیں ۔’’جب ہمارے پیارے نبی کریم ؐ راستے پر چلتے تھے ، تو اگر راستے میں درخت کی شاخیں سامنے آجاتے تو آپ ؐ ایسے سر جھکاکر اس درخت کی شاخ کو بچا کر گزر جاتے ‘‘ کہ کہیں درخت کی شاخ یا پتے سے سر نہ لگ جائے ،،، یہ اسلئے نہیں کہ کہیں میرے سر پر چھوٹ نہ لگ جائے،، کیونکہ پتے پر سر لگنے سے چھوٹ نہیں لگتی،، بلکہ وہ آپ ؐ کو یہ احساس تھا کہ کہیں یہ درخت مجھ سے اُداس نہ ہوجائے۔۔ کیونکہ یہ بھی میرے اللہ کی مخلوق ہے ، ، ، اور یہ بھی روز محشر گواہی دیگی،،، قارئین کرام ذرا سوچئیں اور اس بات پر غور کریں کہ کیا ہم میں احساسات کی کمی موجود ہے ، ؟ ، کیا ہم ہر کام ، ہر فعل وعمل ٹھیک طریقے سے کررہے ہیں ، ؟ ، کیا ہم راستے پر چلتے وقت اپنے پائوں تلے آنے والے چیونٹیوں پر نظر رکھتے ہیں ؟، کیا ہمیں ہر ہر بات ، فعل، عمل، کام، اُٹھنے ، بیٹھنے، کھانے ، پینے، بات کرنے، عبادت کرنے، دعا کرنے، حتیٰ کہ کسی چیز کی طرف دیکھتے وقت یہ احساس ہوتا ہے کہ کیا میں جو کررہا ہوں وہ ٹھیک طریقے سے ہے ؟؟؟یا میں صرف خانہ پُری کرکے اور زندگی کا لمحہ لمحہ ضائع کرر ہاہوں ،،، قارئین کرام!آپ کو تو پتہ ہے کہ میں جب بھی لکھتا ہوں تو احساس کا لفظ بہت استعمال کرتا ہوں ، مگر کیا کروں ہر طرف دیکھتا ہوں تو بے حسی کے عالم میں ڈوبے ہوئے لوگ بہت دیکھنے کو ملتے ہیں ،، مجھ میں بھی بہت کمی اور خامیاں ہونگی ، اس طرح ہر کسی میں کمی ہوگی خامیاں ہونگی ، مگر بعض لوگ ایسے ملینگے جن میں یہ حس بالکل نظر نہیں آئیگی ،، اور اس قسم کے لوگوں کی وجہ سے اچھے اچھے انسان انکی طرح عادتوں کا شکار ہوکر معاشرے کے بگاڑکا سبب بن جاتے ہیں ۔ اسی طرح آپس میں اختلافات پیدا ہوکر لوگ بکھر جاتے ہیں کانٹوں کی طرح ، جنہیں دوبارہ جمع کرنا دشوار ہوجاتا ہے ۔ اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے ،، جس کی مثال یہ کہ ایک گائوں میں امن وامان ہو ایکدوسرے کیلئے دلوں میں پیار ہو، مگر جب کوئی ایک شخص اس گائوں میں بے حسی کا شکار ہوتا ہے اور کسی بھی چیز یا بات کا احساس اس میں ختم ہوتا ہے تو اسکا یہ مرض دوسروں میں اس طرح پھیلتا ہے کہ بھئی فلاں شخص تو ایسا کررہا ہے یہ تو غلط ہے ، تو ہم کیوں ٹھیک کام کریں چھوڑو۔۔۔! تو اسی طرح پھیلنے لگتا ہے یہ مرض اور پھر سارا گائوں اس مرض کا شکار ہوکر تباہ ہوجاتا ہے اور وہاں امن وامان اور سکون کی فضائ آخر کار ختم ہوجاتی ہے ۔ ہر ایک شخص دوسرے کے پائوں پر کلہاڑی مارنے لگتاہے ۔ میرے عزیزوں یہی ہے احساس کی کمی اور یہی ہے وہ مرض جس کی وجہ سے ہم سب اس زمانے میں اس معاشرے میں انسان کے نام پر ایکدوسرے کیلئے ناسور بن جاتے ہیں ۔ اور ہماری زندگی کا اصل مقصد فوت ہوجاتا ہے ۔ دعا ہے رب العزت سے کہ ہم سب کو ایسا بنا دیں کہ جس طرح رب کریم ہم سے راضی ہو،، اور ہم سب کوہر ایک قول ، فعل و عمل کا احساس عطا فرمائیں ۔ آمین۔

HAZRAT ALI
About the Author: HAZRAT ALI Read More Articles by HAZRAT ALI: 10 Articles with 12607 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.