دنیاکی تاریخ کا جائزہ لیا
جائے تو بے شمار ایسے بادشاہوں کے تذکرے ملتے ہیں جو مطلق العنان بنے ہوئے
تھے۔ حتیٰ کہ تاریخِ اسلام میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ ان میں 40 برس تک
حکومت کرنے والے بھی ہیں۔ ان کے دربار میں چاپلوسی کرنے والے وزیر، مشیر
اور مسخرے انہیں شہنشاہوں کے شہنشاہ! بادشاہوں کے بادشاہ! اور دیوتاؤں کے
دیوتا جیسے القابات سے پکارتے تھے۔ وہاں کسی پرندے کو پر مارنے کی مجال نہ
ہوتی تھی۔ ان کے حکم سے لوگ سال تک جیلوں میں قید رہتے ۔ وہ دنیا جہاں کو
بدل دینے کے دعوے کرتے تھے۔ ان کے نام کے سکے رائج رہے۔ وہ لوگوں کے خدا
بننے کی کوشش کرتے۔ عوام الناس کی زندگیوں کے فیصلے ان کی ایک جنبش ابرو
میں بدل جاتے۔ آج ان کا نام جاننے والا کوئی نہیں۔ ان کی قبر پر فاتحہ
پڑھنے والا کوئی نہیں۔ حتیٰ کہ آج کے دور کے حکمران بھی اپنے پیشروؤں سے
کوئی سروکار نہیں رکھتے۔ عین ممکن ہے کہ آنے والے وقت میں ان موجودہ
حکمرانوں کو جاننے والا بھی کوئی موجود نہ رہے۔ لاہور میں جہانگیر بادشاہ
کا مقبرہ ہے اس کی بیگم نورجہاں(زیب النساء) اور نورجہاں کے بھائی آصف
کابھی۔ جہانگیر کی وفات کے بعد اُسے نورجہاں نے نہایت تزک و احتشام کے ساتھ
چہار باغ میں دفنایا ہو گا۔ اور اپنی قبر کے بارے میں وہ خود ہی لکھ گئی
تھی کہ وہاں کوئی چراغ نہ جلے گا۔ مقبرہ جہانگیر لاہور میں جانے کے لیے چند
روپے کا ٹکٹ لینا پڑتا ہے مگر بہت سے مقامی لوگ عقبی جانب سے بغیر ٹکٹ کے
داخل ہوتے ہیں۔ لڑکے بالے وہاں کرکٹ کھیلنے آتےہیں۔ دیگر لوگ سیرسپاٹے کی
غرض سے وہاں جاتے ہیں۔
لیکن آئیں آپ کو اسی لاہور میں ایک اور مقبرے پر آنے کی دعوت ہے۔ پونے دس
صدیاں پہلے ایک بزرگ سید علی بن عثمان ہجویری نے مسعود غزنوی کے عہد میں
لاہور شہر کی فصیل کے باہر دریا کنارےڈیرہ لگایا تھا۔ اس بابے نےکبھی کسی
کا رب بننے کی کوشش نہیں کی۔ لیکن مفتی اعظم پاکستان علامہ مولانا محمد
ارشد القادری کے بقول
"اتنی بڑی بارگاہ میں کھڑا ہوں! جہاں اللہ کے اولیاء، اللہ کے اولیاء فیض
لینے آتے رہے! یہاں خواجہ اجمیری فیض لینے آئے! یہاں فریدالدین گنج شکر فیض
لینے آئے! بڑے بڑے حضرات یہاں فیض لینے آتے رہے کہ یہ بارگاہِ گنج بخش ہے!"
اور خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے کہا
گنج بخش فیض عالم ،مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل، کاملاں را رہنما
حضرت بابا فرید رحمۃ اللہ علیہ جوتے اتار کر داتا کی نگری میں آتے تھے۔ بڑے
بڑے بادشاہوں نے اس درگاہ پر حاضری دی۔ اور ان کے مزار کی سیڑھیوں میں دفن
ہونا اپنے لیے سعادت سمجھا۔ سوال تو یہ ہے کہ اتنی صدیاں پہلے وفات پانے
والے بزرگ سے ان لاکھوں کروڑوں لوگوں کا رشتہ کیا ہے جو وہاں حاضری دیتے
آرہے ہیں؟ خواجہ اجمیری سے آج کے نومسلم کا کیا رشتہ ہے؟ غوثِ اعظم سرکار
شیخ سید عبدالقادر جیلانی سے دنیا بھر کے مسلمانوں کا رشتہ کیا ہے؟ مجدد
اعظم شیخ احمد فاروقی سرہندی سے کیا رشتہ ہے؟ شیخ عبدالحق محدث دہلوی سے
کیا رشتہ ہے؟ امام اہل سنت مولانا احمد رضا خان قادری سے کیا رشتہ ہے؟ پیر
سید جماعت علی شاہ سرکار رحمۃ اللہ علیہ سے کیا رشہ ہے؟ پیر سید مہر علی
شاہ سرکار گولڑوی سے کیا رشتہ ہے؟ جنہوں سے سرکار دوعالم رسول اکرم حضرت
محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت جب خواب میں کی تو جاگ کر کہا
کتھے مہر علی کتھے تیری ثناء
گستاخ اکھیاں کتھے جا لڑیاں
انہوں نے اس پنجابی نعت میں نبی اکرم شفیع معظم نور مجسم صلی اللہ علیہ
وسلم کا حلیہ مبارک بیان فرمایا ہے۔ انہی عشقِ رسول کی انمٹ لہروں کا رشتہ
عوام الناس کو ان تمام بزرگوں سے ہے۔ ان بزرگوں نے اللہ عزوجل اور اس کے
رسول صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کے احکامات کے مطابق اپنی زندگیوں کو
گزارا ۔ ان کے ان نیک کاموں کی وجہ سے عشق و رحمت کے فوارے جاری ہوئے۔
انہوں نے انسانیت دوستی کا درس دیا۔ انہوں نے سچے اور کھرے دین اسلام کا
ہدایت والا پیغام لوگوں تک اپنی بساط کے مطابق پہنچایا۔ آج ان کے چرچے ہیں۔
ان کے عرس بھی ہوتے ہیں اوران کے مزارات پر قرآن خوانی بھی ہوتی ہے۔ ان کے
درباروں سے ملحق مسجدوں میں عبادت الٰہی بھی ہوتی ہے اور وہاں مدارس میں
قال اللہ و قال رسول اللہ کی صدائیں بھی گونجتی ہیں۔ کچھ ایسے بدبخت لوگ
بھی انسانی تاریخ کا حصہ ہیں جو بجائے خود انسانیت کے لیے باعثِ عار ہیں۔
جن کی مذموم حرکتوں سے حضرت انسان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ایسے ظالم
لوگوں میں سے ایک خبیث کا نام راج پال تھا۔ اس کا نام ان بدبختوں میں آتا
ہے جنہوں نے شمع عشق رسول کے پروانوں کو دعوتِ مبارزت دی اور ان کے عشق کا
امتحان لینا چاہا۔ کفار ہمیشہ سے یہ نکتہ سمجھے ہوئے ہیں کہ مسلمانوں کا
سرمایہ "عشق رسول " ہے۔ جیسا کہ ڈاکٹر محمد اقبال نے فرمایا۔
مصطفیٰ برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی است
اسی سرمایہء ملت کو ایک بار پھر چیلنج کیا گیا۔ اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے
اپنے ایک خاص بندے کو اس ملعون کا کام تمام کرنے کے لیے چن لیا۔1929 سے
پہلے علم دین کے نام کو کون جانتا تھا؟ علامہ ڈاکٹر محمد اقبال جیسے فلسفی
اور محقق کو کس ناخواندہ ترکھانوں کے بیٹے پر رشک آنا تھا؟ لوگ کہتے ہیں کہ
اقبال کو نوبل پرائز اس لیے نہ ملا کہ وہ صرف امت مسلمہ کے شاعر تھے۔
حالانکہ اقبال جیسی عظیم ہستی ان دنیا داروں کے نوبل پرائز کی محتاج نہ
تھی۔ انہیں نبی کریم رؤف و رحیم صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کی شمع میں جل
جانے والے غازی علم الدین شہید پر رشک آیا۔ ان کے لیے تہنیت کا پیغام عاشق
رسول ہونے کا لقب تھا۔ ان کی آنکھیں یورپ کی چکا چوند کی بجائے خاکِ مدینہ
و نجف کو اپنا سُرمہ بنانا چاہتی تھی۔ امام اہل سنت مولانا احمد رضاخان
قادری نے کہا تھا۔
کیوں تاجدارو! خواب میں دیکھی کبھی یہ شے
جو آج جھولیوں میں غلامانِ در کی ہے
آج دعوت نظارہ ہے کہ دن کے وقت دنیا کے بادشاہوں کی قبروں پہ جا کر دیکھ
لو! ویرانی ان کا مقدر ہے۔ اور آج رات کے وقت غازی علم دین شہید کے مزار پر
بھی جا کر دیکھ لو! اکیس سال کی عمر میں جامِ شہادت نوش کرنے والے ان پڑھ
نوجوان کی قبر پہ مفسر قرآن، محدث، علامہ، مفتی، ڈاکٹر، وکلاء اور ججوں کا
تانتا بندھا ہوا ہے۔ یہاں ایک وضاحت ضروری ہے کہ غازی علم دین شہید کے
مقدمے میں انگریز ججوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کے دلائل کو پسِ پشت ڈال
کر اپنا حکم نامہ جاری کردیا تھا۔ اور دوسری وضاحت یہ کہ قائد اعظم پر یہ
الزام کہ انہوں نے غازی کے کیس کے لیے کثیر رقم مسلمانانِ پاک و ہند کی
جیبوں سے نکلوا لی تھی یہ بھی جھوٹا ہے۔ یہ بہتان بد بختوں کے خبث باطن کا
آئینہ دار ہے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے حضرت قائد اعظم نے حضرت علامہ محمد
اقبال کو اپنی چیک بک دے کر کہا تھا کہ غازی کے لیے جتنے پیسے چاہیئں وہ
یہاں خود لکھ لو!!!!! آج غازی علم دین کے چاہنے والوں کو اڈیالہ جیل
راولپنڈی میں غازی ملک ممتاز حسین قادری کو بھی یاد رکھنا چاہئیے اور ان کی
رہائی کے لیے بھر پور کوشش کرنا مسلمانوں کا فریضہ ہے۔ |