ان کو ان کے قصے سناتے رہو
تا کہ یہ غور و فکر کریں ( القرآن )
تکافل کمپنیاں یا مذہب کی آڑ میں سودی نظام؟
ایک وقت تھا کہ انشورنس کمپنیوں کے نما ئندےقریہ قریہ ، شہر شہر جاتے تھے
اور سادہ لوح عوام کو ڈرا کر طرح طرح کے لالچ دے کر غریبوں کی خون پسینے کی
کمائی ہتھیا لیا کرتے تھےوہ ڈر اور لالچ کیا تھے جن سے خوف زدہ ہو کر لوگ
اپنی خون پسینے کی کمائی ان کو دے دیتے تھے!
موت کا ڈر
سب سے پہلے یہ لوگ عام لوگوں کے دل میں موت کا خوف پیدا کرتے ہیں جی دیکھیں
خدانخواستہ آپ کا ایکسیڈتٹ ہو جائے یا آپ ناگہانی موت کے شکنجے میں چلے
جائیں تو سوچیں آپ کے معصوم بچوں کا کیا ہو گا ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں
ہو گا ایسا ہے کہ آپ ابھی سے اس بارے میں سوچیں اور یہ کہ آپ کے اس خوف کا
حل ہمارے پاس ہے وہ اس طرح کہ آپ ہر مہینے یا ہر سال ایک مقررہ مدت تک اپنی
کمائی میں سے کچھ رقم ہمارے پاس بطور امانت رکھواتے رہیں اس پر ہم آپ کو
منافع بھی دیں گے اور اگر آپ مقررہ مدت سے پہلے ہی خدانخواستہ مر جاتے ہیں
تو ہماری کمپنی آپ کی اولاد کو دوگنا دے گی ایک تو ڈر اور لالچ کی یہ صورت
ہوا کرتی تھی دوسری صورت میں بچوں کی تعلیم و تربیت کا لالچ ، شادی کا لالچ
قصہ مختصر یہ لوگ بہلا پھسلا کر یا ڈرا کر اپنا مقصد حاصل کر لیتے تھے وقت
گزرتا چلا گیا لوگوں میں شعور پیدا ہوا باتیں ہونے لگیں کہ یہ سودی کاروبار
ہے اور ایک مسلمان ہونے کے ناتے اس سے بچنا چاہئے رفتہ رفتہ ان کمپنیوں کے
طریق کار میں تبدیلیاں آتی گئیں ان کا دائرہ کار وسیع ہو گیا اب یہ کمپنیاں
اور بہت سے طریقوں سے سرمایہ اکٹھا کر لیتی ہیں لیکن ان کا شکار پھر سادہ
لوح عوام ہی ہوتے ہیں ،آج کل سرمایہ کاری کا ایک نیا سسٹم متعارف ہوا ہے
جسے تکافل کہتے ہیں باقی مسلم دنیا میں تو جانےکب سے یہ کام ہورہا ہو لیکن
پاکستان میں اسے ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا ان کا کام بھی وہی انشورنس
کمپنیوں والا ہی ہے لیکن اس دعوے کےساتھ کے یہ مکمل شرعی نظام ہے سود سے
پاک یہاں سرمایہ کاری کرنے والوں کو سود نہیں منافع دیا جائے گا۔ یہ سود
کیا ہوتا ہے اور منافع کسے کہتے ہیں اور ان دونوں میں فرق کیا ہے آئیے قرآن
سے پوچھتے ہیں اور پھر فیصلہ کرتے ہیں کہ انشورنس اور تکافل شرعی ہو سکتے
ہیں یا نہیں ؟
سورة البَقَرَة
یہ اللہ کی کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہدایت ہے اُن پرہیز گار لوگوں کے
لیے ﴿۲﴾ جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، جو رزق ہم نے اُن
کو دیا ہے، اُس میں سے خرچ کرتے ہیں ﴿۳﴾
سورة حٰمٓ السجدة
اور اسی نے زمین میں اس کے اوپر پہاڑ بنائے اور زمین میں برکت رکھی اور اس
میں سب سامان معیشت مقرر کیا اور تمام طلبگاروں کے لئے یکساں ﴿۱۰﴾
سورة البَقَرَة
اے پیغمبر اور یہ تم سے پوچھتے ہیں کہ (خدا کی راہ میں) کون سا مال خرچ
کریں۔ کہہ دو کہ جو ضرورت سے زیادہ ہو۔ اس طرح خدا تمہارے لئے اپنے احکام
کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم سوچو ﴿۲۱۹﴾
سورة البَقَرَة
آپ سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں کہہ دو جو مال بھی تم خرچ کرو وہ ماں باپ
اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کا حق ہے اور جو نیکی
تم کرتے ہو سو بے شک الله خوب جانتا ہے ﴿۲۱۵﴾
سورة البَقَرَة
شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور شرمناک طرز عمل اختیار کرنے کی ترغیب
دیتا ہے، مگر اللہ تمہیں اپنی بخشش اور فضل کی امید دلاتا ہے اللہ بڑا فراخ
دست اور دانا ہے ﴿۲۶۸﴾
سورة هُود
زمین میں چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو
اور جس کے متعلق وہ نہ جانتا ہو کہ کہاں وہ رہتا ہے اور کہاں وہ سونپا جاتا
ہے، سب کچھ ایک صاف دفتر میں درج ہے ﴿۶﴾
سورة بنیٓ اسرآئیل
اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور
تمہیں بھی در حقیقت اُن کا قتل ایک بڑی خطا ہے ﴿۳۱﴾
مندرجہ بالا آیات سے جو بات سامنے آئی ہے وہ یہ کہ
قرآنی تعلیمات کے مطابق اللہ تعالی نے تمام انسانوں کا رزق زمین میں رکھ
دیا ہے بلکہ ان کی اولادوں کا بھی اور حکم ہے کہ اپنی اپنی ضرورت کے مطابق
رزق کو زمین سے حاصل کر لیں اور اگر کسی کو اللہ اپنے فضل سے زیادہ دے تو
وہ بھی اپنی ضرورت کا رکھ کر باقی اللہ کی راہ میں خرچ کر دے۔یعنی رزق یا
سرمایہ چاہے کسی انسان نے اپنی محنت سے کمایا ہو یا اللہ اسے اپنے فضل سے
عطا کر دے جمع کرنا جائز نہیں بلکہ اس پر ماں باپ ، رشتہ داروں ، یتیموں ،
مسکینوں مسافروں کا حق ہے یہ انہی ضرورت مندوں میں تقسیم کرنے کا حکم ہے
اور جس معاشرے میں انسانوں کی ضروریات اللہ کے بتائے ہوئے قوانین کے مطابق
پوری ہوں وہاں چوری یا فساد کا اندیشہ باقی نہیں رہتااور نہ ہی سرمایہ جمع
کرنے کی ضرورت باقی رہتی ہے
اب ذرا سود کو بھی سمجھ لیں ۔
سورة البَقَرَة
الله سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے اور الله کسی ناشکرے گناہگار
کو پسندنہیں کرتا ﴿۲۷۶﴾
سورة البَقَرَة
اے ایمان والو! الله سے ڈرو اور جو کچھ باقی سود رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو اگر
تم ایمان والے ہو ﴿۲۷۸﴾
سورة البَقَرَة
اگر تم نے نہ چھوڑا تو الله اور اس کے رسول کی طرف سے تمہارےخلاف اعلان جنگ
ہے اور اگرتوبہ کرلوتو اصل مال تمھارا تمہارے واسطے ہے نہ تم کسی پر ظلم
کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا ﴿۲۷۹﴾
قرآن کی تعلیمات کے مطابق ہر وہ منافع جو بغیر محنت کے صرف سرمایہ کی بنیاد
پر کسی سے لیا جائے سود کہلائے گا۔
اور ہر وہ منافع جس میں سرمایے کے ساتھ انسان کی اپنی محنت اور کوشش شامل
ہو تجارت کہلائے گی ۔
ان قرآنی تعلیمات کی روشنی میں دیکھا جائے تو ہر طرح کی انویسٹمنٹ جس میں
انسان کی اپنی کوئی محنت شامل نہ ہو ، انشورنس کمپنی میں سرمایہ کاری،
بینکوں میں سرمایہ جمع کرنا اور اس پر منافع لینا سب سودی کام ہیں اللہ پاک
سب مسلمانوں کو قرآن پاک کو سمجھ کر پڑھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا
فرمائے آمین |