اس روز گھر میں بہت چہل پہل تھی ،بچے بوڑھے
اور جوان باری باری آتے رہے ۔آج تقریباًپورے محلے میں ہمارا گھر ہی زیر بحث
رہا ۔۔۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ہمارے ہاں الیکٹرونک میڈیا کا اکلوتا آلہ
’’ٹرانسسٹر ریڈیو ‘‘ ہوا کرتا تھا وہ بھی ’’بیٹری سیل‘‘ سے محروم بیچارہ
چند مخصوص گھروں میں ہی دستیاب رہتا اور جن گھروں میں یہ آلہ ہوتا وہ
نسبتاً بہترگھرانے مانے جاتے تھے ۔
’’لالا‘‘کافی عرصے بعد چھٹی آئے تھے۔۔۔اس بارتو کمال ہی ہو گیا وہ آتے ہوئے
ایک عدد۔۔۔ تین بینڈ۔۔۔اور وہ بھی نیشنل کا جاپانی ریڈیوبھی اپنے ساتھ لائے
۔اس روز ہمارے گھر میں بہت رونق لگی ہم سب خوشی سے پھولے نہ سمارہے تھے ۔۔۔
خوش کیوں نہ ہوں ؟ آج ہمارہ شمار بھی گاؤں کے چند اہم گھرانوں میں ہونے لگا
تھا ۔۔۔ پورہ محلہ ہمارا ریڈیو دیکھنے جمع ہوا تھا ۔۔۔’’لالا‘‘ اس کے لئے
بیٹری سیل بھی لائے تھے جو کہ ان کے جانے تک ہی بے جان ہو گئے اور پھر کیا
تھا۔۔۔بس ۔۔۔ریڈیوبند ۔‘‘کافی دنوں بعد ایک روزہم بھائیوں نے سوچا کہ
اسے۔۔۔ جیسے تیسے بجایا جائے ۔۔؟بزرگوں کا ڈر بھی تھا ۔۔۔اس روزایک نے ادھر
اودھر سے کوئی پندرہ بیس ’’سیل‘‘ مہیا کر لئے ۔لیکن سب بیکار ثابت ہوئے
،کسی میں زرہ برابر ’’ایمان ‘‘ نہ تھا۔ایک ترکیب سوجھی ۔۔۔ایک پرانے اخبار
میں ان سب کو برابرلپیٹ کر دھاگا باندھ دیا اور دونوں سروں سے’’ تار‘‘ جوڑ
کر ریڈیو کو آن کیا تو وہ بولنے لگا۔ہمارا تجربہ کامیاب رہا اور اسی دوران
ہم نے ایک نئے قسم کی عیاشی بھی شروع کر دی یعنی پرانے اخبار کے ٹکڑے کا
چھوتاسا رول بنا کر اسے آگ سلگا کر’’ کش‘‘لگانے لگے ۔۔۔یوں سیگریٹ نوشی کا
آغاز ہوا،اور ہم اکثر پرانے سیل جمع کر کے ریڈیو بھی سنتے اور دیسی ساخت کے
سیگریٹ سے بھی لطف اندوز ہوتے ۔
اس کے کچھ عرصہ بعد دیس میں ’’چینجر ‘‘نام کا ایک نیا آلہ متعارف ہوا ۔جس
میں جب چاہیں اپنے پسند کا نغمہ سن سکتے ہیں لیکن علاقے میں بجلی نہ ہونے
کے باعث ’’چینجر‘‘ سے مستفید ہونابھی مشکل تھااور اسی کی دہائی میں اﷲ اﷲ
کر کے جب ہمارے ہاں بجلی کی سہولت پہنچی توٹیلی وژن بھی آپہنچا ۔۔۔لیکن
مخصوص گھروں میں ۔۔کیوں کہ ہر کوئی اس کی استطاعت نہیں رکھتا تھا۔مذید کچھ
عرصہ بعد’’وی سی آر‘‘ نام کی ایک اور نئی چیز منظر عام پہ آئی۔۔۔اورپھر
یہاں سے ہماری سوسائٹی و سماج میں ایک طویل بحث نے جنم لیا جس کا عنوان یہ
تھاکہ’’ٹیلی وژن اور وی سی آر نے نسل کو تباہ کر دیا۔۔‘‘
دیکھتے ہی دیکھتے انسان نے اتنی ترقی کر لی کے پوری دنیا ایک چھوٹے سے گاؤں
کی شکل اختیار کر گئی ۔۔۔فاصلے مٹ گئے۔۔۔۔ زندگی کی رفتار تیز سے تیز تر ہو
گئی ۔جن گھروں میں ریڈیو نہیں تھا وہاں کے مکین موبائل فون ،انٹر نیٹ
،کمپیوٹر ،لیپ ٹاپ کا استعمال کرنے لگے اور جہاں پورے پورے گاؤں میں کوئی
ایک بلیک اینڈ وائٹ ٹیلی وژن ہوا کرتا تھا وہاں ڈش و کیبل نیٹ ورک پر دنیا
بھر کے پروگرام دیکھے جانے لگے ۔اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس طوفانی
انقلاب نے دنیا بھرکو ہلا کے رکھ دیا اوراس تبدیلی کے باعث صدیوں سے قائم
روایات کا متاثر ہونا بھی ایک فطری عمل تھا انہیں بھی پسپا ہونا پڑھا
۔انسانی ترقی کے اس روپ کو دیکھتے اور اپنی انکھوں کے سامنے اپنی اعلیٰ
ترین انسانی و اخلاقی روایات کو جھولتا ہوا دیکھ کر سماج کی تو چیخیں نکل
گئیں ۔اور پھر کیا ہوا۔۔۔کل تک ٹیلی وژن اور وی سی آر پر جو الزامات تھے وہ
کیبل سے ہوتے ہوئے موبائل و انٹر نیٹ تک جا پہنچے ۔اور کہا جانے لگا کہ ان
خرافات کے باعث ہماری جواں نسل نے اعلیٰ ترین اخلاقی اقدار کو مسخ کر
دیا،اور رشتوں کے تقدص کو پامال کر کے اپنے اصلاف کو شرمندہ کر دیا ہے ۔
جب کے اس کا پس منظر وحقائق اور ہیں ۔۔۔وہ یہ کہ ! ہم ریڈیو کے زمانے کے
لوگ جو ان کٹھن و نا مصاعد حالات کے باعث ان تمام آسائشوں سے محروم رہے
۔اور کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزاری ،توپھر ہم نے ارادہ کر لیا ۔۔۔ایک
فیصلہ کرلیا کہ ہر وہ آسائش جو ہمیں نہ مل سکی ہم اپنے بچوں کو ضرور دیں گے
اور جب ہم نے اپنی جواں نسل کو دور جدید کی ہر آسائیش بہم پہنچانے کی ٹھانی
تو اسمیں کامیاب بھی رہے ۔۔۔لیکن بچے تو بچے ہوتے ہیں ۔۔۔ان بچوں کو جب ان
تمام تر سائنسی آلات کے صحیح استعمال کے لئے رہنمائی کی ضرورت پڑھی تو بد
قسمتی سے وہ ہم نہیں کر سکے ۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے بچوں نے نادانستہ
ان سائنسی ایجادات کو منفی سرگرمیوں کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا اور
وہ گمراہی کی جانب راغب ہوئے جس کا اثر بے شک ہماری اہم ترین انسانی و
اخلاقی اقداروروایات پر پڑھا جس کے باعث ہم اپنی زندگی بھر کی اس محنت پر
جہاں جشن مناتے وہاں سوگوار ٹھہرے اور یہ اتنا جلدی ہوا کہ ہم ریڈیو کے
زمانے کو لوگوں کو خبر تک نہ ہوئی ۔۔۔ہمارے سامنے بیٹھ کر ہمارے بچے انٹر
نیٹ پر ہوم ورک کر رہے ہوں یا کچھ اور۔۔۔ہمیں علم نہیں ہوتا ۔اور جب کوئی
واقع رونما ہوتا ہے تو انسان کی ان سائنسی ایجادات کو مورد الزام ٹھہرا کر
بری الزمہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں جواس مسئلہ کا قطعی حل نہیں کیوں کہ یہ
ممکن نہیں کہ ہمارے کہنے سے سائنس کا یہ تحقیقاتی سفر منجمند ہو جائے لیکن
یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ ہم ان تمام ایجادات کی کم از کم تربیت حاصل کر کے اس
نئی دنیا کے ہمسفر بن جائیں اور ساتھ ہی ہر پل ہر لمحہ اپنی جواں نسل کی
رہنمائی و نگرانی کرنے کے بھی قابل ہو جائیں ،یہی ایک راستہ ہے اس اہم ترین
و حساس مسئلہ کے حل کا، کہ ہم سماج کی بگڑتی ہوئی صورت کو سہارا دے کر اپنی
اعلیٰ ترین قدیم روایات و اخلاقی اقدار کو قائم و دائم رکھ سکیں جو ہمارا
فرض اولین ہے۔ |