ارب پتی کلب میں ایشیائی باشندے بازی لے گئے

دنیابھرمیں ارب پتیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور اس کام میں سب سے زیادہ رفتار ہے ایشیائی امیروں کی ہے۔ ایک طرف دنیا کے مختلف ممالک میں بھوک سے بلکتے بچیوں کو سر پر کھلا آسمان تن ڈھاپنے کے لئے کپڑا دستیاب نہیں۔ دوسری جانب چم چماتی گاڑیاں بے شمار دولت، ارب پتیوں کی تعداد میں دھڑا دھڑ اضافہ ہونے لگا۔، ویلتھ ایکس اور یو بی ایس بلین ایئر سینسس 2013 کے مطابق ایشیا میں 2012 سے 2013 تک صرف ایک سال کے دوران ارب پتی افراد کی تعداد میں تین اعشاریہ سات فیصد سے تیرہ فیصد تک کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ اضافہ اس بات کی عکاس ہے کہ خطہ تیزی سے ترقی پا رہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایشیا بین الاقوامی اقتصادی صورتحال کو تبدیل کر رہا ہے جو اس بات کا مظہر ہے کہ اگلے پانچ برس میں یہ خطہ شمالی امریکا کے مد مقابل ہوگا۔ سروے میں امیرافراد کے پبلک اور نجی اداروں میں حصہ داری، رہائشی اور سرمایہ کاری،آرٹ کلیکشن،ذاتی طیارے اور نقد زرکو مدنظر رکھاگیا ہے۔خیال ہے کہ رواں سال دنیا بھر میں ارب پتی افراد کی تعداد 2 ہزار 170 تک پہنچ گئی ہے ۔ویلتھ ایکس اور ویلتھ منیجر یو ایس بی کی جانب سے پہلی بار دنیا بھر کے ارب پتی افراد کے اعداد و شمار سے متعلق جاری رپورٹ کے مطابق 2013 میں دنیا بھر میں ارب پتی افراد کی تعداد 2 ہزار 170 تک پہنچ چکی ہے جب کہ دنیا بھر کے امیر ترین افراد میں 3 اعشاریہ 7 فیصد کا تعلق ایشیا سے ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایشیا بین الاقوامی اقتصادی صورتحال کو تبدیل کررہا ہے، اگر ایشیا میں اسی طرح ارب پتی افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا تو آئندہ 5 برس میں یہ خطہ شمالی امریکا کے مدمقابل آجائے گا جہاں ارب پتی افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ دولت میں اضافہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ایشیا تیزی سے ترقی کررہا ہے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں 2009 عالمی مالیاتی بحران کے بعد 810 ارب پتی افراد کا اضافہ ہوا جب کہ یہ بھی اندازہ لگا گیا ہے کہ 2020 تک دنیا بھر میں ارب پتی افراد کی تعداد 3 ہزار 900 تک پہنچ سکتی ہے۔چین بھی اس فہرست میں آگے آگے ہے۔اب چین میں ارب پتی افراد کی تعداد 300 سے زائد ہو گئی ہے۔ یہ اعداد و شمار بیجنگ میں قائم ایک میگزین نے شائع کیے ہیں۔ چین میں مالدار افراد کی فہرست کے مطابق 2013ء میں ملک میں ارب پتی افراد کی تعداد 315 ہو گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں پہلی مرتبہ ارب پتی افراد کی تعداد 300 سے زائد ہوئی۔روپرٹ ہوگیفر، جنہوں نے ’ہورن‘ رپورٹ تیار کی ہے کا کہنا ہے کہ چین میں اقتصادی شرح نمو میں کمی کے باوجود یہ اعداد و شمار مثبت رحجان کو ظاہر کرتے ہیں۔اْن کا کہنا تھا کہ اگر اقتصادی ترقی کی رفتار بڑھی، جس کی توقع کی جا رہی ہے، تو ارب پتی افراد کی تعداد میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔رپورٹ کے مطابق آمدن کا بڑا ذریعہ جائیداد کی خرید و فروخت ’رئیل اسٹیٹ‘ کی صنعت تھی، جس کی قمیت میں حال ہی میں تیزی آئی ہے۔اعداد و شمار میں ’رئیل اسٹیٹ ڈویلپر‘ وینگ جینلین کا نام شامل ہے جو چین کی سب سے مالدار شخصیت ہیں اور اْن کی دولت لگ بھگ 22 ارب ڈالر ہے۔سٹر وینگ کا گروپ ہوٹل، فلم، تھیٹر کی صنعت سے وابستہ ہے جب کہ یہ گروپ بڑے ’ڈیپارٹمنٹل اسٹور‘ بھی چلاتا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چین میں 1,000 مالدار ترین افراد میں سے نصف کے مالی اثاثوں میں گزشتہ ایک سال میں اضافہ ہوا ہے۔ ایشیا ریجن میں ارب پتیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہونے کے بعد اٹھارہ مال دار ارب پتی کلب کے ممبر بن جائیں گے۔ امریکی ادارے کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ایشیائی ریجن میں ارب پتی کلب میں حیران کن اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ دنیا بھر کی کل دولت کا 13 فی صد ایشیائی ارب پتیوں کے پاس ہے۔ ایشیا میں ارب پتیوں کی تعداد میں اضافے کی رفتار یہی رہی تو آیندہ پانچ سالوں میں ایشیا امیر ترین افراد کی فہرست میں شمالی امریکہ کے برابر آ جائے گا۔ اعدادوشمار میں کہا گیا ہے کہ 2009 کی عالمی کساد بازاری کے باوجود بھی ارب پتی کلب میں 810 ارب پتیوں کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے…دنیا بھر میں ارب پتیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور اس کام میں سب سے زیادہ اسپیڈ ہے ایشیائی امیروں کی۔۔۔ویلتھ ایکس اور یو بی ایس بلین ایئر سینسس 2013 کے مطابق ایشیا میں 2012 سے 2013 تک صرف ایک سال کے دوران ارب پتی افراد کی تعداد میں تین اعشاریہ سات فیصد سے تیرہ فیصد تک کا اضافہ رکارڈ کیا گیا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ اضافہ اس بات کی عکاس ہے کہ خطہ تیزی سے ترقی پا رہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایشیا بین الاقوامی اقتصادی صورتحال کو تبدیل کر رہا ہے جو اس بات کا مظہر ہے کہ اگلے پانچ برس میں یہ خطہ شمالی امریکا کے مد مقابل ہوگا۔ سروے میں امیرافراد کے پبلک اور نجی اداروں میں حصہ داری، رہائشی اور سرمایہ کاری،آرٹ کلیکشن،ذاتی طیارے اور نقدزر کو مدنظر رکھا گیاہے ۔کارلوس لگاتار تیسرے سال سرفہرست رہے ہیں اور ان کے اثاثوں کی مالیت کا اندازہ انہتر ارب ڈالر کے لگ بھگ لگایا گیا ہے۔دوسرے نمبر پر مائیکرو سافٹ کے بانی، بِل گیٹس اکسٹھ ارب ڈالر کے ساتھ دوسرے اور امریکی سرمایہ کار وارن بفٹ چوالیس ارب ڈالر کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہیں۔اس مرتبہ کوئی بھی بھارتی ارب پتی، پہلی دس شخصیات میں جگہ نہیں بنا سکا۔ گزشتہ سال دس امیر ترین افراد میں شامل لکشمی متل اس مرتبہ اکیسویں نمبر پر ہیں اور ان کے اثاثے تقریباً ساڑھے دس ارب ڈالر کی کمی کے ساتھ بیس ارب ستّر کروڑ ڈالر رہ گئے ہیں۔ارب پتیوں میں سب سے زیادہ تعداد امریکی شہریوں کی ہے جن میں کاروں کے پاکستانی نژاد تاجر شاہد خان بھی شامل ہیں۔ فہرست میں چار سو اکانوویں نمبر پر موجود شاہد خان کی دولت کا تخمینہ ڈھائی ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔فوربز میڈیا کے سربراہ، سٹیو فوربز نے اس نئی فہرست کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ فہرست بتاتی ہے کہ گزشتہ سال معیشت کے بارے میں خدشات ظاہر کیے جاتے رہے اور اس کی کوئی خاص بحالی نہیں ہوئی۔ اگرچہ دنیا میں سولہ ارب پتیوں کا اضافہ ہوا لیکن کچھ ایسے خطے تھے جہاں سے ارب پتیوں کی تعداد کم ہوئی‘۔ان کے مطابق ’چین کے امراء کم ہوئے اور روس کے بھی، جہاں اجناس کی قیمتوں میں کمی ہوئی۔ یہ حقیقت ہے کہ اس سال دنیا کی معیشت صحیح معنوں میں آگے نہیں بڑھی اور یہ چیز ارب پتیوں کی نئی فہرست میں نظر آتی ہے‘ین الاقوامی تجارتی میگزین فوربز نے کہا ہے کہ معاشی بحرانوں کے باوجود دنیا میں ارب پتیوں کی تعداد بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔فوربز نے دو ہزار بارہ کی ارب پتی شخصیات کے ناموں کی جو فہرست جاری کی ہے جس میں ایک ہزار دو سو چھبیس افراد شامل ہیں اور فوربز کی پچیس سالہ تاریخ میں یہ ارب پتیوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔

دولت دولت دولت۔۔۔۔ دنیا میں ہر شخص مایا کا اسیر ہے۔ سب سے بڑا روپیہ دنیا کی حقیقت ہے۔ اور اس کے لئے لوگ کیا کچھ نہیں کرتے، جو دولت کماتے ہیں، ان کا بڑا نام ہوتا ہے۔ اس دنیا کی دولت کا بڑا حصہ تھوڑے سے لوگوں کے پاس ہے۔ جبکہ دنیا کی اکثریت بیماری، بھوک ، افلاس، سے پریشان ہے۔دولت مند پہلے دولت کماتے ہیں پھر دولت لٹاتے ہیں۔ یا پھر ڈیرہ اسماعیل خان کے اس فقیر کی طرح بوریوں میں بھری چھوڑ جاتے ہیں۔ جس کا کوئی والی تھا نہ وارث، اور وہ خود بھوک بیماری سے مر گیا۔ کس کام آئی یہ دولت۔

فوربز میگزین ہر سال دنیا کے امیر ترین لوگوں کی فہرست شایع کرتا ہے‘ فوربز میگزین کے بارے میں کہا جاتاہے دنیا کا کوئی ارب پتی شخص اس وقت تک ارب پتی نہیں بنتا جب تک فوربز میگزین اسے ارب پتی تسلیم نہیں کر لیتا۔ فوربز میگزین کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے اِن امیر ترین لوگوں کے پاس اندازا پانچ اعشاریہ چار ٹرلین ڈالر کی مجموعی ملکیت ہے، جو پانڈ کے حساب سے 3.6 ٹرلین کی رقم بنتی ہے، یعنی دنیا کی سب سے بڑی معیشت، امریکہ کی سالانہ پیداوار کی مجموعی قومی ملکیت کا ایک تہائی سے زیادہ حصے کے برابر کی دولت۔ گذشتہ سال تین عدد نسبتا کم عمر ارب پتی جنھوں نے ارب پتی کلب میں شمولیت اختیار کی ان میں 28 سالہ فیس بک کے بانی، مارک زکربرگ اور ان کے 30 برس عمر کے سابق ساتھی اڈوارڈو ساورن ، اور 28سالہ دوستن مسکووٹز شامل ہیں۔فوربز میگزین کا کہنا ہے کہ باوجود یہ کہ دوستن مسکووٹز کی دولت کا اندازہ 3.8 ارب ڈالر لگایا گیا ہے، وہ روزانہ کام کے لیے اپنی سائیکل پر سفر کرتے ہیں، اور بزنس کلاس میں فضائی سفر کرنا پسند نہیں کرتے۔ وہ نیواڈ کے سحرا میں برننگ مین نامی ثقافتی میلے میں اپنا خیمہ خود ہی لگاتے ہیں۔ٹوئٹر کے شریک بانی اور پنک میوزک کے شوقین، جیک ڈورسی کا شمار بھی ارب پتیوں میں ہوتا ہے، جس کی ملکیت 1.1ارب ڈالر ہے۔ارب پتیوں میں خواتین کی دنیا بھر میں کل تعداد صرف 138 ہے، جب کہ گذشتہ برس ان کی مجموعی تعداد 104 تھی۔خواتین میں دنیا کی امیر ترین خاتون نوے برس کی فرانسیسی کوسمیٹکس صنعت کی مالک، للین بتن کورٹ ہیں، جب کہ بین الاقوامی طور پر دنیا کے ارب پتیوں میں ان کا شمار نویں نمبر پر ہوتا ہے۔ فور بز کی اس فہرست کے اجراء کے ساتھ ہی گذشتہ برس ایک تنازعہ بھی کھڑا ہوگیاتھا۔ جس نے فوربس کی اس فہرست پر شکوک و شبہات کو جنم دیاتھا۔ سعودی عرب کے شہزادے ولید بن طلال نے امریکی جریدہ ’فوربز‘ پر الزام لگایا تھا کہ اس نے ان کی دولت کا غلط اندازہ لگایا ہے اور انہیں امیر ترین شخصیات کی فہرست میں صحیح مقام نہیں دیا گیا ہے۔جریدے نے سنہ 2013 میں دنیا کی امیر ترین شخصیات کی فہرست میں شہزادہ ولید کی دولت کا اندازہ بیس ارب ڈالر لگایا تھا اور انہیں اس فہرست میں چھبیسویں نبر پر رکھا تھا۔سعودی شہزادے کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں الزام لگایا گیا ہے کہ فوربز نے جو طریقہ کار استعمال کیا ہے وہ ناقص ہے کیونکہ وہ مشرق وسطیٰ کے سرمایہ کاروں کو کم تر دکھاتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ فوربز جریدے نے سعودی عرب کے حصص بازار کی قیمتوں کو قبول کرنے سے انکار کیا تھا حالانکہ وہ میکسیکو جیسی معیشتوں کی قیمتیں قبول کر رہے تھے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ اس سے ظاہر ہے کہ فوربز مختلف ممالک کے لیے مختلف معیار استعمال کرتا ہے۔شہزادہ ولید کے دفتر کے مطابق انہوں نے فوربز سے درخواست کی ہے کہ وہ شہزادے کا نام اس فہرست سے نکال دیں۔شہزادے کی ’کنگڈم ہولڈنگ کمپنی‘ کے چیف فنانشل افسر کے مطابق ’ہم کئی سالوں سے فوربز کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں اور کئی مرتبہ فوربز کو ان کے طریقہ کار سے متعلق مسائل سے آگاہ کر چکے ہیں۔ ہم کئی سالوں سے ان سے کہہ رہے ہیں کہ ان چیزوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے‘۔انہوں نے کہا کہ ’تاہم اب یہ واٰضح ہوگیا ہے کہ فوربز کا اس بارے میں کچھ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اس لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ کیونکہ فوربز ہماری سرمایہ کاری کی صحیح قیمت نہیں لگا رہا ہم اب آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔‘فوربس نے اس کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ کمانے والی حسینہ کا بھی انکشاف کیا ہے۔ یہ اداکارہ کرسٹن اسٹیورٹ ہیں۔ جنہوں نے ہالی ووڈکی تمام خوبروحسیناؤں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ "فلم اسنو وائٹ اینڈ دی ہنٹس مین " کی ہیروئن ایک سال میں سب سے زیادہ آمدنی کرنے والی اداکارہ بن گئی ہیں۔ میگزین فوربز کے مطابق کرسٹن اسٹیورٹ نیتمام حسیناؤں کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔ بائیس سالہ کرسٹن اسٹورٹ نے مئی دو ہزار گیارہ سے مئی دو ہزار بارہ تک تین کروڑ چالیس لاکھ ڈالر سے زائد معاوضہ حاصل کیا۔دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ آمدنی والی فلم " بیڈ ٹیچر " کی اداکارہ کیمرون ڈیاز رہیں۔آسکر ایوارڈ یافتہ اداکارہ ساندرا بلوک دو کروڑ پچاس لاکھ ڈالر آمدنی کے ساتھ تیسرے اور گزشتہ سال آمدنی کے لحاظ سے سرفہرست اینجلینا جولی چوتھے نمبر پر آگئیں ہیں۔ انہوں نے دو کروڑ ڈالر کمائے۔

فوربز نے ستمبر2012 میں دنیا کے چار سو ارب پتی لوگوں کی جو فہرست شایع کی تھی‘ ا س فہرست میں پہلی بار ایک پاکستانی امریکن شہری کا نام آیا ہے‘ اس شخص کا نام شاہد خان ہے‘ یہ 1950 میں لاہور میں پیدا ہوئے‘ ان کا خاندان تعمیرات کے شعبے سے وابستہ تھا‘ شاہد خان سولہ سال کی عمر میں امریکا چلے گئے‘ یہ امریکا میں ابتدائی راتیں دو ڈالر کے کمرے میں گزارتے رہے‘شاہد خان نے انجینئرنگ اسکول میں تھوڑی مدت گزارنے کے بعد فلیکس اینڈ گیٹ نام کی کمپنی میں پارٹ ٹائم کام شروع کر دیا‘ یہ کمپنی گاڑیوں کے اسپیئر پارٹس بناتی تھی‘ شاہد خان کام کے ساتھ ساتھ تعلیم حاصل کرتے رہے۔انھوں نے 1971 میں انجینئرنگ اسکول سے گریجویشن کی۔ گریجوایشن کے بعد وہ فلیکس اینڈ گیٹ میں ڈائریکٹرہوگئے‘ نوکری کے دوران انھیں محسوس ہوا امریکا کی کوئی کمپنی پک اپ ٹرکس کے لیے ’’ون پیس‘‘ بمپر نہیں بنا رہی‘ کمپنیاں دو دو‘ تین تین پیس میں بمپر بناتی ہیں‘ یہ بمپر ٹکڑوں میں ٹرک کے ساتھ جوڑے جاتے ہیں‘ سفر اور وزن کی وجہ سے بہت جلد ان بمپرز کے جوڑ کھل جاتے ہیں۔ شاہد خان نے نوکری سے استعفیٰ دیا‘ اسمال بزنس لون کارپوریشن سے پچاس ہزار ڈالر قرض لیا‘ ان کے پاس 16ہزار ڈالر اپنے جمع تھے‘ انھوں نے 1978 میں 66 ہزار ڈالر سے ون پیس بمپر بنانا شروع کر دیے‘ آئیڈیا اچھا تھا چنانچہ ان کا کام چل نکلا‘ خوشحالی آئی اور شاہد خان نے دو سال میں وہ فلیکس اینڈ گیٹ کمپنی خرید لی جس میں وہ طالب علمی کے دوران کام کرتے رہے تھے۔1989 میں شاہد خان کو ٹویوٹا کمپنی کی تمام گاڑیوں کے بمپر مل گئے‘ یہ واحد کمپنی تھی جو ٹویوٹا کو بمپر فراہم کرتی تھی اور یوں شاہد خان امریکا کے بڑے بزنس مین بنتے چلے گئے۔ 2011 میں ان کی کمپنی میں 12 ہزار 4 سو 50 ملازم تھے اور ان کے پاس 48 مینوفیکچرنگ پلانٹس تھے‘شاہد خان نے دسمبر 2011 میں 76 کروڑ ڈالر میں امریکا کا بڑا فٹ بال کلب جیکسن ولے جیگوار بھی خرید لیا‘ یہ امریکا کی قومی فٹ بال لیگ ہے۔ فوربز نے ستمبر2012میں شاہد خان کو دنیا کے ارب پتیوں کی فہرست میں شامل کر لیا‘ یہ امریکا کے 179 ویں اور دنیا کے 491 ویں امیر ترین شخص ہیں‘ ان کے پاس اڑھائی ارب ڈالر ہیں۔امریکا کی ساڑھے 31 کروڑ کی آبادی میں 179ویں نمبر پر آنا اور دنیا کے ساڑھے چھ ارب لوگوں میں 491 ویں نمبر کا امیر شخص کہلانا واقعی اعزاز کی بات ہے اور یہ اعزاز ایک پاکستانی صرف اپنی محنت کی بنیاد پر 34 برسوں میں حاصل کیا ہے۔ دولت کمانے والے اس دولت کو خرچ بھی کرتے ہیں۔ اپنی دولت کے اظہار کے نئے نئے طریقے ڈھونڈتے ہیں۔ لیکن ان میں سے چند ایسے بھی ہیں جو اپنی دولت کے ذریعے دنیا سے غربت، جہالت اور بیماریاں ختم کرنا چاہتے ہیں۔ فوربز نے ایک کانفرنس میں ۱۶۱امراء کو بلایا۔ ان میں سے ۶ امریکی دولت مند… وارن بفٹ، بل گیٹس، میلنڈہ گیٹس، سٹیوکیس، ڈیوڈ ربنسٹین اور لیون بلیک نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔یہ اب تک نوع انسانی کے مسائل حل کرنے کی خاطر ۰۰۱ارب ڈالر (۰۰۶۹ارب روپے) کی خطیر رقم خرچ کر چکے۔ دوران کانفرنس ایک دن یہ ۶مخیر ہستیاں جمع ہوئیں ۔ ان سے سوال کیا گیا کہ کیا کامیاب لوگوں کی یہ اخلاقی ذمے داری ہے کہ وہ فیاضی کا مظاہرہ کریں؟ میلنڈہ گیٹس نے اس بارے میں کہا کہ انسان جب بھی کچھ دے تو اسے دل سے یہ عمل کرنا چاہیے۔ کم از کم میرے نزدیک خدمت خلق کی یہ بہت بڑی خوبی ہے کہ اس کی بدولت دنیا گھومنے اور اجنبیوں سے بات چیت کا موقع ملتا ہے۔لوگوں سے ملنے ملانے کے ذریعے ہی مجھے علم ہوا کہ تمام انسانوں کی ضروریات ملتی جلتی ہیں چاہے وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں مقیم ہوں۔ لیکن عقل سے کام لینا بھی ضروری ہے۔ دماغ ہی آپ کی رہنمائی کرتا ہے کہ آپ اپنی دولت کے ذریعے ایک فرد سے لے کر لاکھوں افراد تک کی زندگیاں کیونکر بدل سکتے ہیں۔ عقل ہی بتاتی ہے کہ دولت کیونکر استعمال کی جائے ۔ڈیوڈ ربنسٹین کا کہنا تھا کہ میں میلنڈہ کی باتوں سے اتفاق کرتا ہوں۔ میرا یہ نظریہ ہے کہ اول خدمت خلق کے واسطے دولت دے کر انسان دلی مسرت اور اطمینان محسوس کرتا ہے۔ یوں اس کی ذہنی و جسمانی صحت بہتر ہوتی اور عمر بڑھتی ہے۔ دوسرے اس طرح کسی دکھیارے کی مدد بھی ہو جاتی ہے۔ گو آپ کو عموماً اس امر کا پتا نہیں چلتا مگر آپ کی دی گئی رقم لوگوں کی زندگیوں میں ضرور تبدیلی لاتی ہے۔ایک امیر شخص اپنی دولت تین طرح سے استعمال کر سکتا ہے۔ اول یہ کہ اپنی اولاد کو دے ڈالے، موت کے بعد اسے خرچنے کی وصیت کر دے یا اپنی زندگی ہی میں اسے صَرف کرنے لگے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دولت کا بہترین مصرف یہ ہے کہ اپنی زندگی ہی میں اسے خدمت خلق پر لگایا جائے۔ انسان اپنی اولاد پر بے تحاشا دولت لگائے تو عموماً وہ ضائع جاتی ہے۔ پھر اس کی چھوڑی ہوئی دولت بہت کم ہی دنیا میں تبدیلی لا پاتی ہے۔ عام طور پر دنیا میں انقلاب وہی لاتے ہیں جو اپنی زندگی ہی میں خدمت خلق پر دولت خرچ کریں۔ یوں نہ صرف انھیں دلی خوشی ملتی ہے بلکہ بچے بھی ان پر ناز کرتے ہیں۔سٹیوکیس کا کہنا تھا کہ پہلے ہم میاں بیوی خاموشی سے خدمت خلق کرنا مناسب سمجھتے تھے لیکن رفتہ رفتہ احساس ہوا کہ لوگوں کو ساتھ ملا کر دکھی انسانیت کی خدمت کرنا زیادہ سہل اور کارآمد طریقہ ہے۔ اسی لیے اب ہم ’’گیونگ پلیج‘‘ (Giving Pledge) کو دولت دے کر خدمت خلق کر رہے ہیں۔بل گیٹس کی اس بارے میں رائے تھی کہ دولت مندوں کو چاہیے وہ اپنے دفاتر سے نکل کر غریبوں کی بستیوں کا دورہ کریں۔ یہ بہت ضروری ہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے غرباء کی حالت زار کا مطالعہ کریں۔ انھیں چاہیے کہ وہ دنیا کی خوبصورتی دیکھنے کے ساتھ ساتھ بدصورتیاں بھی دیکھیں۔ اس طرح دنیا بدلنے کا عزم رکھنے والے امراء کو حقیقی تجربے حاصل ہوں گے۔ وہ پھر دکھی انسانیت کی خدمت کرنے والے عملی اقدامات کر سکتے ہیں۔

وارن بفٹ اس پر خدا کا شکر کرتے ہیں کہ مجھے ہزاروں سال قبل پیدا نہیں کیا۔ تب جلد یا بدیر میں کسی حیوان کا شکار ہو جاتا لیکن آج میں اس قابل ہوں کہ ہزارہا انسانوں کی مدد کر سکوں۔ یہ بہت بڑا انعام ہے جو مجھے ملا۔وارن بفٹ کہتے ہیں کہ مجھے زیادہ پرانی باتیں یاد نہیں۔ میری یاداشت کمزور ہو چکی ہے۔ میلنڈہ گیٹس کا کہنا تھا کہ جب بل اور میری شادی ہوئی تو ہم نے اسی وقت طے کر لیا کہ مائیکروسوفٹ سے ہمیں جو دولت ملی وہ معاشرے کو لوٹانی ہے۔ دراصل ہم دونوں کا تعلق ایسے خاندانوں سے ہے جنھوں نے ہمیشہ خدمت خلق میں بڑھ چڑ ھ کر حصہ لیا۔ شادی سے قبل ہم افریقہ میں سیروتفریح کرنے گئے۔ وہاں پھیلی غربت نے ہمارے چودہ طبق روشن کر دیے۔ بس پھر ہم اپنی پوری توانائی سے خدمت خلق پر جْت گئے۔ اس منفرد سفر کے دوران ہم جوڑے نے بہت کچھ پایا اور سیکھا۔

لیون بلیک کا کہنا تھا کہ ۵ سال قبل مجھ پر انکشاف ہوا کہ میری بیوی خون کے کینسر کی مریضہ ہے۔ اس جان لیوا مرض کا علاج کراتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ دنیا بھر میں ہزارہا مردو زن بھی اس بیماری کا نشانہ بنتے ہیں۔ لیکن فی الوقت اس کا توڑ دریافت نہیں ہو سکا۔ چنانچہ پچھلے سال میں نے خون کے سرطان پر تحقیق کرنے کی خاطر ایک تحقیقی ادارے کی بنیاد ڈالی۔ اس میں ۰۳محقق دن رات محنت کرتے ہوئے کوشش کر رہے ہیں کہ بذریعہ تحقیق خون کے سرطان کا شافی علاج دریافت کر لیں۔سٹیوکیس کہتے ہیں کہ ہم دولت اس لیے صرف کر رہے ہیں تا کہ وہ دنیا میں مثبت تبدیلی لائے۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ رقم سوچ سمجھ کر خرچ کی جائے۔ کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ فضول منصوبوں پر پیسہ لگانا گناہ ہے۔ ہماری حکمت عملی یہ ہونی چاہیے کہ کم سے کم رقم میں زیادہ بڑی تبدیلیاں جنم لیں۔ڈیوڈ ربنسٹین نے بتایا کہ میرے نزدیک ہر وہ انسان خدمت خلق کر رہا ہے جو مصیبت زدگان کی مدد کرتے ہوئے دولت، وقت، توانائی اور ذہن خرچ کرتا ہے۔وارن بفٹ یہ بھی کہتے ہیں کہ میں چین، بھارت اور روس کے ارب پتیوں سے مل چکا۔ گو یہ تمام لوگ مختلف تہذیب و ثقافت سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی عادات و رویے بھی متفرق ہیں لیکن مجھے یہ جان کر حیرت و خوشی ہوئی کہ خدمت خلق کے سلسلے میں بیجنگ، نئی دہلی اور نیویارک کے سبھی مخیر لوگ کئی مشترک خصوصیات رکھتے ہیں۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387563 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More