پچھلے دنوں ہمارے دوکالم’’عالمِ عربی کاایک
سفر‘‘اور’’بیروت کی یادیں‘‘روزنامہ اسلام میں اسی ادارتی صفحے پرشائع ہوئے
،ای میل،فیس بک،فون اورایس ایم ایس کے ذریعے پذیرائی کااندازہ اوراس موضوع
پر مزید لکھنے کامطالبہ بھی ہوا،چنانچہ ہم نے اپنے دوستوں اورقارئین کے لئے
حضرت علی میاں مرحوم ومغفور کی ۱۹۷۳ء کی تصنیف’’دریائے کابل سے دریائے
یرموک تک‘‘کے ایک حصے کا انتخاب کیاہے،موجودہ حالات سے منطبق کرنے کے لئے
کچھ کمی بیشی ،تقدیم وتاخیراور تغییر واضافات کا سہارابھی لیاگیا ہے۔میاں
صاحب رقمطراز ہے:
لبنان اور اس کے دارلحکومت بیروت پر چوتھائی صدی تک فرانس حکمراں رہا ہے ،فرانس
یورپ کے ملکوں میں سب سے متمدن اور ترقی یافتہ ملک، اور فرانسیسی معاشرہ
یورپ کا سب سے زیادہ نازک مزاج ،تنعم کیش اور ہر چیز میں آزادی کا دلدادہ
رہا ہے ،ان تمام اسباب کی بنا ء پر لبنان وبیروت کو مغربی تہذیب کی
تقلیداور ہمر کابی میں سب سے نمایاں درجہ حا صل ہے ۔
دوسری طرف اپنے سیاسی اور اقتصادی اغراض ومفادات کے ماتحت امریکا نے اس ملک
میں اپنا اثرورسوخ قائم کرنے کی پوری پوری کوشش کی ،اس لیے کہ اس کامرکز
یعنی بیروت مشرق کا دروازہ ،عالم عربی کا قدرتی منفذ اور وہ تنہا عربی شہر
ہے ،جس پر عیسائی چھاپ گہری ہے ، چنانچہ امریکہ نے بیروت میں بڑے بڑے ادارے
قائم کیے ،زبر دست منصوبے تیار کیے اور ان کو تکمیل کا جامہ پہنایا ،بیروت
کی امریکن یونیورسٹی (الجامعۃ الامریکیۃ) آج بھی مشرق عربی کی عظیم ترین
یونیورسٹی تصو ر کی جاتی ہے ، جس نے عربی فکر وادب پر گہرا اثر ڈالا ہے ،
اور عرب کے علمی حلقوں میں اس کے اساتذہ اور فضلاء کو خاص مقام اور رسوخ
حاصل ہے ۔
بیروت مشرق ِعربی کا سب سے بڑا سیاحتی شہرہے ، سیاحت اس کی آمدنی کا اہم
ترین ذریعہ ہے ، جس پر اس کی معاشیات کابڑی حد تک دارومدار ہے ، سیاحتی
شہروں کاایک خاص مزاج ہوتا ہے ،ان شہروں میں تفریح اور لذت اندوزی کیلئے ہر
طرح کی چھوٹ دے دی جاتی ہے ،اور ان چیزوں میں بھی کوئی حرج نہیں سمجھا جاتا
،جو اکثر معاشروں میں انسانیت اور شرافت کے منافی شمار ہوتی ہیں ، چنانچہ
جس وقت عرب راجدھانیاں بادِ سموم کے تند جھونکوں کی لپیٹ میں ہوتی ہیں
،بیروت رعنائی وجمال کے سمندر میں غرق اور دولت وثروت کے جھولے میں جھولتا
ہوتا ہے۔مشہور لبنانی ادیب امین الریحانی نے اپنے ایک مضمون میں لبنان کے
کیپیٹل ایریا(بیروت )کا بہترین نقشہ کھینچا ہے ، وہ لکھتے ہیں:
(بیرـــــوت تمدن کی ایک نعمت بھی ہے ،اور تمدن کی ایک لعنت بھی ، بیروت
ایک مشرقی موتی ہے ،جو تانبے کی مغربی طشت میں رکھا ہوا ہے ، صبح کے وقت
ملکہء مشرق کے پاؤں کاپازیب اور غروب کے وقت ملکہ ء مغرب کی کلائی کا کنگن
، بیروت کیچٹر میں پڑا ہوا درنایاب ہے، جس پر بجلی کی کرنیں شرماتی ہوئی
پڑتی ہیں ، بیروت ایک مرجان ہے ، جو ایک ایسے ساحل پر ہے ،جس کا سونا ریت
میں جس کی چا ندی کیچڑ میں مل گئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔بیروت پیرس کی ایک کنیز ہے ،
بیروت ایک ماہتاب ہے جس پر مغرب کی روشنی منعکس ہوتی ہے تو مشرق کو منور کر
تا ہے ، اور مغرب کی تاریکی بھی منعکس ہوتی ہے، جو مشرق کی تاریکی میں
اضافہ کردیتی ہے ، بیروت علوم کا سر چشمہ اورخرافات کا گڑھ ہے ) یہ ذہن میں
رہنا چاہیے کہ امین الریحانی صاحب کا یہ مضمون آج سے تقریباًسو سال پہلے
لکھا گیا تھا ، جب پورااقلیمِ شام(آج کے پانچ ممالک
:سوریا،اردن،لبنان،فلسطین اوراسرائیل) خلافتِ عثمانیہ میں شامل تھا ۔
جب بھی عرب ملکوں میں فوجی اور سیا سی انقلاب رونما ہوئے اور بہت سے زعماء
اور مصلحین پر زمین تنگ ہو گئی ، انہوں نے لبنان میں پناہ لی اس لحاظ سے
لبنان کوعالمِ عربی کا سوئزرلینڈ کہہ سکتے ہیں ،جہاں سیاسی پناہ گزینوں کی
ایک بڑی تعداد مقیم ہے ،انہیں تصنیف وتالیف اور اپنے خیالات کی تبلیغ
واشاعت کی مکمل آزادی حاصل ہے جو بہت سے دیگرعرب ملکوں میں اور خود ان کے
اپنے ممالک میں بھی نا پیدہے ، انہوں نے اپنی جا ئدادیں بیروت منتقل کر لیں
، ان کو کاروبار میں لگایا ، تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے نشر اشاعت کامیدان
ان کیلئے موزوں تھا ، اس لیے اپنا سرمایا اس میدان میں لگایا ۔۔۔۔۔بیروت
میں مشرق کے زبردست عربی پریس تھے اورہیں، اس بنا ء پر اپنے ان دماغوں ،کام
کرنے والے ہاتھوں اوراس کثیر دولت کے منتقل ہونے سے بیروت کو خاصا فائدہ
ہوا،اور تصنیف وتالیف کی سر گرمیاں تیز ہو گئیں‘ کتب خانوں اور کتاب گھروں
کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ ہوگیا، مصنفین نے ہر سمت سے اس کا رخ کیا
خصوصاً جب قاہرہ میں تصنیف وتا لیف اور نشر واشاعت کا بازارسرد پڑا اور آخر
کاراستعمار کی جانب سے اس پر پابندی عائد کی گئی تو بیروت نشرواشاعت کا سب
سے بڑا مرکز بن گیا ۔
ٍلبنان کے ایک شہر’’صیدا‘‘میں علماء کے اجتماع سے حضرت علی میاں یوں مخاطب
ہے : آج علماء کا یہ حال ہے کہ وہ بھی راحت طلبی کی دوڑ میں سب کے ساتھ
مصروف ہیں ،اب ان کے درمیان اور ان ہم وطن وہم نسل افراد کے درمیان کوئی
امتیاز باقی نہیں رہا ،اس لیے معاشرہ بھی انہیں اس نگاہ سے دیکھنے لگا جس
نگاہ سے وہ عوام کو دیکھتا ہے ، اور اب لوگوں کے دلوں میں علماء کی نصیحت
یا تنقید کی وقعت نہیں پیدا ہوتی ۔۔۔ دعوت وتبلیغ کے لیے نہایت ضروری ہے کہ
علماء اپنے کھوئے ہوے مقام کو حاصل کریں ،اپنا اعتبار اور اپنی دینی اور
اجتماعی قیمت کا شعور پیدا کریں ، اصلاح وتجدید کی تاریخ میں ہم نے دیکھا
ہے کہ جب بھی اسلام اور مسلمان کسی زبردست بحران سے دو چار ہوئے ہیں ،ہر
طرف نا امیدی اور بے یقینی کے بادل چھا گئے ہیں ،ایک عالم نمو دار ہوا
،اصلاح وجہاد کے میدان میں آیا ،حالات کو چیلنج کیا اور تاریخ و واقعات کا
رخ موڑ کر رکھ دیا ، اسلامی عقائد کی سلامتی اور اسلامی شریعت کی عظمت کے
تحفظ کا فرض انجام دیا ،قوم کے جسم میں ایک نئی روح پھونک دی اور اسے ایک
نئی زندگی بخش دی،یہ عمل ہم مسلسل دیکھ رہے ہیں ،امام حسن بصری سے شیخ
عبدالقادر جیلانی تک ، ابن تیمیہ حرانی تک ،شیخ احمد سر ہندی اور اس صدی کے
علماء ربانیین اور ائمہ مصلحین تک ہر زمانہ اور ہر صدی میں یہ ہوتا آیا ہے
۔
لبنانی مسلمانوں کی سیاسی اور اجتما عی صورت حال ایک پیچیدہ اور مخصوص صورت
حال ہے ،جس کا اندازہ دوسرے ملکوں کے با خبر سیاستداں بھی آسانی سے نہیں
لگا سکتے ،جس شخص نے لبنان کا دورہ نہ کیا ہو اور وہاں کے حالات پر دقت نظر
سے غور کرنے کا موقع اس کو نہ ملا ہو تو وہ اس صورتِ حال کواچھی طرح نہیں
سمجھ سکتا۔۔۔ ۱۹۲۰ء میں بیروت ،سیر، طرابلس،صیدا ،بقاع ،حاصبیا ، راشیا
اوربعلبک کا انضمام عمل میں آیا ، جبل لبنان کو نئی جمہوریہ کی اساس وبنیاد
قرار دیا گیا، ۱۹۳۲ء میں فرانسیسی حکومت نے مردم شماری کرائی،اس کے پیچھے
سیاسی اغراض کار فرما تھے ،دراصل فرانس کا مقصد یہ تھا کہ ملک کے باشندوں
کی تعداد میں ایک مذہب کے ماننے والوں کو دوسروں پر فوقیت دی جائے ،اس کے
ساتھ ساتھ ایک افواہ یہ بھی پھیل گئی کہ فرانس کا مقصد اپنی نو آبادیات میں
فرانسیسی فوج میں جنگ کیلئے جبری بھرتی ہے ،اورمسلمان اس سے بچتے تھے
،مسئلہ کی پیچیدگی میں اس سے اور اضافہ ہو گیا کہ وہ شام کی تقسیم کے مخالف
تھے ۔
ان تمام اسباب کی بناء پر مسلمانوں نے مردم شماری سے کلی فرار اختیار کیا
،نتیجہ ظاہر تھا ،چنانچہ اس پر فریب مردم شماری سے عیسائیوں کی اکثریت ثابت
ہو گئی ، اورلبنان کے حکام نے بعدمیں دوسری صحیح اور مکمل مردم شماری کرانے
سے انکار کر دیا ،اور آج بھی اس کیلئے آمادہ نہیں ، اس مردم شماری کی بنیاد
پر قومی دستور مرتب کیا گیا، عہدوں اور پارلیمنٹ کی نشستوں کی تقسیم انجام
پائی اور یہیں سے اس عرب اسلامی ملک میں مسلمانو ں کی حیثیت اور مستقبل کا
تعین ہوا ،اوروہ یہ کہ مسلمان تعداد میں اکثریت کے باوجود اپنے وطن میں
اقلیت کی حیثیت سے زندگی گزاریں گے ،معاملہ کی سنگینی اس سے اور بڑھ جاتی
ہے کہ غیر مسلموں کو لبنانی قومیت پوری فیاضی سے دی جا رہی ہے ، اوراس طرح
ان کے سیاسی مستقبل کا تحفظ کیا جا رہا ہے ، فرانس جب لبنان کو چھوڑ رہا
تھا اس نے حکومت عیسائیوں کے مارونی فرقہ کے سپرد کی اور ایک ایسا دستور(
(CONSTITUTIONو ضع کیا گیا ،جس کی رو سے ساری طاقت صدر جمہوریہ کے قبضے میں
ہوتی ہے اوروہ ہمیشہ عیسائی ہوتا ہے ،ان کو سب سے زیادہ اختیارات دیئے گئے
ہیں، وہ کسی کے آگے جوابدہ نہیں ہوتا،اور وزیر اعظم کو جس کے متعلق دستور
میں ہے کہ وہ ہمیشہ مسلمانوں میں سے منتخب کیا جائے گا ، صدر جمہوریہ ہی
مقرر کرتا ہے، وزیر اعظم پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے، اور پارلیمنٹ
جب چاہے اس کے خلاف اور اس کے وزراء کے خلاف عدم اعتماد کی تجویز پاس
کرسکتی ہے ، وزیر اعظم کے پاس مخصوص اختیارات بھی کچھ نہیں ہوتے، حقیقت یہ
ہے کہ وہ صدر جمہوریہ کا ہیڈ کلرک ہوتا ہے ۔
یہ تو دستور ہے ، جو تحریر ی شکل میں ہے اور جو لبنانی مسلمانوں کے ساتھ
پور ا انصاف نہیں کرتا، اس کے علاوہ وہاں ایک اور دستور بھی ہے، جوکہیں
تحریری شکل میں موجود نہیں ہے ، وہ ہے وہ طریقہ جس کو لبنانی جمہوریہ
اپنائے ہوئے ہے ، ان دستوروں میں نمایاں تضاد پایا جاتا ہے، چنانچہ کلیدی
عہدوں پر غیر مسلموں کی اجارہ داری ہے ، ترقیاتی پروگراموں ، مدارس ، ادارے
اور وظائف وغیرہ کے مستحق صرف غیر مسلم علاقے ہوتے ہیں ، اخلاق واقدار سے
انحراف اور یکساں سول کوڈ کی دعوت مزید برآں جس کی اس ملک کی زندگی میں بہت
اہمیت ہے ، تعطیل کے ایام حکومت نے جمعہ کے بجائے سنیچر اور اتوار مقر ر
کیا ہے، حکومت کی سفارشات میں سے ہے کہ ملازمت کی بنیاد فرقہ وارانہ نہ ہو
، ان اسلامی علاقوں کو جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں ترقی کے مواقع سے محروم
رکھا جاتا ہے، اسی طر ح جن مسلمانوں نے کسی وجہ سے لبنان چھوڑدیا تھا ، ان
کو لبنانی قومیت حاصل کرنے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
اوپر کے سطور میں یہ اشارہ گزرا ہے کہ غیر مسلم طاقتوں نے لبنا ن میں مسلم
عرب اکثریت کو بے اثر وبے دخل بنانے اور مسیحی فرقہ کو اس علاقے میں دائمی
اقتدار عطا کرنے کیلئے منصوبہ بندطریقہ پر کام کیا اور سب کچھ ایک مکمل
ومرتب اسکیم کے ماتحت تھا، حسن اتفاق سے ابھی حال میں اس کا ایک دستاویزی
ثبوت ملا، یہ 1919ء کی ایک راز دارانہ تحریر ہے جو حکومت فرانس کی طرف سے
عیسائی قائدین اور کارکنوں کی رہنمائی کیلئے مخفی طور پر تقسیم کی گئی تھی
۔
’’مادر حکومت کی جانب سے اس کے مخلص فرزندوں کے نام۔
اے یسوع مسیح کے بیٹو!
اے وہ جنہوں نے اپنے عقائد کے تحفظ اور دفاع کیلئے صدیوں تک ذلت ورسوائی کو
برداشت کیا ، اے شرفاء واطہار !یہ دس نصیحتیں ہمیشہ یاد رکھئے:
(1) یہ وطن آپ ہی کے لئے وجود میں آیا ،تاکہ آپ اپنا شیرازہ ا کٹھا کرسکیں
اور تاریخی جنگ کے بعد اپنی آزادی سے متمتع ہوسکیں، آپ کویقین کر نا چاہئے
کہ عیسائی کے معنی لبنانی ہیں اور صحرا سے آنے والے عربوں کو صحرا واپس
جانا چاہئے ۔
(2) ہم نے آپ کے لئے وہ تمام اہم انتظامات کردیئے ہیں جو اس علاقہ میں آپ
کی خوشحال زندگی کے ضامن ہیں ، مثلاً ملکیت اراضی ، غیر ملکی ایجنسیاں ،
سیاسی صورتحال امور ِزر ، اب آپ کا یہ فرض ہے ان مفادات کا تخفظ کریں اور
ان میں روز افزوں اضافہ کریں۔
(3) تفریح گاہوں اور سیاحتی انتظامات پر قبضہ کرنے کی کوشش کیجئے اور جب آپ
اکثریت میں ہوجائیں تو عربوں کو ان کی بستیوں سے نکال دیجئے،بیروت کے علاوہ
کسی دوسرے شہر میں جہاں مسلمان نہ ہوں ایک ریزرو بندرگاہ کی تعمیر ہرگز نہ
بھولئے ، جس وقت بھی موقع ملے اور حالات سازگار ہوں اس منصوبہ کو عملی جامہ
پہنانے کی کو شش کیجئے ۔
(4) طاقت کے تمام ذرائع اختیا ر کیجئے ، مثلاً جسمانی ورزش ، اسلحہ اور
نوجوانوں کی تنظیمیں ، فوج سے دلچسپی لیجئے ، اپنی بات پوشیدہ رکھئے ، اپنے
رفقاء پر اعتماد کیجئے اس لئے کہ دشمنوں کے ساتھ معرکہ بہت طویل اور مسلسل
ہے۔
(5) ادبی قیادت کی زمام اپنے ہاتھ میں لیجئے ، مثلاً کتابوں کی اشاعت اور
تمام انجمنوں اورا کیڈ میوں پر آپ کا قبضہ ہو، ہر گز یہ تسلیم نہ کیجئے کہ
آپ کی زبان کا سرمایہ تنہا مسلمانوں کی ملکیت ہے، اور بغیر کسی رو رعایت کے
ان تمام افکار واشخاص سے جنگ کیجئے جو آپ کے رجحانات کی مخالفت کرتے ہیں۔
(6) اپنے باہمی اختلافات کو نظری اور سطحی حد سے آگے نہ جانے دیجئے کیونکہ
آپ کی زندگی کا دارو مدار کافر دشمن کے مقابلے میں آپ کے اتحاد ویکجہتی پر
ہے، اور آپ تو اس یسوع کے فرزند ہیں جس نے ہم کو محبت کا درس دیا ہے۔
( 7) دوسروں کے منصوبوں کا مطالعہ ہمیشہ کرتے رہیے اور ان کے ساتھ مل کر
کام کیجئے تاکہ اندر ونی باتوں کا علم ہوسکے اور ضرورت کے وقت ان کی ظاہری
تائید میں بھی کوئی حرج نہیں لیکن کلیسا اور اس کے سرداروں سے ہر شخص کا
رابطہ استوار ہونا چاہئے اور اپنے مخلص آباء کے احکام کی نافرمانی نہ کرنی
چاہئے ۔
(8) ہر بلند جگہ پر اپنے سروں کو اور اپنے شعائر کو بلند رکھئے اور یقین
کیجئے کہ آزاد دنیا کی تمام عظیم طاقتیں بہت جلد آپ کے ساتھ ہوں گی لیکن
اپنا کام اس طرح کیجئے کہ گویا آپ کو اس تحریر کاقطعاً علم نہیں ہے۔
( 9) طبی اور شخصی خدمات کے ذریعے عرب بادشاہوں اور سربراہوں سے قریب ہونے
کی کوشش کیجئے ، یہ سہل ترین راستہ ہے ، اس سے کام کا وسیع میدان ملے گا،
بڑی دولت حاصل ہوگی اور ان ملکوں میں بھی گھسنے کا موقع ملے گا جن میں آپ
کا داخل ہونا دشوار ہے۔
(10) لبنانی قومیت کا معرکہ بہت اہمیت رکھتا ہے، بڑی ہوشندی اور باریک بینی
سے کام لیجئے تاکہ اپنے اکثریتی حقوق کا تحفظ کرسکیں ورنہ تمام کوششیں
رائیگاں جائیں گی‘‘۔
مسلم ممالک میں طاغوتی قوتوں کی سازشوں اورچیرہ دستیوں کااندازہ لگایئے
اوراپنے ملک کا خیال رکھئے ۔
یہاں ہم علی میاں صاحب کالبنان کے مفتی اعظم، وزیراعظم وزرائے
مملکت،ممبرانِ پارلیمنٹ،عمائدین ملک،علماء،قضاۃ،ادباء اورمفکرین کووہ
تاریخی خطاب’’تہذیبوں کے سنگم اورعالمی اسٹیج پرمسلم قوم کا کردار‘‘ پیش
کرتے ہیں جوآج بھی یکدم تروتازہ ہے اورعالم اسلام کے موجودہ حالات میں
روشنی کی ایک کرن ہے:’‘خطبہ ء مسنونہ کے بعد:میں اپنی جانب سے رابطہ عالم
اسلامی کے وفد کے ارکان اور اپنے رفیق محترم مشہور اسلامی مصنف ،سعودی
حکومت کی مجلس شوریٰ کے رکن ،جامعہ ملک عبدالعزیز جدہ کے استاذ اور وفد کے
ممبر استاذ احمد محمد جمال کی جانب سے حضرت مفتی اعظم کا تہ دل سے شکر یہ
اداکرتاہوں کہ آپ نے ہم کو لبنان کے قیام کے دوران اس اعزاز واکرام سے
نوازا ، میں خاص طور پر حضرت مفتی محترم کا اس لئے بھی مشکور ہوں کہ آپ نے
ہمارے لئے اتنی بڑی منتخب جماعت سے ملاقات ، تعارف اور گفتگو کرنے کا مبارک
موقع فراہم کیا، جو لبنان کے مختلف طبقوں اور رجحانات کی نمائندگی کرتی ہے،
اگر خود ہم ان تمام حضرات سے ملاقات کی کوشش کرتے تو کبھی کامیابی نہ ہوتی۔
محترم حضرات !
مجھے صورتحال کی نزاکت اور آپ کی عظیم ذمہ داری کا پورا احساس ہے ،آپ ایک
ایسے ملک میں زندگی گزاررہے ہیں جو مختلف تہذیبوں ،ثقافتوں اور مختلف زبان
وادب کا سنگم ہے، آپ کی ذمہ داری بہت عظیم اورآپ کا کام بہت نازک ہے،اور
بڑی ذہانت ،دور اندیشی، بیدار مغزی ضروری سوجھ بوجھ ، پیش بینی اور معاملہ
فہمی چاہتاہے، اسی کے ساتھ ساتھ جس مذہب اور پیغام کے آپ نمائندے ہیں اس پر
پختہ یقین واعتماد اور جن غلط فکری دھاروں سے آپ کا سامنا ہے ان کے مقابلے
میں پورے ثبات واستقلال کی ضرورت ہے، اس عالمی اسٹیج پر جس کی طرف ساری
دنیا کی نگاہیں لگی ہوئی ہیں آپ کو ایک تعلیم یافتہ مسلم اور حکیم وپختہ
مومن کاکردار ادا کرنا ہے، آپ کا ہر عمل ہر قدم اور ہر رویہ ریکارڈ ہوتا ہے
اور اسلامی تعلیمات اور اسلامی اصولوں کی نمائندگی سمجھا جاتا ہے۔
حضرات ! آپ دنیا کے سامنے ثابت کر سکتے ہیں کہ اسلام میں صلاحیت ہے میں
نہیں کہوں گا کہ باقی رہنے کی ،میرے نزدیک زندہ رہنے کی صلاحیت اور بقا کے
حق کی بھیک مانگنا کمتر درجے کی چیز ہے ،نہیں، بلکہ اسلام میں صلاحیت ہے ،
قیادت کی ، انسانیت کی گلہ بانی کی ، ان مسائل کو حل کرنے کی جن سے دنیاکے
سارے مفکرین اور قانون داں پریشان اور عاجز ہیں اس طرح آپ اپنی دین کی ایسی
خدمت انجام دیں گے جو کوئی قوم اور عرب بلکہ سارے عالم اسلام میں کوئی ملک
بھی انجام نہیں دے سکتا اور حیران ومضطرب عرب دنیا اور عالم اسلام کے سامنے
ایک قیادت پیش کرسکیں گے۔
حاضرین کرام !
آپ کی دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ آ پ کو مغربی تہذیب اور عصر حاضر کے چیلنج
کا روبرو مقابلہ ہے ،جو بہت سی دوسری عرب اور مسلم اقوام کو نہیں ہے، آ پ
مغربی تہذیب کے بحر مواج میں ہیں، آ پ ایک نازک آزمائش گاہ اور ایک علمیا
تی تجربہ گاہ میں ہیں اور سارا عالم اسلام اس تجر بہ اور آزمائش میں آ پ کی
سربلندی اور کامرانی کے لئے چشم براہ ہے۔
اگر اس رزمگاہ میں آپ فتحیاب ہوئے اور اپنا راستہ نکال لیا تو آپ کے دوسرے
ہمسایہ عرب ممالک اور اسلامی ملکوں کے لئے بھی راہ کھل جائے گی، بلاشبہ یہ
ذہانت وذکاوت کی آزمائش ہے ، ایمان ویقین کی آزمائش ہے ، بلند ہمتی اور
اولوالعزمی کی آزمائش ہے، اور جن صلاحیتوں اور طاقتوں سے اﷲ تعالیٰ نے آپ
کو نوازا ہے اور جو مواقع آپ کے لئے فراہم کئے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے مجھے
پوری امید ہے کہ اس امتحان میں آپ سرفرازی اور سربلندی سے ہمکنار ہوں گے،
لبنان میں جو شب وروز ہم نے گزارے ہیں ان سے ہمارے حوصلوں کو بلند ی اور
امیدوں کو تازگی اور تقویت ملی ہے، اور جیسا کہ میں نے طرابلس میں کہا تھا
، اس ملک میں آپ کے وجود کا مطلب ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو اس سیلاب کے
روکنے ، اسلام دشمن عناصر سے نبرد آزما ہونے اور اس عجیب وغریب ملک میں
اسلام کا علم بلند کرنے کا اہل اور حقیقی سزا وار سمجھا ہے آپ کو اس اعتماد
اور اعزاز پر اﷲ تعالیٰ کا شکر اداکرنا چاہئے ،اﷲ آپ کو ہر مرحلہ پر ثابت
قدم رکھے اور آپ کے دلوں کو اتحاد ، اخوت اور یگانگت کے جذبات سے معمور
فرمائے۔
حضرات ! میں نے مختلف تہذیبوں ،ثقافتوں اور انسانی معاشروں کا جو محدود
مطالعہ کیا ہے اس کی روشنی میں میں کہہ سکتا ہوں کہ زبان ومکان اور ماحول
ومتعلقات سے قطع نظر ،اسلامی تہذیب کو اگر مستثنیٰ کردیا جائے تو مغربی
تہذیب سے زیادہ طاقتور ، زود اثر اور اس سے زیادہ نفوذ ورسوخ رکھنے والی
کوئی تہذیب آج تک نہیں پائی گئی، مغربی تہذیب انسانی معاشرے کے ہر گوشہ میں
داخل ہوگئی ، خیالات وجذبات پر غالب آگئی ، زندگی کی قدروں کو بدل ڈالا ،
سوچنے اور سمجھنے کے انداز پر اثر انداز ہوئی، غرض انسانی زندگی کا کوئی
شعبہ ایسا نہیں رہا جس پر اس کا تسلط اور تصرف نہ ہو، وہ غریبوں کے خس
خانوں میں بھی موجود ہے، اور امیروں کے نگار خانوں میں بھی۔
مغربی تہذیب اور اسلامی تہذیب دونوں چونکہ انسان اور انسانی زندگی سے تعلق
رکھتی ہیں اور انسان کے مسائل وضروریات سے بحث کرتی ہیں اس لئے کچھ نقطوں
پر ان کا اتصال ہوتا ہے ، اور کچھ لفظوں پر ان کا افتراق ، بعض مواقع پر
دونوں کا راستہ ایک ہوجاتا ہے اور بعض مواقع پر دونوں کے راستے مختلف
ہوجاتے ہیں۔
بحیثیت مفکر اور اسلام کے محرم راز کے نیز چونکہ اس متضاد ملک میں آپ رہتے
ہیں ، آپ کا فرض ہے کہ ان دونوں تہذیبوں کے درمیان ایک باریک اور واضح لائن
کھینچ دیں جو فرق وامتیاز کا کام دے ان چیز وں کے درمیان جن کا اخذ کرنا
مغربی تہذیب سے صحیح ہو اور جن کا اخذ کرنا صحیح نہ ہو ، بے حیائی ، بے
پردگی اور جاہلی زیب وزینت کے درمیان اور اس پر دہ اور احتیاط کے درمیان جس
کا اسلام نے حکم دیا ہے ، لطف اندوز ی اور کھیل کود کی اس حد کے درمیان جسے
اسلام نے مباح قرار دیا ہے اور حد ود وقیود سے بالاتر ہوکر اس نفس وپرستی
شہوت رانی اور حیوانیت کے درمیان جو اسلام میں ممنوع قرار دی گئی ہے، ایسی
لائن جو باریک بھی ہو اور واضح بھی ، اتنی باریک بھی نہ ہو کہ ظاہر نہ ہو
اور اس کو کوئی دیکھ نہ سکے، ایسے باریک خط سے کوئی فائدہ نہیں جولوگوں کو
دکھائی نہ دے، اور یہ لائن اتنی موٹی اور بھدی بھی نہ ہو کہ لوگوں کو گراں
گزرے ، زندگی کے تقاضوں کو پورا کرنے میں حائل ہوجائے اور دشواری پیدا کردے
، ایسی لائن جس پر ہر مسلمان جو اپنے دین پر ایمان رکھتا ہو اور اپنی شریعت
کا احترام کرتا ہو ،آکر رک جائے ، اور اس کو پار کرنے کی جرأت نہ کرے، ایسی
لائن کسی بھی اسلامی ملک میں جس کا مغربی اور عہد حاضر کے فکری دھاروں سے
مقابلہ درپیش ہے، موجودنہیں ہے، چنانچہ ایک انتشار پیدا ہوگیاہے ، مسلمان
اس تہذیب کے طور طریق اور علوم وافکار سے استفادہ کرنے میں تمام حدود کو
پھلانگ گئے ہیں اور تعلیم یافتہ نوجوان بلکہ ارباب علم وفکر کا طبقہ بھی
’’موجودہ صورتحال ‘‘ کے سامنے یکسر سپر انداز ہوگیا ہے، آپ کے لئے یہ خط
کھینچنا زیادہ آسان اور زیادہ ممکن ہے ، اس لئے کہ آپ ایسے ملک میں رہتے
ہیں ، جہاں مغربی تہذیب کا دور دور ہ ہے اور جو اس تہذیب کو اپنانے میں بہت
آگے جاچکا ہے ، اس کی ساتھ ساتھ آپ (اس وقت میرا خطاب لبنانی دارالافتاء سے
ہے) اسلامی روح اور اسلامی قانون کا وسیع اور عمیق علم رکھتے ہیں ، میں آپ
کے لئے دعا کرتا ہوں اور میری تمنا ہے کہ آپ اس کار عظیم کو بخوبی انجادم
دیں اس لئے کہ اس کام کا ہماری زندگی اور مسلمانوں کے مستقبل پر بہت گہرا
اور ہمہ گیر اثر ہوگا۔
حضرات علمائے کرام!
آپ کی تیسری ذمہ داری میرے نزدیک یہ ہے کہ آپ جس معاشرے میں زندگی گزار رہے
ہیں ، اس کے سامنے ایسی چیز پیش کیجئے جو اس کے پاس نہیں ہے، آپ اس خلا کو
پر کیجئے جو بہت دنوں سے پیدا ہوگیا ہے، علم وثقافت ، تہذیب وتمدن، اشکال
ومظاہر اور عیش وطرب کی زیادتی نے اس معاشرے کو مرض تخمہ میں مبتلا کردیا
ہے اور انسان کی فطرت ہے کہ وہ اس چیز کی قدر کرتا ہے جو اس کے پاس موجود
نہیں ہوتی اور اس شخص کو عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھتا ہے جس کے پاس یہ
چیز ہوتی ہے تو یہ ترقی یافتہ معاشرہ جو علم وتہذیب کے نقطہء عروج پر ہے ،
معلومات کی کثرت ، علم کی زیادتی ، طلاقت لسانی ، زور خطابت اور آرائش
وزیبائش سے زیر نہیں ہوسکتا ، وہ زیر ہوسکتا ہے تو اسی چیز سے جو اس کے
یہاں نایاب ہے، اس میں وہ مفلس اور قلاش ہے ، وہ قناعت سادگی ، زہد ، ضبط
نفس ، جاہ ومنصب کے سحر وطلسم سے آزاد ہونے اور زندگی کے رنگین خوشنما اور
کھوکھلے مظاہر سے بے اعتنائی ہی سے زیر ہوگا۔
یہ معاشرہ اس میدان میں بالکل دیوالیہ ہوچکا ہے ، وہ ماننے کے لئے کسی بھی
طرح تیار نہیں کہ دنیا میں کوئی ایسا شخص بھی ہے جو اس لذت وراحت کو
ٹھکراتا اور ان ’’بلند قدروں ‘‘ کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے جن پر ساری
دنیا کا ایمان ہے اور سارے لوگ جن کی پرستش کرتے ہیں۔
آج علم وعقل کا بحران نہیں ہے ، مال ومادہ کا بحران نہیں ہے ، تہذیب وتمدن
کا بحران نہیں ہے، بحران اس زندہ ضمیر کا ہے جو خریدا نہیں جاسکے جو کہیں
کھونہ جائے ، جو کسی سودے بازی کو قبول نہ کرے ، اس دل کا بحران ہے ، جو
زندگی اور ایمان ویقین کی دولت سے مالا مال ہو۔ آج دل وضمیر کا یہ حال ہے
کہ (میری مراد نہ کسی ایک ملک سے ہے نہ کسی ایک شخص سے ) وہ سامان خرید
وفروخت ہوگئے ہیں جن کی سودے بازی ہوتی ہے ، جن کو خریدا اور بیچا جاتا ہے،
مسئلہ سامان کا نہیں ، اس قیمت کا ہے جو ادا کی جاتی ہے اور جس سے ضمیروں
اور اصولوں کو خریداجاتا ہے ، آج سارے لیڈر اور قوم کے ناخدا حکومت کی
کرسیوں اور پارٹی کی لیڈر شپ کے پیچھے دوڑ رہے ہیں، خواہ اس کے حصول میں
کوئی قیمت بھی ادا کرنی پڑے ۔
بلاشبہ یہ دل وضمیر اور شخصیت واخلاق کا بحران ہے ، جس نے اسلامی ملکوں میں
صحیح اور مستقیم قیادت کے بحران کو جنم دیا ہے اور ایسے بے شمار مسائل پیدا
کردیئے ہیں جن کا کوئی حل نہیں ہے اور سارے لیڈروں اور قومی رہنماؤں کا
اعتماد ختم ہوگیا ۔
آپ جو اسلام کے علمبرداروں اور داعی الی اﷲ کے عظیم منصب پر سرفراز ہیں، اس
خلا کو پر اور اس شگاف کو بند کرسکتے ہیں ، موجودہ معاشرہ اور موجودہ تہذیب
کے سامنے زندگی ،اخلاق اور شخصیت کا ایک نیا نمونہ پیش کرسکتے ہیں اور اس
طرح مذہب اپنا اعتماد ،علم اور ارباب علم اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرسکتے
ہیں۔
ایک بار پھر میں جمہوریہ لبنان کے مفتی شیخ حسن خالد اور ان کے شاگردوں اور
دوستوں کا مشکور ہوں کہ انہوں نے ہماری عزت افزائی فرمائی اور لبنانی
مسلمانوں سے ملنے، ان کی سرگرمیوں اور ان کے علمی وفلاحی اداروں سے واقفیت
حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا‘‘۔
امید ہے کہ اہل فکر ودانش اس سے خوب استفادہ کریں گے۔ |