اسلام کی کی آمد سے قبل یعنی زمانۂ جاہلیت میں انسان
بچیوں کو ذلیل وحقیر سمجھتا تھا ۔وہ لوگ لڑکی کی پیدائش کے بجائے اس کی
وفات پر مبارکباد دیتے تھے۔ لڑکیوں کو اس قدر نیچ سمجھتے تھے کہ کسی کے ہاں
لڑکی پیدا ہوتی تو وہ مارے شرم کے منہ چھپائے پھرتا تھا کہ کہیں اس کی عزت
کو بٹا نہ لگ جائے ، ۔ان میں کچھ لوگ ایسے ظالم تھے کہ کسی بیٹی کا باپ
کہلوانے کے ڈر سے اپنے بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے ۔ یا گلا دبا کر
ہمیشہ کے لئے خاموش کردیتے تھے۔بیٹی کو نجاست کا ڈھیر اور شیطان کا نمائندہ
سمجھا جاتا تھا ۔ بیٹی کی ولادت کی خبر سنتے ہی حقارت کی تیوریاں چہرے پر
نمایاں ہوتی تھیں ۔ایسے لوگوں کا نقشہ قرآن پاک نے ان الفاظ میں کھینچا ہے
’’جب ان میں کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ
سیاہ ہوجاتا ہے ، لوگوں سے چھپاتا پھرتا ہے کہ اس بری خبر کے بعد کسی کو
کیا منہ دکھائے ۔سوچتا ہے کہ ذلت کے ساتھ بیٹی کو لئے رکھے یا مٹی میں
دبادے ‘‘۔(سورۃ النحل : ۵۸ تا ۵۹)
لیکن یہ تو زمانہ جاہلیت کے لوگوں کا حال تھا ۔ اب آیئے اس زمانہ کے لوگوں
پر نظر ڈالتے ہیں کہ ان کی نظر میں بیٹی کیا مقام ہے ، جو اپنے آپ کو
مسلمان کہتے ہیں ، سچا عاشق رسول ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ، سرکار دو عالم
صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت میں جانِ عزیز کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے ہر وقت
تیار رہتے ہیں ، لیکن جب ان کے دلوں کو ٹٹول کر دیکھو تو پتہ چلتا ہے کہ
زمانہ جاہلیت کے لوگوں کی طرح یہ بھی بیٹی کی آمد کو خوشگوار نہیں سمجھتے ۔
بلکہ اس پر رنجیدہ ہوجاتے ہیں۔ بیٹی کی پیدائش اپنے لئے ننگ وعار تصور کرتے
ہیں ۔ بعض لوگوں کو دیکھا گیا کہ مبارک باد کہنے کے بجائے آنسو بہا بہار کر
افسوس کا اظہار کرتے ہیں اور کچھ بہادر تو یہ بھی کہنے سے نہیں ہچکچاتے کہ
اس مرتبہ بیٹا نہیں ہواتو بیوی کو طلاق دے دوں گا ۔ایسے نامردوں کے لئے
قرآن کیا کہتا ہے ’’کچھ لوگوں کو اﷲ تعالیٰ صرف بیٹا دیتا ہے اور کچھ کے
مقدر میں بیٹیاں ہی بیٹیاں اور کچھ لوگوں کو بیٹے اور بیٹیاں دونوں سے
نوازتا ہے اور کچھ لوگوں کی جھولی میں کچھ نہیں ڈالتا اور انہیں بانجھ
کردیتا ہے ۔(الشوری: ۵۰)
یہ لوگ بیٹی کو رحمت کے بجائے زحمت سمجھتے ہیں ، اسے ایک بوجھ گردانتے ہیں
۔بیٹیوں کو ہر معاملہ میں کم تر سمجھا جاتا ہے ۔پڑھائی کے بارے میں یہی کہا
جاتا ہے کہ انہیں پڑھ لکھ کر کیا کرنا ہے ، آخر گھر کے کام کاج ہی تو کرنا
ہے ۔لہٰذا ان کے لئے تعلیم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں ؛لیکن یا درکھو !
بزرگوں کا قول ہے ’’مرد پڑھا فرد پڑھا ، عورت پڑھی خاندان پڑھا ‘‘۔اچھا
لباس ، اچھی غذا اور دیگر ضروریاتِ زندگی میں بھی بیٹیوں کے بجائے بیٹوں کو
ترجیح دی جاتی ہے اور بیٹوں کی خواہشات کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے ۔
افسوس صد افسوس کہ آج کے مسلمان زمانہ جاہلیت کے لوگوں سے بھی آگے نکل گئے
۔ اس بچی پر ماں باپ کی طرف سے اس طرح کا ظلم ہوتو یقینا وہ یہی کے گی
’’کاش میں تیری بیٹی نہ ہوتی ‘‘جس گھر میں بیٹی نہ ہو اس گھر میں رحمت نہیں
ہوتی ۔ یعنی بیٹی اﷲ رب العزت کی طرف سے رحمت ہے ۔ اﷲ تعالیٰ لڑکیوں پر بہت
زیادہ مہربا ن ہوتا ہے ۔
میرے محبوب صلی اﷲ علیہ وسلم کی آمد مبارک سے عورت کو دنیا میں جینے کا حق
ملا ۔معاشرے میں باعزت مقام ملا ۔ اور کہا گیا کہ جس کسی کے یہاں بیٹی پیدا
ہوتی ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کے پاس فرشتے بھیجتے ہیں ، وہ فرشتے گھر والوں سے
کہتے ہیں : اے گھر والو ! تم پر سلامتی ہو پھر اس بچی کو فرشتے اپنے پروں
سے ڈھانک لیتے ہیں اور اپنے نورانی ہاتھوں کو اس کے سر پر پھیرتے ہیں اور
کہتے ہیں : ایک کمزور جان ہے جو کمزور جان سے نکلی ہے ، قیامت تک اس کے
کفیل کی مدد کیجائے گی ۔(المجعم الصغیر للطبرانی : حدیث : ۷۰)ام المؤمنین
حضرت عائشہ سے روایت ہے ، حضور نے ارشاد فرمایا : جس شخص کو لڑکیوں کے
سلسلے میں کسی طرح آزمایا جائے اور وہ اس پر صبر کرے تو وہ لڑکیاں اس شخص
کے لئے دوزخ سے آڑبن جاتی ہیں ۔(جامع ترمذی : حدیث: ۲۰۳۷)
حضور نے فرمایا: جو شخص تین بیٹیوں یا تین بہنوں کی کفالت کرتا ہے ، اس پر
جنت واجب ہے ۔صحابہ رضی اﷲ عنھم نے پوچھا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم !
اگر دو بیٹیوں کی کفالت کرتا ہے ۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر بھی
واجب ہے ۔صحابہ رضی اﷲ عنھم نے پوچھا : اگر ایک بیٹی کی اور ایک بہن کی
کفالت کرتا ہو ؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر بھی واجب ہے ۔
پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص لڑکی رکھتا ہے ، اﷲ کی نصرت
، برکت اور اس کی بحششیں اس کے شاملِ حال ہوتی ہیں ۔
ایک اور جگہ فرمایا: جس کے یہاں ایک بیٹی ہوتی ہے اسے ایک ہزار حج کا ،
ہزار جہاد کا ، ہزار قربانی کا اور ہزار مہمانوں کا ثواب ملتا ہے ۔
جب حضرت فاطمہ رحمِ مادر میں آئیں تو سورۂ کوثر نازل ہوئی اور آپ کو خیرِ
کثیر اور دائمی نیکی کی بشار ت سنائی گئی ۔
انسان لڑکی کا باپ ہوتا ہے تو یہ اس کے لئے باعثِ فخر ہے ؛کیونکہ رسولِ خدا
صلی اﷲ علیہ وسلم بھی لڑکی کے باپ تھے ، دنیا میں لڑکی کے پیدا ہونے پر
رسولِ خدا سے مشابہت ہوجائے تو واقعتا بہت بڑا فخر ہے ۔
پیار ے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص دو یا تین لڑکیوں کی
سرپرستی کرے گا وہ بہشت میں میرا ہم نشیں ہوگا ۔
پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک اور جگہ فرمایا: جس کی کے گھر لڑکی ہو
پھر وہ اسے نہ زندہ در گور کرے نہ اس کی توہین کرے (لڑکی ہونے کے ناطے ہر
وقت طعن وملامت نہ کرے ) اور نہ لڑکے کو اس پر ترجیح دے ، اﷲ تعالیٰ اسے
جنت میں داخل فرمادیں گے (ابوداؤد )
جو لوگ بیٹی کی پیدائش کو منحوس سمجھتے ہیں انہیں ان احادیثِ مبارکہ کو مد
نظر رکھنا چاہیے ۔
دورِ رسالت کا یہ واقعہ بھی ان کے لئے تازیانۂ عبرت ،نصیحت وموعظت کا بڑا
مؤثر ذریعہ ہے ۔
دورِ جاہلیت کے پروردہ ایک شخص نے اپنی بیٹی حضرت فاطمۃ الزھراء سلام اﷲ
علیھا کے ساتھانبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت کا عالم دیکھا تو حیرت
زدہ رہ گیا ۔آنکھوں سے آنسو نکل آئے ، سوچنے لگا کہ آہ کس بے دردی سے میں
نے اپنی پارۂ جگر کو صرف دورِجہالت کی عصیبت کی بنا پر زندہ درگور کردیاتھا
، اور پھر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے استفسار پر اپنی داستاں بیان کرنا
شروع کردی ۔
میری بیوی حاملہ تھی ، ان ہی دنوں میں ایک سفر پر مجبور ہوگیا ، عرصے بعد
پلٹ کر آیا تو اپنے گھر میں ایک بچی کو کھیلتے دیکھا ، بیوی سے پوچھا : یہ
کون ہے ؟ بیوی نے کہا : یہ تمہاری بیٹی ہے اور پھر کسی نامعلوم خوف کے تحت
، التجا آمیز لہجہ میں کہا: ذرا دیکھو تو کس قدر پیاری بچی ہے ، اس کے وجود
سے گھر میں کتنی رونق ہے ، یہ اگر زندہ رہے گی تو تمہاری یادگار بن کر
خاندان اور قبیلے کا نام زندہ رکھے گی ۔
میں نے گردن جھکالی ، بیوی کو کوئی جواب دیئے بغیر لڑکی کو بغور دیکھتا رہا
، لڑکی کچھ دیر تو اجنبی نگاہوں سے مجھے تکتی رہی ، پھر نہ جانے کیا سوچ کر
بھاگتی ہوئی آئی ، اور میرے سینے سے لپٹ گئی ، میں نے بھی جذبات کی رو میں
اس کو آغوش میں بھر لیا اور پیار کرنے لگا ، کچھ عرصہ یونہی گذ ر گیا۔ لڑکی
آہستہ آہستہ بڑی ہوتی رہی اور ہوشیارہوئی ، سنِ بلوغ کے قریب پہنچ گئی ، اب
ماں کو میری طرف سے بالکل اطمینان ہوچکا تھا ، میرا رویہ بھی بیٹی کے ساتھ
محبت آمیز تھا ، ایک دن میں نے اپنی بیوی سے کہا:
ذرا اس کو بناسنوار دو ، میں قبیلے ایک شادی میں اسے لے جاؤں گا ، ماں
بیچاری خوش ہوگئی اور جلدی سے سجا سنوار کر تیار کردیا ۔ میں نہ لڑکی کا
ہاتھ پکڑا اور گھر سے روانہ ہوگیا ۔ایک غیر آباد بیابان میں پہنچ کر پہلے
سے تیار شدہ ایک گڈھے کے قریب کھڑا ہوگیا ، لڑکی جو بڑی خوشی کے ساتھ
اچھلتی کودتی چلی آرہی تھی ، میرے قریب آکر رک گئی اور بڑی معصومیت سے سوال
کیا : بابا یہ گڈھا کا ہے کے لئے ہے؟ میں نے سپاٹ لہجے میں اس سے کہا: اپنے
خاندانی رسم ورواج کے مطابق میں تم کو اس میں دفن کرنا چاہتا ہوں ؛تاکہ
تمہاری پیدائش سے ہمارے خاندان اور قبیلے کو جو ذلت ورسوائی ہوئی ہے اس سے
نجات مل جائے ۔
لڑکی کو صورتِ حال کا اندازہ ہواتو اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا اور قبل اس کے
اس کی طرف سے کسی ردِ عمل کا اظہار ہو ، میں نے اس کو گڈھے میں دھکیل دیا
۔لڑکی دیر تک روتی اور گڑگڑاتی رہی ؛لیکن مجھ پر اس کے نالہ وفریاد کا کوئی
اثر نہ ہوا۔ میں نے گڈھے کو مٹی سے بھردیا ، اگر چہ آخر وقت تک وہ ہاتھ
اٹھائے مجھ سے زندگی کی التجا کرتی رہی تھی ، لیکن افسوس ! میں نے اپنے دل
کے ٹکڑے کو زندہ درگور کردیا ، لیکن اس کی آخری التجا اب بھی میرے کانوں
میں لاوے ٹپکارہی ہے :’’بابا تم مجھے تو دفن کردیا ؛لیکن میری ماں کو حقیقت
نہ بتانا ، کہہ دینا کہ میں بیٹی کو اپنے قبیلے والوں میں چھوڑ آیا ہوں ‘‘
اپنے عرب صحابی سے ایک بیٹی کے زندہ درگور کردیئے جانے کی داستا ں سنی تو
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب جاری ہوگیا ۔اس وقت
نبیٔ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی آغوش میں جنابِ فاطمہ سلام اﷲ علیھا بیٹھی
ہوئی تھیں ، ان کی آنکھوں میں بھی نمی نظر آئی ، تو نبیٔ کریم نے بیٹی کو
سینے سے لگایا اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہونٹوں پر یہ جملے جاری ہوگئے :
’’بیٹی تو رحمت ہے اور پھر آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا: میں فاطمہ کو
دیکھ کر اپنے مشامِ جان کو بہشت کی خوشبو سے معطر کرتاہوں ، بارِالہٰی ،
میں تجھ سے موت کے وقت آرام وراحت اور قیامت کے حساب وکتاب کے وقت عفو
ومغفرت کا طالب ہوں۔
جو لوگ اپنی بیٹوں کی کثرت پر ناز کرتے ہیں اور اپنی بیٹیوں پر افسوس کرتے
ہے ، انہیں اﷲ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیئے ۔ غرور وتکبر کرنے کے بجائے اﷲ رب
العزت کا شکر ادا کرنا چاہیئے ۔ جس نے انہیں اولاد جیسی نعمتِ عظمیٰ سے
نوازا ۔ لڑکایا لڑکی کی پیدائش انسان کی اپنی پسند یا ناپسند سے نہیں ہوتی
، بلکہ اﷲ کی عطا ہوتی ہے ، اس کی مرضی پر منحصر ہے ۔خدارا ! اپنی بیٹیوں
کی پیدائش پر رنجیدہ مت ہوں ؛بلکہ خوشی کا اظہار کرو کہ اﷲ تعالیٰ نے
تمہارے گھر رحمت بھیجا ہے، ورنہ سن لیں کہ ! ’’تمہاری داستاں نہ ہوگی
داستانوں میں ‘‘ |