والدین دوا بھی دعا بھی

دنیا میں دو طرح کے لوگ ہیں ۔جن کے سروں پہ والدین کے سائے کی چادر ہے دوسرے وہ جو اس جنت سے محروم ہیں۔اور میری تحریر کا حصہ پہلے وہ لوگ ہیں جن کے والدین حیات ہیں جو اپنے والدین سے جدید بدتمیزی کے تمام مراحل با آسانی طے کر لیتے ہیں ۔ایسے بے قدروں کی تجزئیہ نگاری اور الفاظ کی چیخ و پکار کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہیں۔قارئین!

آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں والدین کی نافرمانی کس حد تک کی جا رہی ہے۔خدا نے جہاں حکم دیا ہے کہ والدین کو اف تک نہ کہو آج معاشرہ اس ایک لفظ اف کو والدین سے نافرمانی کے سفر میں بہت پیچھے چھوڑ گیا ہے۔اپنے معصوم بچے کی انگلی تھامے والدین کو کبھی یہ خیال تک نہ آتا ہو گا کہ یہی بچہ جب عمر کا سفر طے کریگا تو ان کی پرورش کی چھتری ہاتھ میں تھامے معاشرے کی ہواؤں میں جب اپنے مستقبل کا سفر طے کرنے نکلے گا تو فقط بھولتا چلا جائے گا ۔کہ کس طرح ماں باپ نے زندگی کی تمام راحتیں آسائش و آرام کی قربانی دی ۔ایک تنقیدی نظر ڈالئیے اپنے گردو نواح میں تو ایسے کردار وافر تعداد میں پائے جائیں گے۔کہ جنہیں قطعی کوئی پرواہ نہیں کہ وہ کس طرح اپنے والدین کی نا فرمانی کا مرتکب بن چکے ہیں ۔اس خوبصورت رشتے کی خوبصورت بات دیکھیئے باوجود اس کے کہ انکی اولاد انہیں سکھ نہیں دے پائے گی ساری عمر اپنے گونگے لبوں پہ حرف تمنا رکھتے ہیں ۔کہ کبھی تو لوٹ کر آئیں گے راستہ بھٹکے ہوئے انکے جگر گوشے ۔والدین ہماری زندگیوں میں اس پھول کی طرح ہوتے ہیں جس کی خوشبو تربیت کا لبادہ اوڑھ کر ہمارے کردار کو ہمیشہ مہکاتی رہتی ہے۔گو کہ ہمارا کردار آج اس رشتے سے انصاف نہیں کر پا رہا یہ الفاظ تحریر کرتے ہوئے میرا قلم ڈگمگا رہا ہے کہ آج کل اولاد اپنے والدین کو بوجھ سمجھتی ہے۔

وہ رشتہ بوجھ کیسے ہو سکتا ہے جو بچپن سے جوانی تک ہمارا بوجھ اٹھاتا ہے۔اور پھر رفتہ رفتہ ہمارے کردار کے بوجھ تلے دب جاتا ہے ۔ساری عمر والدین آنکھ کی پلکوں میں آنسوؤں کو پوشیدہ راز رکھتے ہیں کہیں ان کے بچوں کو انکے دکھ درد کی اطلاع نہ مل جائے ۔اور کیا خبر کہ بچے تو جدید ٹیکنالوجی کی معلومات حا صل کرنے میں یوں مبتلا ہیں جیسے کوئی بھوکا شیر جنگل میں کسی جانور کی تلاش میں سرگرداں ہو۔کیا یہی احترام والدین ہے؟ کہ نئے رشتوں کی بنیاد اس ایک اور مضبوط رشتے کی چٹان کو ہلا دیں ۔ہر رشتہ اپنی جگہ قابل احترام ہے لیکن جب رشتوں کی گتھی آپس میں الجھ جاتی ہے۔تو پھر ہماری پرورش کا ایکسیڈنٹ ہوتا ہے۔ظاہر ہے ہم نے جو تربیت حاصل کی ہوتی ہے اس وقت وہی ہمارے کام آتی ہے اور جب دنیا تنقیدی جائزہ لیتی ہے تو پھر دلیرانہ کہہ اٹھتی ہے کہ والدین نے ہی ایسی تربیت کی ہو گی ۔ہر چند کہ ہم اپنے والدین کے لئیے ذلت کا باعث بن جاتے ہیں ۔اپنے ضعیف لمحوں میں ان کی نظر یں اپنی نافرمان اولاد کو تلاش کرتی ہیں غفلت کا شکار لوگ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ مقافات عمل جب ہوتا ہے۔تو پھر ہر کہانی دہرائی جاتی ہے ۔صدیوں کی تھکن سے دوہرے جھکے ہوئے شانے تب اپنی اولاد کی توجہ تلاش کرتے ہیں ۔اور جب انہیں یہ احساس ہوجاتا ہے کہ اولاد انہیں بے ضرورت سمجھ کر جوانی کی مستیوں میں کھو چکی ہے۔تو تب بھی وہ کبھی اپنی اولاد کو دل سے بدعا نہیں دیتے ۔جو لوگ اپنے والدین کی بدعا حاصل کر کہ سمجھتے ہیں کہ وہ چین سے وقت گزار لیں گے تو یہ سنگین مذاق ہے ۔انکا خود اپنی حیات کے ساتھ ۔والدین کی آنکھوں سے جب بھی اولاد کی نافرمانی کی وجہ سے آنسو کا سورج گرتا ہے انکی پوری زندگیوں کو دکھ کی دھوپ میں جلا دیتا ہے ۔تجزئیہ نگاری سے یہ بات واضع ہے کہ جو لوگ اس مقدس رشتے کو عزت نہ دے سکے وہ معاشرے میں صرف اور صرف نفسیاتی مریض بن کر رہ جاتے ہیں۔ایسے مریضوں کو چا ہیئے کہ وہ اپنے مرض کی دوا والدین سے حاصل کریں ۔اپنے خوابوں کی تجارت کرتے ہوئے یہ مت بھولئیے کہ تعبیر والدین کی عزت ان کی خوشی ان کی دعاسے ہی ممکن ہے ۔قارئین!

تحریر کا رخ بدلتا ہے ۔اور احساسات و جذبات سوچ کو ایک نیا رنگ دیتے ہیں کہ جن لوگوں کے والدین دنیا میں حیات ہیں اور آج جن والدین کا سائیہ اپنے بچوں کے سروں پہ نہیں یہی سائیہ یا د بن کر ان کے روبرورواں دواں ہے ۔زندگی کے ہر لمحے وہ اپنے والدین کی کمی محسوس کرتے ہونگے۔اور میں نے ایسے لوگوں سے سوال کیا کہ والدین کی کمی کس طرح محسوس ہوتی ہے۔تو مجھ سے کہا کہ "آپ ایک لمحہ اپنی سانس روک لیں "یہ ہی ہمارا جواب ہے ۔یعنی کہ اس خوبصورت مقدس رشتے کو یوں اپنی زندگی سے جوڑتے ہیں۔تو ذرا اندازہ کیجئے کہ جنکے والدین آج حیا ت ہیں وہ اپنے والدین کی نافرمانی انہیں اہمیت نہ دے کر کس طرح خسارے میں ہیں ۔ہرشخص کامیاب والدین کی دعا سے ہے ۔ساری عمر کی نیندیں اپنا آرام و سکون حالات کے ہاتھوں گروی رکھ کر وہ اپنی اولاد کو منزل تک پہنچا تے ہیں ۔یاد رکھیئے اپنی دنیا اور آخرت سنوارنی ہے والدین کی دل و جان سے عزت کیجیئے ۔ان سے اونچی آواز میں بحث کرنیوالوں کیلئیے ۔دنیا و ا ٓخرت عبرت کا نشان بن جاتے ہیں ۔اپنے والدین سے محبت سے پیش آئیے ۔وہی آپکی دعا بھی ہیں اور دوا بھی ۔تو پھر نہ کسی کی نظروں میں گریں گے نہ کسی کے قدموں میں جھکیں گے۔اﷲتعالی ہم سب کو والدین کی فرمانبرداری کی ہدایت دے ۔اـمین

kiran aziz
About the Author: kiran aziz Read More Articles by kiran aziz: 13 Articles with 14536 views write truth is my passion.. View More