18دسمبر 1971ء کی سرد سہ پہر کو جب ڈھاکہ کے پلٹن میدان
میں ہماری عظمتوں کے تمغے نوچے گئے تو شاعر نے کہا
پھول لے کر گیا آیا روتا ہوا
بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبرِ اقبال سے آرہی تھی صدا
یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں
عروج و زوال آئینِ فطرت ہے جس سے مفر ممکن نہیں لیکن زندہ قومیں تاریخ سے
سبق حاصل کرتے ہوئے گِر کر سنبھلتی ہیں اور درسِ اقبال بھی یہی ہے کہ
اگر کھوگیا اِک نشیمن تو کیا غم
مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں
لیکن ہم تاریخ سے سبق حاصل کرنے کی بجائے بچے کھچے پاکستان کے بھی ٹکڑے
کرنے کے درپے ہیں۔ ہم مصورو مفکرَ پاکستان حضرت علّامہ اقبالؒ کا 136واں
یومِ پیدائش تو بزعمِ خویش انتہائی عقیدت و احترام سے منا رہے ہیں لیکن یہ
کیسی عقیدت اور کیسا احترام ہے کہ ہم نے آج تک وطنِ عزیز میں کلامِ اقبالؒ
کے عملی نفاذ کی ضرورت کو محسوس ہی نہیں کیا ۔حضرتِ اقبال نے جس آزادی کا
خواب دیکھا اُس کا محور و مرکز دینِ مبیں تھا اور وہ تو ایسی آزادی پہ بھی
لعنت بھیجتے نظر آتے ہیں جو دین کے تابع نہ ہو ۔وہ فرماتے ہیں
دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملّت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کو خسارہ
حضرتِ اقبالؒ اور قائد کا تصورِ پاکستان یہی تھا اور اسی کے لیے اُنہوں نے
حصولِ پاکستان کے لیے جدوجہد کی تاکہ اِس قطعۂ زمیں ، اِس ارضِ پاک پر دینِ
مبیں کو عملی طور پر نافذ کیا جا سکے لیکن آج تک اقبالؒ کا خواب ادھورا ہے
اِس لیے ہمیں یہ کہنے کا کوئی حق نہیں کہ ہمیں اقبال ؒ سے عقیدت ہے
ہمارے بعض سیکولر دانشور اپنی تحریروں اور تقریروں میں قوم کو ہمیشہ یہی
درس دیتے نظر آتے ہیں کہ ہم مجبور ، بے بس ، لاچار اور کمزور ہیں اس لیے
غیرت و حمیت کو بے شرمی اور بے حمیتی کی لوری سُنا کرسُلا دینا چاہیے
کیونکہ زمینی خُداؤں کی چوکھٹ پہ سجدہ ریز ی میں ہی عافیت ہے ۔سوال مگر یہ
ہے کہ کیا ایٹمی قوتیں بھی کمزور ہوا کرتی ہیں؟۔اگر ہم افکارِ اقبال کے
پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو پھر اقبال تو عزم و ہمت کے شاعر تھے اور
اُن کا جہاں تو ستاروں سے بھی آگے ہے جہاں غیرت و حمیت کی حکمرانی نظر آتی
ہے۔ انہوں نے فرمایا
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
لیکن ہمارے سیکولر دانشور کہتے ہیں کہ جہاں عقل کا دروازہ نہیں کھلتا وہیں
غیرت کی بات کی جاتی ہے ۔ ان کے نزدیک عقل کا تقاضہ تو یہی ہے کہ ہم اپنی
غیرتوں کو ’’امریکی‘‘ شراب پلا کر مدہوش کر دیں ۔ حیران ہوں کہ اسی کمزوری
کا حوالہ دے کر پرویز مشرف ڈراتا تھا اور اسی کمزوری کی بات پیپلزپارٹی
کرتی رہی ۔ شنید ہے کہ موجودہ حکمرانوں نے امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال
کر بات کرنے کا عزم کر رکھا ہے ۔اﷲ کرے ایسا ہی ہو لیکن تاریخِ پاکستان یہ
نہیں بتلاتی ۔ ہمارے دفاعی سائنس دان اپنی بھرپور اور توانا آوازمیں ہمیشہ
یہ کہتے رہتے ہیں کہ پاکستان کا دفاع نا قابلِ تسخیر ہے لیکن طرفہ تماشہ یہ
ہے کہ پوری دنیا ہمارے ایٹمی پروگرام سے خائف ہے اور ہم پوری دنیا سے ۔ ہم
نے بھوکے رہ کر ایٹم بم بنایا اور جب اقوامِ عالم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال
کر بات کرنے کے قابل ہوئے تو امریکہ کو خُدا مان لیا ۔ ایٹم بموں ، ایٹمی
میزائیلوں اور آب دوزوں سے لیس دنیا کی بہترین جرّی فوج رکھنے والے
حکمرانوں کو روحِ اقبال یہ پیغام دیتی نظر آتی ہے کہ
کیوں گرفتارِ طلسم ہیچ مقداری ہے تو
دیکھ تو پوشیدہ تجھ میں شوکتِ طوفان بھی ہے
٭
کیوں ہراساں ہے صہیلِ فرسِ اعدا سے
نورِ حق بجھ نہ سکے گا نفسِ اعدا سے
جبکہ ہمارے حکمرانوں کا رویہ یہ ہے کہ
مجھے روکے گا تو اے نا خُدا کیا غرق ہونے سے
کہ جن کو ڈوبنا ہو ، ڈوب جاتے ہیں سفینوں میں
یہ توتاریخ کا ایک معمولی طالبِ علم بھی جانتا ہے کہ جس زمانے میں اقبالؒ
نے شاعری شروع کی اس وقت مسلمانانِ ہند انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کر
رہے تھے ۔مایوسیوں میں گھرے ہوئے مسلمانوں کو کوئی ایسا روزن بھی نظر نہیں
آتا تھا جس سے امید کی کوئی کرن آتی ۔اس دورِ ابتلا میں بھی ترجمانِ حقیقت
حضرتِ اقبال نے فرمایا
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
٭
یاس کے عنصر سے ہے آزاد میرا روزگار
فتحِ کامل کی خبر دیتا ہے جوشِ کا ر زار
انہوں نے سرزمیںِ ہند کے مسلمانوں کو درسِ بیداری دیتے ہوئے فرمایا
کانپتا ہے دل ترا اندیشہء طوفاں سے کیا
ناخدا تُو، بحر تُو ، کشتی بھی تُو ، ساحل بھی تُو
لیکن دُکھ کی بات تو یہ ہے کہ ہم کمزور نہیں لیکن پھر بھی صرف ’’دشمنوں کے
گھوڑوں کی ہنہناہٹ ‘‘سے مرے جا رہے ہیں۔آج اگر اقبال زندہ ہوتے تو شرمندہ
ہوتے کہ انہوں نے اپنی عمرِ عزیز ایسے لوگوں کے لئے صرف کر دی جو غیرت کا
درس دینے والوں کو طنزیہ انداز میں ’’غیرت برگیڈ ‘‘ اور ’’ غیرت لابی‘‘
جیسے ناموں سے پُکارتے ہیں ۔ آج ڈرون حملے ہو رہے ہیں ، سینکڑوں
ریمنڈوزیرستان میں دندناتے پھر رہے ہیں ، سرحدی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں،
اور ہم ؟۔۔۔ ہم جو ڈرون گرا سکتے ہیں، ریمنڈوں کی گردنیں اتار سکتے ہیَں
اور دشمنوں کو دندان شکن جواب دے سکتے ہیں لیکن ہم بے حمیتی کی ’’بُکل‘‘
مارے بیٹھے ہیں کہ ’’ حمیّت نام ہے جس کا ، گئی تیمور کے گھر سے ‘‘اقبال کے
درسِ خودی نے عروقِ مُردہ ٔ مشرق میں خونِ زندگی دوڑایا اور مسلمانانِ ہند
کو ایک نظریے پر اکٹھا کیا ۔اسی خواب کوبابائے قوم نے حقیقت کا روپ بخشا ۔قائدنے
24 مارچ 1940ء کو قراردادِ پاکستان کی منظوری کے بعد بے ساختہ فرمایا ’’اگر
آج اقبال زندہ ہوتے تو کتنے خوش ہوتے‘‘۔لیکن جس دور سے ہم گزر رہے ہیں اسے
دیکھ کر تو بے ساختہ یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ ’’اگر آج اقبال زندہ ہوتے
تو کتنے شرمندہ ہوتے ‘‘ |