واقعہ کربلا میں حضرت امام حسین ؓ کی شہادت کا ذکر آج
چودہ سو سال گزر جاننے کے باوجود بھی نہ صرف ختم نہیں ہو سکا بلکہ یہ مدہم
بھی نہیں ہوسکا۔حادثات و وقعات تو دنیا میں بڑے بڑے ہوئے مگر اس کا تذکرہ
وقت کے ساتھ کم ہوتا رہا اور وہ تاریخ کی کتابوں کی حد تک محفوظ ہو کر راہ
گئے مگر کربلا زندہ ہے اور تا قیامت زندہ رہے گا ۔ کیونکہ کربلا میں شہادت
امام حسین ؓحقیقت میں شہادت محمدی ہے۔جس طرح ذکر مصطفٰی ﷺ کو اﷲ تعالی نے
دوام و عروج بخشا ہے اور وہ کبھی بھی ختم نہیں ہونے والا ۔اسی عروج و دوام
کا فیض اﷲ رب عزت نے شہادت امام حسین کے ذکر کو عطا کیا ہے ۔ امت محمدی کو
جتنی بھی نعمتیں،فضیلتیں،صادتیں ملی ہیں۔جنہیں دین فضیلت اور صادت قرار
دیتا ہے۔ان کا خلاصہ چار نعمتوں میں ہے۔ایک نبوت،صدیقیت،شہادت،اور
صالحیت۔دنیا میں تو اب نبی ،رسولاﷲﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ،بنوت کا
تو دروازہ بند ہو گیا۔اس کے بعد امتوں میں تین فضائل برقرار رہیں، نمبر ایک
صدیقیت ہے یہ ولایت کا انچا درجہ ہے،نمبر دوشہادت اور نمبر تین صالحیت ،نیکی
تقوہ،پریزگاری،اخلاق حسنہ ،مورال،سپریچویل،ایومن ولیوز سارے اس دین میں
شامل ہو جاتے ہیں،ان سے انسانیت کو عظمت ملتی ہے،حضور ﷺ ان تمام
نعمتوں،فضلیتوں،کا ذریعہ،وسیلہ،اور سبب ہیں۔کوئی بھی نعمت کسی کے سبب سے تب
مل سکتی ہے جب وہ نعمت خود اس کی ذات میں بھی موجود ہو۔اگر کوئی ہستی اس
خاص نعمت سے خود محروم ہے تو دوسرے کے لئے اس نعمت کا سبب نہیں بن
سکتی۔صدیقیت تو سب کو ملی قیامت تک ملتی رہے گی،صداقت،ولایت،اور انسانیت کے
بلند درجے تو ملتے رہے گئے کیوں کہ یہ سب حضور ﷺ کی ذات میں موجود
ہیں،صالحیت،نیکی متقی،پریزگار،اور انسانی قدروں کے حامل لوگوں کو ملتی رہے
ہے ملتی رہے گی امت میں کیونکہ حضور علیہ صلات و سلام کااپنا حسنہ مبارک
چشمہ انسانیت ہے ۔اس سے رہنمانی مل رہی ہے اور ملتی رہے گی،اب سوال پیدا
ہوتا ہے کہ شہادت یہ کیسے حضور کے وسیلے سے امت کو مل رہی ہے اس لیے کہ خود
تو آقا، علیہ صلات وسلام شہید نہیں ہوئے،کیسے ممکن ہے کہ جو مرتبہ خود نہ
پایا ہو وہ دوسروں کو فراہم کرنے کا ذریعہ اور وسیلہ بننے ،یہ ایک سوال تھا
اس کا جواب شہادت امام حسین ہے،شہادت کہ دو پہلو ہوتے ہیں ایک ظاہری اور
ایک باطنی،اور انسانی شخصیت کے بھی دو پہلو ہوتے ہیں ایک ظاہر اور ایک باطن
،حصور علیہ صلات وسلام کے ساتھ اﷲ کا وعدہ تھا کہ کسی دشمن کے ہاتھوں آپ کی
وفات نہیں ہوگی۔اﷲ آپ کی حفاظت کرے گا،دین اسلام کا پودہ اگایا جا رہا
تھا،اسلام کو ایک خاص مقام تک پہنچانا تھا اور دین کو مکمل کرنے تک رسول
اﷲﷺ کو با حیات رہنا تھا،بڑی کوششیں ہوئیں کسی کا وار بھی آپ ﷺ پر کامیاب
نہیں ہوا،تو شہادت سے اﷲ رب العزت نے بچایا،اوخد کے میدان میں آپ کو زہر
الود گوشت بھی کھیلایا گیا دو صحابہ جنہوں نے بوٹی کھائیں وہ شہید ہوگئے
مگرآپ ﷺ کھانے کے باوجود شہید نہ ہو سکے،زہر نے اثر کیا وہ ان کے جسم میں
چلی گئی مگر اس کے نتیجے سے اﷲ تعالیٰ نے محفوظ رکھا،شہادت کا ددسرا پہلو
ہوتا ہے کہ دشمن وار کرے آپ پر اور آپ اﷲ کی راہ میں شہید ہو جائیں،جنگ
اوخد میں یہ عمل بھی ہو گیاآپ پر وار بھی ہوئے آپ کے داندان مبارک بھی زخمی
ہوئے دندان مبارک ٹوٹا، لہو مبارک نکلا،بے ہوش ہوگئے زمین پر آگرے افوا
پھیل گئی کہ حضور شہید ہو گئے یہ سارے تقاضے پورے ہو گئے جو شہادت ظاہری کے
ہوتے ہیں مگر وفات سے اﷲ تعالی نے روک دیا کیونکہ اﷲ کا وعدہ تھا کہ دشمن
کے ہاتھ سے آپ کی وفات نہیں ہوگی۔لہذا،شہادت ظاہری اور شہادت باطنی کے
بیشتر ایلمینٹس اﷲ تعالیٰ نے حضور کی ذات میں رکھ دیے جو شہادت کے ہوتے ہیں
اور آخری ایلیمنٹ جو وفات پا جانے کا ہے اس کو روک دیا۔اب ضروری تھا کہ اس
کی بھی تکمیل ہو۔اس کی تکمیل کسی غیر کے جسم سے نہیں ہو سکتی تھی تو اﷲ رب
لعزت نے آپ ﷺکو دو شہزادے عطا کئے ایک حسن ؓاور ایک حسینؓ تو آپ نے دونوں
کے لئے فرمایا کہ حسن مجھ سے ہے اور میں حسن سے،اور پھر فرمایا کہ حسین مجھ
سے ہے اور میں حسین سے۔یہ جو حادیث صیحیہ اور حادیث حسنہ ہے انکو کوئی رد،
نہیں کر سکتا ان کا مقصد کیا تھا،یہ بات تو سمجھ آتی ہے کہ حسنؓ اور حسینؓ
تو حضورﷺ سے ہیں مگر حضور کیسے ان سے ہو سکتے ہیں،جس طرح ایک شاخ تو تنے سے
ہو سکتی ہے مگر تنا شاخ سے کیسے ہو گیا ۔حسنؓ اور حسین ؓمجھ سے ہیں اس کا
مطلب یہ ہے کہ حسنؓ اور حسینؓ کے سارے فضائل،وکمالات،مجھ سے حاصل کیے ہیں
مجھ سے سیکھیں ہیں جو مجھ میں انسانیت کے حوالے سے ہے وہ ان میں بھی ہے،مجھ
سے اخذ کئے ہیں میں ان کے کمالات اور مقدر کا سورس ہوں ذریعہ ہوں،اور میں
ان سے ہوں اس کا مطلب یہ ہے کہ میرے وہ فضائل وہ کمالات جوابھی با وجود
میری ذات میں ظاہری نہیں ہو سکے،مثلاًکمال شہادت وہ حسنؓ اور حسینؓ کے
ذریعے ظاہر ہونگے،میرا کمال شہادت جس کو اﷲ رب العزت نے اپنی مصلیت سے میری
ذات میں واقع ہونے سے روک رکھا تھا ۔،زہر والی شہادت حضرت امام حسنؓ کے
زریعے ظاہر ہوگی اور تلوار والی شہادت حضرت امام حسینؓ کے ذریعے ظاہر
ہوگی۔شہادت حسنؓ اور حسین ؓبظاہر تو ان کی تھی مگر اصل میں دہ شہادت باب
محمد کے جسم کی شہادت کی تکمیل تھی،حضور کی شہادت کو بعد میں مکمل کرنا تھا
یہی وجہ ہے کہ آج تک بہت سی شہادتوں کا تذکرہ اس حد تک نہیں ہوتا جس قدر
تذکرہ آئے روز ہر مکتبہ فکر میں امام حسین ؓکی شہادت کا ہوتا ہے۔ مارکہ
کربلا حق و باطل،ظلم و جبرکے خلاف علم حق بلند کرنے کا مارکہ ہے ،کربلا میں
امام حسین ؓکا کردار کیا تھا،دین کی حفاظت امام حسین ؓکی اس نقطے کو سمجھنے
کی ضرورت ہے ،دین کی خدمت کس طرح کی ۔حادیث میں آیا ہے آقا علیہ صلات و
سلام نے فرمایا اس امت میں چار قسم کے ادوار آئیں گے،پہلا زمانہ بنوت کا
ہے،دوسرا دور خلافت راشدا کا دور آئے گا یہ دور بھی باعث رحمت ہوگا،تیسرا
دور سلطنت کا ملوکیت کا دور ہے یہ دور بھی انسانیت کے لئے باعث رحمت ہوگا
اس دور میں ایک عام آدمی کی زندگی متاثر نہیں ہوگی اس کو زندگی کے تمام
لوازمات میسر ہونگے،چوتھا دور جبریت،یعنی جبر کا ظلم کا فساد کا ،امریت
کا،دور آئے گا اور یہ دور یزیدیت کا دور ہے فرمایا اس دور سے پھر عام آدمی
کی زندگی متاثر ہوگی ۔روایت ہے کہ اس کا آغاز ساٹھ ہجری سے ہوا ہے ،ساٹھ
ہجری سے شروع ہونے والے دور سے ابو عررہ نے پناہ مانگی،پہلا اباش شخص جو
کرپٹ تھا،جو دین کا چہرا مسک کرنے والا تھا،جو ظالم،فاسک،اور جھوٹا تھا،جو
جبر کرنے والا ،لالچی اور منافق تھا وہ پہلا شخص جو بد کردار کا حامل تخت
پر بیٹھا وہ یزید تھا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کربلا میں امام حسینؓ کا کردار
کیا تھا جب کہ وہ زمانہ بہت سے صحابہ کا تابعین،تبا تابعین کا بھی تھا،مگر
حضور نے فرمایا دیا تھا کہ میں حسینؓ سے اور حسین ؓمجھ سے ہیں دین کو بچانے
اور ہمیشہ زندہ رکھنے کے لئے شہادت ہوگی اور وہ شہادت کسی اور کو مل نہیں
سکتی تھی ،میری شہادت کا نزول امام حسینؓ پر ہوگا.۔۔(جاری ہے) |