بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم ا
عدل ومساوات کے علمبردار کیوں مظلوم بن گیٔے؟
یاد پڑ رہا ہے۲۰جنوری۰۹ ۲۰ء ۔۔۔۔۔اس دن کو ہم دنیا کی اخلاقی فتح کا دن سے
تعبیر کر سکتے ہیں ،جس دن امریکہ مین ایک سیاہ فام صدارت کے عہدے کا حلف
اٹھاتا ہے اور ملک میں بلا امتیاز یعنی کالے گورے سب مل کر جشن مناتے ہیں،
لیکن ہمارے لے یہ لمۂ فکریہ تھا،کیونکہ اگرہم غور کرتے ہیں تو ہمیں اس کی آ
ڑ میں اسلا می مساوات کا وہ دلکش پہلو نظر آتا ہے جس کی داغ بیل حضرت
محمدصلم نے آج سے۰۰ ۱۴ سال پہلے مدینہ منوّرہ میں رکھی تھی جسے ا’مت مسلمہ
فراموش کرکہ پریشانی میں مبتلہ ہے،اور دوسری قومیں اس پر عمل کر کہ دنیا
میں اپنا تسلّط یا سکہ جما چکی ہیں،آج امریکہ میں ایک تاریکین ٍوطن جس کی
مالی کسمپرسی یا غربت نے اپنے لاڈ لے کی تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کے لیے
ہوٹل میں ویٹری کی تھی ،لیکن آج اس کا بیٹا دنیا کہ طاقت ور ترین ملک کا
صدر بنا بیٹھاہے تو اسلام کے دعویداروں کا سر شرم سے جھک جاتا ہے ،کیونکہ
اگر ایسا موقع ہماری کسی اسلامی ریاست میں آتا تو کیا یہاں ایسا ممکن
ہوتا؟اور کیا اقتدار کی منتقلی کا عمل جتنی اسانی سے امریکہ میں طۓ پایا
تھا تو کیا یہاں طۓ پاتا ،ہرگز نہیں۔۔۔۔اگر کچھ نہیں ہوتا تو نسلی غرور
اور انانیت ضروریہاں غالب آ جاتی، اسلیٔے ہمیں اپنی ساری رنجشوں کو بالاے
تاق رکھ کرامریکہ کی اس اخلاقی فتح تو تسلیم کرنا پڑ رہا ہے۔ آج امریکہ
دنیا کا مضبوط ترین ملک ہے اور دنیاوی اعتبارسے ترقی کی مثال پیش کر ر ہاہے
جس کا راز اس کا وہ جمہوری نظام ہے جس کی عملی صورت آج سے ۰۰ ۱۴ سال پہلے
حضرت عمر ؓنے آدھی دنیا پر حکومت کر کہ دکھلا دی تھی ؛جسے آ ج دوسری قوموں
نے اپنایا ہواہے ،
در اصل اسلام کی آمد سے پہلے دنیا خصوصاً عرب طبقاتی تقسیم کا شکار تھے ان
کے اشراف کا سات سات قتل معاف تھا اور غلاموں کو پورا کپڑاپہینے،حرم شریف
میں داخل ہونے اور بنی ہاشم کے کنویں کاپانی تک پینے کی اجازت نہیں تھی ،لیکن
جب اسلام کاظہور ہوا تو عربی عجمی ،کالے گورے کی سب تمیز ختم ہوگیٔ ، تاریخ
گواہ ہے جب حضورﷺ ملکٍ شام کی طرف لشکر روانہ کیا تو اس کا سالارایک غلام
زادہ یعنی غلام ابن غلام حضرت اسامہ بن زیدؓ کو بنایا،اور عرب کے بڑے بڑے
سرداوں کو ان کے ماتحت کیا،
نبیﷺ کی وفات کہ بعد جب یہ لشکر واپس آیا تو خلیفۂ آول حضرت ابو بکرؓاسی
لشکر کو دوبارہ روانہ کیا اور اس غلام زادے کی گھوڑے کی رکاب تھامے مدینہ
کے باہر تک چھوڑ ا،اور جب حضرت عمر ؓ نے اپنے زمانے کہ سب سے طاقتور فوجی
جنرل حضرت خالدبن ولیدؓ کو معزول کیا توان کی گرفتاری کے فرایٔض انجام دینے
کیلے ایک آزاد کردہ غلام حضرت بلال ؓ حبشی کو ہی بھیجا تھا،حضرت بلالؓجب ان
کے قریب پہنچتے تو انہیں خلیفۃ المسلمین حضرت عمرؓ کا پیغام سنا کرانہیں کے
عمامہ سے انکا ہاتھ باندھ کر مدینہ کی طرف چل پڑتے ہیں،مگر کسی میں بھی اْف
تک کرنے کی ہمت نہیں ہوتی ہے، یہی وہ اسلامی عدل و مساوات کی خوبی تھی جس
کی وجہ سے مسلمان پوری دنیا میں ایک عظیم طاقت (Super power)بن کر ابھرے
تھے،لیکن افسوس رفتہ رفتہ یہ صفت زوال پذیر ہوگیٔ اور اسلامی مساوات
خاندانی حسب نسب،جھوٹی شہنشاہیت کے سایٔے تلے گم ہو گیٔ اور ایک وسیع ترین
اسلامی سلطنت چھوٹی چھوٹی جھونپڑیوں یا خیموں میں تبدیل ہو گیٔ اور اغیار
نے ہماری یہ خوبی اپنالی تو نتیجتاً ہم حکومت رکھنے کہ باوجود محکوم بن
گیٔے ،آج دنیا میں ۵۸ اسلامی ممالک ہیں؛ لیکن سب کے سب امریکہ کہ اگے بے بس
اور کراے دار ہیں،
اصل وجہ یہ ہے کہ ہم نے اسلا می حدوں کو توڑااور ا س کی قدروں کوبھی پامال
کیا،تو کمزوری اور بے بسی نے ہمیں گھیرا اور ذلّت و رسوا یٔ ہمارا مقّدر بن
گیٔ، اقبالؒ نے سچ کہا ہے؛؛ وہ معزّز تھے زمانے میں مسلمان ہوکر، اور تم
خوار ہوے تاریک قرآن ہو کر۔۔۔۔
پوری انسانی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جس معاشرہ میں عدل ومساوات یعنی
تمام شہریوں کیلیٔے ترقی کے یکساں مواقع ہوتے ہیں وہ معاشرہ ترقی کرتے ہوے
ہمیشہ طاقتور اور خوشحال رہتا ہے اور جہاں یہ خوبی گم یانا پید ہوجاتی ہے
وہ معاشرہ ہمیشہ انتشار کا شکار ہو کر زوال پذیر ہوتا ہے،اور یہی قانون
ِقدرت ہے۔․․ــ
آج دنیا کی طاقتورترین حکومت امریکہ کی باگ ڈورایک کالے (جو ایک زمانے میں
غربت و افلاس کی حدیں بھی توڑ چکا تھا)کہ ہاتھ میں ہے تو یہ کویٔ معمولی
واقعہ ہے؟ نہیں ،یقناً ٰیہ واقعہ غیرمعمولی ،اورہمارے لیے سبق اموزہے
!کیونکہ آج کی اسلامی دنیا میں شاید ہی ایسا ممکن ہوتا،کیا سعودی عرب ،عرب
امارات ،کویت ؛قطر،بحرین ، عمان میں بسنے والا کویٔ غیر ملکی مسلمان ان
ملکوں کا سربرہ بن سکتا ہے ؟ یا کم از کم ان کی مجلس کا رکن بن سکتا ہے ؟
یہ تو دور کی بات ، یہاں پر تو ان کہ ایوانوں تک رسایٔ بھی مشکل ہے
،اوریہاں نسل در نسل بسنے والوں کو شاید ہی کبھی خارجی کہکرنہ پکارے
جایٔں۔کہاں گیٔ اسلامی مساوات اور رواداری؟ یہی وہ بنیادی چیزیں ہیں جسے
مسلم دنیا بھول کر کمزور اور بے بس بنی ہویٔ ہے اور دوسری قومیں ان پر حاکم
ہیں خصوصاً امریکہ۔۔۔
دنیا نے کبھی عربوں کاوہ تاریک ترین دور بھی دیکھا تھا جہاں غلاموں کو خانۂ
کعبہ کہ ساے ٔ تلے بیٹھنے کی اجازت تک نہ تھی لیکن ظہورِ اسلام کہ بعد یہ
حالت باقی نہ ر ہی ا ور وہ دلفرین منظر سامنے آیاجو سارے جہان میں انہیں
منفرد بنا دیا تھا،کیونکہ اب یہاں غلام وآقا ایک ہی صف میں کھڑے ہونے لگے
تھے اور دنیا نے وہ دور بھی دیکھا تھاجہاں بلال حبشی کو حضرت بلالؓ بنا دیا
تھا اور ان کی آواز پر(اذان)مدینہ کے سارے سردار مسجدِ نبوی میں نماز
کیلیٔے جمع ہوتے تھے ،شاعر مشرق علاّمہ اقبالؒ نے اپنے خوبصورت انداز میں
صرف ایک شعر سے اس تناباک دور کانقشہ کیھنچا ہے۔۔۔․ــایک صف میں کھڑے ہو
گیٔے محمود و ا یاّز؛ نہ کویٔ بندہ رہا نہ کویٔ بندہ نواز۔۔۔
اگر ہم ان دونوں ادوار کاـموازنہ کرینگے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ
اسلامی مساوات کاوہ درس تھاجس کی وجہ سے مدینہ منورہ دنیا کا دار الحکومت
بن گیا تھا اورمسلمانوں کے پاس اتنی دولت آیٔ تھی کہ پوری اسلامی سلطنت میں
کویٔ بھی زکواۃ لینے والاتک نہ تھا اسلامی مساوات کی وہ بنیادی کلید تھی
جسے امت ِ مسلمہ گم کر کہ نتیجہ دیکھ رہی ہے۔۔ |