شاہد رضوان :ان اُجڑی اُجڑی نظروں میں پھر کوئی فسانہ بھرنا ہے

 شاہد رضوان کا شمار پاکستان کے ان اعلا تعلیم یافتہ نو جوان تخلیق کاروں میں ہوتا ہے جنھوں اپنے ذوق سلیم کو پرورش لوح و قلم کے لیے وقف کر رکھا ہے ۔ایک وسیع المطالعہ تخلیق کار کی حیثیت سے
شا ہد رضوان نے بڑے زوروں سے اپنے آپ کو منوایا ہے۔ اس کی غزلیات پر مشتمل پہلا شعری مجموعہ ’’شوق نا تمام ‘‘ سال 2000میں زیور طباعت سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آیا۔قلب اور روح کی گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی سے لبریز اس کی شاعری کو قارئین ادب کی طرف سے بے پناہ پذیرائی ملی ۔لفظ اور قلم کی حرمت کو ملحوظ رکھنے والے اس جری تخلیق کار نے حرف صداقت لکھنا اپنا شعار بنا رکھا ہے ۔ ۔زندگی کی جن اقدار و روایات کو ان کا دل پسند کرتا ہے اور ان کا ذہن تسلیم کرتاہے انھیں پیرایہء اظہار عطا کرنے میں اس نے کبھی تامل نہیں کیا۔چودہ افسانوں پرمشتمل اس کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’پتھر کی عورت ‘ ‘2010 میں شائع ہوا۔ایک روشن خیال ادیب کی حیثیت سے شاہد رضوان نے فطرت نگاری ، واقعیت اور حقیقت نگاری کو اپنے اسلوب کی اساس بنایا ہے ۔تخلیق فن سے اس کی قلبی وابستگی ،وطن اور اہل وطن سے اس کی والہانہ محبت اس کے اسلوب کا امتیازی وصف ہے ۔اس کی تحریروں میں اظہار اور ابلاغ کے نت نئے انداز دیکھ کر قاری حیرت زدہ رہ جاتا ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے تخلیق فن کے لمحوں میں ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی کی سی کیفیت اس کے پیش نظر رہتی ہے او رتخلیق فن کے سلسلے میں اس کا مر حلہ ء شوق ہے کے کہیں طے ہونے کا نام نہیں لیتا۔خوب سے خوب تر کی جستجو میں وہ ہمہ وقت مصروف رہتا ہے ۔اس کی زندگی کی تما م تر تاب و تواں کے سوتے تخلیق ادب ہی سے پھوٹتے ہیں۔اس کے جذبات ،احساسات ،خیالات اور اظہار میں جو نُدرت ،تنوع ،پاکیزگی اور شائستگی ہے ،وہ سب کی سب تخلیق ادب کی مرہون منت ہے ۔ایک بلند ہمت اور با وقار ادیب کی حیثیت سے اس نے ہمیشہ انسانیت کے وقار او رسر بلندی کو اپنا مطمح نظر بنایا ہے ۔ایک عظیم انسان اور بلند پایہ ادیب کی حیثیت سے اس نے معاشرے میں جو عزت اور مقام حاصل کیا ہے وہ لائق صد رشک و تحسین ہے ۔اس کی انسانی ہمدردی ،حب الوطنی ، قوت ارادی اور جذبہء انسانیت نوازی کا ایک عالم معترف ہے ۔ پر خلوص جذبات سے لبریز اس کی شاعری رفعت تخیل کی مظہر ہے :
ٹمٹماتے تھے ستارے چاند بھی ڈُوبا نہ تھا
اک دریچہ بھی کُھلا تھا اور میں سویا نہ تھا
رات اپنا بھی ہوا رندوں کی محفل سے گُزر
پی رہے تھے شیخ صاحب دور بھی پہلا نہ تھا
غمزہ و ناز و ادا کی یوں لگی تھی بِھیڑ سی
حُسن والے تھے بہت لیکن کوئی تُجھ سا نہ تھا
بلبلیں تھیں پُھول تھے جوبن پہ تھا رنگ بہار
پر کہیں بھی چاند سا چہرہ نظر آتا نہ تھا
ہو گئے ہم اک نظر میں تیرے عشووں کا شکار
اور ابھی پہلی محبت کا نشہ اُترا نہ تھا
آئنہ دیکھو تو آ جائے تمھیں شاید یقیں
تیری آنکھوں میں سوا میرے کوئی چہرہ نہ تھا
اجنبی سی زندگی بے ذائقہ سی موت ہے
میں نہ تھا شاہد کسی کا اور کوئی میرا نہ تھا

حال ہی میں شاہد رضوان کا دوسرا افسانوی مجموعہ ’’پہلا آدمی ‘‘دانیال پبلشرز چیچہ وطنی کے زیر اہتمام شائع ہوا ہے جس میں چودہ افسانے شامل ہیں ۔ان افسانوں میں معاشرتی زندگی کے نشیب و فراز کا بھر پور احاطہ کیا گیا ہے ۔ ان افسانوں میں جنس کے موضوع پر مصنف نے جس انداز میں لکھا ہے وہ فکر و خیال کے نئے دریچے وا کرتا ہے ۔فکر پرور ،بصیرت افروز اور اصلاحی اور افادی نوعیت کے یہ افسانے اذہان کی تطہیر و تنویر کا موثر اہتمام کرتے ہیں ۔ دنیا کے پس ماندہ اور کم ترقی یافتہ ممالک میں جہاں شرح خواندگی بہت کم ہے وہاں جنس ،جنسی جنون اور جرائم کے بارے میں حقیقی انداز فکر بہت کم دیکھنے میں آیا ہے۔جب بھی کوئی تخلیق کار جنس کے موضوع پر کچھ لکھتا ہے تو عام قاری کی بھوئیں تن جاتی ہیں اور وہ بغیر کچھ سوچے سمجھے یہ نتیجہ اخذ کر لیتا ہے کہ مصنف نے اپنے قارئین کو گناہ کی دلدل میں دھکیلنے کی کوشش کی ہے ۔بعض بگلا بھگت یہ سمجھتے ہیں کہ جنس کا ذکر کرنے سے عفو نت اور سڑاند کا تاثر ملتا ہے اسی مفروضے کی بنا پر جنس کے ذکرکو فحاشی میں شمار کیا جاتا رہا ہے ۔جنس کے فطری جذبے کے بارے میں اس قسم کی رائے حقائق سے شپرانہ چشم پوشی کے مترادف ہے ۔ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ جنس کو محض افزائش نسل تک محدو د سمجھنا ذہنی افلاس کی دلیل ہے ۔یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ جنس بالواسطہ طور پر ایک فرد کی شخصیت کے متعدد پہلوؤں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے ۔ان میں فرد کی جسمانی ،فکری ،قلبی اور روحانی کیفیات اورجذبات و احساسات بھی شامل ہیں۔معاشرتی زندگی کی بے اعتدالیوں ،بے ہنگم ہیجانات ،جنسی جنون ،سستی جذباتیت ،بے بصری اور کور مغزی پر مبنی رومان اور ہوس کے ا یسے جنسی میلانات کی لفظی مرقع نگاری کو فحا شی سمجھنا درست نہیں ۔معاشرے میں پائی جانے والی قباحتوں سے کوئی بھی حساس تخلیق کار چشم پوشی نہیں کر سکتا ۔ جنس کو ایک فطر ی عمل کی حیثیت حاصل ہے اس لیے ماہرین نفسیات کی رائے ہے کہ جنس سے متعلق موضوعات کو معاشرے سے بے دخل نہیں کیا جا سکتا ۔شاہد رضوان نے اپنے افسانوں میں جنس کے فطر ی تقاضے اور فطری جنسی تعلق پر اپنی توجہ مرکوز رکھی ہے ۔ایک زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے اسے یہ معلوم ہے کی جنس اپنی تسکین کی جب راہ نہیں پاتی تو یہ بھی سر چڑھ جاتی ہے ۔یہ بات فطرت کے تقاضوں کے مطابق ہے ۔اس کی مثال افسانہ ’’مزدور ‘‘ ہے۔جب ایک شادی شدہ عورت اپنے شوہر کے بیرون ملک چلے جانے کے بعد لمبی جدائی اور جنسی تشنگی کی تاب نہ لاتے ہوئے جنسی تسکین کے لیے ایک مزدور کی آغوش میں پنا ہ لیتی ہے ۔ہوس زر کا مارا شو ہر اپنی بیوی کو مہیب سناٹوں اور جان لیوا تنہائیوں کے سپر دکر کے بیرون ملک داد عیش دینے میں مصروف ہو جاتاہے۔ان اعصاب شکن حالات میں وہ عورت جس جنسی اور جذباتی ہیجان میں مبتلا ہوتی ہے اس کے باعث وہ اپنے آپ کو ایک مزدور کے سپر د کر دیتی ہے ۔اس کہانی میں ایک عورت کی جنسی بھوک کا احوال فطرت نگاری کی عمدہ مثال ہے ۔افسانہ ’’مزدور ‘‘ میں افسانہ نگار نے کئی علامات استعمال کی ہیں ،مثا ل کے طور پر ’’کیاری ‘‘ اور ’’گوڈی ‘‘ وغیرہ ۔بادی النظر میں ان علامات کو ایک نفسیاتی کل کی صور ت میں دیکھنا چاہیے ۔افسانہ نگار نے ان کی مدد سے لا شعور کی تاب و تواں اور حرکت و حرارت کو متشکل کرنے کی جو سعی کی ہے وہ قاری کے لیے ایک انوکھے تجربے کی محرک ثابت ہوتی ہے ۔

افسانے میں جنس کے موضوع پر کی جانے والی فطرت نگاری قابل فہم ہے ۔قحط الرجال کے موجودہ دور میں جب زندگی کی درخشاں روایات اور اقدار عالیہ کو بالعموم نظر انداز کیا جاتا ہے ۔اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بعض لوگوں کی کو ر مغزی ،بے بصری اور جہالت مآبی پورنو گرافی کاروپ دھار لیتی ہے جو اخلاقی معائر کے لیے ظل تباہی ثابت ہوتی ہے ۔اس کے نتیجے میں تخلیق ادب بالخصوص فکشن کو قحبہ خانوں اور چنڈو خانوں کے مکروہ ماحول کی بھینٹ چڑ ھادیا جاتا ہے جہاں شرم و حیا سے یکسر عاری جسم فروش رذیل طوائفیں اپنی اخلاق با ختگی کا نہایٹ ڈھٹائی سے مظاہرہ کرتے ہوئے دعوت گناہ دیتی ہیں۔اس نو عیت کی عامیانہ ،جنسی جنون پر مبنی اورسستی جذباتیت کی عکاسی کرنے والی تحریروں کا فطرت نگاری سے کوئی تعلق نہیں ۔شاہد رضوان کے افسانوں میں کئی علامات کو استعمال کر کے جنس کو ایک با معنی اور فطری انداز میں سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔جس طرح فطرت خود بخود لالے کی حنا بندی میں مصروف ہے اسی طرح ایک زیرک ،فعال اور مستعد تخلیق کار بھی فرد کے جذباتی مدو جزر سے مکمل آگہی رکھتا ہے ۔شاہد رضوان کے افسانوں میں فطرت نگاری میں جو خلوص اور درد مندی پائی جاتی ہے وہ قاری کے لیے سکون قلب کی نوید لاتی ہے ۔وہ جنسی احساسات کو مشتعل کرنے کے سخت خلاف ہے ۔ایک زیرک اور جری تخلیق کار کی حیثیت سے شاہد رضوان نے ہمیشہ حریت فکر کا علم بلند رکھا ہے ۔معاشرے میں پائی جانے والی جنسی اشتہا کو خوش نما الفاظ کے فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنا اس کے ادبی مسلک کے خلاف ہے ۔فرد کے جنسی جذبات کو مناسب اور فطری انداز میں پیرایہء اظہار عطا کرکے ایک اچھی مثال پیش کی گئی ہے ۔اس کے اسلوب میں شہوت پرستی (Aphrdisiac)پر مبنی مواد کہیں مو جود نہیں ۔جنس کے موضوع پر لکھتے وقت وہ پوری ذمہ داری سے کام لیتا ہے اور اخلاقی حدود کے ہمیشہ ملحو ظ رکھتا ہے ۔شاہد رضوان نے اپنے اسلوب میں اخلاقیات کو ہمیشہ اولیت دی ہے ۔زندگی کی بے اعتدلیوں کے بیان میں اس نے فطرت نگاری کرتے وقت فحاشی سے اپنا دامن بچائے رکھا ہے ۔بہ قول باقی صدیقی :
ہر ایک بات زباں پر نہ آ سکی باقی
کہیں کہیں سے سنائے ہیں ہم نے افسانے

شاہد رضوان نے اپنے افسانوی مجموعے ’’پہلا آدمی ‘‘کا انتساب اردو زبان کے عالمی شہرت یافتہ افسانہ نگار سعادت حسن منٹو (پیدائش لدھیانہ :11مئی 1912وفات لاہور 18 ۔جنوری 1955)کے نام کیا ہے ۔وہ سعادت حسن ،منٹو کو اپنا روحانی مرشد قرار دیتا ہے ۔اسی بات سے شاہد رضوان کے اسلوب کے بارے میں رائے قائم کی جا سکتی ہے ۔وہ افسانہ نگار جس نے اردو زبان میں ’’ ٹھنڈا گوشت ‘‘’ ،’بُو ‘‘، ’’کھول دو ‘‘اور ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ ‘‘ جیسے افسانے لکھے ،اوروکٹر ہیوگو ،آسکروائلڈ ،چیخوف اور گورکی کا وسیع مطالعہ کرنے کے بعد اپنا منفرد اسلوب اپنایا، اسے اپنا روحانی مرشد مان کر اس کے اسلوب کی پیروی کرنا خو کو ایک آزمائش میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔شاہدرضوان کی خطر پسند طبیعت اس آبلہ پا مسافر کے مانند ہے جو راہ کو پر خا ر دیکھ کر خوش ہوتا ہے ۔اسے یہ معلوم ہے کہ حیات جا وداں کا راز ستیز میں پو شیدہ ہے ۔وہ طوفان حوادث سے الجھنا جانتا ہے ،اس لیے سیلِ زماں کے تھپیڑوں کی پروا نہ کرتے ہوئے حقیقت نگاری اور فطرت نگاری کی اسی راہ کا مسافر بن جاتا ہے جس پر چلنے کی پاداش میں سعادت حسن منٹو نصف صدی تک معتوب رہا ۔جب سعادت حسن منٹو نے معاشرے کی عفونت اور سڑاند کے خلا ف کھل کر لکھا تو سب لوگ سنگ ملامت لیے اُس پر ٹُو ٹ پڑے ۔مقدمہ بازی تک نو بت آ پہنچی لیکن اُس نے تو زہر ہلاہل کو قند نہ کہنے کی ٹھان رکھی تھی ۔اس لیے مستقل مزاجی سے لکھتا رہا اور جریدہء عالم پر اپنا دوام ثبت کر گیا۔شاہد رضوان ہزار خوف میں بھی وہی کچھ لکھنے کی سعی کرتا ہے جو اس کے دل اور ضمیر کی آواز ہو ۔الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنا ،مصلحت سے کام لینا اور ظلم سہہ کر چپ سادھ لینا اس کے ادبی مسلک کے خلاف ہے ۔معاشر تی زندگی میں پائی جانے والی طبقاتی کشمکش پر شاہد رضوان کی گہری نظر ہے اس نے معاشرتی زندگی کی قباحتوں کے اسباب ،محرکات اور ان کے پس پردہ کار فرما عوامل کے بارے میں ایک قابل فہم انداز فکر کو سامنے رکھا ہے ۔اپنے افسانے ’’جوگی چوک ‘‘ میں اس نے جرائم پیشہ افراد کے ذہنی افلاس ،کور مغزی ،بے بصری اور جہالت کے بارے میں لکھا ہے :
’’غریب مسکین ہونا بُرا تو نہیں ،البتہ قحط ،بھوک اور افلاس جب انسان کا منہ چڑاتے ہیں تو اس کو کچھ سجھائی نہیں دیتا۔انسان وہ کچھ کر بیٹھتا ہے ،نارمل حالات میں جس کا وہ سوچ بھی نہیں سکتا۔چوری کرتا ہے ،چند روپوں کی خاطر بے گناہ انسانوں کو قتل کر دیتا ہے ۔اغوا برائے تاوان کا مر تکب ہوتا ہے ۔یہاں تک کہ عورت جسم فروشی پر اُتر آتی ہے ۔اگر یہ سب قباحتیں غربت اور جہالت کے بطن سے پیدا ہوتی ہیں،توامرا میں یہ قباحتیں بہ درجہء اُتم مو جود ہیں۔کیا امرا میں جاہل نہیں ہوتے ؟اگر علم کا حصول دولت کے بغیر ممکن نہیں تو دولت مندوں کو تو جاہل ہر گز نہیں ہونا چاہیے ۔‘‘

زندگی کی کیفیات ہر لمحہ تغیر پذیر رہتی ہیں۔عورت ،جنس اور جذبات کے موضوع پر لکھے جانے والے افسانے ہر دور میں قارئین کی توجہ کا مر کز رہے ہیں۔ مغل با دشاہ جہاں دار شاہ (پیدائش :1661وفات :1713) جو 1712 تا 1713ہندوستان کا بادشاہ تھا ۔اس نے ایک جسم فروش رذیل طوائف کو امتیاز محل کا لقب دیا اور اسے اپنی بیوی بنا کر ملکہ ء ہندبنایا ۔اس رذیل طوائف نے مظلوم عوام کے چام کے دام چلائے ۔تاریخ کے ہر دور میں اس قسم کی انہونی سامنے آتی رہی ہے ۔جنسی جنون اور سادیت پسندی (Sadism) کے خلاف اردو افسانہ نگاروں نے ہمیشہ کھل کر لکھا ہے ۔شاہد رضوان نے جنسی جنوں میں مبتلا عورتوں اور مردوں کے بارے میں نہایت دلیری سے قلم اٹھایا ہے ۔محبت کی آڑ میں ہوس پرستی اور جنسی جنون کے بڑھتے ہوئے رجحان پر کاری ضرب لگانا ایک تخلیق کار کی اہم ذمہ داری ہے ۔پسند کی شادی بعض اوقات پوری زندگی کے لیے سو ہان روح بن جاتی ہے ۔شاہد رضوان نے اپنے افسانے ’’زندگی ‘‘میں ایک حسینہ کی پسند کی شادی کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ قاری کو چو نکا دیتا ہے :
’’عجب تماشا ہے ! اس گھر میں آ کر میری زندگی اجیرن ہو گئی ۔بات بات پر روک ٹوک ۔کبھی یہ نہ کرو کبھی وہ نہ کرو ۔جیسے میں اس گھر کی بہو نہیں باندی ہوں ۔سب میری آزادی کے دشمن ہیں۔ہونہہ ۔۔! نیگٹو سوچ کے مالک ۔میرا جینا تو بیگار کاٹنے سے بھی بد تر ہے ۔شوہر سے اٹکھیلیاں کرتی ہوں تو چڑیلیں ایسے دیکھتی ہیں جیسے میں اس کی بیوی نہیں کوئی داشتہ ہوں ۔یہ گھر ،گھر نہیں ۔شوہر ،شوہر نہیں رہا ۔کل تک جو باولے کُتے کی طرح میرے تلوے چاٹتا تھا ،میری راہوں میں آنکھیں بچھاتا تھا،کیسے بدل گیا ؟آج اُسے مجھ سے زیادہ اپنی بہنوں اور ماں کی فکر رہتی ہے ۔کل کا عا شق ۔۔۔آج کا شوہر ، ہونہہ ۔۔۔!‘‘

تیزی سے بدلتے ہوئے حالات نے تہذیبی اور ثقافتی اقدار کو شدید ضعف پہنچایا ہے ۔ ہوس اور پست نوعیت کے ذاتی مفادات کی تابع اس قسم کی پسند کی شادیاں بالآخر ایک خاندان کے مکمل انہدام پر منتج ہوتی ہیں۔افسانہ نگار نے پوری دیانت سے حقائق کو افسانے کا موضوع بنایا ہے ۔افسانے میں حقیقت نگاری کا یہ انداز ایک منفرد اسلوب کا مظہر ہے ۔بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں اور مسائل عصر کی کیفیات کی تفہیم کے بغیر زندگی میں نکھار کی توقع ہی عبث ہے ۔عور ت کی منفی سوچ جہاں اس کی شعوری زندگی کوصحیح ڈگر سے ہٹا دیتی ہے وہیں اس کے لاشعور پر بھی اپنے مسموم اثرات مرتب کرتی ہے ۔افسانہ نگار نے ان عوامل کو اپنے اسلوب میں جگہ دی ہے ۔

اپنے افسانے ’’بچھو‘‘ میں شاہد رضوان نے معاشرتی زندگی کے مسائل کے بارے میں حقائق کی گرہ کشائی کی ہے ۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ مار آستین اورہمارے اقارب میں مار تلے پلنے والے عقرب ہمہ وقت ہمارے درپئے آزار رہتے ہیں۔افسانہ نگار نے تیشہء حرف کی مار سے فصیل مکر میں چھپے بچھوؤں کے ڈنک جھاڑ دئیے ہیں:
’’بچھو سانپ سے بھی زیادہ زہریلا ہوتا ہے ۔اگر کسی کو ڈس لے تو ڈسا جانے والا پانی بھی نہیں مانگ سکتااور اگر بچھو ڈسنے کے بعد بچ نکلے تو بہت خطر ناک ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔بچھو انسان سے زیادہ زہریلا نہیں ہوتا کہیں مر گیا ہو گا آخر اس نے ایک انسان کو کاٹا ہے۔‘‘

شاہد رضوان کی افسانہ نگاری کے دو اہم پہلو قاری کو متوجہ کرتے ہیں ۔اس نے فرد کی جسمانی اور ذہنی کیفیات کو اپنے افسانوں میں نما یاں جگہ دی ہے ۔اس کی نکتہ سنجی اور باریک بینی کے اعجاز سے فکر و نظر کو تحریک ملتی ہے ۔وہ اخلاق سے عاری ننگ انسانیت درندوں سے کوئی ہمدردی نہیں رکھتا اور ان کے مکر کا پردہ فاش کرنے میں کوئی تامل نہیں کرتا۔اس کے افسانے معاشرتی زندگی کے تضادات ،بے اعتدالیوں اور استحصالی عناصر کی چیرہ دستیوں کو حقیقی تناظر میں پیش کرتے ہیں۔اپنے مشاہدات ،تجربات اور تجزیات کواس نے جس فکر پرور اور بصیرت افروز انداز میں کہانی کے قالب میں ڈھالا ہے اس کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے ۔ان افسانوں میں زندگی کی اقدار عالیہ کے بارے میں مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے کی جو سعی کی گئی ہے وہ لائق تحسین ہے ۔اس کا افسانہ ’’آزادی‘‘قاری کے لیے لمحہء فکریہ ہے ۔یہ افسانہ آزادی اور آزادیء موہوم کا فرق واضح کرتا ہے ۔یہ افسانہ جہاں مسائل کا شاخسانہ ہے وہاں عبرت کا تازیانہ بھی ہے ۔یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ صبح بہاراں ابھی تک خیال و خواب بنی ہے ،اجالا داغ داغ اور سحر شب گزیدہ ہے ۔بھیانک تیرگی کا عفریت چاروں جانب منڈلا رہا ہے ۔منزل پر ان لوگوں نے غاصبانہ طور پر قبضہ کر رکھا ہے جو کبھی شریک سفر ہی نہ تھے ۔ہم گجر بجنے سے فریب کھا گئے۔ جسے ہم نے آواز رحیل کارواں جانا وہ تو آزادی کے سفر میں جا ں بہ لب درماندہ مسافروں کی آہ و فغاں تھی ۔مجید لاہوری کی نظم ’’یہ کیسی آزادی ہے ‘‘اسی درد اور کسک پر مبنی ہے جس کی جانب افسانہ نگار نے متوجہ کیا ہے ۔افسانہ نگار کو اس بات کا قلق ہے کہ آزادی کے بعد ارض وطن میں ظالم و سفاک ،موذی و مکار استحصالی عناصر نے عوامی زندگی اجیرن کر دی ہے ۔ عقابوں کے نشیمن میں بوم و شپر اور زاغ و زغن گھس گئے ہیں۔گلشن ہستی میں جہاں سر و صنوبر اور گلاب و یاسمین کی فراوانی تھی اب وہاں زقوم ،حنظل اور پوہلی کی بہتات ہے ۔ گلستاں کی ہر شاخ پہ چغد کا بسیرا ہے ۔جن بستیوں میں جھٹپٹے کے وقت سر راہ چراغ فروزاں کر دئے جاتے تھے اب وہاں چراغ غول کے سوا کچھ بھی نہیں۔قسمت سے محروم دکھی انسانیت پر جو ظلم ڈھائے گئے ہیں ان کے نتیجے میں رتیں بے ثمر ،آہیں بے اثر ،آبادیاں پر خطر ،کلیاں شرر ، گلیاں خوں میں تر اور زندگیاں مختصر کر دی گئی ہیں۔افسانہ نگار نے اس لرزہ خیز ،مایوس کن اور تکلیف دہ صورت حال کے بارے میں افسانے کے ایک کردار ایک ضعیفہ کا مکالمہ لکھا ہے ۔اس ضعیفہ نے پاکستان بنتے دیکھا اور آزادی کی راہ میں مقدور بھر قربانیاں دیں لیکن آزادی کے بعد یہاں حالات نے جو رخ اختیار کیا اس پر وہ بڑھیا دل گرفتہ ہے اور اپنے غم و غصے کا بر ملا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہے :
’’آزادی کا مطلب ہے کہ امیر آدمی کو چوری کرنے ،ڈاکہ ڈالنے ،قرض لے کر واپس نہ کرنے اور معاف کروانے کی آزادی ۔۔۔ہاہا۔۔ہاہا۔۔اہم عہدے اور سرکاری نوکریاں اپنے بھتیجے ،بھانجوں کو دلوانے کی آزادی ۔۔ہاہا۔۔ہاہا۔۔!سرکاری اہل کاروں کو دونوں ہاتھوں سے رشوت لینے کی آزادی ۔۔ہاہا۔۔ہاہا۔۔قانون بنانے والے جب خود قانون کے شکنجے میں پھنسنے لگیں تو اسے بدلنے یا اُٹھاکر ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کی آزادی ۔۔۔۔ہاہا۔۔۔غریب کا خون چوسنے کی آزادی ۔۔ہاہا۔۔۔قاتلوں کو سر عام گھومنے کی آزادی ۔۔ہاہا۔۔بھتہ لینے کی آزادی ۔۔۔ملک میں خون کی ندیاں بہانے کی آزادی ۔۔۔مزدوروں اور راہ گیروں کی گردنیں کا ٹنے کی آزادی ۔۔ہاہا۔۔۔ہا۔اری بے وقوف !اس کو آزادی کہتے ہیں۔‘‘

شاہد رضوان نے تخلیق ادب کو عمرانی حوالے سے پیش نظر رکھا ہے ۔ معاشرتی کیفیات ہر لمحہ تغیر پذیر رہتی ہیں اس لیے حساس تخلیق کار کے تجربات اور مشاہدات کی نو عیت بھی بدلتی رہتی ہے ۔زاویہ ء نگاہ کی تشکیل میں ادب کے عمرانی حوالے کلیدی اہمیت رکھتے ہیں۔افسانہ ’’مآل کار ‘‘معاشرتی زندگی کی ایک اور قباحت کی جانب متوجہ کرتا ہے ۔ لال کنور قماش کی جسم فروش رذیل طوائف کے لیے ’’گھوڑی ‘‘ کی علامت استعمال کر کے افسانہ نگار نے بے غیرت اور بے ضمیر درندوں کو چُلو بھر پانی میں غواصی کر کے مرگ نا گہانی کی جستجو کی راہ سُجھائی ہے ۔افسانہ ’’سفید بال ‘‘ میں والدین کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کی بر وقت شادی میں غیر معمولی تاخیر نہ کریں ۔اس افسانے میں ایک بُڑھیا یہ کہہ کر والدین کو متنبہ کرتی ہے :
’’وقت بدل گیا ۔۔۔والدین کو جوان بیٹیوں کی فکر نہیں رہی ۔جب والدین کوفکر نہ ہو تو بیٹیوں کو خود اپنی فکر کرنی پڑتی ہے ۔زبان کھولنی پڑتی ہے ،شاید ماں باپ کی آنکھوں سے پردہ اٹھا سکیں ۔وہ یہ سب شوق سے نہیں بہ امر مجبوری کرتی ہیں۔‘‘

افسانہ ’’پہلاآدمی ‘‘ میں شاہد رضوان نے ایک شادی شدہ عورت کی منافقت ،عیاری ،جنسی جنون،ہوس اور اس کی زندگی کے پرانے معاشقو ں کا احوال بیان کیا ہے ۔سائرہ نے نعیم سے شادی کر رکھی ہے مگر اس کے خیالوں میں شادی کے بعد بھی اس کا پرانا آشنا احمد ہی شوہر کے روپ میں موجود ہے ۔ سائرہ اپنے شوہر نعیم کو احمد کہہ کرپکارتی ہے اور اس طرح ایام گزشتہ کی عیاشی بے راہ روی اور جنسی جنون کی یاد تازہ کرتی ہے ۔یہاں تک کہ جب وہ امید سے ہوتی ہے تو اپنے ہونے والے بیٹے کا نام بھی احمد ہی رکھنے کا مصمم ارادہ کر لیتی ہے ۔ سائرہ اپنے شوہر نعیم کو ’’پینڈو ‘‘ اور ’’گنوار ‘‘ سمجھتی ہے ور اپنی نوٹ بک میں اپنے سابق عاشق اور جنسی جنونی احمد کا اچھے لفظوں میں ذکر کرتی ہے:
’’تم نے مجھ سے نہیں بل کہ میرے جسم سے محبت کی تھی ،جو ضرورت پوری ہوتے ہی ختم ہو گئی ۔‘‘ ’’احمد !تم بہت سندر ہو ،تم میں کوئی کمی نہ تھی نہ ہے ،بس کمی تو میرے نصیب میں لکھ دی گئی تھی۔
‘‘
’’ خود کشی ‘‘ایک ایسا افسانہ ہے جو متعدد چشم کشا واقعات سے لبریز ہے ۔ایک نو بیاہتاجوڑا عمران اور شائستہ عریاں فلمیں دیکھنے کی لت میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔اس خبط اور جنسی جنون کی وجہ سے وہ اپنی عریاں فلم بناتے ہیں۔ایک رات ان کے گھر میں چوری کی واردات ہوتی ہے اورچور زرو مال اور سب سی ڈیز بھی لوٹ کر لے جاتے ہیں۔اس کے بعد جنسی جنون کی مظہر ان عریاں اور فحش سی ڈیز کے ذریعے انھیں اس قدر بلیک میل کیا جاتا ہے کہ حجلہ ء عروسی میں پلنگ پر عریاں داد عیش دینے والا یہ جوڑا منہ چھپا کرریلوے لائن پر لیٹ جاتا ہے جہاں تیز گام ریل گا ڑی انھیں کچلتی ہوئی نکل جاتی ہے ۔ کاروان ہستی کا تیز گام قافلہ رواں دواں رہتا ہے اور اپنے پیچھے عبرت کے یہ نشان چھوڑ جاتا ہے یہ المیہ افسانہ مغرب زدہ ماڈرن خاندان کی زندگی کے المیے کی عبرت ناک تصویر پیش کرتا ہے ۔

شاہد رضوان نے اپنی زندگی کے متعدد تجربوں اور مشاہدوں کو ان افسانوں کی اساس بنایا ہے ۔اس کے اسلوب میں یہ تمام حوالے ایک فکر پرور اور بصیرت افروز روپ میں جلوہ گر ہوتے ہیں۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ایک زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے اس نے قارئین ادب کی دکھتی ہوئی رگ پر ہاتھ رکھا ہے ۔ اردو افسانے کو زندگی کی بدلتی ہوئی اقدار سے ر وشناس کرانے کے سلسلے میں شاہد رضوان کے تخلیقی تجربات کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔اس کی حقیقت نگاری ،فطرت نگاری اور صداقت نگاری نے ان افسانوں کی تاثیر میں اضافہ کر دیا ہے ۔ ان افسانوں میں فرد کی سماجی زندگی ، انفرادی زندگی اور اجتماعی زندگی کے مسائل کا جس خلوص اور دردمندی سے نقشہ کھینچا گیا ہے وہ قاری کے ذہن پر گہرے نقوش مرتب کرتا ہے ۔افسانہ نگار نے معاشرتی زندگی کی قباحتوں کے بارے میں کھل کر لکھا ہے اور کسی قسم کا خوف محسوس نہیں کیا۔بعض اوقات یہ گمان گزرتا ہے کہ شاہد رضوان کی تخلیقی فعالیت نے خود تحلیل نفسی کا روپ دھا ر لیا ہے جس کے معجز نما اثر سے معاشرتی اصلاح کے در وا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہ اس کے فن کے لیے ایک اچھا شگون ہے ۔ا س کی افسانہ نگاری کو ایک کثیر المقاصدسر گرمی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔وہ اپنے افسانوں کے لیے درکار مواد کی جستجومیں کئی مراحل طے کرتا ہے ۔وہ لا شعوری وسائل پر انحصار کرتے ہوئے وادی ء خیال کو مستانہ وار طے کرتا ہے ا ور اپنے مشاہدات کو دل لخت لخت میں جمع کر لیتا ہے ۔خار زار زیست سے کرب ناک واقعات چنتے چنتے اس کی اُنگلیاں فگار ہیں ،ہاتھ قلم ہیں مگر ملبوس بہار کی تزئین کی آس میں خون دل میں اُنگلیاں ڈبو کر پیہم پرورش لوح و قلم میں مصروف ہے ۔اس کے بعد اپنی شعور ی کا وشوں سے ان حکایات خو ں چکاں کو نکھار عطا کر کے زیب قرطاس کرتا ہے ۔نفسیاتی مسائل سے اسے گہری دلچسپی ہے ۔اپنے افسانوں کے تمام کرداروں کی تحلیل نفسی کر کے اس نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا ہے ۔قاری ان کرداروں کی باطنی کیفیات کے بارے میں اپنی رائے قائم کر سکتا ہے ۔اس کے لا شعور میں عریانی ،فحاشی مغرب کی بھونڈی نقالی ،جنسی جنون،استحصال اورسماجی برائیوں سے نفرت کے جو جذبات رچ بس گئے ہیں وہ بے ساختہ انداز میں اس کی تحریروں سے چھلک پڑتے ہیں۔اردو ادب کو اس زیرک تخلیق کارسے بڑی توقعات وابستہ ہیں۔اﷲ کرے زور قلم اور زیادہ ۔
Ghulam Ibnesultan
About the Author: Ghulam Ibnesultan Read More Articles by Ghulam Ibnesultan: 277 Articles with 680147 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.