آج اس ترقی پزیر دور میں میڈیا کی بڑھتی
مقبولیت سے قطعی انکار نہیں کیا جاسکتا ۔یہ وہ سیکٹرہے جہاں بآسانی دولت
اور شہرت کی بلندیوں کو چھواجاسکتا ہے ،شاید یہی وجہ ہے کہ پچھلے کچھ سالوں
میں طلبہ کا رجحان اس سیکٹر میں بہت بڑھا ہے میڈیا میں آنے کا مطلب ہے چکا
چوندھ گلیمر اور دولت خاص کربرقی ذرائع ابلاغ( الکٹرونک میڈیا) ،اور ہندی
اور انگریزیاخبارات جہاں اگر آپ ایک بار اپنی جگہ پکی کرلیں تو آپ کا
مستقبل محفوظ ہے ۔
وہی اگر بات اردو میڈیا اردو نیوز چینلس یا اخبارات کی کی جائے تو یہ کہانی
بالکل الٹی پڑ جاتی ہے ۔اردو صحافت کا وہی حال ہے جو ہندوستان میں اردو کا
ہے ۔اس کے علاوہ یہ بات ہمیشہ سننے میں آتی ہے اور اردو میڈیا پر اکثر و
بیشتر یہ الزامات عائد کئے جاتے ہیں کے اردومیڈیاغیر جانبدارانہ رویہ نہیں
اختیار کرتا اردو صحافت کو ہمیشہ اسی نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ یہاں وہی
مسائل زیادہ اٹھائے جاتے ہیں جن کا تعلق مسلمانوں سے ہوتا ہے ۔اردو صحافت
کو جذباتی صحافت سے بھی موسوم کیا جاتا ہے ۔اور کہتے ہیں کہ اردو صحافیوں
کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ وہی بات لکھتے یا دیکھاتے ہیں جس سے وہ لوگ خوش
ہو جو ان اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں ۔اخبار کا سرکولیشن بڑھ جائے ،خواہ ان
کا تعلق حقیقت سے ہویا نہ ہو۔
لیکن یہ باتیں کہاں تک صحیح ہیں اگر اس کا تجزیہ کریں تو تو ہمیں یہ ادراک
ہوتا ہے کہ اگر اردو صحافت میں کسی خاص طبقہ کے مسائل اٹھائے جاتے ہیں تو
اس کی سب سے اہم وجہ ہے دیگر اخباروں کا انہیں
نذر انداز کرنا ۔وہ میڈیا جو ہندوستان میں مقبولیت کے مدارج طے کررہا ہے
اسے اس طبقہ اور ان کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ،انہیں اس سے کوئی
دلچسپی نہیں کہ ہندوستان میں ان کے حالت کتنے خراب ہیں ،آخر کار ان کے
مسائل کون اٹھائیگا۔ ہندی میڈیا جس کے زیادہ تر چینلوں نے مسلم مخالف رویہ
اختیارکرلیا ہے ، فرضی انکاؤنٹرس میں مارے گئے بے گناہوں کو دہشت گرد اور
مجرم ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں ،جنہیں ہر بم دھماکہ میں مسلم
دہشت گرد دیکھائی دیتے ہیں ،اور کسی سیکورٹی ایجنسی کی طرح بنا ثبوت کی
تفتیش اور صرف اپنی جرح کے دم پر یہ معصوم لوگوں کو بھی گنہگار بنا کر پیش
کرتے ہیں۔تو پھر سوال اٹھتا ہے کہ اگر آپ بلاوجہ ہمیشہ انہیں اپنا نشانہ
بناتے رہیں گے تو کوئی تو ہونا چاہئے جو ان کی ترجمانی کرسکے ،اور اگر اردو
میڈیا اس خاص طبقہ کی ترجمانی کرتا ہے تو اسے جانب داراور غیر منصفانہ
صحافت کیوں کہا جاتا ہے ۔ آج ملک میں جو ہوا چل پڑی ہے ،اور جس طرح کا مسلم
مخالف ماحول بنایا جارہا،کہیں مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑا جا رہا ہے ،تو
کبھی فرقہ پرستی سے ،کبھی لو جہاد کی جھوٹی کہانی گڑھ کر انہیں پھنسانے کی
کوشش کی جارہی ہے تو کبھی آئی ایس آئی سے منسلک کر، اب اگر ایسے ناگزیر
حالات میں اردو اخبارات اور چینلس بھی ان سچائیوں کو سامنے لانے کی کوشش نہ
کریں تو ملک کی دوسری سب سے بڑی آبادی کا وجود خطرے میں پڑسکتاہے ۔یہ اردو
اخبارات اور نیوز چینلس کی ہی دیکھائی گئی خبروں کا اثر ہوتا ہے کہ کبھی
کبھی کوئی انگریزی نیوز پیپر ،یا ہندی نیوز چینل ان لوگوں سے اظہار ہمدردی
جتاتے ہیں جنھیں بے گناہ جیلوں میں قید کیا گیا ہے ۔ورنہ تو اکثر سچائی
چھپی کی چھپی ہی رہ جاتی ہے ۔ ،تو پھر اردو میڈیا پر جانب داری کا بے بنیاد
الزام کیوں ؟
بات اگرہندوستان میں اردو میڈیا کے وجود کی کی جائے تو اس کا ماضی نہایت ہی
شاندار رہا ہے ،جہاں محمد علی جوہر کے اردو اخبار ہمدر نے انگریزوں اور ان
کی پالیسیوں کے خلاف آواز بلند کی وہی مولانا آزاد کے جاری کردہ اردو
اخبارات الہلال اور البلاغ نے جنگ آزادی اور انگریزوں کو ملک سے نکال باہر
کرنے میں اپنی پوری قوت جھونک دی ۔اس طرح کے صحافی اور اتنی صاف شفاف صحافت
اور اس شاندار ماضی کے باوجود جو حالات اردو اخبارات کے ہیں وہ شاید کسی سے
چھپے ہوئے نہیں ۔ اردو میڈیا کو طرح طرح کی پریشانیوں سے گزرنا پڑتا ہے
۔اشتہارات جو کسی بھی اخبار کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں یعنی جن کی وجہ سے
اخبارات ترقی کرتے ہیں وہی ذرائع اور وہی وسائل اردو اخبارات کو مہیانہیں
ہوتے اور ان کا اثر اخبارات کے سرکولیشن پر پڑتا ہے ۔حکومت کے جاری کردہ
اشتہارات بھی ان اخبارات اور ان چینلوں کو بہت کم ملتے ہیں،جب ہم ہندوستان
میں مشہورو مقبول اردو چینلوں اور اخباروں کی بات کرتے ہیں تو یہ گنتی
دوچار ناموں کے بعد ختم ہوجاتی ہے اور یہ حالات ہندوستان میں اردو میڈیا کے
وجود کی عکاسی کرتے ہیں ۔حکومت کو بھی اردو اخبارات کی یاد صرف انتخابات کے
وقت آتی ہے جب اسے مسلمانوں کے ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔
یہ باتیں صرف یہیں ختم نہیں ہوجاتی ،یہ باتیں اردو صحافت کے معیار پر بھی
اثر انداز ہوتی ہیں ،چونکہ اردو صحافت کے بارے میں یہ مشہور ہے کے یہاں
مستقبل محفوظ نہیں ہوتا ،اور ترقی بھی جلد ممکن نہیں ہے اس لئے وہ لوگ جو
صحافت میں ایک روشن مستقبل کی خواہا ں ہوتے ہیں وہ اردو صحافت کی جانب قدم
بڑھانے سے ہچکچاتے ہیں ۔اور ان ساری وجوہات کی وجہ سے اردو صحافت میں اعلیٰ
درجہ کے صحافیوں کی کمی ہو جاتی ہے ، ماس کام اور ڈپلوما ان جرنلزم ڈگری
ہولڈر اپنے کیرئر کے طور پر ہندی اور انگریزی میڈیاکا انتخاب کرتے ہیں ،جس
کی وجہ سے ایک بہترین صحافتی ذہن اردو سے دوررہ جاتا ہے ۔شاید یہی وجہ ہے
کہ ہندوستان کے اہم اردو اخبارات میں اداریہ پر شائع مضامین پر بھی ہندی
اور انگریزی میڈیا والے چھائے رہتے ہیں ۔اور اردو سے نابلد لوگ بھی اردو
مضامین لکھنے میں مہارت حاصل کرلیتے ہیں ،چاہے انہیں اردو اوراردو سے تعلق
رکھنے والوں سے وابستگی ہویا نہ ہو ،انہیں اردو اخبارات اور مسائل سے
آشنائی ہو یانہ ہوں ۔
اردو میڈیا کی اس تنزلی میں اردو والے بھی شامل ہیں اور اردو اخبارات خود
بھی ۔اردو کو جن کی زبان سمجھا جاتا ہے انہیں لوگوں کا رویہ اردو اخبارات
کے ساتھ غیر منصفانہ ہے ،عموماً اردو اخبارات کم قیمت پر دستیاب ہوجاتے ہیں
اس کے باوجوداکثر لوگوں کی یہ شکایتیں رہتی ہیں کہ اردو اخبارات میں ناقص
معلومات ہوتی ہیں ۔اور یہ ان کی توقع پر کھرے نہیں اترتے اور اس وجہ کر وہ
ان کا مطالعہ بھی بہت کم کرتے ہیں ۔وہیں ہندی اور انگریزی اخبارات نالج سے
بھرے ہوتے ہیں ، اردو چینلس کے حالات تو ان سے بھی خراب ہوتے ہیں ان کا رخ
عموماًلوگ صرف مشاعرے دیکھنے اور سننے کے لئے کیا کرتے ہیں ،کیونکہ ان کی
خبریں دلچسپی سے خالی ہوتی ہیں وہی ہندی کے چینلس کا خبریں پیش کرنے کا
انداز بھی نرالہ ہوتا ہے ،بنا مطلب کی خبروں کو پرزنٹیشن کے ذریعہ ایسے پیش
کرتے ہیں کہ ہم دیکھنے پر مجبور ہوجائیں ،وہیں اردو چینلس پر دیکھائی جانے
والی اہم خبریں بھی اتنی سست روی سے دیکھائی جاتی ہیں کہ نیند آجائے(یہ
میری ذاتی رائے ہے ضروری نہیں کہ آپ اس سے اتفاق کریں )لیکن اردو اخبارات
اور چینلس کی غیر مقبولیت کا اہم سبب یہی ہے ۔
اس لئے اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ اردو میڈیا کو بھی دیگر میڈیا کی طرح
مقبولیت حاصل ہوتو ہمیں اپنے انداز میں تبدیلی کرنی ہوگی اور اس کے ساتھ
ساتھ اپنی سوچ میں بھی ۔ایسے مسائل اور ایسی باتوں کو پیش کرنا ہوگا جو آج
کے حالات کے لئے ضروری ہیں ۔ اور ایسا ممکن ہیں اگر اردو والے کوشش کریں
اپنے پرانے انداز میں تھوڑی سی تبدیلی لاکر تازہ معلومات پیش کریں صرف
خبریں اور ادبی مضامین ہی شامل نہ کئے جائیں بلکہ سائنسی اور جرنل نالج کی
باتیں بھی پیش کی جائیں تو ممکن ہے حالات کچھ اور ہونگے۔کچھ اخبارات اس
انداز کو اپنا رہے ہیں اور مقبولیت بھی حاصل کررہے ہیں ،اس لئے امید کی
جاسکتی کہ اردو صحافت اس پرانی روایت کو چھوڑ کر نئے انداز میں اپنی جگہ
ضرور پکی کر لے گی ،لیکن اس کے لئے اسے اپنے اہم اصول سچائی اور ایمانداری
سے سمجھوتاکئے بغیر ،کیوں کے اردو صحافت ہمیشہ سے صداقت کی علم بردار رہی
ہے ۔ |