مسلمانوں کو بنیاد پرست،شدت پسند اور دہشت
گرد کہنے والو!کیاآپ کو معلوم ہے3کروڑ 50لاکھ انسانوں کی موت کا ذمہ دارشدت
پسند نازی پارٹی کا سربراہ ’’ عظیم ہٹلر ‘‘کون تھا؟’’ عظیم ہٹلر‘‘ نے
انسانیت کی تباہی کی وہ حکمت عملی اپنائی جس کی نظیر تاریخ انسانی میں نہیں
ملتی،وہ ایک متعصب نسل پرست تھا اور یہودیوں سے شدید نفرت کرتا تھا،اس کی
خواہش تھی یہودیوں کا وجود حرف غلط کی طرح مٹادیاجائے،اس نے یہودیوں کا نام
ونشان مٹانے کیلئے خصوصی چھاؤنیاں تعمیر کروائیں ،اُن چھاؤ نیوں میں گیس
چیمبر بنائے گئے ،بے گناہ مرد‘ عورتیں اور معصوم بچے باندھ کر چھکڑوں پر
لاد کر ان چھاؤنیوں میں لائے جاتے جہاں انہیں جلادیاجاتا ،تھوڑی سی مدت میں
ہٹلر نے 60لاکھ یہودی قتل کرا دیئے،صرف یہودی ہی ہٹلر کے زیر عتاب نہ آئے
بلکہ روسیوں اورخانہ بدوشوں کی ایک بڑی تعداد کا بھی قتل عام کیاگیا،ایسے
لوگوں کو بھی گولی مار دی جاتی جو نسلی طورپر کم تر ہوتے،قتل گاہیں اس طرح
تعمیر کی گئی تھیں جس طرح کاروباری مراکز بنائے جاتے ہیں،ان قتل گاہوں میں
مقتولین کی درجہ بندی ہوتی اور لاشوں سے ملنے والی قیمتی اشیاء اکٹھی کرلی
جاتیں، مقتولین کی لاشوں کو صابن بنانے کیلئے استعمال کیاجاتا۔
مسلمانوں کو بنیاد پرست،شدت پسند اور دہشت گرد کہنے والو! 85لاکھ 63 ہزار
انسانوں کی موت کا ذمہ دار ’’بہادر شہنشاہ نپولین‘‘ کا مسلمان ہونا بھی
کہیں سے ثابت نہیں ۔رحم ‘انصاف‘ مساوات‘ اخوت اورآزادی کو نوع انسانی کی
ترقی کیلئے زہر قاتل سمجھنے والا پتھر دل ڈکٹیٹر فسطائی پارٹی کا بانی
بینٹو مسولینی یورپ کے مہذب معاشرے کا ایک ’’مثالی انسان ‘‘بھی یقیناً
مسلمان نہیں تھا۔چنگیز خان ہلاکو خان جیسے ’’رحم دل‘‘اور ’’انسانیت‘‘ کا
’’درد‘‘ رکھنے والے فاتحین کا بھی اسلام سے دور کا واسطہ نہ تھا ۔1914ء میں
پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی‘اس جنگ میں 16ممالک نے حصہ لیا اِن 16ممالک میں
صرف ایک ترکی مسلم ملک تھا،یہ جنگ سربیا کے ایک قوم پرست کے ہاتھوں آسٹریا
اورہنگری کے ولی عہد فرانس فرڈی نینڈ کے قتل سے شروع ہوئی‘ایک شخص کے قتل
سے شروع ہونے والی اس جنگمیں 85 لاکھ 28 ہزار 8 سو 31 انسان مارے گئے۔1939ء
میں دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی چھ سال جاری رہنے والی اس جنگ میں کل 27ممالک
نے حصہ لیا اور ستائیس کے ستائیس غیر مسلم ملک تھے ،اس جنگ کے دوران 6 اگست
1945ء کو دنیا کے سب سے زیادہ ’’امن پسند ملک ‘‘امریکہ نے ہیروشیما پر ایٹم
بم گرایا جس سے 1لاکھ انسان جل کر راکھ بن گئے۔اس طرح امریکہ کو دنیا میں
سب سے پہلے ایٹم بم استعمال کرنے والے ملک کا ’’اعزاز ‘‘حاصل ہوگیا ،1لاکھ
انسانوں کو جلانے کے باوجود امریکہ کا جی نہ بھرا اور 9اگست 1945ء کو
ناگاساکی پر ایٹم بم گرایا گیا جس سے آن کی آن میں 48 ہزار انسان جل کر
کوئلہ بن گئے،15اگست 1945ء کو جب دوسری جنگ عظیم ختم ہوئی تب تک 1کروڑ
49لاکھ 43 ہزار 5سو انسان قتل ہو چکے تھے۔1964ء میں امریکہ اورویت نام کی
جنگ شروع ہوئی،1973ء میں اس جنگ کے اختتام تک 47 ہزار 3سو 55 انسان موت کے
منہ میں جاچکے تھے۔
ان تمام جنگوں میں سب سے بھیانک پہلو یہ تھا کہ ہر جنگ میں لاتعداد عورتوں
اوربچوں کو بھی جان بوجھ کر ہلاک کیاگیا، مسلمانوں کو انتہا پسند ‘شدت پسند
اوردہشت گرد جیسے القابات سے نوازنے والوں نے چن چن کر عورتوں اورمعصوم
بچوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا،شہری علاقوں پر اندھا دھند میزائل اورگولے
پھینکے،املاک کو جان بوجھ کر تباہ کیا۔ پرانی تاریخ چھوڑ کر صرف بیسویں صدی
کاہی جائزہ لیں تو انسانی حقوق کے علمبرداروں اورامن کے داعیوں کا مکروہ
اوربھیانک چہرہ کھل کر سامنے آتا ہے ۔27 دسمبر 1979ء کو لیونڈ بریژ نیف کے
دور حکومت میں روس نے ایک لاکھ فوج کے ساتھ افغانستان پر حملہ کردیا،روس نے
شہری علاقوں پر بم برسائے جس سے لاکھوں بے گناہ مرد‘ عورتیں اوربچے شہید
ہوگئے،تاہم بہادر افغانوں نے 9لاکھ انسانی جانوں کی قربانی دے کر ملک کو
آزاد کرالیا، پھر 7 اکتوبر 2001ء میں امریکہ نے بغیر کسی وجہ کے افغانستان
پر حملہ کرکے سکولوں‘ ہسپتالوں اورمسجدوں پر بے شمار بم گرائے جس سے بے
شمار معصوم بچے ‘عورتیں اوربوڑھے شہید ہوگئے،ڈیزی کٹر بم استعمال کرنے والے
آج بھی بتانے سے عاجز ہیں کہ اتنے بے گناہ لوگوں کا خون کیوں بہایا گیا،جنگ
کے دوران گرفتار ہونے والوں پرانسانیت سوز مظالم کیوں ڈھائے گئے
۔فلسطین،مشرقی تیمور،بوسنیا اور عراق کی کہانی علیحدہ ہے ابو غریب اور
گوانتاناموبے کے واقعات بیان کرنے کو بھی ہمت اور حوصلہ چاہئے ۔
یہ تو صرف مذہبِ اسلام کے ہی پاکیزہ اورسنہری اصول ہیں کہ حملہ کرنے سے
پہلے سپہ سالار اپنے فوجیوں کو ہدایات دیتا ہے خبردار کسی عورت‘ کسی بچے یا
کسی بوڑھے پر ہاتھ نہ اٹھانا جو تمہارے مقابلے میں نہ آئے اس سے نہ
لڑنا،عبادت خانوں کو بھی تباہ نہ کرنا۔مجھے حیرت ہوتی ہے جب کچھ نام
نہاددانشور‘ سکالر ‘فلاسفر ‘کالم نگار،اینکرز اورسیاستدان یہودیوں اور
عیسائیوں کے گن گاتے ہیں،دن رات یورپ اور امریکہ کی قصیدہ گوئی کرتے ہیں،اﷲ
پاک کے دشمنوں کی مدح و ستائش میں قلابے ملاتے ہیں،یہ جاہل دانشور‘ سکالر
‘فلاسفر ‘کالم نگاراینکرز اورسیاستدان بینائی سے محروم ہیں یا دل کے اندھے
ہیں،یہ تاریخ سے ناواقف اور حال سے بے خبر ہیں، ہر وقت اور ہر حال میں
مذہبِ اسلام اور مسلمانوں پر تنقید کرنا اِن سیکولر انتہاپسند وں کی زندگی
کا مقصد اوّلین ہے،اِن کی باتوں میں وزن ہوتا ہے نہ یہ دلیل سے بات کرتے
ہیں اِس کے باوجود یہ نامور دانشور‘ مشہور سکالر،عظیم فلاسفر ‘معرو ف کالم
نگار اور سینئر اینکرکہلاتے ہیں ،وجہ صرف یہ ہے کہ اِن کے پاس زبان ہے اِن
کے پاس سٹیج ہے ا سلام دشمن قوتوں کی مہربانی سے 99فیصد میڈیا پر اِن کا
قبضہ ہے، اِس زمانے میں یہی اِن کی قوت اور یہی ہماری کمزوری ہے،جس دن ہم
اس کمزوری کا مداواکرنے میں کامیاب ہوگئے اُس دن دیکھنانامور دانشور‘ مشہور
سکالر،عظیم فلاسفر ‘معرو ف کالم نگار اور سینئر اینکرز منہ چھپاتے پھریں
گے،حق سچ کا سامنا کون کرسکتا ہے؟؟؟ |