ہمدردی

‘دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ اطاعت کیلیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں‘

ایک شخص بال بکھرائے ہوئے اور چہرے پر اداسی کے بادل اوڑھائے ہوئے ایک ہوٹل میں داخل ہوتا ہے اور آتے ہی بیرے سے کہتا ہے کہ مجھے کھانا اور ہمدردی کے دو بول چاہئیں- یہ سُن کر بیرا واپس جاتا ہے اور کچھ دیر بعد آتا ہے اور ٹیبل پر کھانا رکھ کر شخص سے کہتا ہے کہ جناب یہ رہا آپ کا کھانا اور ہمدردی کے دو بول یہ ہیں کہ یہ کھانا باسی ہے اسے نہ ہی کھاؤ تو اچھا ہے-

اگر یہ بات سچ ہے کہ تمام انسان اصل میں ایک ہی درخت کی مختلف ٹہنیاں و شاخیں ہیں تو یہ ضرور ماننا پڑے گا کہ تمام انسان ایک دوسرے کی ہمدردی کے ذمہ دار ہیں اور ہر ایک شخص اپنے ہم جنسوں سے مدد لینے کا استحقاق رکھتا ہے- کون ہے جو اس بات سے انکار کرے کہ بھائی کو بھائی سے تعلق ہے، جو دوسرے کی ہمدردی پر مجبور کرتا ہے- پھر کیا وجہ ہے کہ ان بھائیوں کی اولاد میں اس ہمدردی کا کوئی حصہ باقی نہ رہے گا- بےشک جب تک کہ باپ کے خون کا قطرہ اولاد کی رگوں میں باقی ہے، ہمدردی کا رشتہ کبھی منقطع نہیں ہو سکتا-
‘بنی آدم اعضاء ہیں ایک دوسرے کے
کہ ہیں اصل میں ایک مادر پدر کے
جو ایک عضو کو درد ہوتی کہیں ہے
فرار اور عضوؤں کو رہتا نہیں ہے‘

بنی نوع انسان کے سوائے ہمدردی حیوانات میں بھی پائی جاتی ہے- بچوں کی ایک مدت تک پرورش کرنا، ان کے لیے غذا بہم پہنچانی، ان کو دشمن کے حملے سے بچانا سب جانوروں کی خصلت ہے- اسی طرح جب ایک چیونٹی (کیڑی) کو کہیں سے مٹھائی کا پتہ لگ جاتا ہے تو فوراً اپنے بھائی بندوں کو خبر کر دیتی ہے، بغیر کسی طرح کے لالچ کے سب کو فائدہ پہنچاتی ہے- جب رات کو بطخیں سوتی ہیں تو باری باری سے ایک ایک ٹانگ پر کھڑی رہتی ہیں اور جاگتی رہتی ہیں اور پوری حفاظت کرتی ہیں- جب کونجیں کھیت میں چُگتی ہیں تو ایک سپاہی بن کر پہرہ دیتی ہے اور اس عرصہ میں خود ایک دانہ تک نہیں کھاتی- ہاتھیوں میں ایک ڈار کے آگے رہتا ہے اور ادھر اُدھر کا خیال رکھتا ہے اور ان کی راکھی کرتا ہے- لہٰذا ثابت ہوا کہ ہمدردی کا مادہ حیوانات میں بھی رکھا گیا ہے اور جب حیوانات تک میں ہمدردی پیدا کی گئی ہے تو ظاہر ہے کہ انسان میں بھی یہ خوبی ضرور رکھی گئی ہو گی- نیز ہمدردی ایک طبعی خاصیت ہے جو سب حیوانات کی طبیعت میں خود بخود جوش مارتی ہے، ہمدردی انسان میں اس لیے پیدا کی گئی ہے کہ کارخانہ دنیا میں انتظام بگڑنے نہ پائے- کیونکہ انسان اپنی ضروریات میں ایک دوسرے کے محتاج ہیں، اور ایک کی گاڑی دوسرے کے بغیر خراماں خراماں نہیں چل سکتی، لہذا اگر انسان میں ہمدردی نہ ہو تو گاڑی وقتاً فوقتاً ‘پنکچر‘ ہوتی رہے اور یہ سارا نظام درہم برہم ہو جائے-

جن انسانوں کو اللہ تعالٰی نے عقل عطا فرمائی ہے وہ اپنی قوم اور انسانی نسل کی سب طرح سے بہتری چاہتے ہیں، تعلیم پھیلاتے ہیں، اخلاقیات پھیلاتے ہیں، اور ان کا منشورِ انسانیت تنگ حال، مسکین، محتاج، ضرورتمند اور پڑوسیوں کی رنگ و نسل و مذہب و فرقہ بندی و نظریاتی و سیاسی و معاشرتی و سماجی سٹیٹس کے امتیاز کے بغیر خبر لینا ہوتا ہے- پانی کی سبیلیں لگوانا، محتاجوں کی خبر گیری کرنا، بیواؤں کی امداد، شادی غمی میں شرکت، بیماروں کی عیادت، بزرگوں کے لیے بس میں جگہ چھوڑ دینا وغیرہ جیسی باتیں ہمدردی کی عام مثالیں ہیں- اگر انسان اپنے مطلب سے کام رکھے اور خودغرض بن جائے تو وہ حیوانات سے بھی بدتر ہوتا ہے-

بعض لوگ کہتے ہیں کہ صرف ہماری انفرادی کوشش و سعی سے ملک و عوام کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے، یہ ان کی بہت بڑی غلطی ہے- دنیا کی تاریخ میں بیشمار ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ ایک آدمی کی کوشش و سعی و ہمت و بہادری و اولعزمی سے قوم کی قوم اور ملک کے ملک حتٰی کہ بعض دفعہ پوری دنیا کو فائدہ پہنچا- امریکہ نے ایک آدمی کو دریافت کیا مگر اب تمام فرنگستان اس سے فائدہ اٹھا رہا ہے، کیمبرج یونیورسٹی کی بنیاد صرف ایک ہی پادری نے ڈالی تھی کہ شروع میں وہاں ایک چھوٹا سا مدرسہ قائم کیا تھا، آخرکار وہ ایک نامی کالج بن گیا جس سے نیوٹن جیسے علامہ عصر نکلے، ہیلن کیلر نے بریل سسٹم دریافت کیا جس سے ساری دنیا کے نابینا افراد فائدہ اٹھاتے ہیں- مُکدی گل بقول شاعر:

‘جس نے انسان کا رُوپ دھارا
بن کے انسان سب کو سنوارا
آؤ اس کے کریں درشن‘
Najeeb Ur Rehman
About the Author: Najeeb Ur Rehman Read More Articles by Najeeb Ur Rehman: 28 Articles with 68416 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.