معمولی کوئی چیز نہیں ہوتی۔وقت ،ضرورت اور طلب و رسد کا
فرق چیزوں کے دام اور مقام کو یکساں حالت میں نہیں رہنے دیتا۔حکیم الامت
نونہالوں میں اسی فکرکی نمو چاہتے تھے۔ سو انہوں نے اپنی نظموں میں یہ
پیغام دیا کہ قدرت کے کارخانے میں کوئی چیز نکمی ہے نہ بری۔آپ نے گلہری کی
پہاڑ پربرتری ثابت کرتے ہوئے انہیں یہ درس دیاکہ اہمیت جسامت کی نہیں عزم و
ہمت کی ہوتی ہے ۔حیرت ہے بڑے بڑوں کو یہ’’معمو لی‘‘ سی بات سمجھ نہیں
آئی؟اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ ہم اپنے کسی عزیزکی ناراضی کو کسی معمولی
بات کاشاخسانہ قراردیتے ہوئے کہہ دیتے ہیں ’’معمولی با ت تھی اس نے جانے
کیوں دل پر ہی لے لی‘‘۔ کسی نے حضرت علی سے پوچھاتھا کہ گناہ کبیرہ کون کون
سے ہیں تو آپ نے جو جواب دیا اسکا جواب نہیں۔ ’’ہر وہ گناہ، گناہ کبیرہ جسے
کرنے والا معمولی سمجھ کر کرے‘‘۔ گویا گناہ معمول بنتا ہے تو معمولی لگنے
لگتا ہے اور یہ کوئی معمولی بات تو نہیں جبھی گناہِ کبیرہ شمار ہوتی
ہے۔مجھے لگتا ہے جب ہم چیزوں کو معمولی سمجھتے ہوئے انہیں غیرمعمولی انداز
سے نظر انداز کرتے ہیں تو یہ ’’معمولی‘‘ چیزیں کبھی نہ کبھی ہماری زندگی
میں اثر انداز ہوتی ضرور ہیں۔اور وہ بھی اس انداز سے کہ اپنی اہمیت منوا
اور جتا کر ہی دم لیتی ہیں۔جبھی تو ہر چیز خود کو سب سے زیادہ اہم سمجھتی
ہے ۔اس کا ثبوت وہ چیونٹی بھی تو ہے جو منہ بناتے ہوئے اپنے رب سے حضرت
سلیمان اور انکے لشکر کے بارے میں شکوہ کناں ہوئی تھی۔
میں نے بڑا غور کیا کہ مذہبی حوالے سے ہمارا طرزِ فکروعمل جہاں بھر سے
نرالا آخر کیوں ہے؟(اوروہ بھی اس خطے میں جہاں کی سرزمین ماں کی گود کی طرح
مہربان ہے ۔جہاں صاحبانِ علم و عرفان نے محبت کی کبھی نہ بجھنے والی
قندیلیں روشن کی اور ایک عالم کو اپنے نورسے منور کیا ) یہ عدم برداشت ،شدت
پرستی،انتہاپرستی ، بے جاتعصب،ہٹ دھری اورعدم رواداری جیسی مذموم صفات
ہمارے اندر کیسے سرایت کر گئیں ہیں۔ہم جیو اور جینے دو کے آفاقی و اعلی
اخلاقی فلسفے کو،جو سب کے لئے سراسرخیر ہی خیر تھا، کیوں بھلا بیٹھے ہیں ۔
ہم مذہب کے حوالے سے اس قدر حساس ہو کیسے گئے کہ ہمارے فروعی اختلافات
’’گروہی‘‘مفادات کی نذر ہوکر رہ گئے۔ گالی سے نمو پاکر گولی بننے اور پھر
بگڑ کر خودکش بمباربننے والے تعصب کو کیوں کسی نے لگام نہیں ڈالی ؟مجھے
تواس کی ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ برِصغیر پاک وہند کے مسلمانوں میں
مذہبی حوالے سے پائی جانے والی شدت پسندی کاسبب انکی اقتدار سے محرومی اور
غلامی ہے ۔ہزار سالہ دورِ عروج کے خاتمے،شان و شوکت اور عزت ومرتبہ کے چھن
جانے اورغلامی کی زنجیروں میں جکڑے جانے کے سبب ان کا اپنے مذہب کے طرف
جھکاؤ اور لگاؤ انحصار کی حد یں عبور کرتا ہوا شدت پسندی کے سانچے میں ڈھل
کر رہ گیا ۔ہر قدیم چیز کو بہتر اور ہر نئی چیز پر شک کرتے ہوئے اسے بد تر
سمجھنے کا رویہ مذہبی عقیدے کا روپ دھار گیا۔اگر اس معاملے کا منصفانہ
جائزہ لیا جائے تو ایک عام مسلمان کی اس روش لائقِ ملامت ہرگز نہیں۔جب
انسان سے اسکا سب کچھ چھین لیا جائے توجو کچھ بھی باقی بچتا ہے اس کے حوالے
سے اس کا میلان فطری طور پر بڑھ ساجاتاہے کہ اسے بھی چھین نہ لیا
جائے۔اوریہ بات انسان کی حساسیت کو بہت بڑھا دیتی ہے۔اور یوں انسان شدت
پسندی کا اسیر سا ہو کر رہ جاتا ہے۔ ایسے میں قوم کے رہبروں کی یہ ذمہ داری
ہوتی ہے کہ وہ اس سلسلہ میں اپنی بے لوث خدمات پیش فرما کر اپنے رہنما ہونے
کا ثبوت دیں ۔لیکن افسوس اس حوالے سے بحیثیت مجموعی ذمہ داری تو دور کی بات
فرض تک ادا نہیں کیا گیا۔علمائے سو کے گمراہ کن پروپگنڈے اور امن دشمن
کردار کا توڑ کرنا علمائے حقہ کادینی فریضہ تھا ۔اگر وہ چاہتے تو اپنے موثر
کردار سے باآسانی شدت پسندی کو روک سکتے تھے لیکن افسوس انہوں نے اسے
معمولی کام گردانا اور اسے غیر معمولی طور پرنظرانداز کیا ۔یوں آج یہ بوتل
کا جن سنبھالے نہیں سنبھلتا۔بعد میں ضیائی فتنے کا جادو سر چڑ ھ کر بولا
اورآج بھی یہ سکہ ہر بازار میں خوب چلتا ہے ۔’’ مذہبی طبقے ‘‘کی خاموشی
تاحال برقرار ہے اور قرار لوٹتی ہے۔ ہماری موجودہ حکومت کی طرح ان میں بھی
کوئی ’’ول‘‘ دکھائی دیتی ہے نہ ’’وش‘‘ ۔واقعہ یہ نہیں کہ حادثہ ہوا المیہ
یہ ہوا کہ حادثہ دیکھ کربھی کوئی نہیں رکا ۔حادثہ ایک دم کہاں ہوتا ہے؟وقت
کی گود میں برسوں پلتاہے تب ظاہر ہوتا ہے ۔ اس حادثے کے ساتھ بھی یہی ہوا
۔یہ پلتا اور بڑھتا رہا مگر کسی کو فرصت ہی نہ ملی کہ اس ’’معمولی ‘‘چیز کی
طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھتا ۔عصبیت کی گٹھی اور تعصب کے دودھ نے اسے بڑی
تیزی سے پروان چڑھایا اور یوں یہ وقت سے کہیں پہلے پاؤں پاؤں چلنا سیکھ گیا
اور آج اس کے پاؤں اس مضبوطی سے گڑے ہیں کہ اس کے مقابلے پر آنے والے زمین
میں گاڑھ دئیے جاتے ہیں۔ سچ ہے گندگی کہیں بھی ہواپنا اثر ضرور ظاہر کرتی
ہے۔ظاہر میں ہوتو تعصب کا سبب بنتی ہے اور باطن میں ہو توتعصب کا۔اور تعصب
کے بارے میں یہ بات سو فیصد درست ہے کہ جہاں تعصب ہوگا وہاں ایمان نہیں
ہوگا۔یہ کوئی کم مصیبت تو نہیں لاتا۔اگراسے کسی بھی فتنے کا نقطہ آغازاور
بنیادی اکائی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔حسد کی اکلوتی اورلاڈلی مگر
حددرجہ بگڑی ہوئی اولاد تعصب ہی تو ہے۔جو ذہنی ہو تو گھروں کے درمیان دیوار
اٹھا دیتا ہے اورقلبی ہو تو دلوں کے درمیان۔کسی بزرگ سے سوال کیا گیا کہ
دین میں خیر خواہی کا کیا مقام ہے تو بولے ’’دین خیر خواہی ہی کا دوسرانام
ہے ‘‘۔برا ہو اندھی عقیدت کا کہ اس نے ہم سے ’’فطری ماسٹرکی ‘‘ تک چھین لی
ہے۔ہاں صاحب محبت کی ماسٹر کی کہ دلوں پر لگے زنگ آلود تالے بھی جس سے
باآسانی کھل جایا کرتے ہیں ۔انسان کاخمیرمحبت کے خمیر سے اٹھاہے ۔سو یہ آدم
زاد محبت کاآسان ’’شکار‘‘ ہے۔الہامی مدرسے کا یہ طالبعلم دنیا میں جب آتا
ہے تو قدم قدم پرنفرت ’’دیوار چین‘‘بن جایا کرتی ہے۔کیا قیامت ہے کہ نفرت
جیسا مشکل ترین کا م آسان ترین بن کر رہ گیا ہے
راولپنڈی میں دس محرم کوعین شہادت ِامامِ عالی مقام ایک نئی کربلا سج گئی
اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے میرا پر امن وسیب بھی میدانِ جنگ بن کر’’جگہ جگہ
ہے ہے بپا ۔۔۔کربلا کربلا‘‘کا منظر پیش کرنے لگا ۔پنڈی ،ملتان،چشتیاں اور
بہاولنگر میں جو ہوا اسے شقی سے شقی شخص بھی پسندیدہ قرار دینے کی جرات
نہیں کر سکتا۔اس دن جو بھی ہوابہت برا ہوا ۔اتنا کہ الفاظ اس قبیح فعل کی
مذمت کو ناکافی ہیں ۔لیکن جو اس کے بعد ہوا وہ ’’عذرِگناہ بدتر ازگناہ‘‘ کی
بدترین مثال ہے ۔ایک لمحے کے لئے تو یوں لگا جیسے اس واقعے کو بنیاد بنا کر
امن دشمن و ملک دشمن عناصرملک میں خانہ جنگی کی فضا ہموار کرنے میں کامیاب
ہو گئے ہیں(ایک حد تک وہ کامیاب بھی ہوئے کہ ہم نے اپنی شعوری زندگی میں
پہلی بار پنجاب کے نسبتاًپر امن خطے میں کرفیو لگتے دیکھا۔حد تو یہ ہے کہ
کئی دن گزر جانے کے باوجود حالات تادمِ تحریر معمول پر نہیں آئے اور ملک کے
کئی حصوں سے کشیدگی کی خبریں آرہی ہیں) سوشل میڈیا پر تولگتا تھا جیسے سماج
دشمنوں کا قبضہ ہو گیا ہو۔پروپگنڈے کا وہ بازار گرم ہوا کہ الامان
والحفیظ۔اب تک میڈیا نے سانحہ راولپنڈی میں جاں بحق افراد کی زیادہ
تعدادبارہ رپورٹ کی ہے ۔لیکن سوشل میڈیا پر ڈیڑھ سو سے زیادہ بتا کر یہ
دعوی کیاجاتا رہا کہ میڈیا اپنے مخصوص مقاصد اور ایک خاص ایجنڈے کے تحت جان
بوجھ کر حقائق چھپا رہا ہے ۔اس سے بھی بڑا ظلم یہ ہوا کہ بچوں کی کٹی ہوئی
گردنیں دکھا کر یہ کہا گیاکہ ان کو مسجد میں ذبح کر دیا گیا (حالانکہ وہ
برما میں ہلاک کئے گئے تھے) یار لوگوں نے کفر کے فتووں کا بازار گرم کرنے
میں بھی کسی بخل سے کام نہیں لیا ۔الغرض پروپگنڈے کا ایک سونامی تھا جس نے
ملک و ملت کی بدنامی و جگ ہنسائی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔یہ تو بھلا ہو ان
غیر متعصب ، دردمنداور محب وطن پاکستانیوں کا جنہوں نے حالات کی سنگینی کو
بھانپتے ہوئے سچ میں قلمی جہادکرتے ہوئے بر وقت اس ساری صورت حال پر قابو
پاکرحالات کی سنگینی کم کرنے میں مدد دی اور یہ ثابت کیا کہ سوشل میڈیا میں
اچھے لوگوں کی بھی ہرگز کوئی کمی نہیں۔برقی میڈیا نے پہلی بار(بروقت)
انتہائی ذمہ داری کا ثبوت دیا اور لگائی بجھائی نہیں کی ورنہ یہ آگ ناجانے
کتنے گھر اور جلاتی ۔جس نے بھی واقعات کے تناظر میں کچھ لکھا ٹھوکرکھائی
۔ان مشبہ شکل اہل قلم حضرات کی مشتبہ تحریریں دیکھ کر دل پر چھایا درد کا
غبار اور بڑھ گیا۔میڈیا سے حقائق چھپا لینے والے یہ افراد بھول گئے کہ وہی
لوگ ’’بقلم خود‘‘میڈیا کی’’ پھرتیوں‘‘ کے سب سے بڑے نقادرہے ہیں ۔انہیں یاد
ہی نہ رہا کہ ماضی میں وہ برقی میڈیا کے نشیمن پر اسی حوالے سے بارہا لفظوں
کی بجلیاں گرا اور جھاگ اڑا چکے ہیں ۔ کاش وہ مسلک پرستی اورمسلکی خدمت کی
سطح سے تھوڑا سا اوپر اٹھ کر سوچتے تو سچ کو یوں پامال نہ کر پاتے ۔اے کاش
وہ یہ جانتے ہوتے کہ ان کی تحریریں فتنے کو کم کرنے کاس باعث نہیں بن رہیں
۔ انکا منفی کردار دیکھ کر بے انتہا افسوس ہوا ۔اے کاش وہ اہل درد ہوتے۔۔
اگر یہی بول بولنے تھے تو بہتر ہے ’’اعزازِ سخن ‘‘ چھن جائے ۔جب کچھ کہنے
سے ظالم کی مدد ہوتی ہو تو انسان اور کیا تمنا کرے ۔اقبال ایسے الہام کوتو
کب کا الحاد قراردے چکے ہیں۔
تب سے اب تک دل کی فضا مکدر ہے ۔پہلی بار قلم اٹھانادوبھر ہوگیا۔ایک ہفتے
میں یہ چند سطریں لکھ پایا۔۔پنجاب حکومت کے کردار کی مذمت کے لئے لغت سے
نئے لفظ ڈھونڈنے ہوں گے۔شورش زدہ علاقوں میں بھی صورت حال یوں مخدوش نہ تھی
۔پرنٹ میڈیا کا کردار مثالی رہا۔’’خبریں‘‘نے اس حوالے سے سب کو پیچھے
چھوڑدیا۔ویل ڈن خبریں۔۔ویل ڈن ضیا شاہد ۔۔۔۔ |