دس محرم الحرام کو رونماہونیوالے
دس محرم کے واقعہ نے دنیا کے تمام مسلمانوں اور باالخصوص پاکستانیوں کے سر
شرم سے جھکا دیئے ہیں۔مسجد اور مدرسے پر حملہ کرنیوالے نہ صرف ملک دشمن ہیں
بلکہ انہوں نے سنی،شیعہ فساد کر پربا کرنے کی مذموم کوشش کی۔کئی معصوم بچوں
اور بڑوں کو شہید کرنیوالے نہ صرف بہت بڑی دہشت گردی کے مرتکب ہوئے بلکہ
انہوں نے راولپنڈی جیسے پر سکون شہر میں آگ لگانے کی کوشش بھی کی۔اس سارے
معاملے کے بعد چند ایسے سوال ہیں جن کا فی الفور جواب ضروری ہے ان میں سے
ایک تو یہ کہ جب جامع مسجد میں جمعہ پڑھایا جا رہا تھا تو اس وقت وہاں جلسہ
گزارنے کی نہ تو ٹائمنگ تھی اور نہ ہی جمعہ کے وقت نمازیوں کو ڈسٹرب کرنے
کی کوئی تُک بنتی تھی، جلسہ ہر سال وہاں سے تین سے چار کے درمیان گزرتا تھا
ا س سال عین نماز جمعہ پر(ایک بجے سے دو بجے کے درمیان) کیوں لایا گیاحملہ
آور کس طرح مسجد کی پچھلی طرف سے نمازیوں اور معصوم طلباء پر حملہ آور ہوئے
اور کس طرح پولیس والوں کی گنز بآسانی چھین لینے میں کامیاب ہوئے؟ اور ان
گنز کو نہایت بہادری سے نہ صرف استعمال کیا بلکہ انہوں نے اتنے افراد کو
نشانہ بھی بنا لیاکیا ان کے راستے میں پولیس والے دیوار نہیں بن سکتے
تھے؟جلوس میں بے تحاشہ افراد ہونے کے باوجود جلوس والے ہی رکاوٹ کیوں نہ
بنے؟حملہ آور اہل سنت سے اتنے متعصب اور ٹریننگ یافتہ تھے کہ انہوں نے
معصوم بچوں اور بڑوں کو بے دردی سے شہید کیا؟جامع مسجد کی طرف سے ہر جمعہ
کی ریکاررڈنگ ہوتی ہے اور اس روز کی ریکارڈنگ میں کوئی اشتعال انگیز بات نہ
ہونے کی نشاندہی ہونے پر ریکارڈنگ دیئے جانے کے بعد حملہ آور کس طرح اشتعال
انگیزی کی ذمہ داری امام مسجد پر ڈال رہے ہیں؟
اب جبکہ سانحہ ہو گیا ہے تواس ملک کے امن کے لئے اور نئی نسل کے مستقبل کے
لئے بہت ضروری ہے سارے معاملے کی ذمہ داری صرف حکومت نہ ڈالی جائے بلکہ اس
کے لئے سنی شیعہ کمیونٹی کے معزز افراد (علماء)مل کرایک معاہدہ کریں اور اس
معاہدے کی خلاف ورزی پر سخت سے سخت سزا مقرر کی جائے۔سب سے پہلے ضروری ہے
کہ راولپنڈی سانحہ کے ذمہ داران کو سخت سے سخت سزادی جائے۔احقر کی طرف سے
چند مشورے او ر نگارشات حاضر خدمت ہیں کہ جس سے مستقبل قریب میں مذہبی لیول
پر اتفاق رائے ممکن ہے:
سب سے پہلے تو بہت ہی ضروری ہے کہ کسی بھی مسلک کے علماء،دانشور اور مقررین
کے قابل اعتراض مواد پر پابندی لگائی جائے اور مستقل میں ایسا کرنے والے کے
لئے کوئی سخت قانون رائج کیا جائے۔پاکستان میں دہشت گردی جیسے مسائل ہونے
کی وجہ سے تمام اہل تشیع حضرات کو اس بات پر قائل اور راضی کیا جائے کہ وہ
آئندہ سڑک ،گلی،محلہ میں سر عام جلوس نہیں نکالیں گے بلکہ اپنی مخصوص جگہوں
یا امام بارگاہوں تک محدود رہیں گے۔تمام اہل سنت افراداپنی مساجد اور مخصوص
جگہوں پر اپنی مذہبی تقاریر اور پروگرام چلائیں گے۔پولیس اور انتظامیہ تمام
شیعہ ،سنی جلوسوں میں برابر سیکورٹی کے فرائض سر انجام دیں گے۔تما م اہل
سنت اور اہل تشیع کے علماء لاؤڈ سپیکر کا استعمال مثبت طریقے سے استعمال
کرتے ہوئے مذہبی رواداری کا سبق دیں گے۔کوئی بھی سنی یا شیعہ عالم ایک
دوسرے کے خلاف فتویٰ پبلک نہیں کریں گے۔ایک دوسرے کے عقائدمیں کوئی بھی دخل
اندازی نہیں کرے گا۔سنی ،شیعہ مدارس میں پڑھایا جانیوالا نصاب مارکیٹ میں
نہ صرف دستیاب ہوگا بلکہ اس میں قابل اعتراض ہونے پر پکڑ دھکڑ اور سزا
لازمی ہوگی۔
علاوہ ازیں تمام سنی ،شیعہ خاندانوں سے گزارش ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اس بات
کا درس دیں کہ ہم سارے ایک مسلمان ملک کے باسی ہیں اور ہر کسی کو دوسرے کے
فرقے یا عقیدے پر اثر اندازہونے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔والدین اپنے بچوں
کو بتائیں کہ جب ہم سارے ایک ہی ملک کے رہائشی ہیں تو ہم سب کے بچوں کے لئے
ضروری ہے کہ وہ آئندہ کوئی سنی،شیعہ مذہبی گفتگو یا بحث کا حصہ نہیں بنیں
گے۔والدین کو اپنے گھروں میں لسانی یا مذہبی تفرقہ بازی کا ہر گز ہرگز سبق
نہیں دینا چاہیئے بلکہ ایک دوسرے سے احسن طریقے سے زندگی گزارنے کا درس
دینا چاہیئے۔ہر والدین کو اپنے بچے کی تربیت میں حب الوطنی اور تفرقہ بازی
سے پاک زندگی گزارنے کے درس جیسی بنیادی اقدار دینے کی بہت ضرورت ہے۔
اگر دیکھا جائے تو میڈیا،اپوزیشن اور حکومت نے اس سارے معاملے میں نہایت ہی
بہتر کردار نبھایا ہے اور سب نے اپنی اپنی جگہ غیر سیاسی اور غیر جانبدار
ہو کر ملکی اور عوامی مفاد میں فیصلے اور اعلانات کئے ہیں جو کہ قابل ستائش
ہیں۔اب حکومت، علمائے وقت اور عوام الناس پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ
وہ مستقبل کا کوئی اچھا لائحہ عمل تیار کرتے ہوئے کوئی ایسا فارمولا طے
کریں کہ کبھی بھی آئندہ خدانخواستہ کوئی بڑا سانحہ یا حادثہ رونما نہ ہو۔اب
جب کہ پوری دنیا میں دہشت گرد گروپ مختلف ممالک اور عوام پر تباہی کے سامان
گرانے کوہر دم تیار کھڑے ہیں تو ہم سب کو بھی اتفاق رائے سے رہ کر متحد ہو
کر زندگی گزارنے کی اشدضرورت ہے۔اہل سنت و جماعت کو ان کے پر امن احتجاج پر
داد دینے کو دل کرتا ہے دیکھیں ان کے احتجاج پر کوئی برتن نہیں ٹوٹا،شاباش
پاکستانیو شاباش ،جذاک اﷲ۔احقر کا تعلق اہل سنت جماعت سے ہے لیکن اس یہ
مطلب نہیں ہم احقر نے اہل تشیع سے خدانخواستہ نفرت کا ثبوت دیتے ہوئے کالم
لکھا ہے۔اﷲ کرے کہ احقر کے کالم کو پڑھ کر تمام پاکستانی ایک سبق سمجھتے
ہوئے میری گزارشات کو نہ صرف اپنائیں بلکہ اس کا عملی ثبوت دیتے ہوئے ملک و
ملت کی ترقی کا باعث بنیں۔
آج کے کالم میں چندمزید اہم باتوں کا تذکرہ بھی کرنا ضروری ہے کہ حکومت
پاکستان اوراپوزیشن جماعتوں کو چاہیئے کہ امریکہ پر پریشر ڈالتے ہوئے نیٹو
سپلائی روکنے کے علاوہ امریکن ڈرون حملوں کے خاتمے کی بھی سر توڑ کوششیں کی
جائیں۔ا س ٹاپک کو آئندہ کالم ضرور کمپائل کروں گا ۔انشا ء اﷲ۔ جاتے جاتے
کرکٹ ٹیم کوویلڈن پاکستانی کرکٹ ٹیم نے ایک ٹی ٹونٹی جیتنے کے علاوہ گزشتہ
روز کے پہلے ون ڈے میں اچھی کارکردگی کا ثبوت دیا ہے۔اسی میچ میں دو نوجوان
آل رائڈرزانور علی اور بلاول بھٹی کو موقع دیا جنہوں نے اپنی بیٹنگ کا
ٹیلنٹ بھی دکھایا ہے مزید یہ کہ ان سے مستقبل کے ورلڈ کپ میں زیادہ توقعات
وابستہ ہیں۔ہماری کرکٹ ٹیم ،چیئرمین اور کپتان کے لئے ضروری ہے کہ ملک و
ملت کے مفاد میں کھیلنا اور چلنا سیکھیں۔ |