ہمارے بڑے اور غریب پروری

غربا اورمساکین کی کچھ وکالت کرنے سے قبل غریب پرور اور مہمان نوازوں کے ائمہ کا ذکر بھی ضروری ہے۔سید الکونین ﷺ کی بھی کیا کرم گستریاں ہیں کہ ابھی اپنے پردادا تک پہنچے مگر رحمت کی بے تابیوں نے اہل جہاں کو فیض یاب کرنا شروع کردیا۔سیدالعالمین ﷺ کے پرداداسیدنا حضرت عمرو مکہ معظمہ کے سردار تھے اور شدید طویل قحط کی وجہ سے مویشی مرنے لگے بھوک کی وجہ سے لوگ لاغر ہوکر مرنے لگے۔ تو آپ اونٹوں کا قافلہ لے کر ملک شام گئے۔ وہاں غلہ کی فراوانی تھی آپ کئی تنور والوں سے چند روز میں لاتعداد روٹیاں پکواکر بوروں میں بندکرکے بڑی سرعت کے ساتھ مکہ معظمہ واپس تشریف لائے۔ آپ نے اونٹ ذبح کراکے گوشت پکوایااور برتنوں میں ڈال کر روٹیوں کے ٹکڑے کرکے ڈالے اور اہل مکہ کو کئی روز تک کھانا کھلایا ۔ لوگ موٹے تازے ہوگئے اور پھر اﷲ تعالی نے قحط سالی بھی دور کردی۔ آپ نے روٹیوں کے ٹکڑے کیئے ۔ عربی میں اس عمل کو ھشم کہتے ہیں اس وجہ سے آپ کا لقب اور پھر نام ہی ھاشم مشہور ہوا اور آپکی اولاد ھاشمی کہلائی۔ تو غریب پروری اور مہمان نوازی ھاشمیوں کا طرہ امتیازہے۔ اسی طرح امیرالمؤمنین سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے دور حکومت میں قحط پڑگیا اور اکثر عرب میں ایسا ہوتا تھاکہ اشیاء خوردنی کی شدید قلت ہوا کرتی تھی۔ اسی دوران آپ رضی اﷲ عنہ کا تجارتی قافلہ مدینۃ المنورہ پہنچا ۔ لوگوں میں اطمینان کی لہر دوڑ گئی کہ غلہ آگیا۔ لوگ خریدنے پہنچے تو آپ رضی اﷲ عنہ نے اپنے کارندوں کو فرمایا کہ لوگوں سے دریافت کرو کہ کتنا گنا منافع دیں گے۔ عوام مجبور تھے انہوں نے حتی المقدور کئی گنا منافع کی پیش کش کی مگر سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کا مطالبہ زیادہ تھا۔ لوگ ناچار مایوسی کے عالم میں واپس جانے لگے تو آپ نے فرمایا کہ لوگوں کو واپس بلاؤ۔ اور ساتھ ہی فرمایا کہ بوروں کے منہ کھول کر الٹا دو۔ آپ نے فرمایا کہ جو جتنا لے جاسکتا ہے بلا معاوضہ لے جائے اس کا کئی اضافہ میں اس سے لوں گا جو دینے پر قادر ہے۔ تو لوگ بوریوں اور گٹھڑیوں میں جی بھر کر غلہ لے گئے اور مدینہ پاک کے مکیں آسودہ ہوگئے۔ یہ تھے مسلمانوں کے خلیفہ جو آدھی سے زیادہ دنیا کے حکمران۔جبھی تو نگاہ مصطفےٰ ﷺ نے آپ کو ہی انسانیت کا بہی خواہ جانا اور آپ رضی اﷲ عنہ کوذوالنورین بنا دیا۔اگر سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے حالات زندگی کا مطالعہ کریں تو وہ بھی ایسے عجائبات سے بھری ہوئی ہے۔ حضرت امیرالمؤمنین سیدنا علی کرم اﷲ وجھہ کا تو یہ عالم تھا کہ خود روزہ پانی سے افطار کیا تو کھانا کسی مسکین کو دیدیا ۔ بنو ھاشم کا یہی حال تھا۔ ایسے حکمرانوں کی بدولت ہی دنیا نورِ اسلام سے منور ہوئی۔ مسلمان کبھی غریب اور ایسے محتاج نہ ہوئے جیسا کہ آجکل دنیا میں زبوں حال ہیں۔ حالانکہ محنتی، جفاکش اور انکے علاقے قدرتی وسائل سے مالامال ہیں۔ زرپرست اور لٹیرے حکمران عوام کے خون پسینے کی کمائی لوٹ کر صلیبی بنکوں میں جمع کراتے ہیں۔ ایک مخصوص منصوبہ بندی کے ذریعے عوام کو دووقت کی روٹی اور تن ڈھانپنے کے شکنجے میں جکڑرکھا ہے۔ اب مثال کے طور پر پاکستان ایک زرعی ملک ہے جہاں غلہ کی پیداوار طلب سے کئی گنا زیادہ ہے لیکن عوام کو آٹا نہیں ملتا اگر ملتا ہے تو اتنامہنگا کہ عام انسان پیٹ بھر کر روٹی بھی نہیں کھا سکتا۔ سبزیاں بے تحاشا پیدا ہوتی ہیں لیکن مصنوعی مہنگائی کرکے عوام کو سو روپے کلو آلو اور دوسو روپے کلو ٹماٹر دیا جاتاہے۔ سستے بازار کا کیا مطلب ہے ؟ کیا حکمران اتنی ہمت نہیں رکھتے کہ پورے ملک میں آٹا یکساں طور پر سستا فراہم کریں۔ ناقص اور پرانی کرم خوردہ گندم کا آٹا عوام کو سستے بازار کے نام پر کھلایا جانا کیا انسانیت ہے؟

ہمارے یہاں جتنے حکمران آتے ہیں ،خوف خدا اور پاس رسول سرے سے نہیں ہوتا۔سستی روٹی سکیم کا ڈرامہ محض چند منظور نظر افراد کو نوازنے اور ارب پتی بنانے کی سکیم ہے۔ پوری کالونی اور کئی محلے ایک تندور پرلمبی لائن بنائے کھڑے ہوتے ہیں ۔ کہ انہیں آٹا ختم ہونے کا مژدہ سنایا جاتاہے۔ حکمرانوں کی زراندوزی کا ایک اور اڈا یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن ہے۔ جہاں سے سرکاری خزانے کی نقب زنی کرکے چینی بازار میں بلیک کی جاتی ہے۔ آج کل بازار میں چینی 63 روپے کلو بک رہی ہے یوٹیلیٹی سٹورز پر چینی کی فروخت بند ہے اور وہی چینی 47 روپے کی بجائے بازار میں عوام کو 63 روپے میں فروخت کی جارہی ہے۔ اس ظلم پر اﷲ تعالیٰ کی گرفت دیکھیں کس وقت ہوگی۔ جو لوگ غریب عوام پر عرصہ حیات تنگ کرتے ہیں پھر ان پر اﷲ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوتا ہے۔ اگر ہمارے حکمران صمیم قلب سے مخلص مسلمان ہیں تو انہیں ملک کے عوام کو مشکلات سے نکالنا چاہیئے۔ 1965 کی جنگ کے دوران اوصاف حکمرانی سے مزین گورنر امیر محمد خان اعوان نے مغربی پاکستان میں وہ مثالی حکمرانی کی مثال چھوڑی کہ جنگ کے دوران جب کہ رصد اور پیداوار کم ہوجاتی ہے لیکن طلب میں اضافہ ہوتاہے، انہوں نے ملک میں عوام کو کسی قسم کی تنگی نہیں ہونے دی۔ آج کے حکمرانوں کے اوصاف میں ایسی کوئی چیز نہیں ملتی کیونکہ کہ صرف ایک دن کے کرفیو میں کئی گنا مہنگائی میں اضافہ ہوا جو ابھی تک موجود ہے۔ گیس اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے سفری سہولتیں عنقا ہوچکی ہیں ۔ ریونیو جمع کرنے کے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرنے کو اﷲ تو دیکھتا ہے ۔ بجلی اور گیس کے بلو ں میں سراسر ناجائز ٹیکس لگا کر عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنامکروہ اور انتہائی ظالمانہ فعل ہے۔سینکڑوں کے بل اب ہزاروں میں آتے ہیں۔ میں نے کئی لوگوں کو دیکھا کہ بجلی یا گیس کے منقطع ہونے کے خوف سے ادھار مانگ کر بل جمع کراتے ہیں۔ عوام کا خون نچوڑ کر بیرون ملک دورے اور عیاشیوں کا حساب کیا اﷲ تعالیٰ نہیں لے گا؟ عوام کھلے بندوں حکمرانوں کو کوس رہے ہیں اور متنفر ہیں۔ہمارا کام نصیحت کرنا ہے اگر صاحبان اقتدار و انصرام نے عوام کی مشکلات حل کیں تو غریبوں کی دعائیں بڑا رنگ لایا کرتی ہیں۔ ورنہ دھڑن تختہ تو ہوا ہی کرتا ہے۔

AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 128249 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More