ڈاکٹر معید پیر زادہ، چوہدری طارق فاروق اور مسلکی خانہ جنگی

 حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلویؒاپنی تصنیف حیات الصحابہؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت ادرعؓ فرماتے ہیں میں ایک رات آکر حضورؐ کا پہرہ دینے لگا تو وہاں ایک آدمی اونچی آواز سے قرآن پڑھ رہا تھا۔ حضورؐباہر تشریف لے آئے۔ میں نے کہایارسول اﷲؐ یہ(اونچی آواز سے قرآن پڑھنے والا) ریاکارہے۔ حضورؐنے فرمایا(نہیں) یہ تو عبداﷲ ذوالبجادین ہے۔ پھران کا مدینہ میں انتقال ہو گیا جب صحابہ ؓ ان کا جنازہ تیار کر کے انہیں اٹھا کر لے چلے تو حضورؐنے فرمایا ان کے ساتھ نرمی کرو اﷲ نے ان کے ساتھ نرمی کا معاملہ کیا ہے۔ یہ اﷲ اور اس کے رسولؐ سے محبت کیا کرتے تھے ۔جب حضورؐ قبرستان پہنچے تو قبر کھودی جا رہی تھی ۔آپؐ نے فرمایا ان کی قبر خوب کھلی اور کشادہ بناؤ ۔ اﷲ نے ان کے ساتھ کشادگی کا معاملہ کیا ہے۔ ایک صحابی نے عرض کیا یارسول اﷲﷺ آپؐ کو ان کے مرنے کا بڑا غم ہے؟ آپؐ نے فرمایاہاں ۔کیونکہ یہ اﷲ اور اور اس کے رسول ؐسے محبت کرتے تھے۔

حضرت عبدالرحمن بن سعدؓ کہتے ہیں میں حضرت ابن عمرؓ کے پاس تھا ان کا پاؤں سو گیا۔ میں نے کہا اے ابو عبدالرحمن !آپ کے پاؤں کو کیا ہوا؟ انہوں نے کہا یہاں سے اس کا پٹھا اکٹھا ہو گیا ہے۔ میں نے کہا آپ کو جس سے سب سے زیادہ محبت ہے اس کانام لے کر پکاریں۔ (انشاء اﷲ پاؤں ٹھیک ہو جائے گا)انہوں نے کہا اے محمدؐ !اور یہ کہتے ہی ان کا پاؤں ٹھیک ہو گیا اور انہوں نے اس کو پھیلا لیا۔

قارئین! زخم زخم ماحول کے اندر لہو لہو دل کے ساتھ آج کچھ انتہائی دردناک باتیں آپ کے گوش گزار کرنا ہیں اس وقت مملکت خداداد پاکستان میں ’’درد کا موسم‘‘اپنی تمام تر ہولناکی کے ساتھ چھایاہوا ہے ۔بین الاقوامی حالات کے تناظر میں اگر دیکھیں تو یوں دکھائی دیتا ہے کہ جیسے جنگل کے زمانے کا قانون آج پاکستان کے گلیوں کوچوں میں نافذ ہے صرف اور صرف طاقت اور ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کی عمل داری دکھائی دیتی ہے اور قانون ،انصاف ، عدل اور اخلاقیات کے تمام پیمانے جیسے ٹوٹے پڑے سسکیاں لے رہے ہیں خدا ہی کے نام پر خداہی کے بندے خداہی کے کنبے کو اس طرح قتل کر رہے ہیں کہ جیسے کسی پاگل کتے کو خطرہ سمجھ کر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔مرنے والا بھی خود کوحق پر سمجھتا ہے اور مارنے والا بھی اپنے آپ کو ’’غازی‘‘ کے درجے پر فائز کر رہا ہوتا ہے طرفین میں جو بھی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے اس کے ’’خود ساختہ‘‘ لواحقین اسے ’’شہادت‘‘ کے مرتبے پر فائز کردیتے ہیں۔ آخر یہ سب کیا ہے اس سب بکواس بازی کا مقصد کیا ہے بقول شاعر
جینے کی ادا یاد نہ مرنے کی ادا یاد

قارئین !راولپنڈی میں دس محرم الحرام کو ماتمِ امام حسینؓ کے موقع پر جس طرح حضرت علیؓ کا نام لینے والوں نے صحابہ کرامؓ کے سپاہیوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا اور اس کے بعد فریق دوم نے ملتان ،چشتیاں ،بہاولنگر اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں شیعان اور محبانِ علیؓ کے ساتھ جو ’’شفقت بھرا برتاؤ‘‘ کیا اس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ جیسے اس ملک میں مسلکی خانہ جنگی اب اپنے عروج پر پہنچنے والی ہے۔ ابن انشاء نے اپنی ایک نظم میں ملک کی اس صورتحال کا نقشہ کچھ اس انداز سے کھینچا تھا کہ وہ پوچھتے ہیں کہ یہ کون سا ملک ہے تو بتایا جاتا ہے کہ یہ برطانیہ، امریکہ، فرانس اور دیگر ممالک ہیں او ر ان ممالک میں برطانوی، امریکی اور فرانسیسی شہری رہتے ہیں اور اس کے بعد وہ پاکستان کا ذکر کرتے ہیں اور خود ہی سوا ل کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یقینا یہاں پر پاکستانی قوم رہتی ہو گی تو جواب ملتا ہے کہ نہیں یہاں پنجابی، سندھی، پٹھان، بلوچی، شیعہ، سنی اور دیگر لوگ رہتے ہیں اس پر وہ حیرانگی سے سوال کرتے ہیں کہ اگر یہ سب علیحدہ علیحدہ قومیتوں کے لوگ یہاں رہتے ہیں تو پھر پاکستان نام کا یہ ملک بنایا کیوں تھا تو اس پر معصومانہ جواب ملتا ہے ’’جی آئندہ نہیں بنائیں گے‘‘

قارئین!ہم نے ایف ایم 93میرپور ریڈیو آزاد کشمیرکے سٹیشن ڈائریکٹر چوہدری محمد شکیل کی خصوصی ہدایت پر ریڈیوکے مقبول ترین پروگرام’’لائیو ٹاک ود جنیدانصاری‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ رکھا جس کاعنوان ’’مذہبی ہم آہنگی لیکن کیسے‘‘ تھا اس موضوع پر گفتگو کرنے کے لئے تین اہم ترین شخصیات نے حامی بھری کہ وہ بات کریں گے ڈاکٹر معید پیرزادہ بین الاقوامی سطح کے دانشور، تجزیہ کار، صحافی اور پاکستان میں الیکٹرانک جرنلزم کے تین بڑے ناموں میں سے ایک ہیں۔ ہمارے ان سے دوستانہ مراسم کی وجہ ان کے والد گرامی ڈاکٹر غلام محی الدین پیرزادہ ہیں جو ہماری اور پوری کشمیری قوم کی رائے کے مطابق کشمیر کے سب سے بڑے ’’طبی محسن‘‘ ہیں ڈاکٹر غلام محی الدین پیر زادہ نے پچاس سال سے زیادہ عرصہ اہل کشمیر کو اپنی پیشہ وارانہ خدمات سے نوازا اور ان سے مستفید ہونے والے ’’مریضوں اور مریدوں‘‘ کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ ڈاکٹر جی ایم پیرزادہ ہمارے بزرگ اور دوست ہیں اور کالم نگاری میں راقم کے قدم رکھنے کی وجہ ڈاکٹر پیر زادہ اور ان کی اہلیہ مرحومہ ہیں جنہوں نے ہمیں جرنلزم میں کالم نگاری کا صائب مشورہ دیا تھا۔ ڈاکٹر معید پیرزادہ نے اس پروگرام میں گفتگو کرنے کا شرف بخشا اور ان کے ساتھ آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے ڈپٹی اپوزیشن لیڈر چوہدری طارق فاروق رہنما مسلم لیگ ن آزاد کشمیر اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق جنرل سیکرٹری اور ایک بڑے ٹی وی نیوز چینل کے ڈائریکٹر نیوز اینڈ کرنٹ افیئرز مظہر عباس نے بھی گفتگو میں حصہ لینے کی حامی بھری۔ ڈاکٹر معید پیر زادہ نے کہاکہ اس وقت پاکستان میں افغان وار کے آفٹر شاکس کا سلسلہ جاری ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں مسلکی بنیادوں پر مختلف گروہ آپس میں محو دست وگریبان ہیں پاکستان میں 9/11 کے بعد ڈرامائی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں اور امریکہ کی ترجیحات تبدیل ہونے کی وجہ سے عالمی منظر نامہ بھی بدل گیا۔9/11سے پہلے مسئلہ کشمیر پاکستان کی خارجہ پالیسی کا فرنٹ پیج تھا لیکن دہشتگردی کے خلاف امریکی جنگ کی وجہ سے بھارت نے نام نہاد جہادیوں کو دہشتگرد ثابت کرتے ہوئے ایک سازش کے ذریعے پاکستان کو بیک فٹ پر آنے پر مجبور کر دیا یہی وجہ ہے کہ آج مسئلہ کشمیر ایک کمزور پوزیشن پر آچکا ہے ۔ڈاکٹر معید پیرزادہ نے کہاکہ سانحہ راولپنڈی کے بعد وزیراعظم پاکستان اور ریاستی اداروں کو سوچنا ہو گا کہ کس طرح اس آگ کو بجھایا جائے جو پاکستان کو جلا رہی ہے ۔پاکستان اور آزاد کشمیر میں ملائشیا سے سبق سیکھ کر ہم آہنگی پیدا کی جا سکتی ہے ملائیشیا میں کوالالمپور میں مرکزی جامع مسجد میں ایک اذان ہوتی ہے جو ریڈیو لنک کے ذریعے پورے شہر میں موجود تمام مسجدوں میں گونجتی ہے اور تمام ملائشین مسلمان ایک ہی وقت میں نماز ادا کرتے ہیں اسی طرح ترکی، سعودی عرب اور دیگر ممالک سے بھی ہم اچھا سبق سیکھ سکتے ہیں کہ انہوں نے فرقہ واریت پر کس طریقے سے قابو پایا ہے ۔ڈاکٹر معید پیر زادہ نے کہاکہ صحابہ کرامؓاور دیگر مقدس شخصیات کی شان میں گستاخی پر مبنی تمام لٹریچر اور کتابوں پر پابندی عائد کرنا انتہائی ضروری ہے اور یہ کام ریاست کا ہے کہ اگر مارشل لاء کے ادوار حکومت اور جمہوری حکومتوں کے دور میں میڈیا اور ٹی وی چینلز پر پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں تو مختلف مسلک سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے والے لٹریچر اور کتابوں پر پابندی کیوں نہیں عائد کی جا سکتی ۔ڈاکٹر معید پیر زادہ نے کہاکہ آزاد کشمیر میں مسلکی حوالے سے ایک خوبصورت مثال موجود ہے کہ یہاں پر اہل سنت ،اہل حدیث، اہل تشیع سے لے کر ہر مکتبہ فکر کے لوگ موجود ہیں جو اپنے اپنے عقائد کے مطابق اپنی مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں لیکن کشمیر میں کبھی بھی کسی بھی نوعیت کی لڑائی یا جھگڑا دیکھنے میں نہیں آتا اس کی ایک وجہ تو یہ بھی ہے کہ اسلام آباد اور مظفرآباد کی حکومتوں نے انتہائی سختی کیساتھ اس پالیسی پر عمل کیا ہے کہ افغان جنگ کے کسی بھی قسم کے اثرات آزاد کشمیر پر مرتب نہ ہونے دیئے جائیں اس کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ مسئلہ کشمیر کی پوزیشن مسلکی خانہ جنگی کی نذرہونے سے بچ گئی ۔ڈاکٹر معید پیرزادہ نے کہاکہ میاں نواز شریف وزیراعظم پاکستان اور ریاستی سلامتی کے لئے کام کرنے والے تمام اداروں کو سانحہ راولپنڈی سے سبق سیکھنا ہو گا اور وہ عملی اقدامات اٹھانا ہونگے کہ جن سے ملک انتشار سے بچ سکے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ڈپٹی اپوزیشن لیڈر ورہنما مسلم لیگ ن آزاد کشمیر چوہدری طارق فاروق نے کہاکہ اس بات پر زیرو ٹالرینس ہونی چاہیے کہ کوئی بھی گروہ یا طبقہ صحابہ کرامؓاور اہل بیتؓکے بارے میں کسی بھی نوعیت کی گستاخی کرے اس حوالے سے اگر قانون سازی بھی کرنا پڑتی ہے تو کی جائے یہ شخصیات ہر مسلمان کے ایمان کا لازمی حصہ ہیں اور یہ ایک بہت بڑی سازش ہے کہ ملک میں ایسا غلیظ لٹریچر اور کتابیں پھیلائی جاتی ہیں کہ جن سے معصوم مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں حکومت اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرے چوہدری طارق فاروق نے کہاکہ راولپنڈی سانحہ میں معصوم انسانی جانوں کا ضیاع انتہائی افسوسناک ہے ہمیں اس سلسلہ میں ان مسلمان ممالک سے رہنمائی لینی چاہیے کہ جہاں مذہبی عقائد رکھنے والے مسلمان اور روشن خیال انسان اپنے اپنے خیالات کے مطابق آزادی اور امن کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں ۔آزاد کشمیر اس حوالے سے ایک نعمت سے کم نہیں کہ پاکستان کے چاروں صوبوں کے برعکس آزاد کشمیر میں آج تک مسلکی اختلاف کی بنیاد پر چھوٹا سا جھگڑا تک بھی کبھی نہیں ہوا ۔ چوہدری طارق فاروق نے کہاکہ ہمیں اسلام کے آفاقی پیغام سے سبق سیکھنا ہو گا اور دین پر دل سے عمل پیرا ہونا ہوگا۔

قارئین!یہ تو وہ گفتگو ہے کہ جو ان دو انتہائی معتبر شخصیات نے ہمارے پروگرام میں لاکھوں سامعین کی نذر کی۔ پروگرام کے تیسرے مہمان مظہرعباس عین موقع پر مصروفیت کی وجہ سے شریک گفتگو نہ ہو سکے اور انہوں نے وعدہ کیا کہ آئندہ کسی پروگرام میں وہ ضرور شرکت کریں گے ۔ان تمام باتوں سے جو سبق ملتا ہے وہ آپ خود ہی اخذ کیجئے لیکن یہاں پر چند گزارشات ہم اپنے ناقص خیالات کے مطابق آپ کی نذر کرنا چاہتے ہیں۔آخر ایسا کیوں ہوا کہ جب 1979ء میں ایران میں ایک انقلاب آیا جسے بعض دوست ’’اسلامی انقلاب‘‘کہتے ہیں اور بعض نکتہ چیں احباب اسے ’’خمینی شیعہ انقلاب‘‘کے عنوان سے یاد کرتے ہیں ناقدین کا کہنا ہے کہ اس انقلاب کے بعد ایک سازش کے ذریعے 65فیصد شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والی ایرانی مملکت میں کچھ ہی عرصہ میں 98فیصد آبادی شیعہ کہلانے لگی اور اس کی وجہ بقول ان کے ریاستی طاقت کااستعمال کرتے ہوئے اہل سنت علماء وعوام کا قتل عام تھا اور اہل سنت کو مجبور کیاگیا کہ وہ شیعہ مسلک اختیار کریں بصور ت دیگر یہ ملک یا دنیا چھوڑ دیں ان ناقدین کے مطابق بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس اس حوالہ سے ایک مصدقہ ثبوت ہیں ناقدین کا یہ الزام بھی ہے کہ جب ایران میں انقلاب آیا تو اس کے بعد ایرانی حکومتوں نے پاکستان میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی سرپرستی شروع کردی اور اربوں روپے کاسرمایہ اس مقصد کیلئے پاکستان میں تقسیم کیاگیا کہ یہاں پر بھی شیعہ مسلک کو بہتر پوزیشن پر لایاجائے دوسری جانب اہل تشیع مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے دوستوں کایہ خیال ہے کہ سعودی عرب اور اس جیسے دیگر ممالک پاکستان میں ’’دیوبندی اوروہابی ‘‘فیکٹر کو سرمایہ فراہم کرکے انہیں اسلحے سے لیس کررہے ہیں تاکہ خطے میں اہل تشیع کا بڑے پیمانے پر قتل عام کیاجاسکے اور پاکستان میں اسی بنیاد پر سپاہ صحابہؓ پاکستان،لشکر جھنگوی اور طالبان کو گروہوں کی شکل میں منظم کیاگیا جبکہ اہل سنت حضرات کا یہ کہنا ہے کہ جب ایرانی انقلاب کے بعد پاکستان میں صحابہ کرام ؓ کی شان میں گستاخی پر مبنی گھٹیا اور غلیظ لٹریچر اور کتابیں ایرانی سرمایہ کی مددسے لاکھوں کی تعداد میں تقسیم کی گئیں تو اس سے اہل سنت کے جذبات مجروح ہوئے اور ردعمل کے طور پر جھنگ سے تعلق رکھنے والے مولانا حق نواز جھنگوی نے سپاہ صحابہ ؓ پاکستان قائم کی یہ تنظیم بعد میں لشکر جھنگوی اور دیگر ناموں کے ساتھ بھی کام کرتی رہی ابتدا میں جب افغانستان میں روس کے ساتھ جنگ جاری تھی تواس وقت یہ تنظیمیں جہاد افغانستان میں حصہ لیتی رہیں بعد میں ترجیحات کے تبدیل ہونے پر پاکستانی حکومتوں نے بھی ان جہادی تنظیموں کے متعلق اپنی پالیسی بدل دی -

قارئین کچھ بھی ہو اس وقت پاکستان انتہائی خطرناک صورتحال کاسامنا کررہاہے اگر مسلکی خانہ جنگی کنٹرول نہ ہوئی تو پاکستان کے دشمن ممالک کوانگلی ہلانے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی اور دنیا کی پہلی اسلامی جوہری طاقت اپنی ہی آگ کے اندر جل کر خاک ہوجائیگی حکومت پاکستان اور ریاستی اداروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ دونوں اطراف کے لگائے گئے الزامات کی مکمل چھان بین کریں اور اصل مجرموں کو پکڑ کر آہنی ہاتھوں کے ساتھ ان کا سدباب کردیں باقی رہی بات صحابہ کرام ؓ اور اہل بیت ؓ کی شخصیات کی تو ہمارا ایمان ہے کہ جو بھی فرد مسلمان ہونے کا دعوی کرکے ان شخصیات کے متعلق زر ا سی بھی بے احتیاطی کرتا ہے اس کا ایمان مشکوک ہے چہ جائیکہ ان شخصیات کی شان میں گستاخی کی جائے ایسا کرنے والا ہر گز مسلمان نہیں ہوسکتا اس وقت پاکستان زخم زخم ہے اور گھات لگائے شکاری نہ صرف پاکستان کو توڑنا چاہتے ہیں بلکہ کشمیر کی آزادی کے بھی دشمن ہیں اگر ہم غالب کی زبان میں کہیں تو شاید کچھ یوں ہوگا
غافل ،بہ وہم ِناز ِ خود آرا ہے ،ورنہ یاں
بے شانہ ء صبا نہیں طرہ گیاہ کا
بزم ِ قدح سے عیشِ تمنا نہ رکھ کہ رنگ
صید ِ زدام جستہ ہے اس دام گاہ کا
رحمت اگر قبول کرے کیا بعید ہے
شرمندگی سے عذر نہ کرنا گناہ کا
مقتل کو کس نشاط سے جاتا ہوں میں کہ ہے
پُر گل ، خیال ِ زخم سے دامن نگاہ کا

قارئین کچھ بھی ہو ہمیں اس بات پر ایمان کی حد تک یقین ہے کہ دین اسلام کے اصل پیروکار نہ تو قاتل ہیں اور نہ ہی دوسروں کی عزت اورآبرو کے دشمن ۔ایسا کرنے والا ہر فرد اور گروہ اسلام کے پردے میں اسلام دشمنی کامرتکب ہورہاہے دین وہی ہے جو محمد ﷺ اور آپ ؐ کے صحابہ ؓ نے اپنی سیرت کی شکل میں امت کے سامنے پیش کیا ہمیں پاکستان اور آزادکشمیر میں نہ تو ’’ایران مارکہ اسلام ‘‘ چاہیے اور نہ ہی ’’کسی اور مارکے ‘‘ کے اسلام کی ہمیں ضرورت ہے ہمیں قرآن وحدیث کادامن تھامتے ہوئے اسلام کے اصل پیغام پر عمل کرنا ہوگا یہی آج کا پیغام اورآج کی آواز ہے ۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک دفتر میں خاتون نے اپنے باس سے شکایت کی
’’میرے ساتھی روزانہ مجھے جھوٹ بولنے پر مجبور کرتے ہیں ‘‘
باس نے حیران ہوکر پوچھا وہ کیسے ؟
خاتون نے شرماتے ہوئے جواب دیا
’’ وہ روزانہ مجھ سے میری عمر پوچھتے ہیں ‘‘

قارئین ہم سمجھتے ہیں کہ الزام لگانے والے جھوٹے لوگ بھی جھوٹ بول رہے ہیں اور دوسروں پر جھوٹ کا الزام لگارہے ہیں -

Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 336890 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More