مہمانی، میزبانی -کچھ آداب، کچھ اصول

اسلام نے انسانی نظامِ زندگی کے ہر شعبہ میں رہنمائی کی ہے لیکن مسلم معاشرے میںرفتہ رفتہ بگاڑ آنے کی وجہ سے بہت سی ایسی غلط روایات شامل ہوگئی ہیں جو ہماری زندگی کا اٹوٹ حصہ بن چکی ہیںاور اب ان کو توڑنا تو دور، ان پر بات کرنا بھی ’بھڑ‘کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے۔یہ بات بھی واضح ہے کہ ان روایات کے ساتھ ہم جس حال میں ہیں اور جو تکلیفیں برداشت کر رہے ہیں ، ان سے کوئی بھی خوش نہیں ہے مگر صرف اس وجہ سے کہ ’دنیا کیا کہے گی‘اپنانے پر مجبور ہیںاور دل کو تسلی دینے کے لیے سوچتے ہیں کہ یہ سب ہم مسلمان ہونے کے ناطے کر رہے ہیں۔

جن روایات کو ہم نے ’اسلامی روایات‘ سمجھ کے اپنا لیا ہے ان میں سے ایک مہمان نوازی میں’ غلو‘ ہے۔ ہم میں سے اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ مہمانوں کے لیے دروازے ہمیشہ ہر حال میں کھلے رکھنے چاہیے،اس سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے، جس گھر میںجتنے زیادہ مہمان آئیں گے، اسے معاشرے میں اتنا اونچا مقام ملے گا اور یہ کہ وہ اپنا حصہ لے کر آتے ہیں۔ یہ باتیں صحیح نہیں ہیں۔مہمان بلاشبہ اللہ کی رحمت ہوتے ہیں اور ان کے آنے سے برکت بھی ہوتی ہے۔ مہمان نوازی کے لیے کہا بھی گیا ہے، کیونکہ اس سے تعلقات جڑتے ہیں اور یہ نیک بندوں کی صفات میں سے ہے۔ارشادِ باری ہے:
و الذین یصلون ما امر اللہ بہ ان یوصل و یخشون ربھم و یخافون سوءالحساب(الرعد:۱۲)
” اللہ تعالی نے جن تعلقات کو جوڑنے کا حکم دیا ہے، انھیں وہ جوڑتے ہیں،اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ ان سے بری طرح حساب نہ لیا جائے“

لیکن اس میں اعتدال ہونا چاہیے۔قرآن و حدیث نے رہنمائی بھی کی ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ شریعت کے نظر میں ایک مہمان کے لیے کن باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے:
مسلمانوں سے کہا گیا کہ جب کسی کے گھر جائیں تو پہلے اس سے باقاعدہ اجازت لیں، تاکہ اس کی پرائیویسی متاثر نہ ہو ۔ارشاد ہے:
یا ایھا الذین آمنوا لا تدخلوا بیوتا غیر بیوتکم حتی تستانسوا و تسلموا علی اھلھا ذلکم خیر لکم لعلکم تذکرون۔فان لم تجدوا فیھا احدا فلا تدخلوھا حتی یوذن لکم و ان قیل لکم ارجعوا فارجعوا ھو ازکی لکم و اللہ بما تعملون علیم۔(النور:۷۲،۸۲)
”ائے ایمان والو! اپنے گھر کے سوا اور گھروں میں نہ داخل ہو جاﺅ جب تک کہ اجازت نہ لے لو، یہی تمہارے لیے سراسر بہتر ہے تا کہ تم نصیحت حاصل کرو۔ اگر وہاں تمہیں کوئی بھی نہ مل سکے تو پھر اجازت ملے بغیر اندر نہ جاﺅاور اگر تم سے لوٹ جانے کو کہا جائے توتم لوٹ ہی جاﺅ، یہی بات تمہارے لیے پاکیزہ ہے، جو کچھ تم کر رہے اللہ تعالی خوب جانتا ہے“

اس میں اجازت کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کیا ہم آ سکتے ہیں؟کوئی مصروفیت تو نہیں ہے؟ ایک لفظ کے ہیر پھیر سے بہت فرق پڑجاتا ہے۔ کچھ لوگ فون کرکے کہہ دیتے ہیں کہ ’ہم آرہے ہیں‘یا گھر کے بچوں، ملازموں کو بتا دیتے ہیں کہ’ ہم آرہے ہیں‘۔اس طرح سے کہلانا غلط ہے بلکہ باقاعدہ اجازت لیں تاکہ سامنے والا مصروف ہو تو منع کر سکے اور اس پر برا ماننے کی ضرورت نہیں ہے۔

اجازت نہ دینے کا حق اللہ تعالی نے سب کو دیا ہے۔پھر ایک فائدہ یہ ہوگا کہ انسان کو علم بھی ہو جائے گا کہ جس سے ملنے وہ جا رہا ہے ،وہ موجود ہے یا نہیں ؟اس سے وقت اور روپئے کا ضیاع نہیں ہوگا۔

مغربی لوگ پرائیویسی کے معاملے میںبہت محتاط ہیں اسی لیے وہ ملنے کا پہلے وقت لیتے ہیں اور ان کی کوشش یہ رہتی ہے کہ گھر میں بیٹھ کر دوسروں کو ڈسٹرب کرنے کے بجائے باہر سے ہی بات کرکے لَوٹ جائیں الاّ یہ کہ باقاعدہ دعوت ملی ہو۔اب اگر کسی نے اس کو اپنانے کی کوشش کی تو اس کو ’بدتمیز یاانگریزیت سے مرعوب‘ کا خطاب دے دیا جائے گا۔

دوسری بات یہ ہے کہ میزبان کا کم سے کم وقت لینا چاہیے، وہ آپ سے مروتاً کچھ نہیں کہے گالیکن ممکن ہے دل ہی دل میں آپ کو برا بھلا کہہ رہا ہو۔نبیِ کریم ﷺ کے پاس بعض لوگ دیر تک بیٹھے رہتے تھے اور آپ ﷺ لحاظ میں کچھ کہتے نہیں تھے تو اللہ تعالی نے فرمایا:
یا ایھا الذین آمنوا لا تدخلوا بیوت النبی الا ان یوذن لکم الیٰ طعام غیر نٰظرین انٰہ و لکن اذا دعیتم فادخلوا فاذا طعمتم فانشروا و لا مستانسین لحدیث ان ذٰلکم کان یوذیٰ النبی فیستحی منکم و اللہ لا یستحی من الحق(الاحزاب:۴۵)
” ائے لوگو جو ایمان لائے ہو! نبیﷺ کے گھروں میں بلا اجازت نہ چلے آیا کرو۔ نہ کھانے کاوقت تاکتے رہو۔ ہاں اگر تمہیں کھانے پر بلایا جائے تو ضرور آﺅ۔مگر۔جب کھانا کھا لو تو منتشر ہو جاﺅ، باتیں کرنے میں نہ لگے رہو، تمہاری یہ حرکتیں نبی ﷺ کو تکلیف دیتی ہیں مگر وہ شرم کی وجہ سے کچھ نہیں کہتے اور اللہ حق بات کہنے میں نہیں شرماتا“

اس لیے خیال رکھنا چاہیے کہ میزبان کو آپ کی وجہ سے کسی طرح کی کوئی تکلیف یا ذہنی پریشانی نہ پہنچے۔

میزبان کے لیے بھی شریعت نے کچھ احکام بتائے ہیں، جن پر عمل کر کے نہ صرف ذہنی پریشانی سے بچا جا سکتا ہے بلکہ وقت اور روپئے وغیرہ کا صحیح استعمال بھی ہو سکتا ہے۔

آج اگر ہم اپنی زندگی پر نظر ڈالیں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہم اکثرکا م دوسروں کو دکھانے کے لیے کرتے ہیںمثلاً بڑے بڑے گیسٹ روم بنائے جاتے ہیں ،بکس بھر کے بستر رکھے جاتے ہیں، سارے دن گھر کی صفائی ہوتی رہتی ہے۔ صرف اس وجہ سے کہ کبھی بھی مہمان آ سکتے ہیںاور یہ بھی کہ لوگ مہمان نواز سمجھیں ۔پھر مہمانوں کی خاطر داری کے لیے ملازم رکھے جاتے ہیں کہ وہ ان کے سامنے دس طرح کی ڈشیں سجا کر پیش کر سکیں۔اب وہ کتنے کا سامان لا رہے ہیں، کتنا اپنی جیب میں رکھ رہے ہیں،گھر کے رازوں کو کہاں کہاں پھیلا رہے ہیں اور بچے بچیوں کو ان کی وجہ سے کیا نقصانات پہنچ رہے ہیں؟ان سب پر توجہ نہیں دی جاتی ہے۔

کلّی طور سے اپنی زندگی دوسروں کے لیے گذارنی پڑتی ہے۔اب اگر کوئی آگیا تو آپ کی ساری’ محنت‘ وصول ہو گئی اور اگر نہیں آیا تو زندگی کا ایک دن اس انتظار میں گذر گیا کہ کوئی تو آ ہی سکتا ہے۔اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خواتین نہ تو دینی کتابوں کا مطالعہ کر پاتی ہیں اور نہ دین کی اشاعت و تبلیغ میں حصہ لے پاتی ہیں۔ان سے پوچھا جائے کہ دینی اجتماعات میں شرکت کیوں نہیں کرتی ہیں؟ جواب ملتا ہے کہ کیا بتائیں مہمانوں سے فرصت ہی نہیں ملتی ہے-

نبیِ کریمﷺ سے زیادہ مہمان نواز کون ہوگا؟لیکن آپﷺ نے نہ تو بڑے مہمان خانے بنوائے اور نہ ہی کھانے پینے کے سامان اکٹھا کر کے رکھا کہ کب مہمان آ جائیں؟ہاں جب کوئی آتا تو جو کچھ ہوتا ،اسے پیش کر دیتے تھے۔ہم لوگ بھی یہ کام کر سکتے ہیںمگر مسئلہ وہی ہے کہ ’دنیا کیا کہے گی‘ اور لوگ کیا سوچیں گے؟

ایک خاص بات یہ کہ مہمان نوازی اتنی نہ ہو کہ گھر کی عورتیں پریشان ہو جائیں اور ان کو اپنے دوسرے کاموں کے لیے وقت ہی نہ مل سکے۔ رمضان کریم میں عموماً ایسا ہوتا ہے۔اکثر ہندوستانی شوہروں کے دماغ میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ بیوی تو بس’ کھانا پکانے اور سب کی خدمت کرنے‘ کے لیے ہوتی ہے ۔اسی وجہ سے ان کی مرضی و خواہش کا خیال کئے بغیر وقت بے وقت مہمانوں کو ساتھ لیے گھر چلے آتے ہیں اورحکم صادر کر دیا جاتا ہے کہ کھانا بنا دو، وہ بھی اہتمام کے ساتھ۔بیوی بیمار ہے تو ہوا کرے اور خود کسی بھی طرح کی مدد کرنا ’مردانگی‘ کے خلاف سمجھتے ہیں۔ یہاں پر نبی کریم ؑ کا طریقہ ان کی نظروں سے غائب ہو جاتا ہے۔آپ ﷺ جب گھر میں تشریف لاتے تو آج کل کے ’بڑے نوابوں‘کی طرح گھرمیں بیٹھ نہیں جاتے تھے، بلکہ کاموں میں پوری دلچسپی لیتے تھے۔

حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اسودؓ نے ان سے پوچھا کہ نبی کریمﷺ جب گھر تشریف لاتے تو کیا کرتے تھے؟ فرمایا:
” وہ اپنے اہلِ خانہ کے کاموں میں لگے رہتے تھے اور جب نماز کا وقت آتا تو اس کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے تھے،اور آپ ﷺ کپڑے صاف کرتے تھے، بکری کا دودھ بھی نکالتے تھے، اپنے کپڑے خود سی لیتے تھے اور اپنے جوتے خود مرمت فرما لیا کرتے تھے “

ہمارے یہاں مرد حضرات بیوی کی مدد کرنا تو دور خود ہل کر پانی نہیں پی سکتے ،وہ بھی لا کر پیش کیا جائے گا تب حلق سے نیچے اترے گا۔

آخری بات یہ کہ ہم گھروں کو چوبیس گھنٹہ صاف ستھرا رکھنے اور اچھا کھانا پکانے کے تو اس دنیا میں بھیجے نہیں گئے ہیں ۔آخرت میں ہر انسان کا حساب اس کے اچھے برے اعمال سے ہوگا، نہ کہ یہ پوچھا جائے گا تم نے کتنے طرح کے کھانے پکائے ؟اور کتنی بار گھر کی صفائی کی؟ویسے بھی آج کے اس مادہ پرستانہ دور میں عموماً تعلقات دنیاوی فائدے کے لیے بنائے جاتے ہیںاور اسی مقصد سے مہمان نوازی کر کے خوش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن یاد رہے ایسی مہمان نوزی جس میں ریا کاری ہو یا اللہ تعالی کے حکم کے مطابق نہ ہو تو نہ صرف دنیاوی لحاظ سے وہ غیر مفید ہے بلکہ آخرت میں بھی اس کا کوئی اجر نہیں ہے۔

موجودہ دور میں مسلمان’ مہمان نواز‘ سمجھے جاتے ہیں لیکن اس کے علاوہ دیگر میدانوں میں ان کی کیا حیثیت ہے ، اس سے ہم سبھی واقف ہیں۔اس لیے مہمان نوازی میں غلوسے اجتناب کرنا چاہیے ۔

Osama Shoaib Alig
About the Author: Osama Shoaib Alig Read More Articles by Osama Shoaib Alig: 65 Articles with 202591 views Osama Shoaib Alig is a Guest Faculty of Islamic Studies at Jamia Millia Islamia, New Delhi. After getting the Degree of Almiya from Jamiatul Falah, Az.. View More