کشمیر دنیا کا خوبصورت ترین خطہء ارض بھی اور خطرناک ترین
سرزمین بھی ہے ۔خوبصورتی تو اسے مصورِ کائنات نے عطا کی لیکن خطرناک اسے
ریڈ کلف ایوارڈ کی جانبداری اور بھارت کی ہٹ دھرمی اور ہوس ملک گیری نے
بنایا۔ 1947 میں ہندوستان کی تقسیم کے وقت جو جرم کیا گیا اور گورداسپور
اور فیروز پور کے اضلاع بھارت کے حوالے کر کے اُسے کشمیر میں داخلے کا
راستہ دے دیا گیا پھر 1948 میں مہاراجہ ہری سنگھ سے مسلم اکثریتی ریاست کا
بھارت سے الحاق کرواکر ایک ایسے تنازعے کو جنم دیا گیا جس نے دو پڑوسی
ممالک میں کسی بھی قسم کے اچھے تعلقات کی ہر امید ختم کر دی جس کا ثبوت وہ
جنگیں اورجھڑپیں ہیں جو اِن دونوں ممالک کے درمیان جاری رہتی ہیں اور
ہزاروں انسانو ں کو نگل چکی ہیں۔ اسی مسئلہ کشمیر کی بدولت بھارت اور
پاکستان اپنے دفاع پر زیادہ اور ترقی پر کم خرچ کرتے ہیں سرحدوں پر رہنے
والے ہر وقت خطرے کے عالم میں رہتے ہیں کیونکہ بھارت کسی بھی وقت اپنی ’’قوت‘‘
کا مظاہرہ کرنے کے لیے فائر کھول دیتا ہے اور خودوادی کے اندر کے لوگوں کی
زندگی تو ہر وقت بھارت کی فوج اور کالے قوانین کی زدپر رہتی ہے ۔ بھارت
اپنے تمام حربے آزما چکا ہے کہ کشمیریوں کے دل سے آزادی کی تڑپ ختم کر دے
اُس نے ظالمانہ اور جابرانہ قوانین بھی لاگو کیے اور قتل عام بھی کیا،
جوانوں، بوڑھوں، عورتوں اور حتیٰ کہ بچوں کا خون بہایا ہر ایک کو مارا ،نہ
مار سکا تو آزادی کی خواہش کو ۔ اُس نے ایک وادی میں سات لاکھ فوج متعین
بھی کرلی، اس کو تمام تر جدید اسلحے سے بھی لیس کیا اور اختیارات سے بھی ،آزادی
کی تحریک کو دہشت گردی کا نام دے کر بدنام بھی کیا لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ
کشمیری اور زیادہ زور و شور سے اپنا حق آزادی مانگنے لگے ہیں ۔ بھارت نے
کشمیر میں ہر قسم کی بھارت مخالفت کو پاکستان کے کھاتے میں ڈالنے کی روش
اپنائی ہوئی ہے اور مسلسل یہ الزام تراشی کرتا ہے کہ پاکستان کشمیر میں
مداخلت کرتا ہے اور در انداز داخل کرتا ہے جو وہاں’’بدامنی‘‘ پھیلاتے ہیں
اگرچہ یہ بدامنی جسے کشمیری تحریک آزادی کشمیر کہتے ہیں خود کشمیریوں کی
ظلم کے خلاف جدوجہد ہوتی ہے۔ اب بھارت نے کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ بنا دینے
کے لیے ایک اور تجویز اور تدبیر کرنے کا ارادہ کیا ہے اور وہ ہے پاک بھارت
سرحد پر 198 کلومیٹر لمبی ، ایک سوپینتیس فٹ چوڑی اور دس میٹر اونچی دیوار
کی تعمیر۔ اخبار دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق انسپکٹر جنرل بارڈر سیکیورٹی
فورسز جموں فرنٹیر ایس ایس تومار نے اس دیوار کی تعمیر کا اعلان کیا اور
ساتھ ہی اس کے لیے ایک غیر معقول تو جیہہ بھی پیش کی کہ اس طرح سرحد پر
ہونے والی کشیدگی اور فائرنگ میں شہریوں کی ہلاکت کو کم کیا جا سکے گا وہ
اس بات کی گارنٹی نہیں دے رہے کہ فائرنگ نہیں ہوگی اگر فائرنگ ہوگی تو
یقیناًوہ اس دیوار کے اوپر سے ہوگی اور اوپر سے نیچے کا نشانہ لینا برابر
کے نشانے سے کہیں آسان ہوتا ہے یعنی بڑی آسانی سے پاکستانی فوجیوں اور
شہریوں کا نشانہ لیا جا سکے گا ۔یہ دیوار 122 دیہات سے گزرے گی اور اکنور
سے کتھواکے اضلاع کے درمیان ہوگی دیہاتیوں سے زمین خرید نے کا کام جلد شروع
ہو جائے گا۔
بھارت کشمیر میں ’’دیوار برلن‘‘ تعمیر کرکے اگر یہ سمجھے گا کہ وہ کشمیر
میں امن قائم کرلے گا تو یہ اُس کی خام خیالی ہے جب سرحد کے دونوں طرف رہنے
والے خاندانوں کے درمیان ایک ایسی دیوار کھینچ دی جائے گی کہ ان کے آپس میں
کبھی بھی ملنے کی امید ختم ہو جائے تو کیا وہ اسے اپنی قسمت سمجھ کرقبول
کرلیں گے بھارت کو تاریخ پڑھ لینی چاہیے کہ ایسا ہوتا نہیں ہے اگر ایسا
ہوتا تو 1961 میں تعمیر ہونے والی دیوار برلن صرف اٹھائیس سال بعد نہ توڑی
جاتی اور اس کو توڑتے ہوئے جرمنوں کا جوش و خروش بھی مانند ہوتا۔ کشمیر کو
مستقل تقسیم کرنے کی کوشش میں بھارت کی یہ کوشش بھی یقیناًدونوں طرف کے
کشمیریوں کو نہ صرف یہ کہ قابل قبول نہیں ہو گی بلکہ وہ یقیناًاس کی شدید
مخالفت بلکہ مزاحمت کریں گے۔
یہ دیوار کشمیر کی مستقل تقسیم کی کوشش تو ہے ہی لیکن یہ بھارت کی اُس نیت
کی غماز بھی ہے جو وہ پاکستان کے لیے رکھتا ہے اور ہمارے خواب دیکھنے اور
دکھانے والوں کے لیے بھی ایک چیلنج ہے جو’’ امن کی آشا ‘‘کی بات کرتے ہوئے
بھارت کی شدت پسندی کو بھلا دیتے ہیں اور ان حکمرانوں اور لیڈروں کی آنکھیں
کھولنے کے لیے بھی کافی ہیں جو ویزا کی پابندیاں بھی ختم کرنے کی بات کرتے
ہیں ۔ ہمارے وزیراعظم نے بین الاقوامی ادبی و ثقافتی کانفرنس میں بھارت کے
ساتھ تمام تصفیہ طلب مسائل کے حل کی بات کی اور یہی پر ویزا کی پابندی نہ
ہونے کی بھی بات کی لیکن اس ’’خیر سگالی‘‘ کا جواب بھارت نے ’’دیوار کشمیر‘‘
بنانے کا اعلان کر کے دیا۔ اس اعلان پر اب تک ہماری اپنی تنظیموں سمیت
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے بھی کسی ناراضگی کا اظہار نہیں کیا۔
کیا یہ خاندانوں کو تقسیم کرنے کی غیر انسانی کوشش نہیں ہے۔ اس معاملے کو
سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے ورنہ یہ 198 کلومیٹر لمبائی پورے کشمیر کو بھی
گھیر سکتی ہے اور 770 کلومیٹر کنٹرول لائن پر بھی محیط ہو سکتی ہے۔ بھارت
کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے اور اس لیے کسی ایسی
کاروائی کا وہ مجاز نہیں ہے بلکہ جغرافیائی، مذہبی اور تاریخی طور پر
پاکستان کا حصہ ہے اور بھارت کو یہی خوف ہے کہ پاکستان کے ساتھ یہ وابستگی
ایک دن کشمیریوں کی جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کر دے گی لہٰذا وہ ایسے
حربے آزما رہا ہے ۔یہ دیوار ایک بڑے قید خانے کی مانند ہو گی جو کشمیریوں
کے مصائب اور غلامی میں اور اضافہ کرے گی۔بڑی طاقتوں، اقوام متحدہ اور
انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھارت کے ایسے اقدامات پر اسے روکنا چاہیے اور
اسے مجبور کرنا چاہیے کہ وہ کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی
روشنی میں اور کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل کرے۔ اسی سے برصغیر کا امن
وابستہ ہے۔ |