نادرست قبلہ اور دشمنوں کے گھیراؤ میں گرا ہواپاکستان

پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیاہے یا صرف ایک خاص متعین سرحد کے اندر رہنے والے ان مسلمانوں کے لیے جنہیں ہندؤں کے ہاتھوں حقوق غصب اور تلف ہونے کا اندیشہ دامنگیر تھاتو ان کی فکر کا بوجھ اُٹھا کر محمد علی جناح نے 66برس پہلے ایک ایسی ریاست کا مطالبہ کیا جو وجود میں آنے کے باوجود ابھی تک برصغیر کے مسلمانوں(ہندوستان ،پاکستان اور بنگلہ دیش)کے مسائل تو درکنارخود اپنے مسائل بھی حل نہیں کر پائی ہے !پاکستان کے متعلق خود پاکستان کے نامی گرامی علماء ،لیڈر، دانشور اور صحافی چھے دہائیاں گزر جانے کے باوجود بھی یہ طے کرنے میں سرگرداں نظر آتے ہیں کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے کہ خالصتاََ ایک مسلم فلاحی ریاست ؟اور بعض سرے سے اس بحث کو غیر ضروری سمجھتے ہیں حالانکہ دنیا کی سبھی ملل و اقوام کو اپنی منزل پہلی فرصت میں طے کرنی پڑتی ہے اور جو قوم وملت بے منزل ہوتی ہے وہ دنیا کی تاریخ میں کوئی کارنامہ انجام نہیں دے پاتی ہے ا س لیے کہ اس کو اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا ہے کہ اسکو جانا کہاں ہے اور منزل تک پہنچنا کس طرح ہے ۔

پاکستان مجموعی طورایک مسلمان ملک ہے اور اسلامی دنیا کے نقشے میں تاریخی اعتبار سے جدید ترین بھی ہے مگر عالم اسلام میں ابتدأ سے ہی اپنے خاص مقام کے اعتبار سے اس کی حیثیت کافی جدا گانہ رہی ہے ،مسلم دنیا کے اسلام پسندوں کی نگاہ میں پاکستان ’’اسلام کا قلعہ‘‘قرار پایا تھا ،جس کے بہت سارے اسباب میں دو تین سبب ایسے تھے جنہوں نے اس کو اسلامی دنیا کے نامی اسلام پسندوں کی نگاہ میں ایک ممتاز مقام عطا کیا تھا اور ان حضرات نے اپنی ساری توجہ پاکستان کے ساتھ ساتھ افغانستان کی طرف بھی پھیر دی تھی ،ان میں دو نام قابل ذکر ہیں ایک ڈاکٹر عبداﷲ عزام اور دوسرا اسامہ بن لادن ؟پچاس سے زیادہ مسلم ممالک میں پاکستان ہی نئی ریاست ہونے کے باوجود ایٹمی قوت تھی اور ہے ،اس کے لیڈر ہندوستان کے ساتھ ہزار سال تک جنگ کا ببانگ دہل اعلان کرتے ہو ئے بظاہر ’’نہ ڈرنے والے مجاہد‘‘نظر آتے تھے ،اس نے بنگلہ دیش کھونے کے بعد افغانستان میں روسی جارحیت کے سامنے بند باندھ دیا جس کا نتیجہ ساری دنیا نے سر کی آنکھوں سے دیکھ لیا مگر اس سب کے بعدجب گیارہ ستمبر کا سورج طلوع ہوا تو پاکستان کی ایٹمی قوت اور بلند بانگ دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ،پاکستان امریکی دھمکیوں کے سامنے ڈھیر ہوگیا اور اب نئی تحقیق کے مطابق پاکستان کے حکمرانوں نے گیارہ ستمبر کی ہواکو بادِ مخالف قرار دیکر ایک طرح سے اسلام پسندوں کو خوف زدہ کرتے ہو ئے رام کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ،معاملہ یہی نہیں رُکا بلکہ پہلے ’’پلکوں پر بٹھائے گئے مجاہدین اسلام‘‘کا کاروبار شروع کیا گیااور پھر جو بھی مشکوک یا سر اُٹھاکر چلنے کی کوشش میں ملوث نظر آیا ’’القائدہ‘‘کی لیبل کے ذریعے اس سے گونتا نامو بے کے جیل خانے بھیج کر امریکیوں کو خوش اور اپنے لیے سیکورٹی رسک سمجھ کر لاپتہ یا نامعلوم قید خانوں میں ڈالدیا گیا۔

اسا مہ بن لادن اور عبداﷲ عزام ہی کیا سارے عرب وعجم کے علماء اور مشائخ کو پاکستان کے ساتھ شدید محبت ہو گئی اس کی وجہ جہاں ’’سرخ سامراج‘‘کو افغانستان میں ڈھیرکرنے ،ایٹمی قوت حاصل کرنے ،ایک طاقتور فوج جس کا نعرہِ امتیاز جہادِ فی سبیل اﷲ ہو کی تنظیم کرنا،عالمی اسلامی تحریکات کے لیے پاکستان کے دروازے کھولنا اور پھر عالمی سیاسی محاذ پر مسلمانانِ عالم کی ترجمانی اور نمائندگی کرتے ہو ئے بعض مواقع پر درست فیصلے کرنا اور بات بات پر اسلام اور اخوت و ہمدردی کی بات کرنا وہ محرکات ہیں جن سے اسلام پسند نوجوانوں کی دنیا یہی اُمنڈ پڑی تھی کے نتیجے میں پاکستان کے متعلق یہ گمان کیا جانے لگا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے جس کی بنیاد ’’اس کا آئین‘‘ہے اور عملی طور پر اس کا سارا نظام کشمیر سے فلسطین تک ’’غلبہ اسلام‘‘ کے لئے مصروفِ عمل ہے اس ’’مثبت مگر ظاہری اور نظری پہلو‘‘کو ایک خاص چشمے سے دیکھنے کے نتیجے میں پاکستان کے نظام کے اندر کی وہ خامی نگاہوں سے مفقود ہوگئی جو کور چشموں کو 11ستمبر کے ’’حادثہ عظیم‘‘(حادثہ عظیم بحوالہ عالم اسلام)کے بعدبھی نظر نہیں آتی ہے اور وہ اپنے ناقص علم ،عقل اور مشاہدہ کی اصلاح کے برعکس دوسرے سوچنے اور سمجھنے والوں کو بھی ’’مقلدِ محض‘‘بننے کی خواہش شدید ہی نہیں اصرار ،ضد بلکہ ہٹ دھرمی کرنے لگتے ہیں ،حالانکہ اہلِ بصیرت کو وہ نقص بنگلہ دیش بنتے ہی نظر آچکا تھا ،پاکستان کے وجود کے اندر کل بھی ایک خوفناک بنیادی نقص تھا اور وہ نقص آج بھی پوری شان و شوکت کے ساتھ اس میں نظر آتا ہے اور وہ منزل کا متعین نہ ہونا یا بالفاظ دیگر ’’قبلہ درست نہ ہونا‘‘پاکستان اب تک ’’مسلم پاکستان‘‘اور اسلامک پاکستان کی اصطلاحات کی زد میں ہچکولے کھا رہا ہے اور لوگ اس کو ایک چھوٹی سی قابل برداشت شئی تصور کرتے ہیں جبکہ حق یہ ہے کہ اسی منزل ،رُخ یا قبلہ متعین نہ ہونے کے سبب آج پاکستان اپنے ہی عوام سے اس جنگ میں مصروف ہے جس میں کھربوں کے نقصانات کے ساتھ ساتھ چالیس ہزار انسانی جانوں سے ہاتھ دھونا بھی شامل ہے ۔
ماضی میں جھانک کردیکھئے تو بانیٔ پاکستان محمد علی جناح مرحوم کے متعلق جو متضاد دعوے پاکستان کے لبرل اور اسلام پسند طبقوں کے بیچ ہیں وہ کوئی راز نہیں ہے اور دونوں اپنے طور پر ایک شخص کی تقریروں کا حوالہ دے رہے ہیں مگر اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کرنے کے لیے کوئی ’’دانشمندی کا مظاہرا‘‘نہیں کیا جاتا ہے تاکہ مل بیٹھ کے اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کیا جائے ،بھارت کے ساتھ ’’دشمنی اور جنگیں‘‘خود اپنی ذات میں ایک تحقیق طلب مسئلہ ہے کہ کیا یہ دو قومی نظریۂ کے نامکمل ایجنڈے کے لیے برپا کی گئیں،بھارت نے جارحیت کی ، دونوں ممالک کے بڑوں نے اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے چھیڑیں یا ان کے پیچھے کوئی تیسری قوت تھی جس کا ان جنگوں سے فائدہ پہنچ رہا تھا ؟ابتدأ سے ہی پاکستان کے لبرل اور اسلام پسند طبقے کے بیچ کشمکش جاری رہی ،مولانا سید مودودیؒ کے حق میں پہلے پھانسی کی سزا اور پھر عمر قید میں تبدیلی اور رہائی بھی اسی منزل متعین نہ ہو نے کا شاخسانہ تھا ،کل جماعت اسلامی کے بانی کے ساتھ یہ جنگ پرامن تھی مگر آج دیوبندی فکر کے ہتھیار بند طاقتور افراد کے ساتھ پر تشدد جاری ہے ،کل پاکستان کو اسلامی ریاست سمجھتے ہو ئے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے نوجوانوں نے’’البدر اور الشمس‘‘کے بینر تلے بنگالی نظریے سے جنگ لڑ کر تختہ دار چوما اور آج بھی ایک خاص نقطہ نگاہ کے پسِ منظر میں ’’قوم اور ملک دشمنی ‘‘کے نام پر ان کے خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے ،کشمیر کے الحاق نواز تنظیموں کا بھی یہ دعویٰ ہے کہ پاکستان بھلے اس وقت اسلامی نہیں ہے اور 66سال گزر جانے کے باوجود ابھی تک مسند اقتدار پر ’’بے چارہ اسلام‘‘ کبھی بھی نہ بیٹھنا صحیح مگر پاکستان لا محالہ اپنی اساس کی بنیاد پر ہی ’’کبھی تو‘‘تعمیر ہوگا،نوے کے عشرے میں کشمیر میں آپسی جنگ و جدال کے پیچھے بھی یہی ایک بہت بڑا محرک رہا ہے، کل مجاہدین افغان کو ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی نصیحت اور تنبیہ کے بجائے ایک خاص من پسند جماعت کو مسلط کرنے کی کوشش کی گئی جس کے نتیجے میں بڑے بڑے نامی مجاہد لیڈران غیروں کی جھولی میں گر گئے اور آج بھی ’’اپنے مخصوص مزاج اور سوچ‘‘کی بنیاد پرمن پسند افراد کو آگے بڑھانے کی کوششوں میں مصروف رہ کر کشمیر تک اسی لاٹھی کو لیکر ہانکنے کا کھیل جاری ہے جس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ بھی نہیں ہے کہ پاکستان کے حوالے سے ذہنوں میں شکوک اور دلوں میں کدورتیں بڑھتی جارہی ہیں اور دنیا اب اتنی بالغ ہو چکی ہے کہ نہ ہی افغانی دھوکے میں رہنا چاہتے ہیں اور نہ ہی کشمیری! کشمیری اور افغانی کیا خود پاکستان کاایک طبقہ اس قدر ہٹ دھرمی پراتر آیا ہے کہ ساٹھ سالہ فضول مباحث سے تنگ آکر ایک اور انتہا کو چھوتے ہو ئے اپنی بات ہر صورت میں منوانا چاہتا ہے چاہئے اس کے لیے اس سے کوئی بھی قیمت چکانی پڑے بلکہ وہ اس کی بڑی قیمت چکا بھی رہے ہیں۔

پاکستان سے اس وقت نہ صرف اسلام پسند ناراض اور بیزار ہیں بلکہ خود وہ لبرل کلاس بھی پریشان ہے جو بالقوت ’’اسلامی انتہا پسندی ‘‘کا خاتمہ چاہتا ہے ،مگر حکومت پاکستان اور افواجِ پاکستان کے پاؤں میں وہ بیڑیاں پڑی ہوئی ہیں جو کبھی ’’پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الااﷲ‘‘کی شکل و صورت میں انھیں نظر آتی ہیں اور کبھی ’’ایمان ،اتحاد اور جہاد فی سبیل اﷲ‘‘کے اس ماٹو میں جو پاکستان کی ہر فوجی چھاونی کے دو قدم پرلکھا ہوا نظر آتا ہے ،دوسری جانب میڈیا،نظام سلطنت اور حکومت میں چھائے وہ لوگ ہیں جو روٹی ،کپڑا اور مکان کے نعروں کی جلو میں ایوان ہائے اقتدار تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو تے ہو ئے ہر دوسری سانس پر تمام برائیوں کی جڑ ’’اسلامی انتہا پسندی‘‘کو قرار دے رہے ہیں اور امریکی ’’نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ ‘‘میں اب تک مارے گئے ہزاروں انسانوں پر ایسی خاموشی ہے کہ گویا میرا ہی تو کام ہو رہا ہے ’’خوشی نہ صحیح ماتم بھی کیوں‘‘ کا احمقانہ ڈرامہ رچاکر مغرب کا لبرل بھی پانی پانی ہوکر ذلت محسوس کرتا ہے اس لیے کہ وہ لبرل ضرور ہے مگر وہ اپنے لوگوں سے متعلق انسانیت سے باہر قدم رکھنے کا روادار کبھی نہیں ہو سکتا ہے ۔

فرقہ واریت کا دیو پاکستان کو اندرہی اندرکھوکھلہ کرتا جا رہا ہے ’’ایران اور سعودی عرب‘‘کی جنگ اب سوفیصد عراق اور شام سے پاکستان منتقل ہو چکی ہے ،ایران اور سعودی عربیہ کی عقائد کی جنگ میں عقائد کم سیاسی ،علاقائی اور عجمی و عربی اختلافات کا گہرا اثر ابتدأ سے ہی رہا ہے وہ اپنی منحوس جنگ اپنی سرزمینوں کے بجائے سارے عالم اسلام میں لڑ رہے ہیں اور ہر جگہ اپنے متفقین اور متاثرین کے ذریعے اس جنگ کو مذہبی رنگ دیکر اتنی بھڑکاتے ہیں کہ کسی شیعہ اور سنی کے لیے غیر جانبدار رہنا ممکن نہیں رہتا ہے ،پاکستان میں جہادی لوگ تک اس کی زد میں آچکے ہیں اور حالات اتنے بدل چکے ہیں کہ کل تک ’’حماس اور حزب اﷲ‘‘کا اسرائیل کے خلاف لڑنے کے بجائے باہم دست و گریبان ہونے کے امکانات پیدا کئے جا رہے ہیں اور تو اور اعتدال پسند شامی اخوان ،علامہ یوسف القرضاوی اوردوسرے عالمی دینی رہنما بھی اب ہارڈ لائین اختیار کرنے پر مجبوری محسوس کر رہے ہیں اور روالپنڈی کا سانحہ اس کے لیے بڑا چشم کشا واقع ہے ۔دوسر ی طرف دینی تنظیموں کی جانب سے بھی بڑے سخت بیانات ایک تسلسل کے ساتھ آرہے ہیں ،اگر کل پاکستان کسی ایک نظریئے کو اپنا کر معاملہ ہمیشہ کے لیے دفن کردے گا تو اسلامی پاکستان بننے کے نتیجے میں اس کا اسلام پسندوں کے ساتھ جھگڑا ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا جیسا کہ واضح شرعی مسئلہ ہر ایک کو معلوم ہے کہ اسلامی مملکت میں کسی کو تنظیم سازی کی اجازت یا مخصوص نظریئے کے پرچار کی اجازت نہیں ہو تی ہے اور اگر پاکستان دوسرے مسلم ممالک کی طرح ہمیشہ کے لیے ایک ’’مسلم فلاحی لبرل یا سیکولرریاست‘‘ہونے کاہی اعلان کرتا ہے تو بھی معاملات صاف اور واضح ہو جائیں گے بلاشبہ اس سے محبوب اور محمود قرار تو نہیں دیاجا سکتا ہے مگر پاکستان کی ریاست کو بحثیتِ ریاست معاملات نپٹانے میں آسانی حاصل ہو گی پھر نہ کسی القائدہ ،نہ کسی طالبان اور نہ ہی کسی اور مجاہد یا اسلام پسند کے لیے پاکستان کے اقدامات مصر ،سعودی عرب،کویت ،بنگلہ دیش،انڈونیشیا اور دوسرے ممالک کی طرح صدمے کے باعث ہو ں گے اگر چہ آج کے پاکستان کے لیے یہ دونوں صورتیں ناقابل برداشت صورتحال کو بھی جنم دے سکتی ہیں مگر نفاق سے اچھا ’’اسلام صریح یا کفربے نقاب ‘‘ہی تو ہے تاکہ کوئی دھوکے میں نہ رہے اور خود فریبی تو ایک ناقابل برداشت عذاب اور مرض تو ہے ہی مگر پاکستان اس کے نتیجے میں اب ایک لاشہ بنتا جارہا ہے قدم قدم پر اس کا نفاق زدہ نظام اور بیروکریسی اس کے پاؤں کی زنجیر بن جاتی ہے پاکستان جتنی جلدی اس گومگوں کی حالت سے نکلے گا اتنی ہی جلدی اس کی جسم میں سرایت کیا ہوا کینسر کمزور پڑ جائے گا ،پاکستانی اہل دانش کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس اہم اشو پر توجہ مرکوز کرتے ہو ئے دونوں طبقات کے باہم مل بیٹھنے کی گنجائش پیدا کرتے ہو ئے ٹھنڈے دل و دماغ کے حاملین کو یہ اہم ٹاسک سپرد کر دے تاکہ معاملہ طوالت کے باعث کمزور بدن کو موت کے
قریب کرنے کے بجائے صحت مند ماحول فراہم کرتے ہو ئے اپنی منزل کی جانب دھیمی رفتارسے ہی صحیح چلنے کا آغاز ہو سکے ۔۔۔۔
altaf
About the Author: altaf Read More Articles by altaf: 116 Articles with 84079 views writer
journalist
political analyst
.. View More