جیوے کاشر میری جان

 قوموں کی ترقی میں ان کی بہترین انقلابی لیڈرشپ اوراجتماعی عوامی کاوشوں کا عمل دخل ہوتا ہے۔’’ اٹلی‘‘ جو آج دنیا کے چند ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک ہے ۔یورپی یونین میں شامل ممالک میں آبادی کے لحاظ سے پانچویں جب کہ معیشت کے اعتبار سے چوتھے نمبر پر ہے۔اٹلی کے عوام کو اس مقام پر پہنچنے کے لئے صدیوں پر محیط طویل جد و جہد کرنا پڑھی ہے ،تب جا کر وہ اس کا اہل ہو سکا۔

پندرھویں صدی میں’’ اٹلی‘‘ کے حالات بڑے ناگفتہ بہ تھے،یہ ملک تاریخ کی بد ترین تقسیم کا شکار تھا۔ملک کے اندرکئی ریاستیں قائم تھیں اور دنیا کے اس اہم ترین ملک میں قومی اتحاد و یکجہتی کے جذبات مفقود تھے کئی بڑی طاقتیں اٹلی پر بلاواسطہ قابض تھیں ۔اور اطالوی قوم پرستی کا کوئی وجود تک نہ تھا ۔اٹلی کے ایک بڑے حصے پر پاپائے اعظم کی سلطنت قائم تھی،جو وحدت کی بحالی کے اس لئے خلاف تھے کہ’’ اٹلی‘‘ کے متحد ہونے سے ان کی سلطنت ختم ہو جاتی۔اورشمالی اٹلی مقدص شہنشاہیت کے تسلط میں تھا۔جب کہ جنوبی اٹلی پر اسپین قابض تھا ۔

’’اٹلی ‘‘میں یہ قوتیں منتخب کردہ نہیں بلکہ ریاستی عوام کی منشاء کے بر عکس غیر اخلاقی طور پر مسلط تھیں ۔اس لئے انہوں نے اپنے اقتدار کے استحکام و طوالت کے لئے ہر جائز و ناجائز راہ و رسم اختیار کئے اور تمام تر ملکی وسائل کو اطالویوں کو فکری طور پر تقسیم کرنے اوراپنی حمائت کے حصول کے لئے صرف کر دیا ۔اطالویوں کے اندر علاقایت ،نسلی و قبیلائی تعصب کے بیج بوئے اور بھائی کو بھائی کے مد مقابل کھڑا کر دیا۔ یہ اٹلی کی تاریخ کا وہ بد ترین دور تھا جب چھوٹے چھوٹے گاؤں الگ الگ ریاست کا نقشہ پیش کر رہے تھے۔اٹلی کے بڑے حصوں کے علاوہ بھی چھوٹی بڑی شہری مملکتیں قائم تھیں ۔جو معقول آمدنی نہ ہونے کے باعث مستقل افواج رکھنے سے قاصر تھیں ۔اس لئے وہ اپنے دشمنوں سے تحفظ کے لئے بوقت ضرورت پیشہ ور سپاہیوں سے کام لیتیں ،اور ان پیشہ ور سپاہیوں کا یہ حال تھا کہ یہ مختلف مملکتوں میں اس نیت سے بھرتی ہوتے تا کہ موقع پا کر وہاں قابض ہو سکیں ۔اس دوران’’ اٹلی‘‘ پانچ بڑے حصوں’’ یعنی‘‘ ریاستوں ! میلان ، وینس ، نیپلز ، فلورنس ، اور پامائی میں بٹاہوا تھا ۔ان پانچوں میں سے ایک بھی سیاسی و معاشرتی طور پر مستحکم نہ تھی اور نہ ہی کوئی ایک حکومت دوسری سے ٹکر انے کی اہلیت رکھتی تھی،نہ ہی عوام میں اس قدر حوصلہ تھا کہ کسی کا مقابلہ کر سکیں ۔اس منقسم اٹلی کے سبھی حصے نفرتوں اور فکری تقسیم کے باعث آپسی الحاق پر بھی رضا مند نہیں تھے، کیوں کے ان میں جذبہ اتحاد کا فقدان تھا۔

’’جموں ،لداخ،ویلی،آزاد کشمیر،گلگت بلتستان کی طرح‘‘

غیر ملکی تسلط کے باعث لوگوں میں احساس مفقود ہو گیااور جائز و ناجائز کا فرق مٹنے لگا ۔لوگوں میں مکاری ،دھوکا بازی، فتنہ کاری ،بد کرداری اور بزدلی نے گھر کر لیا۔ہر وہ شخص زندگی و معاشرت میں کامیاب ہو جاتا تھا جو ان صفات کا مالک ہوتا۔اس جانکا صورتحال میں ’ ’ نکولو میکا ویلی ‘‘( 1469ء) نے محسوس کیا کے اگر یہی حال رہا تو اطالیہ و اس کا تشخص ایک دن مٹ جائے گا ۔اور اس کی بقا ء صرف اس حقیقت میں مضمر ہے کہ اس کے باسی ایک نہج پر سوچیں ۔بین العلاقائی تفرقات و اختلافات کو ترک کر کے ایک قوم بنیں ۔اور سب مل کرمملکت سے تعصب کے چھوٹے چھوٹے خداؤں سے نجات حاسل کریں اور اس کے لئے ایک ہی راستہ ہے وہ ہے’’ قومی نیشلنزم۔‘‘ اٹلی کو صرف جذبہ قومیت ہی متحد و مستحکم کر سکتا ہے۔انہی ایام میں’’میکاویلی‘‘ کی شہراہ آفاق تصنیف ’’ دی پرنس‘‘ منظر عام پر آئی۔جو سیاسی نظریات پر مشتمل ہے ۔جس میں ملک کے ان تمام مسائل اور ان کے حل کا احاطہ کیا گیا تھا۔اس میں میکاویلی نے ’’قومی نیشلزم ‘‘کو صرف تحریر و تقریر میں نہیں بلکہ عملی طور پر بڑے جاریانہ انداز میں آگے بڑھانے کی کوشش کی ۔جس میں کہا گیا کہ جب مملکت کے وجود کو خطرات لاحق ہوں تو کسی بھی مصلحت کو خاطر میں لانا حماقت ہی نہیں بڑا سیاسی جرم بھی ہے۔اس نے کہا کہ ! مادر وطن کا اتحاد وقومی خود مختاری برقرار رکھنے کے لئے ساری دنیا کو جنگ میں مبتلا کیا جا سکتا ہے۔۔۔اس نے کہا ! ریاستی لوگوں کا انفرادی طور پر با کردار ہونا نہائت ضروری ہے لیکن بحثیت ریاست ،قوم۔۔۔ وسیع تر قومی مفاد کے لئے کسی نوح کے اخلاقی اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فیصلے کرنا ہوں گے۔

آج اگر ہم منقسم و محکوم ریاست جموں کشمیر کے حالات پر طائرانہ نظر ڈالیں تو یہ پندرھویں صدی کے اٹلی سے بھی بدترنظر آتے ہیں۔ بے شک اٹلی جب ان مسائل سے نبرد آزما تھا اس وقت کشمیر جنوبی اشیاء کا ایک آزاد ، مستحکم و خوشحال ملک تھا ۔جب کے آج پانچ سو برس بعد اٹلی کاشمار دنیا کے عظیم و ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے جب کہ کشمیر کا سفر پستیوں کی جانب رہا اور آج یہ اسی طرح کی خرافات کا شکار ہے جیسے اس وقت اٹلی تھا۔۔۔وہ خوب صورت و دلنشیں خودمختار کشمیر اگر آزادیوں ،کامیابیوں اور کامرانیوں کا سفر جاری رکھتا تو آج اشیاء کا ہی نہیں بلکہ اٹلی ہی کے عین برابرو مقابل ترقی یافتہ ملک ہوتا ۔

بد قسمتی یہ رہی کہ پندرھویں صدی میں اٹلی کو ’’ میکاویلی‘‘ جیسا انقلابی ملا جس نے نیشلزم کے نظریہ پر قوم کو یکسوو ہی نہ کیا بلکہ انتہائی جاریانہ انداز میں اس پر عملدرآمد میں بھی اہم کردار ادا کیا ،اور یہ ممکن ہو سکا کہ اس قوم کو ان مصائب سے نجات ملی اور ان کی نسلوں کے لئے ایک خود مختار و خوشحال مملکت کی بنیاد پڑھی۔۔چہ جائے کہ ریاست کشمیر کو نیشنلزم بھی ملا اور ’’جیوے کاشر میری جان ۔۔۔جموں گلگت بلتستان ‘‘ جیسے خوبصورت و پر کشش نعرے بھی ملے ۔۔۔ لیکن ریاستی نیشنلسٹوں نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا وہ اب تاریخ کا حصہ رہے گا ۔

’’نیشلزم ‘‘جو سطحی ،لسانی ،علاقائی اور قبیلائی قسم کے فرسودہ اختلافات و تفرقات وانتشار کو مسخ کرتے ہوئے قوم کو یکجا ہونے کی ایک بنیاد فراہم کرتا ہے ۔ریاست جموں کشمیر میں کم از کم اس کے آثار نظر نہیں آئے اور نہ ہی نیشنلزم کو اس راہ پر استوار کیا گیاہے۔بلکہ یہاں کا نیشنلزم بذات خود تقسیم در تقسیم کا شکار ہا اوراس کے زمہ دار خود نیشنلسٹ ہیں جنہوں نے نیشلزم کو بے حد نقصان پہنچایا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ گزشتہ پچاس برسوں سے نیشلزم پہ کام ہونے کے باوجود ،پاکستان کے زیر اہتمام کشمیر ،پاکستان کے زیر اہتمام گلگت بلتستان ،اور بھارت کے زیر اہتمام کشمیر ،ان تینوں حصوں کے لوگ آج بلکل ایسے ہی ہیں جیسے پندرھویں صدی میں اٹلی کے مختلف حصوں کے لوگ ہوا کرتے تھے۔اگر وہاں نیشنلزم پانچ مختلف ریاستوں و حصوں میں تقسیم اٹلی کو دوبارہ جوڑ کر دنیا کا عظیم ترقی یافتہ ملک بنا سکتا ہے تو یقیناً ! ویلی، جموں ،گلگت، بلتستان اور آزاد کشمیر پر مشتمل وحدت کو بحال کر کے پندرھویں صدی کے کشمیر کا احیاء بھی کیا جا سکتا ہے ۔لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب نیشنلزم کو کھیل تماشا بنانے کے بجائے اس کی روح کے مطابق جدوجہد کو آگے بڑھایا جائے۔
جیوے کاشر میری جان جموں ،گلگت،،بلتستان
Niaz Ahmed
About the Author: Niaz Ahmed Read More Articles by Niaz Ahmed: 98 Articles with 82152 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.