وزیراعظم پاکستان میاں
محمدنوازشریف نے اپنے حالیہ دورہ مظفرآباد کے دوران آزادکشمیرکے لئے بڑے
ترقیاتی پیکج کااعلان کیاہے جس سے ان کی کشمیریوں سے محبت اورخطے کی
تعمیروترقی میں دلچسپی کا اندازہ لگایاجاسکتاہے۔وزیراعظم پاکستان نے جو
اعلانات کئے ہیں وہ لائق صدتحسین اور خوش آئیند وحوصلہ افزاء ہیں۔ان تمام
منصوبوں پر عملدرآمد سے یقیناًآزادخطے میں ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی اور
نہ صرف یہ کہ خطے کے عوام کا وقاراور تحریک آزادی کشمیرکو عالمی سطح
پرمذیدبہترانداز سے اجاگرکرنے کے مواقع میسرآئیں گے۔ لیکن ان اعلانات
کافائدہ اسی صورت عوام کو مل سکتاہے جب ان پر عملدرآمدکیاجائے۔ہماری
بدقسمتی رہی ہے کہ حکمران اعلانات تو کردیتے ہیں لیکن نہ جانے کیا وجوہات
ہوتی ہیں کہ ان پر عملدرآمد نہیں کیاجاتااورپھربعض اوقات اعلانات ہوتے ہی
صرف’’ اعلان ‘‘کی حدتک ہیں اور وہ صرف وقتی طورپر سیاسی طورپرعوامی حمائت
کے لئے کئے جاتے ہیں۔جیساکہ ہمارے ہاں ایک صاحب ’’ہوائی اعلانات‘کے لئے
کافی شہرت رکھتے ہیں،جنہوں نے مختصرعرصہ اقتدارکے دوران سینکڑوں
نہیں،ہزاروں اعلانات کرکے نیاریکارڈقائم کررکھاہے۔میاں نوازشریف کا ٹریک
ریکارڈبتاتاہے کہ انہوں نے جو اعلانات کئے ہیں، بیشترپر عملدرآمد ہواہے اور
اگر کسی اعلان پر عملدرآماد نہیں ہوسکاتو اس میں اُن کا کوئی قصور نہیں
بلکہ مقامی سطح پر کمزوریوں اور منصوبے کی فزیبلٹی متعلقہ حکام تک نہ
پہنچانا جیسے عوامل کارفرمارہے ہیں۔
آزادکشمیر میں 2005ء کے زلزلہ کے بعد پاکستان میں برسراقتدارکئی وزراء اعظم
اور سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویزمشرف نے بھی کئی اعلانات کئے اور ایسا بھی
نہیں تھاکہ وہ ان اعلانات میں مخلص نہیں تھے۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے
سطحی سوچ کے حامل موقع پرست،متعصب اور ناعاقبت اندیش حکمرانوں نے ان
منصوبوں کو اپنی اپنی مرضی سے اپنے ہی علاقوں اور حلقہ ءِ انتخاب میں
لگوانے کے لئے کوششیں شروع کردیں جس کا نتیجہ یہ نکلاکہ وہ منصوبے نہ تو ان
علاقوں میں شروع کئے جاسکے اور نہ ہی وہ لوگ استفادہ کرسکے جن کے لئے وہ
اعلانات کئے گئے تھے۔یہ معاملہ صرف پاکستانی وزراء اعظم کی جانب سے کئے گئے
منصوبوں کے ساتھ ہی پیش نہیں آیابلکہ انتہائی شرم کی بات ہے کہ
آزادکشمیرمیں برسراقتدار ماضی کے جاہلیت کی حدتک متعصب حکمرانوں نے کئی
ڈونرممالک کے کھربوں روپے کے انتہائی اہم نوعیت وجدیدمنصوبوں کو بھی
علاقائی تعصبات کی بھینٹ چڑھاکر خطے کے عوام کو ان کے حق سے محروم اور
برادراضلاع میں علاقائی تعصبات کو پروان چڑھانے کی سازش کی۔سیدھی سی بات ہے
،جومنصوبہ جس مقام کے لئے اعلان ہوایقیناً اس کی وہاں ضرورت ہے،تو کیاوجہ
ہے کہ آپ اس کو منتقل کرنے کی سازشیں کریں۔اسی طرح مظفرآباد دویثن سے
سینکڑوں آسامیوں کو اب تک دیگراضلاع میں منتقل کیاجاچکاہے یا پھر اوپن میرٹ
کا بہانہ بناکر مظفرآباد ڈویژن کو دانستہ نظراندازکرکے دیگراضلاع کو
مظفرآباد میں تعینات کیاگیا۔اس کی تازہ ترین مثال آزادکشمیر یونیورسٹی
ہے۔چندروزقبل اسلامی ممالک کی تنظیم اوآئی سے کے ایک اعلیٰ سطحی وفدنے
دارالحکومت مظفرآبادکا دورہ کیا ۔وفدکے سربراہ نے سیکرٹری سیراء کی جانب سے
دی گئی بریفنگ کے بعد زلزلہ متاء ثرہ علاقوں کے لئے متعدداہم منصوبوں کی
فنڈنگ کی یقین دہانی کرائی ہے اوراس کے ساتھ ریشیاں تا لیپہ ٹنل کی تعمیرکے
اخراجات اٹھانے کااعلان بھی کیاہے۔اوآئی سی کے نمائندہ وفدکے سربراہ نے ان
سفارشات کو اوآئی سی میں پیش کرنے کاوعدہ کیاہے لیکن یہ اعلان اسی صورت
کارگرثابت ہوسکتاہے جب خطے کے ذمہ دارارباب اختیاراس یقین دھانی کواُس
عالمی فورم پر باورکرانے میں کامیاب ہوسکیں۔
ریشیاں تا لیپہ ٹنل کی فزیبلٹی رپورٹ مکمل ہوچکی ہے جو چائینزاورجاپانی
جیالوجیکل ماہرین پر مشتمل ٹیم نے تیارکی ہے۔فزیبلٹی رپورٹ میں جن تین
مقامات سے ٹنل کی نشاندہی کی گئی ہے۔ وہ تینوں موزوں ترین مقامات ریشیاں
میں ہی ہیں۔پاکستان کے موجودہ وزیراعظم میاں محمدنوازشریف ماضی مین بھی اس
منصوبے کا اعلان لیپہ کی سرزمین پر کھڑے ہوکر کرچکے ہیں اور اب انہوں نے
ایک بارپھر دارلحکومت مین ایوان اسمبلی میں جموں وکشمیرکونسل کے اجلاس سے
خطاب کے دوران اس منصوبے کا باقاعدہ اعلان کردیاہے۔خوش قسمتی یہ ہے کہ میاں
صاحب کے اعلان سے چندہی روزقبل اوآئی سی کاوفد اسی منصوبے کے لئے مالیاتی
تعاون کااعلان کرچکاہے۔اسی طرح سابق صدرریاست برگیڈئیر(ر)حیات خان
مرحوم،سابق صدرووزیراعظم سردارعبدالقیوم خان،سابق صدرو وزیراعظم
سردارسکندرحیات خان،سابق وزیراعظم سردارعتیق احمدخان اور آزادکشمیرکے
موجودہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجیدخان سمیت حلقے کے ایم ایل ایز،وزراء اور
متعددسابق چیف سیکرٹریزماضی میں ریشیاں سے لیپہ ٹنل کی تعمیرکااعلان کرچکے
ہیں لیکن لیپہ کی عوام کی مشکلات کا ادراک رکھتے ہوئے بھی اس ٹنل کے لئے
عملاًکوئی پیش رفت نہیں کی جاسکی۔وزیراعظم پاکستان اوراوآئی سی کی جانب سے
ریشیاں،لیپہ ٹنل کی تعمیرکے لئے فنڈنگ کااعلان خوش آئندہے جس کا ریشیاں
اورلیپہ میں بھرپورخیرمقدم کیاجارہاہے۔یہ خبرسن کرریشیاں اورلیپہ کے عوام
میں خوشی کی لہردوڑگئی ہے لیکن ان لوگوں کی خوشیاں اس وقت دوبالاہوں گی جب
حکومت اس منصوبے پر عملاً پیش رفت کرے گی۔ریشیاں لیپہ ٹنل کی تعمیراس لئے
بھی باآسانی ممکن ہے کہ جیالوجیکل رپورٹ کے مطابق ٹنل کی کھدائی کے دوران
اس حصے سے اس قدر کثیرمقدارمیں قیمتی معدنیات برآمد ہوگی کہ اس سے حاصل
ہونے والی آمدن سے مذید ٹنل بھی تعمیرہوسکتے ہیں۔اگرحکومت تعمیراتی کمپنی
کو برآمدہونے والی محض معدنیات کی آمدن کامناسب حصہ دینے کی پیشکش کردے
،توبھی یہ ٹنل تعمیرکیاجاسکتاہے۔ وادی ءِ لیپہ کے کم و بیش 50 ہزار نفوس پر
مشتمل عوام ناقابل یقین حد تک انتہائی نامساعد حالات کے باوجود نہ صرف
خوشحال زندگی کے سفر پر گامزن ہیں بلکہ پچھلے 66 سالوں سے دفاع وطن کے لیے
بھی جواں مردی کے ساتھ سینہ سپر ہیں ۔ لیپہ کے بہادر عوام مادر وطن کے بلا
تنخواہ سپاہی کا کر دار ادا کرتے ہوئے اب تک سینکڑوں جوانوں کے خون سے اس
ارضِ پاک کے خاکے میں رنگ بھر چکے ہیں ۔لیکن ستم ظریفی کی انتہا ہے کہ ان
تمام تر قربانیوں کے باوجود ان کی محرومیوں کاازالہ نہیں ہو سکا۔ریشیاں سے
پنجال ،برتھواڑ اور داوؤکھن کے راستے لیپہ جانے والی دونوں سڑکوں کی حالت
قابل رفتارنہیں ہے۔یہ دونوں پہاڑی سلسلے گھنے جنگل اورمخصوص جغرافیائی
خدوخال کی وجہ سے انتہائی سردموسم کی لپیٹ میں رہتے ہیں۔یہاں کا جنگل اس
قدرگھناہے کہ کئی مقامات پر سورج کی شعاعیں بھی زمین تک نہیں پہنچ پاتی
ہیں۔تقریباً5 ماہ تک تو اس جنگل سے برف ہی ختم نہیں ہوتی۔اس جنگل کے پہاڑی
سلسلے میں ساراسال گلیشیرز موجود رہتے ہیں اور جب وہ برفانی تودے کی شکل
میں گرتے ہیں تو راستے میں آنے والی ہر چیزکو خس وخاشاک کی طرح بہا لے جاتے
ہیں۔انہی گلیشیرزکی زدمیں آکر تقریباًہرسال لیپہ جانے والے کئی افرادلقمہ
اجل بن جاتے ہیں۔ اس جنگل میں مختلف نایاب نسل جنگلی حیات اور ناقابل یقین
حدتک قیمتی معدنیات کے وسیع ذخائر کی موجودگی کی تصدیق ہو چکی
ہے۔شدیدبرفباری کے باعث تقریباً 5ماہ تک زمینی رابطہ منقطع ہوجانے سے محصور
ہونے والے لیپہ کے عوام عرصہ درازسے ریشیاں تالیپہ ٹنل کے منصوبے پر فی
الفور عملدرآمد کے لئے اقدامات کامطالبہ کررہے ہیں۔ریشیاں تالیپہ ٹنل کی
تعمیرسے علاقے میں سیاحت اورخوشحالی کے نئے دورکاآغازہوگا۔آزادکشمیرکے
دارالحکومت مظفرآباد سے72 کلومیٹرکے فاصلے پرحضرت عبدل بیگ ریشی
بابارینہؒسے منسوب علاقہ ریشیاں،چھوٹی چھوٹی وادیوں پرمشتمل ایک انتہائی
خوبصورت مقام ہے۔جوبلندوبالاپہاڑوں کے دامن میں واقع ہے۔ پنجال اور داوؤکھن
جغرافیائی اعتبارسے بڑے پہاڑی درے ہیں جو تاریخی و قدیمی گزرگاہ تھے۔ریشیاں
انہی دوپہاڑی سلسلوں کے دامن میں موجود دوحصوں میں منقسم خوبصورت وادی
کانام ہے۔ریشیاں میں قدرتی حسن سے مالامال ،سیاحت کا حسین
شاہکارداؤکھن،پنجال اور برتھواڑ کے علاقوں تک سیاحوں کی آسان رسائی اوران
کی سہولیات کے لئے مناسب اقدامات کئے جائیں توریاست کے قومی خزانے میں
نمایاں اضافہ ممکن ہے۔ اسی طرح ریشیاں سے لیپہ ٹنل کی تعمیرسے ہائیڈرل
جنریشن،معدنیات اور سیاحت کانیاباب رقم کیاجاسکتاہے۔جنت نظیرخطہ ءِ
کشمیرقدرت کا وہ انمول نمونہ ہے جس کاقدرتی حسن دنیا بھرمیں اپنی مثال آپ
ہے۔کشمیر کاایک حصہ غاصب بھارت کے پنجہ ء استبداد میں جکڑاہواہے اورمقبوضہ
ریاست کی کٹھ پتلی حکومت اس خطے سے معدنیات،جنگلات وہائیڈرل پاورکوچھوڑکر
صرف سیاحت کی مدمیں سالانہ کروڑوں روپے حاصل کررہی ہے۔ دوسرایہ خطہ جس کی
آزادفضاؤں میں ہم سانس لے رہے ہیں،بدقسمتی سے حاکمان وقت کی روائتی سردمہر
ی،غفلت وعدم توجہی کے باعث عالمی سطح پر وہ توجہ حاصل نہیں کرسکا جس کا یہ
مستحق ہے۔
کشمیرکے ان دونوں حصوں میں دریاؤں کے ریلے،گلیشئرز،سدابہارگھنے
جنگلات،سرسبزوشاداب،دلفریب وادیاں،قدرتی جھیلیں،گنگناتی آبشاریں،نایاب نسل
جنگلی حیات،جڑی بوٹیاں اورمعدنیات کابیش بہاخزانہ بکثرت موجودہے جو نہ صرف
یہاں کے بسنے والے پونے دوکروڑکشمیری عوام بلکہ پوری دنیا کی معیشت کا نقشہ
بھی بدل سکتا ہے۔ مگر اپنی آزادی کے لئے سوالاکھ جانوں کا نذرانہ پیش کرنے
والے ان سادہ لوح کشمیریوں کے پاس مخلص قیادت کی طاقت میسرنہیں
ہے۔انحصاراور اعتبار کے دھوکوں میں الجھے ہوئے کشمیریوں نے جب ایک خوددار
قیادت کوپالیاپھر انکی آزادی اور ترقی وخوشحالی کاخواب شرمندہ تعبیر ہونے
میں حائل دنیاکی بڑی سے بڑی رکاوٹیں بھی ریت کی دیوار ثابت ہوں گی۔ہم توقع
رکھتے ہیں کہ موجودہ حکومت جس نے اپنے ابتدائی عرصہ اقتدارمیں ہی اربوں
روپے کے کئی میگاپراجیکٹس دے کر آزادخطے میں تعلیم و صحت،ہائیڈرل جنریشن
سمیت دیگرشعبوں کی ترقی کی بنیادرکھ دی ہے،ریشیاں سے لیپہ ٹنل کی تعمیرکے
منصوبے پربھی جلد ہی کام کاآغازکرکے اس شعبے میں بھی سبقت لے جائے
گی۔آزادحکومت کے پاس وزیراعظم پاکستان میاں محمدنوازشریف اور اوآئی سی کے
ذریعے اس ٹنل کے تعمیراتی منصوبے کی کامیابی کانادرموقع آگیاہے،اب اسے ضائع
نہیں ہوناچاہئے۔آزادکشمیر حکومت کواب اس منصوبے کی تیارشدہ فزیبلٹی کے
مطابق بلاتاخیر منصوبے پر کام کے لئے تحریک کردیناچاہئے اورکام پر عملی پیش
رفت ہوجانی چاہئے۔ |